کرتب باز اور بچہ جمہورا

7:31 PM nehal sagheer 0 Comments



جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب گلی کوچوں میں ڈگڈگی کی آواز گونجا کرتی تھی تو بچے بوڑھے سبھی گھروں سے نکل کر مداری کے ارد گرد دائرے کی صورت میں جمع ہوجایا کرتے تھے۔ ایک گلی میں مداری بندر نچا رہا ہوتا تو دوسری گلی میں کوئی قلندر شاہ ریچھ کو نچا رہا ہوتا۔ بندر اور ریچھ ایسے ایسے کرتب دکھایا کرتے تھے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ جاتے۔ اس طرح کے تماشوں سے بچے بوڑھے سبھی خوش ہوا کرتے تھے۔ گلیوں میں یہ شعبدہ باز ایسے ایسے کرتب دکھاتے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے۔ کرتب باز ’بچہ جمہورا‘ پر چادر ڈال کر اسے فضا میں معلق کردیا کرتے تھے۔ کبھی اس کی زبان کاٹ کر تماشائیوں کو آبدیدہ کردیا کرتے، کبھی کسی بچے کو بلاکر اس کے کان سے پانی نکالا کرتے تھے۔ اب یہ شعبدے اور تماشے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔
زمانے کی تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے زمانے کے ساتھ ساتھ قدریں بھی بدل جاتی ہیں۔ لوگوں کی سوچ و فکر بھی بدل جاتی ہے۔ اس لیے وقت کے مداریوں اور قلندر شاہوں کے شعبدے بھی بدل جاتے ہیں۔ کل تک جو محلوں اور گلیوں میں کرتب دکھاتے تھے وہ آج اسی فطری تبدیلی کے سبب ہی اونچی اونچی اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر پوری قوم کو نچا رہے ہیں۔ یعنی کل تک تو قوم بندر اور ریچھ کا کھیل دیکھتی تھی اور محظوظ ہوتی تھی لیکن زمانے کی تبدیلی نے ایسا کرتب دکھایا کہ قوم مداری کی پکار پر کھیل دکھانے لگی اور بندر و ریچھ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
کل اور آج میں یہ فرق بھی دکھائی دے رہا ہے کہ کل کے زمانے میں شعبدہ باز بہت محدود تھے، ان کی شعبدہ بازی روٹی روزی تک ہی تھی لیکن آج کے شعبدہ باز لامحدود ہیں، ان کے کھیل تماشے بھی لامحدود ہیں اور ان کے اغراض و مقاصد بھی لامحدود ہیں۔ ہر بستی کے ہر محلے میں ان کی پھیلتی اور وسیع تر تعداد سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ پہلے کے بہ نسبت شعبدہ بازوں کی صرف تعداد ہی نہیں بلکہ ان کے عمل و اقدام میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اب پہلے کی طرح ان کی چادر صرف بچہ جمہورا کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو ڈھانپ لینے کی وسعت رکھتی ہے۔ پوری قوم کو فضا میں معلق کردینے کی یہ کرتب باز صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ جدید د ور کے جدید کرتب باز ہیں، یہ نئی ٹکنالوجی اور جدید تکنیک کا استعمال کرکے لوگوں کو مبہوت کردیتے ہیں۔
اس طرح آج اور کل کے شعبدہ بازوں میں صرف نام اور حلیے کا فرق اگر کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ آج کے بازی گر ’بچہ جمہورا‘ کو فضا میں معلق کرنے کے بجائے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو ہی فضا میں معلق کردیتے ہیں۔ عوام کے منہ کی روٹی چھین لیتے ہیں، ان کے خون پسینے کی کمائی کو نئے دور کے آہنی پٹارہ اے ٹی ایم اور بینکوں میں مقفل کرکے خون کے آنسو رلاتے ہیں، جبکہ کل کا مداری جب اپنا جادوئی پٹارا کھولتا تھا تو لوگ ہنستے اور محظوظ ہوتے تھے۔
جدید دور کے جدید مداری اب اپنے جمہورے کا کان، ناک نہیں کاٹتے بلکہ پیٹ کاٹتے ہیں۔ روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں کو اتنی بلندی پر پہنچادیتے ہیں کہ عام آدمی اپنی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ کاش! یہ لوگ روٹی سے محروم لوگوں کو تندوری پھُلکوں کا تماشا دکھانے اور غربت کو ختم کرنے کے نام پر قوم کو بھکاری بنانے کے بجائے خورد و نوش کی قیمتوں کو منجمد کردیتے تو غریب سُکھ کا سانس لیتے۔ نوٹ بندی، کیش لیس جیسے تماشوں سے غربت کا خاتمہ تو نہیں ہوسکتا، البتہ غریبوں کی عزت نفس ضرور ختم ہوجائے گی۔
8 نومبر کی شب میں ایک ایسا کھیل کھیلا گیا جس میں نہ قبل از وقت کوئی ڈگڈگی بجائی گئی اور نہ ہی کوئی پیشگی اطلاع کی ضرورت ہی محسوس کی گئی۔ براہ راست ٹی وی کے ذریعے عوام کو یہ مژدہ جاں فزا سنادیا گیا کہ آج سے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی نس بندی کردی گئی ہے۔ لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور لوگ گھروں سے نکل کر بینکوں کا رخ کرنے لگے۔ کتنے ہی اس کھیل کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے اور کتنے لائنوں میں لگے اپنے دن و رات گزارتے رہے اور بہتوں نے اس کھیل سے خاصا فائدہ بھی اٹھایا۔ البتہ اس کھیل میں یہ خاص بات رہی کہ اس میں نہ کوئی بندر ناچ رہا تھا اور نہ ہی کوئی قلندر شاہ ریچھ ہی گھوم کر ٹھمکا ہی لگا رہا تھا، لوگ شاکی تھے کہ یہ کیسا کھیل تھا کہ جس میں نہ کوئی بندر اپنی سسرال ہی گیا نہ اس کی گھر واپسی ہوئی اور نہ ہی کوئی ’بہو لائو بیٹی بچائو‘ کا نعرہ ہی بلند ہوا۔ شاید اس کے پیچھے کوئی ایسا راز چھپا ہے جو ملک میں کسی بڑ ے ’ بدلائو‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ سچ ہے جدید دور کے جدید مداریوں کے کھیلوں کو بہ آسانی سمجھ پانا کوئی آسان کھیل نہیں۔ یوں بھی ہماری قوم اب ’ پراچین سنسکرتی‘ کی شیدائی نہیں رہی کہ اس کھیل کو سمجھنے کے لیے قدیم دور کے کھنڈرات کو کھنگالتی پھرے۔ یہ کھیل تو جدیدیت کے خول میں زمانہ قدیم کے پتھروں والے دور کی واپسی کا کھیل ہے جس کے لیے ہمارے مداری ڈگڈگی بجا بجاکر ’بدلائو‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور تماشائی ہیں کہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
مداریوں نے اس سے قبل بھی جدیدیت کا نعرہ لگایا لیکن ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لیے، تعلیم و تربیت کے لیے، اخوت باہمی کے لیے، گنگا جمنی تہذیب کے لیے اور ملک کے دفاع کے لیے، لیکن اپنے حقیر مفاد کے لیے نہیں۔ وہ خود بھی بلند تھے ان کی سوچ بھی بلند تھی۔ اگر سیاسی کھیل کے جدید علمبردار پنڈت جواہر لال نہرو تھے تو علم و حکمت کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ جدید تعلیم کے علمبردار سرسید تھے تو شعر و ادب کے علمبردار اسداللہ خاں غالب بھی تھے۔ ان کی خدمات ان کی قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان پر کسی طرح کا الزام لگانا سورج پر تھوکنے کے ہی مترادف ہوگا۔ جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ستر سالوں میں کچھ نہیں ہوا انہیں یہ شعر ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ ’’گرد چہرے پر لگی تھی اور ہم آئینہ دھوتے رہے۔‘‘
کہتے ہیں کہ زیادہ ہنسنے کے بعد سنجیدگی طاری ہوجاتی ہے، یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ کہاں مداریوں کے کھیل کا ذکر تھا کہاں سنجیدہ لوگوں کا ذکر کربیٹھے۔ بہرحال اس وقت جو مداری کھیل دکھا رہے ہیں ان کے ارادے، مقصد اور غرض کا بچہ جمہورا کے کھیل سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو بیچارا حکم کا  بندہ ہے جیسا حکم ملا ویسا کھیل دکھادیا۔ اب اگر بچہ جمہورا مداری کے حکم پر ملک کے سیاسی مطلع پر ایک ایسا سورج طلوع ہوتا دکھاتا ہے جو یک رنگ ہے اور وہ اپنے مخصوص رنگ میں پورے ملک کو ہی رنگ لینا چاہتا ہے تو اس میں بچہ جمہورا کا کیا قصور؟ مگر غالب صاحب کا اس سلسلے میں خیال کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں:
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے
مطلب یہ کہ جس کام کا نتیجہ اچھا ہو وہ یقینا اچھا کام ہے اور جس کام کا نتیجہ برا ہو وہ کام برا ہے۔ چلئے ٹھیک ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ غالب کا ’مآل‘ ہمارے زمانے تک آتے آتے مد سے محروم ہوگیا اور صرف ’مال‘ رہ گیا۔ چونکہ مداریوں کا ذکر چل رہا ہے اس لیے اگر غالب کے مصرعے کو ’ری ماڈل‘ کرکے یوں پڑھا جائے تو یقینا بچہ جمہورا کے کردار جیسا مزہ آ جائے کہ:
کام اچھا ہے وہی جس میں کہ مال اچھا ہے
غالب کا خیال ہے کہ کام وہی اچھا ہے جس کا نتیجہ بھی اچھا ہو۔ بہت جلد ملک کے پانچ صوبوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے ہمارے کرتب باز بچہ جمہورا سے کیا اور کیسا کام لیتے ہیں۔ ہر طرف ڈگڈگی کے ساتھ ناچ جمہورے ناچ کی آوازیں بھی گونجنے لگی ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
٭٭٭

0 comments: