Politics
یہ معذرت خواہی کب تک؟
ملک
میں ایک گروہ آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کے لئے
منافرت اور فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر فضا کو خراب کرنے میں مصروف رہا ہے
۔بیگم انیس قدوائی اپنی کتاب ’آزادی کی چھاؤں میں ‘ لکھا ہے کہ آزادی کے
سال سے گاندھی جی کے قتل تک سنگھی گروہ ٹرک میں مائیک لگا کر کھلے عام دہلی
کی سڑکوں پر کہتا تھا کہ مسلمانوں کو یہاں سے نکال دو لیکن کوئی کانگریسی
انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ انکی تحریروں سے یہ بھی پتہ لگتا
ہے کہ کانگریسی خود ہی اس ساری تباہی بربادی اور قتل عام میں مصروف تھے ۔اس
دور میں آر ایس ایس کے ایک پروگرام میں راجندر پرساد اور سردار پٹیل بھی
شامل ہوئے تھے ۔یہ دونوں کانگریس کے صف اول کے قائدین میں سے تھے۔تمہید کی
ضرورت اس لئے پڑی کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کا پس منظر بھی سامنے
آجائے ۔یہ بار بار لکھا جاچکا ہے کہ کس طرح سے مسلمانوں کو برباد کیا گیا
اور اب کس طرح انہیں تنگ کیا جارہا ہے ۔اب حال یہ ہوگیا ہے کہ فرضی بم
دھماکے اور دہشت گردانہ حملے کئے جاتے ہیں اور اس میں مسلم نوجوانوں کو
ماخوذ کیا جاتا ہے ۔اس سے دشمنوں کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔اول مسلم
نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرکے ان کی ترقی اور نئے زمانے سے قدم سے قدم ملا
کر چلنے کے عزم کو مجروح کیا جاسکے ۔دوسرے پوری قوم کو مجرم ضمیری میں
مبتلا کردیا جائے ۔دشمن، قوم کو مجرم ضمیری میں مبتلا کرنے میں کامیاب تو
ہو گیا ہے لیکن وہ نوجوانوں کے حوصلے توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے ۔قوم
کو مجرم ضمیری میں مبتلا کردیا گیا اور یہ مبتلا کیا ہے قوم کے ٹھیکیداروں
نے جوکسی حادثہ یا واقعہ پر ایک عدد مذمتی بیان دینا اپنی سب سے بڑی ذمہ
داری سمجھتے ہیں۔اس کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی۔قوم کی کیا حالت
ہے ۔اس کا مستقبل کس طرح محفوظ ہو ۔اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ۔انہیں تو
صرف اس کی فکر ہے کہ کسی طرح قوم کے بہانے اپنے مستقبل کو محفوظ کیا
جاسکے۔وہ قوم کی لاشوں پر اپنا مستقبل محفوظ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
کسی دہشت گردی یا ظلم کی مذمت کرنا برا نہیں ہے۔لیکن اس واقعہ جس کا تعلق دہشت گردی یا ظلم سے ہو سکتا ہے ۔اس کے پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے ۔لیکن یہ جاننے کی یہ ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔بس ادھر کوئی واقعہ ہوا نہیں انٹیلی جنس یا پولس محکمہ سے کوئی نام جاری ہوا کہ ان کی مذمت کا پٹارا کھل جاتا ہے ۔مذکورہ دہشت گردانہ کارروائی اور دیگر واقعات جس میں سے اکثرفرضی ہوتے ہیں اس کا سہارا لے کر فرقہ پرست سنگھی اور نام نہاد ترقی پسندوں کا گروہ مسلمانوں کو لعن و طعن کرتا ہے ۔ہمیں کوئی کہتا ہے کہ پاکستان بھیج دیا جائے گا ۔کوئی خلیج بنگال اور بحر عرب میں پھینک دینے کی بات کرتا ہے ۔لیکن یہ ہمارے قائدین اور علمائے کرام (جنہیں کبھی کتابت کی غلطی سے علمائے کرائم لکھ دیا گیاتھا)کارویہ ان کے سامنے معذرت خواہانہ ہی ہوا کرتا ہے کہ نہیں صاحب ہم تو بہت امن پسند لوگ ہیں ۔ہم تو دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔اسلام دہشت گردی نہیں سکھاتا ہے ۔اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں ۔ آخر یہ معذرت خواہی کب تک ہم کرتے رہیں گے ؟ہمیں کیوں پاکستان نوازی کا طعنہ دیا جاتا ہے ؟ آخر یہ لوگ جو ملک کی فضا کو پراگندہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کو کس نے حق دے دیا کہ وہ ہمیں پاکستان بھیجنے کی بات کریں اور یہ علما اور قائدین ان کے سامنے دو زانو ہو کر معذرت پیش کرتے رہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ ہمیں پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں اور جو اس پر معذرت پیش کرتے ہیں ان دونوں گروہوں کو ہی کالا پانی کیوں نہ بھیج دیا جائے ؟
یہ ملک ہمارا ہے اور مولانا آزاد نے کہا تھا کہ اس کی تقدید کے ہر فیصلے ہمارے بغیر ادھورے رہیں گے ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھ کر دنیا کی ترقی میں بھی ملک کوحاشیہ پر پہنچادیا گیا۔کیوں کہ اس ملک کو ترقی کی بلندی پر پہنچانے والے مسلمان سلاطین ہی تھے ۔انہوں نے ہی ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنایا تھا ۔آزادی کے ہولناک دنوں کی کہانی بیان کرتی ہوئی بیگم انیس قدوائی اپنی کتاب ’آزادی کی چھاؤں میں ‘ مسلمانوں کی فن کاری اور کاریگری پر لکھتی ہیں کہ ’’دہلی کے بیوپاری پریشان تھے ۔زردوزی والے،کامدانی ساز بھی رخصت ہورہے تھے ۔بیوپاریوں نے گورنمنٹ تک معاملہ پہنچایا کہ اگر یہ سب چلے گئے تو دلی کی مشہور صنعت اور کاروبار ختم ہو جائے گا ‘‘ اس کے بعد وہ اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’یوں دیکھنے میں تو عام طور سے مسلمان بدھو سے نظر آتے ہیں مگر اسی زمانے میں( تقسیم کے ہنگامے میں ) ان کے جو ہر کھلے ‘‘۔ ہم اس ملک کے حقیقی معمار ہیں ۔ہم نے ہی اس کو سونے کی چڑیا بنایا تھا ۔اس لئے معذرت خواہی ختم کریں ۔اور اقدامی حالت میں آئیں ۔اگر آپ کو خوف آتا ہے تو کس نے کہا ہے کہ آپ ہماری قیادت کا دم بھریں ۔آپ خاموش رہیں ۔دنیا کو پتہ ہے کہ ہم اور ہمارا مذہب دونوں دہشت اور ظلم کے خلاف ہیں ۔اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
کسی دہشت گردی یا ظلم کی مذمت کرنا برا نہیں ہے۔لیکن اس واقعہ جس کا تعلق دہشت گردی یا ظلم سے ہو سکتا ہے ۔اس کے پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے ۔لیکن یہ جاننے کی یہ ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔بس ادھر کوئی واقعہ ہوا نہیں انٹیلی جنس یا پولس محکمہ سے کوئی نام جاری ہوا کہ ان کی مذمت کا پٹارا کھل جاتا ہے ۔مذکورہ دہشت گردانہ کارروائی اور دیگر واقعات جس میں سے اکثرفرضی ہوتے ہیں اس کا سہارا لے کر فرقہ پرست سنگھی اور نام نہاد ترقی پسندوں کا گروہ مسلمانوں کو لعن و طعن کرتا ہے ۔ہمیں کوئی کہتا ہے کہ پاکستان بھیج دیا جائے گا ۔کوئی خلیج بنگال اور بحر عرب میں پھینک دینے کی بات کرتا ہے ۔لیکن یہ ہمارے قائدین اور علمائے کرام (جنہیں کبھی کتابت کی غلطی سے علمائے کرائم لکھ دیا گیاتھا)کارویہ ان کے سامنے معذرت خواہانہ ہی ہوا کرتا ہے کہ نہیں صاحب ہم تو بہت امن پسند لوگ ہیں ۔ہم تو دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔اسلام دہشت گردی نہیں سکھاتا ہے ۔اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں ۔ آخر یہ معذرت خواہی کب تک ہم کرتے رہیں گے ؟ہمیں کیوں پاکستان نوازی کا طعنہ دیا جاتا ہے ؟ آخر یہ لوگ جو ملک کی فضا کو پراگندہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کو کس نے حق دے دیا کہ وہ ہمیں پاکستان بھیجنے کی بات کریں اور یہ علما اور قائدین ان کے سامنے دو زانو ہو کر معذرت پیش کرتے رہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ ہمیں پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں اور جو اس پر معذرت پیش کرتے ہیں ان دونوں گروہوں کو ہی کالا پانی کیوں نہ بھیج دیا جائے ؟
یہ ملک ہمارا ہے اور مولانا آزاد نے کہا تھا کہ اس کی تقدید کے ہر فیصلے ہمارے بغیر ادھورے رہیں گے ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھ کر دنیا کی ترقی میں بھی ملک کوحاشیہ پر پہنچادیا گیا۔کیوں کہ اس ملک کو ترقی کی بلندی پر پہنچانے والے مسلمان سلاطین ہی تھے ۔انہوں نے ہی ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنایا تھا ۔آزادی کے ہولناک دنوں کی کہانی بیان کرتی ہوئی بیگم انیس قدوائی اپنی کتاب ’آزادی کی چھاؤں میں ‘ مسلمانوں کی فن کاری اور کاریگری پر لکھتی ہیں کہ ’’دہلی کے بیوپاری پریشان تھے ۔زردوزی والے،کامدانی ساز بھی رخصت ہورہے تھے ۔بیوپاریوں نے گورنمنٹ تک معاملہ پہنچایا کہ اگر یہ سب چلے گئے تو دلی کی مشہور صنعت اور کاروبار ختم ہو جائے گا ‘‘ اس کے بعد وہ اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’یوں دیکھنے میں تو عام طور سے مسلمان بدھو سے نظر آتے ہیں مگر اسی زمانے میں( تقسیم کے ہنگامے میں ) ان کے جو ہر کھلے ‘‘۔ ہم اس ملک کے حقیقی معمار ہیں ۔ہم نے ہی اس کو سونے کی چڑیا بنایا تھا ۔اس لئے معذرت خواہی ختم کریں ۔اور اقدامی حالت میں آئیں ۔اگر آپ کو خوف آتا ہے تو کس نے کہا ہے کہ آپ ہماری قیادت کا دم بھریں ۔آپ خاموش رہیں ۔دنیا کو پتہ ہے کہ ہم اور ہمارا مذہب دونوں دہشت اور ظلم کے خلاف ہیں ۔اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
0 comments: