Politics
وطن کا کیا ہوگا انجام!
ممتاز میر ۔ برہانپور
ہمارے حفاظتی دستوں کے حالات کی جو جھلکیاں آج ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اس میں نیا کچھ نہیں ہے ،کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔اکا دکا خبر اس سے پہلے بھی آتی رہی ہے مگر اب چونکہ’’ دیش بھکتوں ‘‘کی حکومت ہے اسلئے غالباًہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب اپنی شکایات کا ازالہ کر وایا جا سکتا ہے۔یہ نتیجہ ہے اپنی دیش بھکتی کولارجر تھین لائف بنا کر پیش کرنے کا ۔ورنہ ان کی حقیقت تاریخ آزادی کو جاننے والے جانتے ہیں۔
۱۹۹۹ میں کارگل جنگ کے دوران بھی جب انہی دیش بھکتوں کی حکومت تھی ،اور جنگ کے بعد میں بھی بڑی خوفناک قسم کی شکایات منظر عام پر آئیں تھیں۔فی الوقت جو شکایات ہیں وہ تو زمانہء امن کی ہیں اور فوجی و نیم فوجی دستوں کی ذاتی شکایات ہیں مگر کارگل جنگ کی شکایات کا تعلق تو براہ راست دفاع وطن سے تھا ۔جنگ کیوں پیش آئی اور دوران جنگ کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کی تحقیق وتفتیش کے لئے سبرامینم کمیٹی وجود میں لائی گئی تھی ۔اس کی تحقیق کا اہم نکتہ فوجیوں کے پاس دشمن سے لڑنے کے لئے ناکافی سازوسامان کا ہونا بتایا گیا تھا ۔اس طرح اس زمانے میں ایک خاتون صحافی نے جو کہ خود موقعے پر گئی تھی اپنے مضامین میں لکھا تھا کہ ہمارے سپاہیوں کے پاس برف پر لڑنے کے لئے خصوصی جوتے بھی نہیں تھے اور اس مخصوص جنگ کو لڑنے کے لئے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بھی ہمارے پاس کمی تھی ۔چلئے کوئی بات نہیں ۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بھی مودی جی کے دوست نواز شریف ہی بر سر اقتدار تھے اور جنگ اچانک شروع کرکے انھوں نے واجپئی جی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اسلئے اس خصوصی جنگ کی ہماری تیاری نہیں تھی( معلوم نہیں یہ عذر کس حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے)مگر جنگ کے بعد کیا ہوا ؟اس کے بعد تو بہت مشہور تابوت گھوٹالہ ہوا تھا ۔کہتے ہیں کہ اسی گھوٹالے سے توجہ ہٹانے کے لئے اکشر دھام حملہ وجودمیں آیا تھا۔
یہ بات کے نچلے درجوں کے فوجیوں کو اعلیٰ فوجی حکام اپنے ذاتی ملازم یا گھریلو خادم بناکر رکھتے ہیں اس سے پہلے بھی تشت از بام ہو چکی ہے ۔انھیں ننگی ننگی بلکہ ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیںیہ بھی علم میں آچکا ہے مگر انھیں کھانا بھی ردی دیا جاتا ہے یہ ہمارے لئے نئی بات ہے ۔ہمارا گمان تو یہ تھا کہ ہمارے دیش کی حفاظت کرنے والوں کو یقیناً ایسا کھانا ملتا ہوگا کہ وہ کم سے کم دو دشمنوں سے ایک ساتھ نپٹ سکیں ۔کھانے کی کوالٹی اور غذائیت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ملٹری کینٹن میں دنیا کی ہر چیز نصف قیمت پر ملتی ہے ۔مگر اب شوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو کچھ وہ اپنے دگرگوں حالات کے تعلق سے اہل وطن کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ،وہ تو بہت تشویشناک ہے ۔سب سے بڑا سوال جو اب کئی دنوں سے ذہنوں میں گونج رہا ہے وہ وطن کے دفاع کے تعلق سے ہے ۔کیا ان حالات میں کوئی خوشی خوشی اپنی جان داؤ پر لگا سکتا ہے ؟کیا ان حالات میں لڑتے وقت جوان اپنے اعلیٰ حکام سے مخلص ہو سکتا ہے ؟اور اپنے اعلیٰ حکام سے ناراضگی کا نتیجہ بھگتے کا کون؟آج جو کچھ ہم دیکھ اور سن رہے ہیں وہی ہمارے دشمن بھی تو دیکھ اور سن رہے ہونگے۔کیا یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان اور چین سرحدی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں؟ کیا وہ ہندوستانی فوجیوں کو کمزور سمجھتے ہیں؟اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دال روٹی وہ بھی جلی ہوئی کھانے والے ان کا کیا مقابلہ کر سکیں گے ۔تو کیا غلط سمجھتے ہیں؟شاید میڈیا میں پھیلنے والی ہمارے سپاہیوں کی حالت زار کا ہی نتیجہ ہے کہ ۱۹ جنوری کے اخبارات میں چینی میڈیا کا یہ دعویٰ شائع ہوا ہے کہ جنگ کی صورت میں وہ یعنی ان کی فوج۴۸ گھنٹوں میں دہلی پردھاوا بول سکتے ہیں اور اگر پیرا شوٹ کا سہارا لیا گیا تو یہ کام دس گھنٹوں میں بھی انجام پا سکتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے اگست ۲۰۱۶ میں ہی مودی سرکار پر یہ واضح کر دیا تھا کہ فوجیوں کو گھٹیا کھانا دیا جا رہا ہے اس کے باوجود خودساختہ دیش بھکت سرکار کے کانوں پرجوں نہیں رینگی۔اب خبریں شائع ہورہی ہیں کہ بی ایس ایف جوان تیج بہادر یادو کا کھانے کی کوالٹی کے تعلق سے ویڈیو وائرل ہونے کی بنا پر وزارت دفاع سے لے کر وزیر اعظم کے دفتر تک کھلبلی مچ چکی ہے ۔کیا واقعی کھلبلی مچی ہوگی؟ہمیں یقین نہیں ۔یہ دنیا کو دکھانے کے کے ڈرامے ہیں۔اگر کھلبلی مچنا ہوتی تو اگست ۲۰۱۶ میں مچنا چاہئے تھی اور چند دنوں میں حفاظتی دستوں کی شکایات دور ہو جانا چاہئے تھی۔مگر ۵ ماہ میں بھی کچھ نہ ہو سکا۔اور مجبور ہو کر ایک سپاہی کو اپنے اعلیٰ حکام کو دنیا کے سامنے ننگا کر دینا پڑا ۔اتنا بڑا قدم آدمی پاگل ہو کر ہی اٹھا سکتا ہے ۔حسب توقع آج بھی وہی کیا جا رہا ہے جو ہندتو والوں کا شیوہ ہے ،حالات سے انکار۔دوسری طرف تیج بہادر یادو کی بیوی ذرائع سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے شوہر پر شکایت واپس لینے کے لئے اور معافی مانگنے کے لئے دباؤ بنایا جا رہا ہے ۔
دوسرا کیس دہرہ دون کی ۴۲ ویں انفنٹری کے لانس نائک یگیہ پرتاپ سنگھ کا ہے۔جنھوں نے فوج میں سیوا داری سسٹم کی شکایت کی تھی اور اب انھیں کورٹ مارشل کا سامنا ہے ۔اس کی بیوی نے کہا کہ اس کا شوہر بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہے اور آخری مرتبہ جب ان سے گفتگو ہوئی تھی تو وہ رو رہے تھے ۔یگیہ پرتاپ سنگھ نے کچھ چھ ماہ پہلے براہ راست صدر اور وزیر اعظم کو خط لکھ کر انھیں با خبر کرایا تھا کہ ان کے اعلیٰ حکام ان سے اپنے گھریلو کام کراتے ہیں۔ تیسرے کیس میں سی آر پی ایف کے میتو سنگھ راٹھور نے بھوپال میں ڈی آئی جی۔ایم ایس شیخاوت کے گھر کام کرنے والے جوانوں کے ویڈیوز بنائے ہیں۔کوئی بوٹ پالش کر رہا ہے کوئی کتوں کو نہلا رہا ہے تو کوئی باغبانی کر رہا ہے ۔راٹھور کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے بہت سارے ویڈیوز بنائے ہیں ۔ابھی دو تین دن پہلے ہی ہمیں واٹس ایپ پر ایک ویڈیو ملا ہے جس میں سپاہیوں کی تشریف پر اعلیٰ حکام بید زنی کرتے دکھائے گئے ہیں۔
یہ دیگ کے بس چند چاول ہیں۔کرپشن نے اس پورے ملک کو ہی نہیں پورے بر صغیر کو ہی گلا سڑا کر کھوکھلا کر دیا ہے ۔اور جہاں لکشمی کی پوجا ہوتی ہو وہاں یہ نہ ہو تو کیا ہو۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سیریس معاملات کے منظر عام پر آجانے کے بعد ہوگا کیا؟کیا ذمہ داران کو سزا ملے گی؟کیا سسٹم کی اوور ہالنگ ہوگی؟کیونکہ معاملہ دفاع وطن کا ہے ۔منہ دھو رکھئے ۔کچھ نہیں ہوگا۔نوٹ بندی وطن عزیزکانہیں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا بلنڈر ہے ۔حکومت اور اس کے کسی بھی مہارتھی کو اپوزیشن یا معاشی ماہرین کے ایک سوال کا جواب دیتے نہیں بن پڑ رہا ہے ۔مگر کیا کسی نے آج تک اپنی غلطی کو مانا۔اور حکومت اور اس کے متعلقین کو جانے دیجئے کیا ان کے میڈیائی چمچے آج۷۴ دن کے بعد بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار ہیں۔جناب یہی ڈھٹائی اوربے شرمی جو ان کا سرمایہ ہے وہ ہر معاملے میں استعمال کریں گے ۔وطن کے دفاع کی فکر ہے تو جائیے خود دفاع وطن کا کام کیجئے ۔دیش سے غداری کا کام وہ کرتے رہے ہیں مگر اسی ڈھٹائی اور بے شرمی کے بل بوتے پر آج سب سے بڑے دیش بھکت بنے بیٹھے ہیں۔جاسوس ان کے دور میں جاسوسی کر کے بھاگ جاتے ہیں۔وطن کا مال و متاع لے کر بھاگ جانے والوں پر ان کا دست شفقت رہتا ہے ۔نواز شریف کے مہمان بن بن کر وہ جاتے ہیں مگر نہ کہیں زمین پھٹتی ہے نہ آسمان ٹوٹتا ہے۔۔ان کی مدافعت سول سوسائٹی ہی کر سکتی ہے ۔سیاسی پارٹیاں تو یکساں کرپٹ ہوتی ہیں۔جتنی خامیاں ایک میں ہوتی ہیں کم وبیش اتنی ہی خامیاں دوسری میں بھی ہوتی ہیں۔اور انھیں عوام کے مفاد سے زیادہ ایک دوسرے کے مفاد کی فکر ہوتی ہے۔یہ معاملہ اتنا سنجیدہ اور بنیادی ہے کہ سول سوسائٹی ہی کو آوا زاٹھانا چاہئے ورنہ کسی دن معلوم ہوگا کہ مصر کی طرح ہم بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے جنگ ہار گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137
0 comments: