یہ ساحرانِ عہد، یہ الیکشن کے مداری!
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
چاروں طرف بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہر ایک اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ کنفیوژن ہے، جھوٹ ہے، دھوکہ ہے اور دنیا بھر کے کھوٹے سکے ہیں جو سچے سکوں کے دھوکے میں اپنے دام کھرے کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں میرے پیارے دیس واسیو! اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت احتیاط تم پر لازم ہے۔
میرے پیارے لوگو! شعبدے باز اپنی اپنی ڈفلیاں لیے اپنے اپنے راگ سناکر تمہیں اپنے ڈھب پر لانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی مسلمانوں کا نعرہ لگاکر پوری امت مسلمہ کی جمع پونجی لوٹ لینا چا ہتا ہے اور کوئی اپنا پورا زور لگاکر اپنے حلق کا پھنسا کانٹا نکالنے میں لگا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض تو مسلمانوں کا اجتماعی شیرازہ بکھیرنے میں اپنی پوری قوت صرف کیے ہوئے ہیں اور کو ئی ملک کے جمہوری آئین سیکولر کردار چھین لینے کے درپے ہے۔ ملک کی سب سے قیمتی شے گنگا جمنی تہذیب پر شب خون مارنے میں بھی بہت سے آگے آگے ہیں، کوئی کہانی سنانے کا ماہر ٹھگ ہے اور ایسا سماں باندھتا ہے کہ اچھے بھلے سمجھ دار انسان کو اس کے جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کوئی اپنے چہرے کی ’نورانیت‘ فروخت کر رہا ہے اور کوئی اپنے جبہ و دستار کی قیمت لگاکر تمہیں اپنا بنالینے کی کوشش میں ہے۔ مگر اصل میں سب اپنی اپنی ڈگڈگی بجا بجاکر مریدوں کی تلاش میں ہیں کہ بھولے بھالے انسانوں کے نفس کو اپنے اندھے مقلد پیرو کاروں سے زیادہ کوئی چیز لذت دہن نہیں ہوتی۔ میرے پیارے بھائی بہنو! اپنے کان دل و دماغ کھلے رکھنا۔ بدلائو کے نام پر کہیں دھوکا نہ کھا جانا۔ یہ بدلائو کیا ہے جس کا بار بار ذکر ہو رہا ہے اسے اپنے کانوں، ذہنوں اور آنکھوں سے خوب دیکھ سمجھ اور پرکھ لینا۔
میرے پیارو! نفس تو شیطان کا بھی استاد تھا۔ یہ نفس ہی تھا جس نے عزازیل کو اس کے علم و عباد ت کے باوجود ایسا دھوکہ دیا کہ اسے محبوب سے مبغوض ترین بنا ڈالا۔ الیکشن کا دور دورہ ہے۔ آج پھر چاروں جانب نفس کے ڈسے ہوئے انسان نما بھیڑیوں کے غول کے غول پھر رہے ہیں۔ کسی نے اپنے قلم کو کمان بناکر تمہیں ڈسنے یا شکار کرنے کی ٹھانی ہے تو کوئی ٹی وی پر اپنے زور بیان کے ساتھ براجمان ہوکر تمہیں چکنی چوپڑی باتوں سے گمراہ کرنے کے لیے درپے ہے۔ کوئی ہمدرد کے لبادے میں، کوئی رہنما کے ’گیٹ اپ‘ میں، کوئی ’علم‘ کے نام پر محض ’معلومات‘ بیچ کر تمہارے اخلاص کا خریدار ہے تو کوئی تمہیں بہتر مستقبل فراہم کرنے کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے۔ میرے پیارے لوگو! یہ موقع ہے ہر پل جاگتے رہنے کا۔ ذرا سی پلک جھپکی، تمہارا سب کچھ لٹ جائے گا۔ ہمیشہ اپنی نظر اپنے شعبدہ باز ہمدردوں کے اصل اور پس پردہ ان کے مقاصد کی تلاش پر جمائے رکھنا۔
میری پیاری مائوں بہنو! آج ہم جس دور سے گزر رہے اور جن حالات سے دوچار ہیں یہ سب قرب قیامت کی نشانیوں میں ہے۔ میری دینی بہنو! قرب قیامت کا دور دجال کا دور ہے جسے آپ کے اور میرے نبی محترمؐ نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا تھا۔ دجال اور دجل دراصل دھوکے اور فریب ہی کے عربی نام ہیں۔ ساحران فرعون کی طرح عہد حاضر کے ’ساحران دجال‘ بھی ا تنی مختلف، منفرد اور لاجواب چالوں کے ساتھ آپ کے سامنے آرہے ہیں کہ اس عہد کے موسیٰؑ کو بھی کنفیوژ ہی کرڈالیں۔ ذرا ا پنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ہزاروں رسیاں اور لاٹھیاں سانپ اور ازدہے بن کر موسیٰؑ کے معجزے کو محض جادو ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔ ایسے میں میری بہت محترم بہنو! ذرا دیکھ بھال کر اپنی رائے یا حق رائے دہی کا استعمال کرنے سے پہلے ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔
میرے دینی بھائیو اور نوجوانو! تمہیں مداریوں کی ڈگڈگی کی مسحور کن آواز میں خود کو کھو نہیں دینا ہے، تمہیں تو ملت کا بیش قیمت اثاثہ ہو، ا گر تم کھوگئے تو گویا پوری ملت کھوگئی۔ یاد رکھو! تم قافلہ اصحاب بدر کا تسلسل ہو جسے اس خطرناک عہد میں دین کی اس عظیم امانت کو بحفاظت اگلی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ تم عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے وارث ہو۔ تم نے شاہ ولی اللہؒ، امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور مجدد الف ثانی ؒ سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ تم نے ملت کی نابغۂ عصر شخصیات کی بصیرت سے اپنے دل و دماغ کو منور کیا ہے۔ تم اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں پہاڑوں کے چراغ ہو۔ تم تاریکیوں کی شکار انسانیت کے لیے روشنی کے پیامبر ہو، یہ سب مارگزیدہ ہیں او رتمہارے پاس تریاق ہے، دیکھنا بہک نہ جانا۔
انسانیت اندھوں کی قیادت میں خطرناک پہاڑی راستوں پر چل رہی ہے اور صرف تمہارے پاس ہی بینائی ہے۔ یہ اندھیروں کے شکار ہیں اور تمہارے ہاتھوں میں چراغ ہے۔ ایسے میں اگر تم راستہ کھوبیٹھے۔۔۔ تم کسی شعبدہ باز، کسی بہروپئے، کسی ٹھگ کا شکار ہو گئے تو یاد رکھنا، ملت کے مستقبل کی نسلیں تمہیں معاف نہیں کریں گی۔ ان دھوکے بازوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔۔۔ صرف ایک ہی راستہ۔۔۔ خدا کی قسم بس ایک ہی طریقہ۔۔۔ قرآن و حدیث و دینی لٹریچروں سے اپنا بھرپور اور قریبی تعلق استوار کرلو۔ اپنی اجتماعیت کی تمام تر تلخیوں کے باوجود جہاں جتنا اور جیسے بھی ممکن ہو اپنی بات آگے پہنچاتے رہو۔ یعنی قرآن، اخوت اور دعو ت کا وہ راستہ اختیار کرلو جو سورہ کہف میں کہفی زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے درج فرمایا ہے اور کسی نئی آواز، نئی بات، نئے رہنما، نئی دعوت، نئی فکر، نئی شخصیت، نئی روشنی، نئے لٹریچر کو اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک اسے اچھی طرح پرکھ نہ لو، اس کے ماضی اور مستقبل کے عزائم کو، اس کے دعوئوں کو اور اس کے کردار کی روشنی میں جانچ نہ لو، چھان پھٹک نہ لو، اللہ او راس کے دین رسولؐ اور ان کی اُمت کے ساتھ اس کی وفاداری کو پرکھ نہ لو، تب تک اس کی محض باتوں، دعوئوں اور ساحری سے اس کے بارے میں نہ خود کوئی رائے قائم کرو اور نہ ہی کسی رائے کو آگے بڑھائو، خود سمجھ نہ پائو تو اپنے صاحب الرائے اور صائب الرائے لوگوں سے پوچھ لو اور ان پر بھروسہ کرو، دامِ ہم رنگ زمیں سے بچنے کا یہی نسخہ ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جائو گے
تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے
بیشک اگر مسلمان سچ مچ مسلمان ہوجائے تو وہ ڈھال تو ہوسکتا ہے مگر ڈھل نہیں سکتا۔ آج پورا عالم اسلام، اسلام دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ طرح طرح کے بہتان اور تہمتوں کا طوفان برپا ہے اور پوری قوم تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتِ حال گزشتہ دہائیوں سے بنی ہوئی ہے اس میں کسی خاص ملک کی تخصیص بھی نہیں رہی، ہمارا ملک بھی اس سے بری نہیں۔ جب سے اس ملک میں فرقہ واریت نے جگہ بنائی ہے مسلمانوں کا عزت کے ساتھ جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ وہ ملک جو دنیا کا دوسرا بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے، آئین و قانون جمہوری قدروں پر محیط ہے لیکن یہ سب کچھ کاغذوں اور قانونی مسئلوں میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ ملک کے ہر شہری کو عملاً برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ ہمارے ملک کے انتخابات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر انتخاب ذات پات، علاقائیت، زبان و مذہب کی بنیادوں پر ہی لڑا جاتا رہا۔ ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس کی پوری انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ اس کا کوئی بھی الیکشن فرقہ واریت سے پاک رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں مذہب کے نام پر برادری اور علاقائیت کے نام پر درجنوں سیاسی تنظیمیں سرگرم عمل بھی ہیں اور انتخابات میں انہیں بنیادوں پر حصہ بھی لیتی ہیں۔ سپریم کورٹ کو تو چاہیے تھا کہ مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ ان تمام سیاسی جماعتوں کے نام و نشان تک ختم کردینے کا حکم دیتی جن کے نام اور کام فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔ اسی طرح الیکشن پر خرچ ہونے والی مد کی حد مقرر کردینی چاہیے۔ ایسی صورت میں ہی صاف ستھرے انتخابات بھی ہوسکتے ہیں اور جمہوریت ا ور جمہوری قوانین کی روح بھی بحال رہ سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں پر لگنے والے الزامات کی حقیقت بھی سب کے سامنے آجائے گی۔
بہرحال میرے بھائیو بہنو! الیکشن الیکشن کا کھیل جاری ہے۔ ہر مداری، ہر جادوگر اور ہر شعبدے باز اپنے اپنے کرتب دکھا رہے ہیں اور ہر ایک کا دل جیت لینے میں ایک دوسرے کو مات دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ہار جیت میں ہمارا سیکولر آئین جیتتا ہے یا فرقہ پرستوں کا وہ طائفہ جسے عام زبان میں فاشسٹ کہتے ہیں۔
٭٭٭
0 comments: