featured
غیرت اسلامی سے دور ہوتا ہوا مسلم معاشرہ !
عمر فراہی ای میل : umarfarrahi@gmail.com
رمضان کے مہینے میں ہمارے ایک سنی دوست نے افطار کیلئے مدعو کیا تو میں نے مذاقاً ان سے کہا کہ بھائی سوچ سمجھ کر اور اپنے مولانا سے اجازت لیکر تو یہ دعوت دے رہے ہو نا ، انہوں نے کہا مطلب ! میں نے کہا اس دن جنازے میں دیکھا نہیں کیا ہوا تھا ؟ بہت تیز ہنسے اور بولے یار یہ مولوی لوگ کی بات الگ رکھو ایسا عام حالات میں ممکن نہیں ہے -
قصہ یوں ہے کہ کچھ سالوں پہلے دوپہر کے وقت ہمارے آفس میں یہی دوست آئے ہم نے چائے منگائی دونوں نے پی اور پھر میں نے خیریت دریافت کی کہ کیسے آنا ہوا - انہوں نے کہا کہ آپ کے قریب ہی قبرستان میں جنازہ آنے والا ہے ابھی اس میں وقت ہے اس لئے سوچا آپ سے بھی ملتا چلوں - میں نے پھر پوچھا نہیں کہ کس کا ہے اور کچھ ضروری کام میں مصروف ہوگیا - اچانک ان کے نمبر پر کسی کا فون آیا توباتوں باتوں میں انہوں نے اپنے مخاطب سے کہا کہ ابھی میں قاضی صاحب کے جنازے میں آیا ہوں بعد میں بات کرتا ہوں - میں چونکہ ان کی یہ گفتگو سن رہاتھا اس لئے پوچھ بیٹھا کہ کون قاضی - انہوں نے کہا وہ اکاؤنٹنٹ تھے میں نے کہا کہ یار وہ تو میرے بھی اکاؤنٹنٹ تھے آپ نے بتایا نہیں - انہوں نے کہا مجھے کیا معلوم کہ آپ بھی جانتے ہیں اور آپ نے پوچھا بھی نہیں - میں نے کہا کوئی بات نہیں پھر تو مجھے بھی جنازے میں شامل ہونا چاہئے - ہم دونوں جنازے میں شریک ہوئے اچانک جنازہ پڑھانے سے پہلے امام نے اعلان کیا کہ جنازے میں جو لوگ دیوبندی, وہابی اور گمراہ فرقے سے تعلق رکھتے ہوں وہ جنازہ نہ پڑھیں - ہمارے کچھہ دوسرے جاننے والے نکل کر جانے لگے اور ہم صف میں ہی کھڑے رہے تو کسی جاننے والے نے پھر کہا کہ چلئے کھڑے کیوں ہیں - میں نے کہا دیوبندی وہابی اور گمراہ فرقے کو نکلنے کیلئے کہا ہے میں تو مسلمان ہوں - انہوں کہا آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں لیکن کیا میت کے رشتے دار بھی آپ کے بارے میں ایسا ہی سوچ رہے ہیں - کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو زبردستی نکالا جائے - مجھے بھی ان کی بات سمجھ میں آئی اور میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنازے سے نکل آیا - لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ اور ہر وقت ایک دوسرے فرقوں کیلئے نفرت ہی رکھتے ہوں جیسا کہ اکثر بہت سارے سنی بریلوی اور دیوبندی آپس میں رشتہ دار بھی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے مرنے ، جینے ، شادی اور کاروبار وغیرہ میں شریک رہتے ہیں لیکن کسی طرح کی مسلکی تفریق کا سامنا نہیں ہوتااور یہ عام لوگوں کی فطرت بھی نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے مسلک اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کریں - لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم معاشرہ اس عصبیت سے پاک ہے - عام آدمی اگر اسے پسند نہیں کرتا تو اسے اپنے علماء کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے لیکن وہ اس کی جرات بھی نہی کرپاتا - یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم مسلم قلم کار اخبارات اور اپنی عام تحریروں میں مسلمانوں کی مسلکی شناخت جیسے کہ سنیت دیوبندیت اہل حدیثیت وہابیت اور شیعیت وغیرہ کے لاحقہ کے ساتھ لعنت ملامت کرنے سے تو گریز کرتے ہیں لیکن دوسرے مذاہب کے فرقوں کے خلاف براہ راست یہودیت ، نصرانیت اور برہمنیت کا استعمال کرتےہیں - چونکہ قوم یہود سے مسلمانوں کی دشمنی اور سازش کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر ان کے ظلم کی داستان بھی عیاں ہے اس لئے اگر مسلمان ان پر لعنت بھیجتا بھی ہے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ یہ اس کا حق ہے لیکن اکثر اردو صحافی جس طرح برہمنوں کو بھی اپنا تاریخی دشمن سمجھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی -ہاں ذاتِی گفتگو میں اگر ایسے طنزیہ الفاظ کا استعمال ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے جو اکثر مخالف گروہ بھی مسلمانوں کے تئیں اسلامی دہشت گردی وغیرہ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں لیکن علانیہ طورپر کسی مذہب فرقے اور مسلک کے نام سے کراہیت ، نفرت اور بیزاری کا اظہار نہ صرف انسانی ادب اور فلسفے کے خلاف ہے بلکہ اسلامی ادب اور دعوت و اصلاح کی روح اور اقدار کے بھی منافی ہے - آپ کہہ سکتےہیں کہ جب اللہ نے ان کو دشمن کہا ہے تو ہم کیوں نہ کہیں - اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو جس بات کا اختیار ہے وہ اختیار بندے کو نہیں ہو سکتا ہے - وہ لوگ جو اس وقت زمین پر مسلمان ہونے کی صورت میں ایمان اور یقین کی دولت سے سرفراز ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے اوپر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال خاندان اور پڑوسی کے ساتھ ساتھ اسلام کےآفاقی پیغام کو جہاں تک ہوسکے دیگر قوموں تک بھی پہنچائیں - یہ کام ضروری نہیں ہے کہ آپ براہ راست لوگوں میں قرآن یا لیٹریچر بانٹ کر ہی پہنچائیں بلکہ بہترین شکل تو یہ ہے کہ قرآنی احکامات اور تعلیمات آپ خود اپنے اوپر اس طرح نافذ کر لیں کہ آپ کا اخلاق اور کردار خود انسانی ادب کی شکل میں آپ کی اپنی اسلامی شناخت کاترجمان بن جائے اور جس طرح آج لوگ مغرب کو اپنا اور آئیڈیل مان کر اس کی طرف دوڑ رہے ہیں امن سلامتی کی طلبگار دنیا مشرق کا رخ کرنے کے لئے مجبور ہو - اس میں کوئی شک نہیں کہ چند فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی قوم اور ملک میں سارے کے سارے لوگ فرقہ پرست نہیں ہوتے - ہم یہ بھی کیوں بھول جاتے ہیں کہ نفرت اور بغض کے یہ نمائندے تو خود مسلمانوں میں بھی موجود ہیں - ہمیں اب یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان اور اسرائیل میں جتنے مسلمان ستر سالوں میں نہیں قتل کئے گئے ایران اور شام نے پانچ سالوں میں پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل کر ڈالا - تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے نمائندے اسلم غازی نے ایرانی سفارت خانے کی دعوت پر ایران اور ایران نوازوں کے ساتھ بیٹھ کر مسلم امہ کے اتحاد کی بات کر رہے تھے - اچھی بات ہے دشمن کے ساتھ بھی امن اور صلح کی بات ہونی چاہیے لیکن سوال پھراٹھتا ہے کہ کیا اب ہندوستان کا مسلمان ایرانی اور پاکستانی سفارت خانوں کے تیار کردہ اتحاد کی حکمت عملی کا محتاج ہے - اگر کل پاکستانی سفارت خانے میں یا کسی اسلامی کلچر ہاؤس میں اتحاد امہ کیلئے پاکستانی سفیر کو کسی مسلم تنظیم کی طرف سے مدعو کیا جاتا ہے تو غیر مسلموں میں اور خاص طور سے حکومت کو اس کا کیاپیغام جائے گا - سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک سفاک اور ظالم قسم کے مسلم ملک کے سفیر کے ساتھ بیٹھ کر اتحاد کی بات ہو سکتی ہے تو 2002 کے گجرات فساد میں دو سے تین ہزار مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہندو تنظیم آر ایس ایس اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی سے کیوں نہیں ؟ شاید اس لئے کہ ان کامذہب الگ ہے - اس کا مطلب ہم قرآن کے اس نظریے کے مخالف ہیں کہ دنیا کے سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ، کسی قوم کو عربی اور عجمی کی بنیاد پر فوقیت نہیں تو پھر مختلف انسانوں کے درمیان تفریق کے کیا معنی ؟ سچ تویہ ہے کہ اتحاد و اتفاق اور بھائی چارگی کیلئے ہم جو محنت ایران اور غیر ملکی سفیروں کے ساتھ کر رہے ہیں اگر آر ایس ایس اور اس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں کرتے تو ملک کے امن و امان کا ماحول بھی کچھ اور ہوتا ۔ یہ کام ایمرجنسی کے دوران جیلوں کے اندر جماعت کے لوگوں نے آر ایس ایس کے ساتھ کیا بھی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی آئے لیکن ایران کے ساتھ ہنی مون کے نشے میں ایک مثبت سوچ منفی سوچ میں بدل کر رہ گئی ہے - سچ تویہ بھی ہے کہ برہمن نہ صرف مسلمانوں کا تاریخی دشمن نہیں ہے بلکہ برہمنوں کا ایک طبقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عقیدت رکھتا تھا کہ جب نواسہ رسول ﷺ کو کربلا کے میدان میں مشکل پیش آئی تو ایک طبقے نے حضرت حسین کے ساتھ مل کر یزید کی فوج کا مقابلہ کیا - ہندوستان میں آج بھی یہ حسینی برہمن موجود ہیں - ہمارا کہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم غیروں کیلئے یہود ونصاریٰ اور برہمنیت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں کیا مسلمانوں کیلئے بھی وہابی رافضی سلفی دیوبندی نیچری تحریکی اور بدعتی جیسے غیر روایتی القابات سے مخاطب ہو کر بات کی جائے اور کچھ لوگ اپنے خطبات اور وعظ و تبلیغ میں اس کا استعمال کر بھی رہے ہیں ۔ لیکن فرض کر لیجئے کہ جس طرح ہم صہیونیت نصرانیت اور برہمنیت کیلئے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں دوسری قومیں بھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے براہ راست اپنے مضامین میں قلم کا استعمال کرنے لگیں تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا - جیسا کہ فرقہ پرست ہندو لیڈران کرتے بھی ہیں اور ہمیں برا بھی لگتا ہے - امریکہ کے موجودہ صدر اسی وجہ سے کچھ مہینوں سے میڈیا کی زینت بھی رہے ہیں اور مسلمانوں کی نگاہ میں اس لئے قابل نفرت قرار پائے کہ اس نے علی الاعلان مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اعلان کیا تھا لیکن قربان جائیے یوروپ اور امریکی عوام پر کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ذہنیت کے خلاف احتجاج پر آمادہ ہوئے اور ایک امریکی تنظیم نے ٹرمپ کے ذریعے سات مسلم ممالک کے مسلمانوں پر لگائی گئی پابندی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور امریکی جج نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف تاریخی فیصلہ بھی سنادیا - سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ بدل رہا ہے امریکی عوام آداب انسانی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟ کیا ہم آداب اسلامی اور اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اپنے لئے اور دوسروں کیلئے بھی محبت کی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے - آخر اتحاد امہ کی نمائندگی کرنے والے ایران میں ایرانی عوام نے اپنے ایرانی اور شامی حکمرانوں کے قتل عام کے خلاف کوئی احتجاج اور مظاہرہ کیوں نہیں کیا ؟شاید اب وہ دن دور نہیں جب ہمیں یوروپ سے ہی اسلامی ادب کا سبق لینا پڑ جائے - تاتار کے افسانے سے یہ بات عیاں ہے کہ حرم کی پاسبانی کیلئے ایسا ہو بھی سکتا ہے -
0 comments: