کیا نہیں کوئی غزنوی کار گہ حیات میں

10:40 PM nehal sagheer 0 Comments


 پروفیسر محسن عثمانی ندوی 


    دنیا کے تمام مؤرخ اور تاریخ کے طالب علم اس بات پر متفق ہیں کہ سلطان محمود غزنوی (پیدائش ۳۵۷ ھ مطابق ۹۶۷ ء ) کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین اور سپہ سالاروں میں ہے، لیکن اسی کے ساتھ محمود غزنوی کی شخصیت کو کم حیثیت دینے اوراسے الزام اور اتہام کا ہدف بنانے کی کوشش میں بھی کئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا، الزام یہ لگا یا کہ وہ بس ایک ڈاکو اور لٹیرے کی طرح اس کا کام لوٹ مار کرنا ، اور دولت جمع کرنا تھا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر یہ بات آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیٹھے بٹھائے اس نے ہندوستان پر حملہ کیوں کیاآخر ہندوستان کا کیا قصور تھا، کہ اسے لوٹا گیا اور بار بار لوٹا گیا، ہندوستان کو لوٹنے کا الزام تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے لگایا گیا ہے، محمد بن قاسم ہوں یا سلطان محمود غزنوی دونوں میں سے کسی نے جنگ کی پہل نہیں کی تھی، اور بے وجہ ہندوستان پر حملہ نہیں کیا گیاتھا، محمد بن قاسم کے حملے کی وجوہات کا تذکرہ سب کو معلوم ہے، وہاں سندھ کے راجہ داہر کی سلطنت میں مسلمان تاجروں کی بیواؤں اور بیٹیوں کو زبر دستی پکڑ لیا گیا تھااور حجاج بن یوسف کے خط لکھنے کےباوجود اس نے مسلمان عورتوں کو واپس کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، اور محمود غزنوی کی داستان حیات میں پنجاب کے راجہ جے پال کی وحشیانہ حرکتیں اور بدعہدی کا انتقام شامل ہے۔راجہ جے پال نے جنگ کی ابتدا کی تھی اور جنگ میں شکست کھانے کے باوجود اس نے تاوان جنگ ادا نہیں کیا تھا جس کا اس نے وعدہ کیا تھا، محمود غزنوی کو مال وزر کی ہوس نہ تھی بلکہ اس کا مقصد راجہ جے پال کو سبق سکھانا تھا، اور ہندوستان کے ان تمام راجاؤں کو جو راجہ جے پال کے مددگار اور حلیف بن گئے تھے سبق دینا تھا، اسی لئے اس نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر کئی بار حملے کئے تھے، جس شخص نے بھی تاریخ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہو ا س کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہوگاکہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستا ن کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔
    سلطان محمود غزنوی کے والد کا نام امیر سبکتگین تھا، جس دور میں محمود غزنوی نے اپنی زندگی آغاز کیا، وہ عباسی سلطنت کے زوال اور انحطاط کا زمانہ تھا، اور جب کبھی مرکزی حکومت کمزوری سے دوچار ہوتی ہے تو دور دراز پر واقع چھوٹی چھوٹی ریاستیں سرنکالنا شروع کردیتی ہیں، چنانچہ وسط ایشیاء میں ہر طرف طوائف الملوکی کا دوردورہ تھا، چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں، ان میں غزنی کی حکومت بھی آزادی کا اعلان کرچکی تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب ۳۵۰ ہجری میں منصور بن عبد الملک بخارا کے تخت پر بیٹھا، اس کے دور حکومت میں سبکتگین نے اقتدار اور ترقی کے مراحل طے کئے، سبکتگین کی شادی بعض روایا ت کے مطابق اس کے آقا سبکتگین کی بیٹی سے ہوئی اور یہی خاتو ن محمود غزنوی کی والدہ تھیں۔
    امیرسبکتگین کا دور حکومت ۳۵۱۔۳۶۵ھـ تک پندرہ برسوں پر محیط ہے ، جب اس کا انتقال ہوا، اس کا بیٹا اسحاق تخت حکومت پر بیٹھا لیکن جلد ہی اس کا انتقال ہوگیا، اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی، تو امراء دربار کے مشورے سے سبکتگین کو غزنی کا حکمراں بنا دیا گیا، کہا جاتا ہے کہ جس رات محمود پیدا ہوا اسی رات امیر سبتگین نے خواب دیکھا کہ اس کے گھر کے آنگن میں ایک پودا اگ رہا ہے، جو اس کے دیکھتے دیکھتے ایک تن آور درخت میں تبدیل ہوگیا ہے ، پھر اسکی شاخیں اتنی پھیلیں کہ لا تعداد لوگ اس کے سایہ میں بیٹھ گئے ، اگر یہ روایت درست ہے تو اس خواب کی تعبیر یہ نکلی کہ مسلمانوں کی ایک نہیں کئی سلطنتیں ہندوستان میں اس درخت کے سایہ میں پروان چڑھیں گی اور علم وتمدن اور تہذیب کا قافلہ اس درخت کے سایہ میں آرام کرے گا ۔
    ہندوستا ن میں پنجاب کے راجہ جے پال کی حکومت کی سرحدیں اور افغانستان میں غزنی کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئیں تھیں، اور راجہ جے پال کی فوجیں غزنی سرحدوں میں داخل ہو کر لوٹ مار کیا کرتی تھیں، راجہ جے پال کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے امیر سبکتگین کی آتش غضب اکثر بھڑک اٹھتی ، اور وہ اکثر انتقامی کارروائی کے بارے میں سوچنے لگتا، پھر راجہ جے پال نے امیر سبکتگین کے خلاف سندھ کی مسلمان حکومتوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ، اور غزنی کے خلاف جنگ چھیڑ دی ، ملتان کے قریب پہلا معرکہ ہوا جس میں محمود نے اپنے والد سبکتگین کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا، اور پہلی بار اسے میدان جنگ کا عملی تجربہ ہوا، اور جب دونوں طرف کی فوجوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی تلواریں نیام سے باہر نکالیں تو پھر محمود غزنوی نے بھی اپنی تلوار نیام سے نکالی ، اور پھر وہ کبھی دوبارہ نیام میں داخل نہیں ہوئی ، کیوں کہ اس کے بعد اس کی زندگی کا سارا حصہ تلوار زنی میں بسر ہوا، یہ جنگ جو ملتان کے قریب ہوئی تھی، تین دن تک جاری رہی جس کا فیصلہ سبکتگین کے حق میں ہوا اور راجہ جے پال نے صلح کی درخواست کی، راجہ جے پال کے لئے تاوان جنگ یہ طے پایاکہ اسے دس لاکھ درہم کی خطیر رقم اورچالیس ہاتھی دینے ہوں گے، راجہ جے پال کوچونکہ میدان جنگ میں شکست ہوئی تھی اس لئے اس نے اپنے بعض امراء کو بطور ضمانت مسلمانوں کے سپرد کیا کہ تاوان جنگ کی ادائیگی کے وقت انھیں رہا کردیا جائے، لیکن جب تاوان جنگ کی وصولی کا وقت قریب آیا جو جنگ بندی کے معاہدے میں لکھاگیا تھا، تو امیر سبکتگین نے تاوان کی وصولی کے لئے اپنے کچھ نمائندے راجہ جے پال کے دربار میں بھیج دیئے ، لیکن راجہ جے پال بھی ایک عجیب وغریب کردار کا آدمی تھا، وہ اپنے وعدے سے مکر گیا، اور تاوان دینے سے اس نے انکار کیا، اور اس نے سلطان غزنوی کے سفیروں کے ساتھ نہایت نا مناسب سلوک کیا، اور گرفتار کرلیا یہ وہ بدعہدی اور عہد کی خلاف ورزی تھی جس نے امیر سبکتگین کو حد سے زیادہ برافروختہ کردیا، اور اس نے راجہ جے پال کے خلاف چڑھائی کا مصمم ارادہ کرلیا، اور جب سلطان سبکتگین کا انتقال ہوگیا اور اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے راجہ جے پال کو پورے طور پر سبق سکھانے کا ارادہ کرلیا اور یہیں سے محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جو بہت عرصے تک جاری رہا، اور اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے، اور ان تمام حکومتوں کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا جنھوں نے راجہ جے پال کا ساتھ دیا تھا، اور اس کے لشکر کے ساتھ اپنے لشکر کو شامل کرکے ایک متحدہ عسکری قوت کی تشکیل کی تھی۔
    راجہ جے پال نے وعدہ خلافی کی اور جنگ کے تاوان کے طور پر جس رقم کی فراہمی کا اس نے وعدہ کیا تھا، اس سے مکر گیا، اس نے سبکتگین کے نمائندوں کو گرفتار کر لیا، اور سبکتگین کو یہ کہلا بھیجا کہ راجہ جے پال کے جو امراء اس کے پاس موجود ہیں ان کو فوراً رہا کرے ، اور صرف اسی صورت میں سبکتگین کے نمائندے رہائی حاصل کرسکیں گے۔
    راجہ جے پال نے ہندو ستان کے تمام راجوں اور رجواڑوں کو بلایا اور ان کو یہ کہا کہ ہندو مذہب خطرے میں ہے اس لئے غزنی کے سلطان کے خلاف متحد ہو کر سب کو جنگ کرنا چاہئے اس نے ان راجاؤں کو یہ بھی یقین دلایا کہ گذشتہ دنوں سلطان غزنی کے مقابلہ میں اسے جو شکست ہو ئی ہے، وہ اس لئے کہ ہندوؤں کو جتنی مدد کرنی چاہئے تھی وہ انھوں نے نہیں کی، اور و ہ اپنے دھر م کی حفاظت کے فرض سے غافل ہوگئے، اور سلطان غزنی سے جو صلح کی گئی ہے، وہ حالات کے تحت مجبوراً صلح کی گئی ہے، تاکہ اسے موقع ملے کہ ہندوستان کے مختلف راجاؤں کی متحدہ فوج تشکیل دے سکے۔
    راجہ جے پال نے سب سے بڑی عہد شکنی یہ کی تھی کہ جنگ کا تاوان دینے سے انکار کر دیا تھا، دوسرا جرم اس نے یہ کیا تھا کہ سلطان سبکتگین کے سفیروں اور نمائندوں کو گرفتار کرلیا تھا، اور یہ اصرار کیا تھا کہ جب تک راجہ جے پال کے خاص آدمیوں کو جو بطور ضمانت غزنی میں رکھے گئے تھے، رہا نہیں کردیا جاتا ، سبکتگین کے سفیروں کو رہا نہیں کیا جائے گا، غزنی کے دربار میں جب راجہ جے پال کے مکر وفریب اور دغا کا علم ہوا تو وہاں کی درودیوار جہاد کے اعلان سے گونج اٹھے اور ہزاروں رضاکار امیر سبکتگین کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے ، محمود غزنوی یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ، راجہ جے پال کی بد عہدی اور وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی اس کی نظر کے سامنے تھی، اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس طرح جنگ کا بگل بجا دیا گیا ہے، اور عنقریب میدان جنگ میںشعلے بھڑکنے والے ہیں، جنگ شروع ہوئی اور راجہ جے پال کی فوج کے قدم اکھڑ گئے ، اور راجہ جے پال خود بڑی مشکلوں سے جان بچا کر فرار ہو سکا ۔اور پھر راجہ جے پال نے صلح کا ہاتھ بڑھایا، لیت ولعل کے بعد صلح کی پیش کش قبول کرلی گئی ، امیر سبکتگین نے اس موقع سے اپنے بیٹے محمود غزنوی کو بہت سی فوجی مہم کا ذمہ دار بنایا، اور جب ۳۸۷ہجری میں اس کا انتقال ہوا تو تخت کا جانشین محمود غزنوی ہوا، تخت نشینی کے معاملے میں سبکتگین کے بیٹے اسماعیل اور محمود میں کچھ اختلاف بھی ہوا لیکن محمود ایک تجربہ کا ر جرنل بن چکا تھااور وہ بہت آسانی سے تخت حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے کر غزنی کا امیر بن گیا، اس وقت اس کی عمر تیس سال کی تھی، لیکن اسے حکمرانی اور میدان جنگ میں لڑنے کا تجربہ ہوچکا تھا اور ٹریننگ مل چکی تھی ، وہ ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ جنگ کے معرکوں میں شریک ہوتا تھا، وہ ایک مردم شناس اور تجربہ کا ر حاکم اور سپہ سالار ثابت ہوا۔ ۳۸۸ ہجری میں جب محمود غزنوی سربر آرائے سلطنت ہوا تو غزنی کو ایسا عروج حاصل ہوا جو پہلے کبھی اسے نہ ہوا تھا، اس نے خراسان کو بھی فتح کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے سابق حاکم نوح بن منصور نے خراسان کی حکومت محمود کو پہلے دے دی تھی، لیکن بعد میں نوح بن منصور کو نہ جانے کیا سوجھی اس نے ایک اور شخص کو خراسان کا امیر الامراء بنادیا، چنانچہ محمود غزنوی کو خراسان دوبارہ واپس لینے کے لئے فوج کشی کرنی پڑی ۔سلطان محمود غزنوی نے کسی معرکہ میں کبھی شکست نہیں کھائی اس کے اقتدار کا ڈنکا ایران اور خراسا ن سے لے کر ہندوستان تک بج رہا تھا ۔
    محمود غزنوی کا دبدبہ اب مستحکم ہوگیا تھا، اور اس نے اپنی حکومت او ر سلطنت کی توثیق کے لئے اپنا سفیر بغداد بھیجا اور وہ سفیر خلیفہ عباسی القادر باللہ کے دربار میں تحائف اور خلعت لے کر حاضر ہوا، اور خلیفہ عباسی نے بھی جواب میںخلعت بھیجی اور سلطان محمود غزنوی کی امارت کا فرمان بھی جاری کیا، اور اس طرح سے محمود غزنوی کی امارت اور حکومت مسلم ہوگئی کیونکہ خلیفہ عباسی نے اسے تسلیم کرلیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی ملتان کی بغاوت ختم کرنے کے بعد پنجاب کے راجہ آنند پال سے نمٹنے کی تیاری کر رہاتھا، جو راجہ جے پال کے مرنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا،محمود غزنوی نے ہندوستانی راجاؤں سے جنگ کے علاوہ اور بھی علاقے فتح کئے ، جیسے غور کا علاقہ سلطنت غزنی میں شامل کرلیا، پھر اس نے خراسان پر بھی قبضہ کر لیا،پھر وہ بلخ پہونچا اور خوارزم کا علاقہ بھی اس کی عالی ہمتی اور توسیع پسندی سے نہ بچ سکا، خوارزم میں اس نے اپنے بہادر جرنیل التونتاش کو گور نر بنایا، جو بعد میں خوارزم شاہ کے لقب سے مشہور ہوا۔
    لیکن محمود غزنوی کو بطور فاتح جو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی وہ ہندوستان کی فتوحات کے نتیجہ میں ہوئی، ایک سوال اہل فکر ونظر اور مورخین کے سامنے آتا ہے کہ محمود غزنوی نے باربار ہندوستان پر حملے کیوں کئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصل میں ملک گیری کی ہوس نہیں تھی بلکہ پنجاب کے راجہ جے پال کی شرارتوں اور عہد شکنی اور وعدے کی خلاف ورزی کا انتقام تھا۔ اور خود جنگ کا آغاز امیر سبکتگین نے نہیں کیا تھا بلکہ جے پال نے کیا تھا۔ جے پال نے غزنی پر حملہ کیا تھااور چوں کہ اس کو شکست فاش ہوئی تھی اور اس نے خراج اور تاوان جنگ دینا منظور کر لیا تھا اور پھر وہ خراج اور تاوان دینے سے مکر گیا، اور ہندوستان کی دوسرے راجاؤں کی مدد سے غزنی پر حملے کی تیاری کرنے لگا، تو محمود غزنوی کے لئے جو سبکتگین کے انتقال کے بعد تخت پر بیٹھا تھا، اور کوئی چارئہ کار نہیں تھا کہ نہ صرف راجہ جے پال کو پور ے طور پر سبق سکھائے بلکہ ان حکومتوں پر بھی حملہ کرے جنھوں نے راجہ جے پال کی مدد کی تھی۔اگر اس بیان پرکسی کو یقین نہ ہوتوکسی بھی اچھی لائبریری میں وہ چلا جائے اور مسلمانوں کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ انصاف پسند غیر مسلموں کی لکھی ہوئی تاریخ کی کتابیں نکال کر پڑھ لے۔ اسے مذکورہ مواد مل جائے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ محمود غزنوی کا ہندوستان پر حملہ راجہ جے پال کی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔اور کسی بھی جارحیت اور چھیڑ چھاڑ کے جواب میں کوئی بھی غیرت مند حکمراں وہی کرتا ہے جو محمود غزنوی نے کیا۔
    محمود غزنوی پندرہ ہزار سواروں کے ساتھ غزنی سے نکلا اور اس نے پشاور کا رخ کیا جے پال نے بیس ہزار سوار اور تیس ہزار پیادے اور تین سو ہاتھی کے ساتھ محمود غزنوی کے مقابلہ میں نکلا، جے پال کو مکمل شکست ہو ئی اور محمود غزنوی کے ہاتھ بھاری مال غنیمت لگا، مال عنیمت اتنا تھا ہر سپاہی مالدار ہوگیا، راجہ جے پال پر اس شکست کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ پہلے اس نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے آنند پال کو تخت پر بٹھایا اور خود جلتی ہوئی چتامیں اپنے آپ کو ڈال کر مر گیا۔
    محمود غزنوی کے ہاتھوں ۴۰۱ ہجری میں جے پال کو شکست ہوئی تھی، اور اس کے بعد آنند پال حکومت کے تخت پر بیٹھا تھا، اس نے آس پاس کے راجاؤں کو بہکانے اور ورغلانے کی کوشش کی اس کے ورغلانے سے بھاتیہ کے راجہ نے خراج دینے سے انکار کیا ، اور پھر قلعہ بند ہوکر محمود غزنوی سے لڑنے کی کوشش کی ، لیکن اسے محمود غزنوی کے مقابلہ میں شکست ہوئی، اور اس نے اپنی تلوار سے خود کشی کرلی۔   
    محمود غزنوی پر الزامات کی کوئی حد نہیں ہے، حالانکہ ہندوستا ن پراس کے حملے کے اسباب موجود ہیں اور پھر اس نے کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی، وہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں دیندار قسم کے افراد کو بطور مبلغ مقرر کرتا تھا، اور یہ مبلغ اطراف دیار میں گھوم گھوم کر اسلام کی خوبیاں بتاتے تھے اور توحید کے عقیدے اور مساوات کے اصول کو دلنشین اندز میں پیش کرنے کی کو شش کرتے تھے، ان مبلغوں اور صوفیائے کرام کی بدولت ہندوستان میں بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔تبلیغ کا طریقہ کار جو محمود غزنوی نے اختیار کیا تھا اس لئے بھی ضروری تھا کہ راجہ جے پال اور اس کے بعد اس کے فرزند آنند پال نے اسلام کے خلاف زہر افشانی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ آنند پال سے محمود غزنوی کی جنگ ہوئی اور آنند پال کی فوج شکست سے دوچار ہوئی تو خود جان بچانے کے لئے اس نے کشمیر کا رخ کیا، کشمیر دور تھا، اور راستہ بے حد دشوار گذار تھا، اس لئے وہ غداروں اور باغیوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ بن گیا، چنانچہ محمود غزنوی نے کشمیر کی جانب لشکر کشی کا ارادہ کیا اس اس نے دریائے جیحوں کو عبور کیا، اور پھر دریائے جہلم عبور کرکے کشمیر میں داخل ہوا، سرحدی علاقوں کے حکمرانوں اور رئیسوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی ۔
کشمیر کی سرحدوں کے قریب ہودب محمود غزنوی کا پہلا نشانہ تھا، ہودب کا راجہ قلعہ میں پناہ گزیں ہو گیا اور جب اس نے سلطان محمود غزنوی کی فوج کو دیکھا تو دہشت سے اس کی روح فنا ہونے لگی اور دوسرے دن وہ دس ہزار افراد کے ساتھ محمود غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام قبول کرلیا، ہودب کو مسخر کرنے کے بعد سلطان محمود نے قلعہ گل چند کا رخ کیا، راستے خطرناک دشوار گذار تھے، اور جب دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جمع ہوئیں تو دونوں کے درمیان میں پانی تھا ، سلطان محمود نے بڑ ی حکمت عملی اور ہمت سے مقابلہ کیا، چنانچہ گل چند کی فوج کو شدید ہزیمت کا سامنا کرناپڑا۔ اس کی فوج کا ایک حصہ پانی میں ڈوب کر کے مر گیا اور جن کے لئے کوئی راہ فرار نہ تھی ان کو سلطان محمود کی فوج نے قتل کر دیا او ر اسجنگ میں دشمن کی فوج کے پچاس ہزار آدمی مارے گئے۔سلطان محمود غزنوی نے جنگ میں اس فتح کے بعد کشمیر میں اشاعت اسلام کے لئے مبلغ مقرر کئے، اور تمام مال غنیمت کو ساتھ لے کر وہ غزنی واپس ہوا۔
    سلطان محمود غزنوی آہنی عزم وارادے کا مالک تھا، اصول جہاں بانی اور حکمرانی کے لئے یہ ضروری تھا کہ پنجاب پر اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لئے آنند پال کو اس کی بدعہدی اور غداری کی سزامل جائے، وہ آنند پال کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کر رہا تھا، دوسری طرف آنند پال شمالی ہندوستان کے ہندو راجاؤں کے نام پیغام بھیج رہا تھا اور ہندو مذہب کی سلامتی کے لئے دہائی دے رہا تھا اور مذہب کے نام پر مدد کرنے پر سب کو آمادہ کررہاتھا، چنانچہ اس کی آواز پر ہزاروں پنجابی ہندو اس کی فوج میں شامل ہوگئے عورتوں نے اپنے قیمتی زیورات کو بیچ کر آنند پال کو چندہ دیا، چنانچہ آنند پال کے ساتھ لڑنے کے لئے ایک لشکر جرار تیا ر ہوگیا ۔ پنجاب کے ہندو اور جنگ جو قبائل محمود غزنوی کے خلاف جنگ میں متحد ہوگئے تھے اور ہندوستا ن کے بہت سے ہندو راجاؤں نے جی کھول کے مدد کی تھی، دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل تیار تھیں، لیکن چالیس روز تک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہنے کے باوجود جنگ شروع نہ ہو سکی اور محمود غزنوی نے لشکر گاہ کے دونوں طرف گہری اور چوڑی خندق کھدوائیں تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کرسکے ۔
    سلطان محمود غزنوی نے جنگی فراست سے کام لیتے ہوئے، ایک ہزار تیر اندازوں کا خاص دستہ ترتیب دیا، اور حکم دیا کہ وہ ہندو راجاؤں پر حملہ کریں ، یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا پھر ایک دن راجہ آنند پال کے تیر اندازوں کا حملہ ہوا اور یہ حملہ اتنا غیر متوقع تھا کہ اسے روکا نہیں جاسکا، اور کئی مسلمان شہید ہوئے، اورپھر موقع سے فائدہ اٹھاکر آنند پال کے لشکر نے خندق بھی پار کرلی اور گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی اور محمود غزنوی کے فوج کے بھی بہت سے سپاہی شہید ہوئے، لیکن محمود غزنوی بھی میدان چھوڑنے والا سپہ سالار نہیں تھا، آنند پال کی فوج میں ہاتھی بہت تھے، مسلمان سپاہیوں نے ہاتھیوں پر تیروں کی بارش کردی، اور ان آلات سے جو آگ برسایا کرتے تھے، ہاتھیوں کو سخت زخمی کرنا شروع کر دیا گیا، اس کے بعد ان ہاتھیوں نے خود راجہ آنند پال کی فوج کو روندنا شروع کر دیا، اور اس طرح اس کی فوج کے بیس ہزار آدمی مارے گئے اور خود آنند پال زخمی ہوگیا، اور کچھ دنوں کے بعد مر گیا، اور اس کے بعد اس کا بیٹا جے پال دوم راجہ بنا۔
    راجہ جے پال دوم کو اسلام دشمنی ورثہ میں ملی تھی، ہندوستان میں اسلام کو لوگ اس نظر سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے یہ ہندودھر م کا سب سے بڑا حریف ہو، اور اس کے ماننے والے بت شکن ہوتے ہیں، اور ان بتوں کی جنکی وہ عبادت کرتے ہیں ذرہ بھی عزت نہیں کرتے، ملک کے راجاؤں میں دین اسلام کے خلاف ایک انتقامی جذبہ ابھر کر سامنے آرہا تھا، اور پنجا ب کے راجہ جے پال اور دوسرے راجاؤں کی شکست کے بعد اسلام کو ہندو دھر م کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جارہاتھا، محمود غزنوی نے ان تمام راجاؤں کو سخت ترین سبق سکھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ جنھوں نے پنجاب کے راجہ جے پال کی مدد کی تھی، اور اس کی مدد کے لئے اپنی فوج بھیجی تھی، چنانچہ اس نے نگر کوٹ اور کانگڑا کی ریاستوں پر بھی حملے کئے ، کانگڑا پنجاب کا ایک قدیم اور پہاڑی شہر ہے اور نگر کوٹ کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے، یہاں ایک قلعہ تھا جس میں بہت سارے بت رکھے ہوئے تھے، اور یہ مشہور تھا کہ کو ئی اس قلعہ کو فتح نہیں کر سکتا، کیوں کہ ان بتوں کا آشیرواد اس قلعے کو حاصل ہے، اور پورا قلعہ اور یہ شہر ان بتوں کے دامن عاطفت میں ہے۔محمود غزنوی نے اپنی فوجی طاقت اور اپنے اسلامی عقیدے کے ساتھ ان سب شہروں کو فتح کر ڈالا۔ اس کے بعد وہ پشاور پہونچ گیا، پھر اس نے بھیم کا قلعہ فتح کیا، اس قلعہ کے فتح ہونے پر سلطا ن محمود غزنوی کو سات لاکھ اشرفیاں حاصل ہوئیں اور سات سو من کے سونے چاندی کے زیوارات ملے، اور ایک ایسا مکان بھی ملا جو چاندی کا بنا ہوا تھا، سلطان محمود غزنوی نے غزنی پہونچنے کے بعد تین دن تک فتح کا جشن منایا اور تین دن تک مال غنیمت کی عام نمائش کی گئی۔
    پنجا ب اب غزنی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا، لیکن پنجاب کی سر حد پر تھانیسر واقع تھا جو ہندوؤں کا مشہور تیرتھ ا ستھان تھا۔ تھانیسر کے بارے میں مافوق الفطرت کہانیاں بہت مشہور تھیں، اور یہ کہ وہاں ایک ایسا ہاتھی ہے جو میدان کارزار میں دشمنو ں کا صفایاکردیتا ہے، سلطان محمود غزنوی پوری تیار ی کے ساتھ تھانیسر کی جانب بڑھا ان دنوں دریائے سرسوتی میں طغیانی آئی ہوئی تھی، اور دریا کے دوسرے کنارے پر دشمن کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا، بظاہر دریا عبور کرکے تھانیسر پر حملہ کرنا آسان نہ تھا، محمود غزنوی نے اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں دریا کا پاٹ کچھ کم اور قابل عبو ر تھا، اس نے پہلے اپنی فوج کا ایک چھوٹا دستہ بھیجا جو دریا کو عبور کرکے تھانیسر کی فوج پر حملہ آور ہوا، اور جب تھانیسر کے راجہ کی فوج چھوٹے سے دستے کے ساتھ الجھی ہوئی تھی محمود غزنوی نے اپنی باقی فوج کو اسی راستے سے دریا عبور کرکے دشمن پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا، گھمسان کی جنگ تھی لیکن تھانیسر کا راجہ مقابلہ نہ کرسکا اور تھانیسر کا تیرتھ استھان مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، یہاں بہت بیش بہا مال غنیمت ہاتھ لگا ، اور قیدیوںکی تعداد تو اتنی زیادہ تھی کہ غزنی کے بازار میں غلاموں کی قیمت گر گئی۔
    تھانیسر کے فتح کے بعد محمود غزنوی نے برن کا رخ کیا، برن کا موجودہ نام بلند شہر ہے ، جسے راجہ برن نے آباد کیا تھا، بلند شہر میں ایک قلعہ بلندی پر واقع تھا جس میں آبادی زیادہ نہیں تھی، ۴۰۹ ہجری میں وہ راجہ ہروت کا دار السلطنت تھا، چونکہ راجہ ہروت نے بھی محمود غزنوی کے خلاف آنند پال کی مدد کی تھی ، اس لئے محمود غزنوی ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان مجاہدوں پر مشتمل فوج لے کر اس کی سر کوبی کے لئے روانہ ہوا، اور دریائے جمنا کے قریب پہونچا، اور میرٹھ کے قریب اس نے جمنا کو پار کیا اور برن ( بلند شہر )آگیا، راجہ ہروت کو محمود غزنوی کے مقابلے کی ہمت نہ تھی ، اس نے صلح کی درخواست کی اور تاوان میں زر کثیر اور ہاتھی دے کر اطاعت قبول کرلی۔
    اب محمود غزنوی نے متھرا کا رخ کیا  جو دہلی کے قریب ہے اور اس وقت اس کو مرکزی مقام حاصل تھا، اور اس شہر کی مذہبی اہمیت تھی ، اور کرشن جی جسے ہندو پوجتے ہیں اور بھگوان کا اوتار قرار دیتے ہیں، وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے، محمود غزنوی کی دھاک پورے ملک میں بیٹھ گئی تھی، متھرا کا راجہ لڑنے کی ہمت نہ کر سکا اور اس نے ہتھیار ڈال دئے، متھرا کے راجہ کے اس فیصلہ سے فوج کے ایک دستے کو اتفاق نہ تھا اس نے محمود غزنوی کی راہ میں مزاحمت کی کو شش کی ، جس کی وجہ سے قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوگیا، اور محمود غزنوی کی فوج نے متھرا کو لوٹ لیا۔
    متھرا کو فتح کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی نے قنوج کا رخ کیا یہ راجہ ہریش کا دار الحکومت بھی رہا تھا، قنوج بھی فتح ہوگیا، پھر اس نے ملتان کو فتح کیا ، اور پھر کالنجر کا قلعہ فتح ہوا، اور اس کے بعد وہ معرکہ پیش آیا جس نے محمود غزنوی کو عالمی شہرت عطا کردی، اور یہ تھا سومناتھ کا معرکہ سومناتھ کا معرکہ درحقیقت کفر واسلام کا معرکہ تھا،سومناتھ ہندوئوں کی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز تھا اور شرک اور بت پرستی کا قلعہ تھا،عقیدہ تھا کہ مٹی اور پتھر کے بتوں میں ساری خدائی حلول کر چکی ہے اور اسلامی عقیدہ کے اعتبارسے یہ شرک ناپاکی اور نجاست ہے اسی لئے قرآن میں کہا گیا ہے انما المشرکون نجس( التوبہ ۲۸) لیکن محمود غزنوی کا ہندوستان پر حملہ شرک کی وجہ سے نہیں بلکہ راجہ جے پال کی غزنی پر چھیڑ چھاڑ اور تاوان جنگ ادا نہ کرنے اوربدعہدی اور وعدہ شکنی کی وجہ سے ہوا تھا لیکن یہ بھی علم میں رہے کہ ہندوستان کو صرف محمود غزنوی نے فتح نہیں کیا بلکہ کے اطراف واکناف میں صوفیا کرام بھی پھیل گئے تھے، جو دلوں کو جیتنے کا کا م انجام دے رہے تھے ، جیسے پنجاب میں فرید الدین داتا گنج بخش ، اور ہندوستان کے قلب میں سپہ سالار مسعود غازی اور اسی طرح سے سلسلہ چشتیہ کے بزرگان دین ملک میںدلوں کو اسلام کے لئے جیت رہے تھے۔
    لیکن ہندوستا ن کے مندروںسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کاپروپگنڈا کیا جارہاتھا اور لوگو ں سے یہ کہا جارہاتھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا نام ونشان مٹادیا جائے، اس طرح کے مندروں میں سب سے بڑا مندر سومناتھ کا مندر تھا جو کاٹھیاواڑ میں سمندر کے کنارے واقع ہے، سومناتھ میں سوم کا مطلب چاند ہے، اور اس مندر میں لنگ کا مجسمہ بھی تھا ، جس کی پوجا ہوتی تھی، چاند گرہن او ر سورج گرہن کے وقت لاکھوں ہندو اس مندر میں جمع ہوکر عبادت کرتے تھے ، قرب وجوار کے دس ہزار گاؤں اس مندر کی کفالت کے لئے وقف تھے، اور دو ہزار پجاری یہاں ہر وقت پوجا پاٹ میں لگے رہتے تھے، اور آٹھ سو بھجن گانے والے بھی تھے جن کو مندر سے تنخواہ دی جاتی تھی، مندر کا گھنٹا سونے کی ایک زنجیر میں لٹکا ہوا تھا جس کا وزن دوسو من بتایا جاتا ہے، اس مندر کے ساتھ طرح طرح کی کرامات منسوب تھیں اور یہ خیال عام تھا کہ یہ مندر ناقابل تسخیر ہے۔
    سومناتھ کا مندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا، محمود غزنوی نے سومناتھ کے قلعہ پر جہاں مندر تھا حملہ کردیا، قلعے کے تین طرف دریا کا پانی تھا، اور چوتھـی طرف گہری خندق تھی ، اس لئے اس قلعے کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن محمود غزنوی کے آہنی ارادے نے یہ کا م انجا م دیدیا، اس کی فوج سومناتھ کے قلعہ کے سامنے تھی ، اس کے لشکر کے کمانداروں نے فصیل پر بیٹھے ہوئے محافظوں پر تیروں کی بارش کردی، یہ سارے محافظ فصیل چھوڑ کر بھاگ گئے، اور مسلمان سیڑھیاں لگا کر فصیل پڑ چڑھ گئے، اور سومناتھ کا مندر اللہ اکبر کے نعرے سے گونج اٹھا۔ چار دن تک سومناتھ کا معرکہ گرم رہا ، دونوں طرف کی فوجوں کو نقصان ہوا، تاریخ کی کتابوں میں ہے، کہ محمود غزنوی نے حضرت ابو الحسن خرقانی کے خرقے کو ہاتھ میں لے کر اللہ تعالی سے نصرت کی دعا مانگی، اور پھر اس نے لشکر کے سامنے جہاد کے موضوع پر ایک زبر دست تقریر کی، چنانچہ میدان کارزار میں مسلمانوں کے قدم جم گئے، اور میدان جنگ سومناتھ کے محافظوں کی لاشوں سے اٹ گیا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور ہندوؤں کے پچاس ہزار سپاہی اس معرکہ میں قتل ہوئے سلطان محمود غزنوی نے مسلمان شہیدوں کی تدفین کروائی اور پھر سومناتھ کاوہ بت جومندر کے عین وسط میں نصب تھا اسے توڑ دیا، توڑنے سے پہلے پجاریوں نے منت سماجت کی اور معاوضہ میں جواہرات کی پیش کش کی، لیکن محمود غزنوی نے کہا کہ’’ میں تاریخ میں بت فروش نہیں بلکہ بت شکن کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔ سومناتھ کا بت ٹوٹ چکا تھا، اور یہ بتوں کی خدائی کی سب سے بڑی شکست تھی، سومناتھ کی فتح کا جشن کئی دنوں تک محمود غزنوی کی فوج میں منایا گیا ۔ ۴۲۱ ہجری میں سلطان محمود غزنوی کا انتقال ہوگیا، اور اسے غزنی ہی میں دفن کیا گیا جہاں اس کا مقبرہ آج بھی موجود ہے، محمود غزنوی ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا، جس علاقے کو وہ فتح کرتا وہاں مبلغین کی ایک جماعت بھی بھیجتا جو نرمی اور محبت کے ساتھ اسلامی عقائد کی تبلیغ کرتی اور توحید اور مساوات کی تلقین کرتی ۔وہ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتا تھا ،محمود غزنوی فاتح اور سپہ سالار بھی تھا اور اسی کے ساتھ وہ مبلغ اسلام بھی تھا ۔فاتح اور سپہ سالار تو اتنا بڑا تھا کہ سکندر اور نپولین بھی اس کامقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔صرف ہندستان نہیں بلکہ ہرات بلخ، سیستان ،بخارا ،رے ، سمرقند ، اور اصفہان اور ہمدان  جیسے خطوں پر بھی غزنوی حکومت قائم ہوگئی تھی اور عباسی خلیفہ القادر باللہ نے محمود غزنوی کو امین الدولۃ اور امین الملۃ کے خطابات دئے تھے ،اور عالم اسلام میں محمود غزنوی کی قوت سب سے بڑی قوت سمجھی جاتی تھی۔
     یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے کہ محمود غزنوی نے رہزنی اور دولت حاصل کرنے کے لئے ہندوستان پر پے بہ پے حملے کئے نہ اس نے کبھی زبردستی کسی کو مسلمان بنانے کی کوشش کی ، اس نے ہندو دھرم کے خلاف بھی کوئی کام نہیں کیا ، اس کی ساری فوجی کاروائیاں ان ہندو راجائوں کی سرزنش کے لئے ہوئی تھیں جنہوں غزنی پر حملہ کرنے اور شورش برپا کرنے کی کوشش کی تھی اگر یہ ہندو راجہ بے وفائی نہ کرتے بد عہدی کے مرتکب نہ ہوتے اور معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرتے تو محمود غزنوی کو جو وسیع وعریض سلطنت ملی ہوئی تھی وہ اس کے لئے کافی تھی۔  جن مندروں پر اس نے حملہ کیا تھا وہ بھی سازش کا اڈہ بن گئے تھے اور یورش پسند ہندو سردار دھرم کے نام پر لشکر جمع کرتے تھے اور مندر سے ہندوئوں کو اکسایا جاتا تھا اور لڑائی پر آمادہ کیا جاتا تھا ، اور بتوں اور مندروں کے بارے میں یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ وہ نا قابل تسخیر ہیں محمود غزنوی کا مقصد سازش کے اڈوں کو بھی ختم کرنا تھا اور یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ مندر ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ غزنوی کے حملے کا مقصد ایک طرف تو سازش کے اڈوں کو ختم کرنا تھا تودوسری طرف اس غلط اعتقاد کو ختم کرنا تھا کہ مٹی اور پتھر کے بت ان کی حفاظت کرسکتے ہیں ۔




0 comments: