featured

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

7:20 PM nehal sagheer 0 Comments



      قاسم سید
لکھنؤ سے دہلی بس جارہی تھی جب وہ بس اسٹیشن سےچل پڑی تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایک بزرگ جو اچھی شکل و صورت کے تھےکھڑے ہو گئے اور باقی مسافروں سے مخاطب ہوکر کہا بھائیو بہنو میںکوئی بھکاری یاگداگرنہیں ہوں بھگوان نے مجھے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہےکچھ دن گزر ے میری فیکٹری میں آگ لگ گئی تیار شدہ مال جل کر خاک ہو گیا اور کچھ مدت گزری کہ مجھے دل کا دورہ پڑاتھا۔ رشتہ داروں نےجب یہ محسوس کیا کہمیرے برے دن آگئے تو انہوں نےہم سے رابطہ منقطع کرلیا ۔ڈاکٹروں نے مرے بچنے کی ضمانت کم ہی دی ہے میری یہ جوان بیٹی ہے اس کی فکر کھائے جاتی ہے یہ کہہ کر اس شخص نے ہچکی بندھ گئی جواں سال لڑکی جو پاس ہی بیٹھی تھی اٹھی اور باپ کو سہارا دے کر سیٹ پر بٹھا دیا ۔بس کی پچھلی سیٹ سےایک آدمی کھڑا ہو ااور کہنے لگاجو اس شخص کے آگے بیٹھا ہے انجینئر ہے میرا بیٹا ہے مجھے اس کے لئے اچھی لڑکی کی تلاش تھی میں اس بزرگ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی شادی میرے اس بیٹے سے کر دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا ۔لڑکا یہ سنتے ہی اپنی سیٹ سے اٹھا اور کہا مجھے اپنے باپ کا فیصلہ قبول ہے ۔ بس میں اتفاق سے ایک پنڈت جی بھی موجود تھے وہ کھڑے ہوکر گویا ہوئےیہ سفر بہت مبارک سفر ہے نیک کام میں دیری کیا آپ لوگ کہیں تو ہم سات پھیروں کی رسم ادا کر دیتے ہیں اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔
یہ سب باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں چھٹی پر جا رہا تھا اپنے گھر والوں کے لئے لڈ ولے کر مگر اس مبارک عمل کو دیکھ کر سمجھتا ہوں کہ ادھر ہی تقسیم کردوں اس نے لڑکی کےباپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تو بس والوں نے تائید کر دی ۔اس پر لڑکی کے باپ نے کہاکہ ڈرائیور صاحب کسی جگہ بس روک دینا تاکہ سب لوگ مل کر شادی طے ہونے کی خوشی میں منہ میٹھا کرلیں ،ڈرائیور نے خوش ہو کر کہا کیوں نہیں بابا جی جب ہلکا سا اندھیرا ہونے لگا تو بابا جی نے ڈرائیور سے بس روکنے کو کہا اور سب مسافر ہنسی خوشی باتیں کرتے ہوئے لڈو کھانے لگے ،لڈو کھاتے ہی سارے مسافر سو گئے کئی گھنٹوں بعد جب آنکھ کھلی تو صبح کےآٹھ بجے تھے مگر دلہن ،دولہا ان کےباپ ،پنڈت جی اور لڈو بانٹنے والا بس سے غائب تھے اتنا ہی نہیںہر مسافر کا سارا قیمتی مال و اسباب غائب تھا ۔ان کو یہ چھ افراد  کا گروپ مکمل طور پر لوٹ کر اگلے شکار کی تلاش میں جا چکا تھا ۔
یہ ایک معمولی سی کہانی ہے اور بہت سوں نے اس کو ضرور پڑھا ہوگا لیکن ہم غور کریں تو یہ صرف ہمارے معاشرے میں زوال پذیر اقدار ،نیکی کے نام پر لوٹنے اور لٹنے کےرجحان کاہی پتہ نہیں دیتی بلکہ ہندوستانی جمہوریت کا کچھا چٹھا بیان کرتے تمام کردار موجود ہیں ۔عیارانہ ذہنیت رکھنے والے سیاستداں نیکی و خیر خواہی کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت و سیکولرز م کے نام پر عوام کو ٹھگتے آرہے ہیں انہیں وعدوں کا لڈو کھلا کر تمام قیمتی مال واسباب یعنی اقتدار و اختیارات اور وسائل لوٹ کر پانچ سال کے چمپت ہو جاتے ہیں پھر نئے ناموں سے سامنےآتے ہیں جب انہیں اپنی رسوائی و بدنامی کے خوف سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا یقین نہیںہوتا تو پھر نیا گٹھ بندھن بنا لیتے ہیں تاکہ ٹھگے ہوئے لوگ ان کے ماضی کو بھول جائیں ۔ اس طرح سارا کاروبار سیاست ہرپانچ سال میں نئے عنوانوں کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔لوٹنے والا خوش اور لٹنے والا بھی مطمئن اس کے ہر راستےمیں رہزن بیٹھے ہیں ۔ خود کو معتبر بنانے کے لئے ضرورت کے مطابق ایسی مذہبی قیادت کو بھی ساتھ جوڑدلیتے ہیں جو دینوی جاہ و جلال اور اقتدار کے پایوں سے چمٹے رہنے کو باعث توقیر سمجھتی ہے اور انہیں ظل الٰہی و امام الہند ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔
ہندوستان آزادی کے ستر سال بعد بھی حقیقی جمہوریت کی تلاش میں گوتم بدھ کی طرحنروان کے لئے بھٹک رہا ہے ۔موجودہ ریاستی ڈھانچہ حقیقی جمہوریت کو جنم دینے میں بانجھ رہا ہے کیونکہ ملک کو چلانے والی زیادہ تر پارٹیاں خاندانیت موروثیت اور داخلی  آمریت کے تحت کام کرتی ہیں ۔مذہبی جماعتوں کا کم و بیش یہی حال ہے ۔پورا نظام مٹھی بھر لوگوں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔جس بس کے مسافروں کو اپنی لفاظی چلاکی بھری حکمت عملی اور ہمدردانہ جذباتی لب ولہجے کے ذریعے لوٹنے میں کامیاب ہے ۔ گذشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ ووٹوں کے ذریعے خاندانی بادشاہت بخوبی چل رہی ہے ۔سیاسی دھڑوں میں منقسم ووٹروں کو ہر الیکشن میں مخصوص خاندانوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے یہی حکومتوں پر کلی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں ۔پارٹی میں عہدوں کی نامزدگی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور حکومت کی تشکیل سے لے کر وزارتوں کی تقسیم تک تمام فیصلو ں کا اختیار ہائی کمان کے پاس ہوتا ہے اور یہ اس پارٹی کے خاندان کے لوگ ،ان کے چنندہ رفقاء یا پھر کوئی ایک دو شخص ہوتے ہیں ۔ یعنی تھالی کا سارا گھی یا وسائل چند ہاتھوں میں ہوتے ہیں اختیارات کی جنگ میں اورنگ زیب اور شاہ جہاں کے کردار اس دور میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس کے لئے باپ اور بیٹے ،چچا اور بھتیجے کے رشتوں کا خون ہو جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں ۔
جہاں تک ملک کی سب سے بڑی اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا سوال ہے اختیاراور اقتدار کی لڑائی میں اس کا نقصان سب سے زیادہ ہوا ہے وہ صرف مہرے اور ریپر کی جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔ہر اس پارٹی نے جو سیکولر ہونے کا دعوی کرتی ہے صرف اور صرف استحصال کیا اور مسائل کے انبار میں لگاتار اضافہ کیا۔سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کا مظہر ہے کہ ستر سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا ملک میں زیادہ تر حکومتیں ان پارٹیوں کی رہیں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں جب کہ ان کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی خراب ،مایوس کن اور قابل مواخدہ رہا ہے ۔انہوں نے صرف معاشی اور سیاسی راہوںپر بریک نہیں لگائے بلکہ پہلے فسادات اورپھر دہشت گردی کے نام پر خوف دہشت کی نفسیات کو توانا کیا ۔ان ریاستوں کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی جہاں سیکولر پارٹیوں کی حکومت تھی یا ہے ۔خاندان بکھر گئے زندگیاں تباہ ہوگئیں ،معصوم بچوں کا مستقبل تاریکی میں کھو گیا ،دہشت گردی کے داغ نے نا جانے کتنے نوجوانوں کی سماجی زندگی کو برباد کر دیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ہر سیکولر پارٹی نے وعدوں کے نام پر صرف بھیانک مذاق کیا ۔انکے صبر و ضبط کی داد دیجئے کہ کبھی حرف شکایت زباں پر آیااور نہ ہی سرکاروں کو توفیق ہوئی کہ وعدوں کی سمت میں ایک انچ بھی آگے بڑھتی اس سے زیادہ نہ مرادی اور کیا ہو سکتی ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور سوالوں کا جواب مانگنے والوں کو فرقہ پرستوں کا ایجنٹ کہہ کر زباں بند کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔شاید ان کا قصور یہ ہے کہ اپنی مذہبی تعلیمات کے برخلاف خاندانی بادشاہتوں کو استحکام دیا اور ان کے کہار بنے اقتدار کی ڈولیوں کو بندھوا مزدوروں کی طرح ڈھوتے رہے کیونکہ ترجیحی مسئلہ جان و عزت کی سلامتی کا تھا ۔پھر بھی جان و مال محفوظ رہے نہ ہی عزت وآبرو ۔کسی بھی پارٹی کا دامن پاک نہیں خواہ فرقہ پرست ہو یا نام نہاد سیکولر سب کی قمیص پر خون کے دھبے ہی نہیں پوری قمیص لال ہے ۔کوئی گجرات دیتا ہے توکوئی ہاشم پورہ کوئی ممبئی اور بھاگلپور تو کوئی مظفر نگر اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔کوئی سیکولرزم کا نام لے کر ٹھگتا ہے تو کوئی فرقہ پرستی کے نام پر ڈراتا ہے ۔سیاسی منافقت کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا ہے ۔
کیا ان کی غلطی یہ ہے کہ اپنی قیادت کو گالیا ںدیں اس پر شبہ کیا بے آبرو کیا اور سیکولر کہی جانے والی قیادت کو امام الملت اور رفیق الملک بنا کر سب کچھ نچھاور کر دیا وہ مقتل لئے گئے تو خوشی خوشی چلے گئے ،لٹتے پٹتے رہے اف تک نہ کی ،حب الوطنی کے جذبوں پر سوالیہ نشان لگا رہا سیاسی اقتصادی طور پر ایک ایک رگ کاٹ دی گئی پھر بھی ان کی مسکراہٹ کے لئے ترستے رہے ۔سیاسی پارٹیوں نے اس لائق بھی نہ سمجھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان کا مزاج ہی پوچھ لیا جائے ۔حال ہی میں سماج وادی پارٹی نے کانگریس سے اتحاد سے قبل رائے لینا تک گوارہ نہیں کیا ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔سیاسی پارٹیوں نے تیسرے درجے کے شہری کی طرح سلوک کیا اور ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا اور ہم یہ سوچ کر استعمال ہوتے رہے کہ کبھی تو اچھے دن آئیں گے ۔سوال یہ کہ کیا سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کا وقت نہیں آیا کیا اسی طرح بندھوا گیری کی جاتی رہے گی ۔اللہ کے پٹے کے علاوہ اور کتنے پٹے گلے میں باندھیں گے ۔کیا اتر پردیش میں ہی 20فیصد ووٹوں کے سہارے معمولی ووٹ رکھنے والی اکائیاں اقتدار پر قبضہ حاصل کرتی رہیں گی ۔اور ہمارے کاندھے اسی کام میں آئیں گے سیاست مذہب و عقیدے کا نہیں اقتدار اور حصول کا معاملہ ہے ۔آزادانہ سیاست اور شرائط پر مبنی ساجھیداری کے لئےکچھ تو کرنا ہی پڑے گا ۔ہزار سجدوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے جرامندانہ قدم اٹھانے پر غور کرنا پڑے گا ۔



0 comments: