featured,
کچھ اردو اخبارات کی سچائی کی جھلکیاں :جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اردواخبار
جو قوم کی ترجمانی کا دم بھرتے نہیں تھکتے ان کے کردار پر ایک نظر ڈالیں
اور غور کریں تو گھن آنے لگے گی ۔اگر ہمیں شکایت ہے کہ میڈیا نے مسلمانوں
کی شبیہ خراب کی ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری ترجمانی کے
دعویدار اردو اخبارات نے بھی مسلمانوں سے کوئی وفا داری نہیں نبھائی ہے ۔ان
سچ بولنے اور سچ لکھنے کا دعویٰ اتنا ہی جھوٹا اور بے بنیاد ہے جتنا کہ
کوئی بھری دو پہر میں یہ کہے کہ رات ہو چکی ہے ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے
۔اردو اخبارات نے بھی اندھیر مچا رکھی ہے ۔ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ
ہندوستان میں اردو اخبارات کے مدیر ہی سب سے زیادہ قابل، پر اعتماد اور
باوقار ہیں ۔یہ وہی لوگ ہیں جو صحافت کے مشن کو سنبھالے ہوئے ہیں۔لیکن آج
آپ کو ہفتہ روزہ سیرت کے مالک و مدیر کے خلاف ان کی معاندانہ روش کی کچھ
جھلکیاں دکھائیں گے تو دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں گے ۔ہونا تو یہ چاہئے
تھا کہ اگر ان اردو اخبارات کو کسی مصلحت کی بنا پر سچ بولنے یا لکھنے میں
کوئی تکلیف تھی تو یہ اس اخبار کے پیچھے کھڑے ہوتے اس کی حمایت میں صف بستہ
ہوتے جو اول روز سے ہی سچ کا دعویدار ہے اور وہ اس اس نے یعنی ’’ہفتہ روزہ
سیرت ‘‘نے آج تک یہ بھرم قائم رکھا ہے ۔اس کے برعکس کچھ اردو کے اخبارات
نے سیرت کے مالک و مدیر کے خلاف محاذ کھول دیا۔پتہ نہیں انہیں کس بات کی
خلش اور بے چینی تھی یا ہے کہ وہ سیرت اور اس کے مالک و مدیر کے خلاف کوئی
خبر آتی ہے تو بغیر اس کی رائے لئے شائع کردیتے ہیں ۔انہوں نے ایک ایسے شخص
کو جس کے کردار کے بارے میں سادہ لوح عوام کے علاوہ سبھی جانتے ہیں ان اہل
بیت اطہار سے ملا دیا جن کی پاکیزگی کی گواہی قرآن نے دی ہے۔ذیل میں ہم ان
تین اخبارات میں شائع شدہ خبروں کی سرخیاں پیش کرتے ہیں جسے پڑھ کرآپ خود
فیصلہ کریں کہ ان اخبارات نے اپنی صحافتی دیانت داری کو کس طاق پر رکھ دیا
حالانکہ یہی مدیران گرامی جب ملک کے دیگر میڈیا پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی
صحافتی دیانت داری پر سوال ضرور کرتے ہیں ۔ایک اخبار کے مدیر نے اتنا ضرور
کیا کہ سرخی میں معمولی تبدیلی کی لیکن متن کو جوں کا توں ہی رہنے دیا ۔یہ
خبر یک طرفہ تھی جھوٹ کا پلندہ تھا ۔یہی نہیں اگر مسلمانوں میں شعور ہوتا
تو یہ خبر سیرت کے بجائے ان اخبارات پر اہل بیت اطہار سے گستاخی کا مقدمہ
قائم
ہوتا ۔لیجئے ہمارے اردو اخبارات کی اس خبر کی سرخی دیکھیں ۔
لکھنو
سے شائع ہونے والے اخبار اودھ نامہ جو کہ کچھ عرصہ تک ممبئی سے بھی جاری
ہوا تھا نے سرخی لگائی ’’ہفت روزہ کے مدیر کی گرفتاری و ضمانت پر
رہائی‘‘اودھ نامہ کے ممبئی اڈیشن کے اس وقت کے مدیر خلیل زاہد تھے ۔
ہندوستان
کے سب سے پرانے اخبار روزنامہ ہندوستان جس کے مالک و مدیر سرفراز آرزو تھے
اور اب بھی ہیں نے اس خبر پر اپنا طومار کچھ اس طرح باندھا اس اخبار کی
سرخی تھی’’اہل بیت و علماء کے گستاخ ہفت روزہ سیرت کے مدیر معین الدین برے
پھنسے ۔آئی پی سی کی دفعہ 153 اے اور 295 اے کے تحت معاملہ درج ۔ہائی کورٹ
میں مشروط ضمانت کے بعد بھوئیواڑہ کورٹ میں بھی ضمات‘‘۔
روزنامہ
سہارا جو کہ آٹھ نو شہروں سے شائع ہوتا ہے ۔اس وقت اس کے ممبئی کے
ایڈیٹوریل ہیڈ جاوید جماالدین تھے۔انہوں نے سرخی لگائی ’’اہل بیت کی شان
میں گستاخ آمیز تحریر لکھنے والا گرفتار ۔ضمانت ملنے سے
ناراض شکایت کنندہ
نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا‘‘۔
مذکورہ
بالا تینوں اخبارات میں یہ جھوٹی من گھڑت اور بیہودہ خبریں 4 ؍جنوری 2014
کو شائع ہوئی تھی۔ان اردو کے اخبارات کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے
یک طرفہ کہانی شائع کی گویا کسی نے اس کو اسپانسر کرکے اس کے پیسے ادا کئے
ہوں ۔یہ دوسروں کو صحافت سکھاتے ہیں انہیں تمیز نہیں کہ اس طرح کے کسی بھی
معاملے میں دوسری پارٹی سے بھی اس بابت معلوم کرنا چاہئے کہ معاملہ کیا ہے
۔لیکن کسی کے چشم و ابرو یا ان کی مردہ ضمیری یا پھر ہوس زر نے انہیں ایسا
کرنے سے باز رکھا ۔حالانکہ سیرت کے مدیر و مالک کو جان سے مارنے کی دھمکی
ہی نہیں دی گئی بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا یہ اور بات ہے کہ موت و حیات کا
فیصلہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہی اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ کسے موت آنی
ہے اور کس کو زندگی کے کچھ لمحات مستعار کئے جائیں ۔جب یہ سیرت کے مدیر کو
اس طرح ڈرا دھمکا کر اس کے سچائی والے راستوں سے ہٹانے میں ناکام رہے تو
انہیں جھوٹے مقدموں میں پھنسایا گیا ۔لیکن یہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا کہ
اللہ کے ہی قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہی دلوں کے حالات کو جانتا ہے اور وہی
دلوں کو پھیرنے
والا بھی ہے سو ان کا جھوٹا مقدمہ بھی چل نہ سکا ۔
سیرت
نے طے کیا ہے کہ وہ جس طرح کسی خوف و دہشت کو خاطر میں نہیں لاتا اسی طرح
وہ اپنے معاملات سے عوام کو آگاہ کرتا رہے گا ۔قارئین ایک بات اور جان لیں
کہ مدیر و مالک ہفت روزہ سیرت کے تعلق سے یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ وہ
بد عقیدہ اہل بیت کی ناقدری کرنے والا اوربزرگوں کی توہین کرتا ہے ۔یہ
سراسر اتہام ہے اور یہ الفاظ ویسے ہی جھوٹے ہیں جیسے آر ایس ایس والے
مسلمانوں پر غدار وطن ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔الحمد اللہ ہفت روزہ سیرت کے
مالک و مدیر اس پیر مجاہد ملت ؒ کا مرید ہے جو اڑیسہ کے رؤفیہ اسٹیٹ کے
مالک تھے۔وہ کوئی چندہ خور یا زکوٰۃ خور مولوی نہیں تھے اور نا ہی آج کے
دنیا پرست مولویوں کی طرح سیاست کا سہارا لے کر دنیا بنانے والوں میں سے
تھے۔میدان حشر میں تو ناانصافیوں اور ظلم اور حرام خوری کا فیصلہ ہونا ہی
ہے لیکن ہم اب ہر معاملہ عوام کی عدالت میں بھی لاتے رہیں گے ۔ہم ٹوپی والے
بابا کے پروردہ نعمت ہیں آئندہ شماروں میں انشاء اللہ تعالیٰ ٹوپی والے
بابا ؒ کے مزار شریف اور اس تعلق سے بننے والے ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں کے بارے میں
ایسی باتیں جس کو ہم نے چوبیس سال سے صبر کے ساتھ برداشت کیا اب عوام کے
سامنے ثبوت کے ساتھ پیش کریں گے جو آپ نے کبھی سوچی اور نہ سنی ہوگی۔ قوم
کے ان چہروں سے بھی نقاب اترتا رہے جو ان کے سامنے جعلی لیڈر شپ کو پیش
کرتے رہتے ہیں ۔جنہیں قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورہ تک صحیح سے پڑھنا نہیں آتا
اور جو ڈھنگ سے دو بات نہیں کہہ سکتے قوم اور قوموں کی تقدیر کیاہے، وہ تو
ان کے سروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے ۔ایسے لوگوں کو قوم کا رہبر بنا کر پیش
کیا جاتا ہے ۔یہ جرم اردو کے اخبارات کررہے ہیں ۔یہ جرم سب جرموں سے بڑھ کر
ہے کیوں کہ کسی بھی عام جرم میں ایک دو لوگ یا چند لوگ متاثر ہوتے ہیں
لیکن یہ جرم ایسا ہے کہ اس سے پوری قوم تباہ ہوتی ہے ۔اب عوام اپنے سر کی
آنکھوں سے دیکھیں اپنے چہیتے اردو اخبارات کی کرتوت اور خود فیصلہ کریں۔
0 comments: