featured

مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

5:17 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

کہتے ہیں کہ جنگل میں جب مور ناچتا ہے تو اپنے رنگارنگ پَروں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے اور خود کو دنیا کا سب سے حسین اور خوبصورت پرندہ سمجھنے لگتا ہے، لیکن جب اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی ہے تو وہ افسردہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بیشہ اُردو کے مور مورنیاں بھی جب کسی ہال میں اردو کے نام پر کوئی پروگرام یا فنکشن کرتے ہیں تو اردو کے پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور، صحافی، ادیب و شاعر سبھی جمع ہوتے ہیں اور اردو کا گن گان اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ایک مہذب، لطیف، میٹھی اور شگفتہ زبان ہے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے اور اس کا چرچا اتنے زور و شور سے ہونے لگتا ہے کہ ہال کے در و دیوار گونج اٹھتے ہیں اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہی ہے‘۔ لیکن جب یہی دانشور طبقہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹتا ہے تو اپنے گھرو ںکو اُردو سے خالی دیکھ کر مور کی طرح افسردہ نہیں ہوتا بلکہ بے شرمی سے بستر استراحت پر پُرسکون سانس لیتا ہے اور شرمندگی انہیں اٹھانی پڑتی ہے جو سچ مچ اُردو کے بہی خواہ اور محب اُردو ہیں۔ وہ جو اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے دن و رات ایک کیے ہوئے ہوتے ہیں۔
اردو کی قسمت کا حال عجیب و غریب ہے۔ پرانی پرانی اردو بستیاں اگر اُجڑ رہی ہیں تو نئی نئی بستیوں کے بسنے کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن یہ بستیاں ہیں کہاں؟ کم از کم ہمیں تو نہیں معلوم۔ ہمارے ارد گرد تو ویرانیوں نے ہی ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ چاروں طرف کھنڈر ہی کھنڈر نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے اردو کے بڑبولے دانشوروں نے کسی خاص علاقے میں اردو کی نئی نئی بستیاں بسائی ہوں جہاں عام لوگوں کی پہنچ ممکن نہ ہو اور شاید اس لیے بھی کہ بڑے لوگوں کی بستیاں زبان و تہذیب عام لوگوں کی زبان و تہذیب سے دور ہی ہوا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عوامی زبان اب خواص کی ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ اتنی خواص کہ اس کے دانشور جب کچھ کہتے ہیں، لکھتے ہیں تو اردو کے کم پڑھے لکھے لوگ ہونقوں کی طرح ایک دوسروں کو دیکھنے لگتے ہیں اور دلوں کو موہ لینے والی زبان لوگوں کے دلوں کو چھوئے بغیر ہی سروں سے گزر جاتی ہے۔
میرے ایک پڑوسی نے بھی مجھ سے ایک روز شکایت کی کہ آپ آسان زبان استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی باتیں ہمارے سروں سے گزر جاتی ہیں، تو میں نے انہیں مجروح سلطان پوری کا ایک واقعہ سنایا کہ مجروح صاحب ایک مشاعرے میں بڑے لہک لہک کر شعر سنا رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں کچھ نوجوانوں کی بات چیت سنائی دی۔ نوجوان آپس میں محو گفتگو تھے کہ بڈھا شعر تو بہت اچھا پڑھتا ہے مگر اتنی اونچائی سے پڑھتا ہے کہ ہمارے سروں سے گزر جاتا ہے۔ مجروح صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ’’بیٹے ہمیں اس اونچائی تک پہنچنے میں ساٹھ سال لگ گئے اور تم ساٹھ منٹ میں ہی اس اونچائی تک پہنچنا چاہتے ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں کچھ تم ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کرو اور کچھ ہم تم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
یہ واقعہ سن کر ہمارے پڑوسی صاحب خاموش ہوگئے اور میں سوچ میں پڑگیا کہ زبان کے تعلق سے اہل زبان کب تک اور کہاں تک نیچے اترتے رہیں گے یا کہاں تک اتارے جاتے رہیں گے۔ اگر ہم اس تعلق سے عمیق نگاہی سے کام لیں تو ہمیں معلوم ہو کہ زبان کے بارے میں صرف ہم ہی نہیں ہمارے بڑے بھی شاکی رہے ہیں۔ جناب مولانا الطاف حسین حالیؔ کو بھی یہ شکوہ رہا ہے کہ:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
مولانا کی زبان تو کچھ زیادہ ہی معرّب و مفرّس تھی کون سمجھتا؟ مگر آج تو معرب و مفرس جیسے الفاظ سمجھنے والا بھی بہ استثنائے استاد محترم مولانا رحمت اللہ فاروقی کے، اگر کوئی ملے گا تو چراغ لے کر ڈھونڈنے پر ہی ملے گا۔ لیکن مولانا تو بغیر ڈھونڈے ہی اپنے مقام پر مل جاتے ہیں بشرطیکہ آپ کو ان کے معمولات کا علم ہو کہ کس وقت وہ گھر میں ملیں گے اور کس وقت راقم کی نشست گاہ پر ملیں گے۔ سیدھے سادے وضع دار آدمی ہیں، گھر سے سیدھے مسجد یا راقم السطور کی رہائش گاہ پر موجود ہوتے ہیں۔ آپ ان کے گھر پر فون کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ فاروقی صاحب اسلم صاحب کے یہاں ہوں گے۔
ہاں تو ہم یہ عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ رحمت اللہ فاروقی صاحب بھی ’’ایک منظر ہیں۔۔۔ مگر بے ربط پس منظر میں ہیں۔‘‘ یہ انہیں کا جگر ہے کہ وہ آج بھی اخبارات کے لیے مضامین و اداریے وغیرہ جب املا کراتے ہیں تو ’’بوندا باندی‘‘ کو بھی ’’تقاطرِ امطار‘‘ تحریر فرما دیتے ہیں۔ مولانا موصوف کے ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو اہل زبان کے لیے باعث سند ہیں تو کم علموں کے لیے باعث زحمت بنے رہتے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی عربی، فارسی تو کیا، آج ہماری زبان اردو سمجھنے والے بھی مولانا فاروقی جیسے خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنی زخمی زبان کی انگریزی الفاظ سے ’’ڈریسنگ‘‘ نہ کرلیں، لوگ ہونقوں کی طرح اپنا منہ کھولے حیرت سے آپ کا منہ تکتے رہتے ہیں کہ یہ شخص:
’’بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا‘‘
شاید ایسی ہی صورت حال دیکھ کر مرزا غالبؔ خالق لفظ و بیان سے فقط یہ طعن آمیز دعا مانگ کر ایک کنارے ہوگئے تھے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔
مگر ہمارے ایک شاعر کے لیے یہ صورت حال درد شکم بن گئی، انہیں کہیں سے افاقہ جب نہیں ہوا تو قبرستان جاکر اپنا شعر سنا آئے کہ:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہل قبور! ایک غزل لکھی ہے
ایک روز ہمارے ایک دوست نے ہمیں فون پر ہدایت فرمائی ’’آسان لکھا کیجیے‘‘ اور جواباً پھر چچا غالبؔ کا ایک شعر پڑھنے کو جی چاہا مگر باز رہے کہ اب اس شعر کو بھی اہل قبور ہی سمجھیں گے کہ:
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل
 بہرحال ہم اپنے علم کے مطابق لکھتے تو آسان ہی ہیں لیکن ہمارے دوستوں، قارئین و کمپوزیٹر صاحب وغیرہ کو اگر مشکل ہوتی ہے تو اور آسان لکھنے کی سعی کریں گے۔ مگر ہم جب اپنے نوجوانوں کو اپنی زبان سیکھنے کو تو کیا پڑھنے سے بھی گریزاں پاتے ہیں تو علامہ اقبال کی زبان میں ’’لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی‘‘ کہنا پڑتا ہے۔ دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ ہمارا نوجوان اپنی زبان، اپنی تہذیب و تمدن سے دور بہت دور ہوتا جارہا ہے۔ آخر یہ نوبت آئی کیسے؟ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
کالم کا اختتام ہوا جاتا ہے اور ہم ابھی تک زبان کی مشکل اور سہل بیانی کے ہیر پھیر میں ہی پھنسے پڑے ہیں اور مولانا حالیؔ کے اس مصرعے کی تاویل ہی کرتے رہے کہ ’’کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں ‘‘۔
ہمیں جو کچھ کہنا ہے اس میں سے کچھ کہنے کی تو ابھی تک نوبت ہی نہیں آئی مگر خیر، ہم کہہ کر ہی رہیں گے۔ آج نہیں تو کل کہیں گے۔ اس کالم کو آپ اسی طرح صدائے توجہ طلبی سمجھ لیجیے جس طرح کہ ہوائی اڈوں، اسٹیشنوں وغیرہ پر اردو زبان میں اعلان شروع کرنے سے پہلے ایک نسوانی آواز آپ کو پکارتی ہے کہ ’’تاواجو فرمائیے۔‘‘
سو، آپ سے کہنا تو ہے، مگر
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
معاف کیجیے، اس وقت الیکشن کی ہماہمی اور غلغلہ ہے، اس وقت رونما ہونے والے حالات پر کچھ روشنی ڈالنی چاہیے تھی لیکن ہم زبان و ادب کا گلہ لے بیٹھے۔ یہ بھی ضروری تھا کیونکہ الیکشن کی ترش و تلخ سرگرمیوں میں ادب ہی ایک ذریعہ ہے جو ناکامی و کامیابی کی صورت میں پیدا ہونے والی دوریوں کو قریب تر کردیتا ہے۔ کاش اس موقع پر کوئی اپنی زبان کو بھی یاد رکھتا تو شاید نہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کو کسی نا محرم سے شکایت ہوتی اور نہ ہی مرزا غالبؔ کو ہی کوئی گلہ ہوتا کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔
بہرکیف، مولانا حالیؔ اور مرزا غالبؔ دونوں ہی زبان و ادب کے شہسوار تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں جس طرح کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں اسے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے وہ اب تو زبان و ادب کی تاریخ میں امر ہوچکی ہیں۔

0 comments: