’بیچ کی بات کچھ اور ہے‘
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
ایک امیر آدمی کو کسی غریب کی مزدوری کے پیسے دینے تھے جو وہ نہیں دے رہا تھا۔ غریب بے چارہ روزانہ اس کے گھر کا طواف کرتا اور تقاضا کرتا کہ میری مزدوری دے دو، بڑی مہربانی ہوگی۔ اور وہ روزانہ ٹال دیتا اور کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتا۔ ایک دن غریب بڑی لجاجت سے کہنے لگا، صاحب! اتنے دن ہوگئے ہیں مجھے آپ کے گھر کے چکر لگاتے ہوئے، میر ی تو چپلیں بھی گھس گئی ہیں، خدا کے لیے آج تو مہربانی کر ہی دو۔
اُس نے کہا، چلو یار کیا یاد کرو گے آج میں آپ کو پیسے دے ہی دیتا ہوں، آئو میرے ساتھ۔ غریب بے چارہ اس کے ساتھ گھر میں چلا گیا۔ امیر آدمی نے اسے ایک کمرے میں بند کرکے خوب گوش مالی کی اور کہنے لگا، ’’اب مانگوگے پیسے۔‘‘ وہ غریب بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا، بڑی معصومیت سے کہنے لگا جی! جیسی جناب کی مرضی۔ امیر آدمی نے ایک پرچہ نکالا اور اس پر لکھا کہ ’’میں نے آدھے پیسے وصول کرلیے‘‘ اور اس مزدور سے کہا کہ اس پر اپنے دستخط کرو۔ مزدور نے اپنے بادل نخواستہ دستخط کردیے اور واپس آگیا۔ کچھ دنوں بعد ایک تقریب میں اتفاقاً اس غریب کی امیر آدمی سے ملاقات ہوگئی تو اس نے پھر درخواست کردی کہ صاحب! باقی آدھے پیسے تو دے دو، جس پر امیر شخص نے بڑی شفقت سے کہا۔ جیسے اس سے قبل میں نے تجھے آدھے پیسے دیے تھے اسی طرح باقی پیسے بھی کسی روز دے دوں گا۔ یہ سن کر وہ غریب چونک گیا اور خوف کے مارے اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اس غریب کی یہ حالت دیکھ کر تقریب کے دیگر شرکاء بڑی حیرت سے پوچھنے لگے کہ ’’اس شخص کے پیسے دینے کے وعدے پر خوش ہونے کے بجائے پریشان کیوں ہوگئے؟‘‘ تو اس غریب نے کہا بیچ کی بات کچھ اور ہے جو میں جانتا ہوں، آپ نہیں جانتے۔
اس وقت پورے ملک میں نوٹوں کی منسوخی پر شور و غل، بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے موقف کو کسی بھی طور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ حکومت نواز بی جے پی اور ہندوتوا ذہن کے حامل سیاست داں اپوزیشن پر معترض ہیں کہ نہ جانے ان کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ لوگ بلاوجہ اس آرڈر کے پیچھے پڑگئے ہیں اور خواہ مخواہ اسے عوام مخالف کہے جارہے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عوام الناس کو بیچ کی بات کا پتا چل جائے تو وہ بھی نہ صرف ہمارے ہم نوا بن جائیں بلکہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آجائیں اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس آرڈر کے خلاف ہنگامہ کرنے والے مخالفت برائے مخالفت پر اترے ہوئے ہیں، ان کی سوچ محدود ہے، اس لیے وہ اس آرڈر کے وسیع تر مفاد اور دور رس نتائج تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو حکومت اور حکومت نوازوں کی بات درست معلوم ہوتی ہے، دنیا آج چاند پر پہنچ چکی ہے، یہ ترقی کا زمانہ ہے اور اپوزیشن زمانہ قدیم کے ترازو و باٹ کے استعمال پر ہی بضد ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور اپوزیشن اپنی پرانی قدروں پر پرانی روایات پر ہی دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ حکومت کی بات میں ہمیں دم محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اب اپنی کمائی کی گاڑھی رقم انٹی میں باندھ کر یا پرس میں رکھ کر بازار جانے اور خرید و فروخت کے لیے نقد کی ضرورت نہیں، موبائل کا بٹن دبائیے اور آپ کا پیسہ آپ کے اکائونٹ سے خود بخود دکاندار کے پاس پہنچ جائے گا اور آپ اپنی مطلوبہ چیزیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔ یہی بات سمجھانے کے لیے ہمارا میڈیا، سرکاری افسران اپنے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن اتنی چھوٹی سی بات ہماری اپوزیشن سمجھ نہیں پا رہی ہے۔ تبھی تو کسی نے کہا ہے کہ یہ چھوٹے دماغ کے لوگ ہیں، لیکن بات چونکہ بیچ کی ہے اس لیے اس کو زیادہ بہتر طور پر عوام اور حکومت خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بے چارے اپوزیشن والے خواہ مخواہ بیچ میں پڑگئے ہیں۔
ملک کے کئی صوبوں خصوصاً پنجاب اور اترپردیش میں انتخابی معرکہ آرائی جاری ہے، اس موقع پر حکومت بدلائو کے نام پر اپنے نئے نظریے اور نئے مقاصد کے ساتھ اپنے قدم جمانا چا ہ رہی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ یہ تو عوام اور حکومت کے بیچ کا معاملہ ہے، دونوں ہی انتخابات کے دوران ایک دوسرے کو سمجھ لیں گے۔ ہمارے حکمراں بڑے ہی دانا و بینا ہیں جو جتنی اونچی کرسی یا جتنے اونچے منصب پر فائز ہے وہ اتنے دور تک دیکھتا ہے اور دور کی کوڑی لاتا ہے۔ اب دیکھئے نا، ہمارے وزیر اعظم کتنی دور کی کوڑی لائے کہ نقدی کرپشن کا ذریعہ ہے، اس لیے ملک میں پھیلے کرپشن اور کالے دھن کو روکنے بلکہ ختم کرنے کے لیے ایک اور خواب دیکھا کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی یکایک منسوخی کردی جائے لہٰذا اس پر عمل کرتے ہوئے ملک کے تمام بچے بوڑھے، عورت، مرد سبھی کو اے ٹی ایم اور بینکوں کی لائنوں میں لگادیا اور خوش خبری سنائی کہ کالا دھن جمع ہو رہا ہے۔ گویا جو لوگ لائنوں میں لگ کر اپنی گاڑھی کمائی بینکوں میں جمع کر رہے تھے وہ غالباً ہمارے قابل احترام وزیر اعظم کے نزدیک کالا دھن تھا۔ اس دوران نہ معلوم کتنوں کی جانیں گئیں اور کتنے بھوکے سوکھے اپنا وقت کاٹنے پر مجبو رہوئے اور وزیر اعظم عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کر تے رہے اور یقین دلاتے رہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، اور کسی بھی بڑے بدلائو کے لیے تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم نے جو باتیں کہیں بے شک صد فی صد صحیح ہیں اور کیوں نہ ہوں وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں، وہ جہاں ملک کو دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ لے جانا چاہتے ہیں وہیں وہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہریوں کی تعمیر و ترقی اور روشن مستقبل کے تئیں بھی سنجیدگی سے سوچتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ ہی تو انہوں نے کیش لیس معیشت کے فروغ اور اس کے جبری نفاذ کے لیے سخت قدم اٹھائے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا اور دیکھا کہ ہمارے ملک کے کتنے شہری اب بھی ایسے ہیں جنہوں نے جو ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کے نام بھی نہیں سنے اور نہ ہی اب تک بینکوں کے منہ ہی دیکھے ہیں، تو ان حالات میں جدید ٹکنا لوجی اور جدید الکٹرانک ذرائع کا استعمال کیسے ممکن ہوسکے گا اور سب کا ساتھ اور سب کا وکاس پر کیسے عمل ہوسکے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ترقی کے نام پر ہم تنزلی کی گہری کھائی میں جا پڑیں۔ بہرحال معاملہ بیچ کا ہے اس لیے ہم اس بارے میں نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔
مضمون کی ابتدا امیر آدمی کی کسی غریب کی مزدوری چھین لینے اور اس کے ظلم و زیادتی پر مبنی ہے بالکل اسی طرح جس طرح حکمراں اپنے شہریوں کے ساتھ کرتے ہیں اور آواز اٹھانے پر ایسی گوشمالی کرتے ہیں کہ ان کے اوسان تک خطا ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں مزدوروں، غریبوں میں بے داری آتی ہے تو ایسے ظالموں، جابروں کو ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ ان کے چا روں طبق روشن ہوجاتے ہیں اور پھر یہ بینا سے نابینا بن کر ان ہی غریبوں اور مظلوموں کے گھروں اور دروں پر کشکول لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہ صورت حال برسوں سے ہر انتخاب کے موقع پر بنتی دیکھی جارہی ہے۔ موجودہ انتخابات میں بھی آپ دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بڑی کشادہ دلی سے بھولے بھالے عوام کس طرح ایک بار پھر حکمرانوں اور سیاست دانوں کے جھانسے میں آرہے ہیں۔
کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات ہی غریبوں اور مظلوموں کے لیے ایک ایسا ہتھیار ہیں جس سے عوام اپنے دھوکے باز اور ظالم حکمرانوں سے بھرپور بدلہ لیتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کا تو چونکہ سیاسی باوا ہی نرالا ہے اس لیے بدلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ وہی لوگ پھر دوبارہ تعمیر و ترقی اور ’بدلائو‘ کے نام پر عوام کے سروں پر مسلط ہوجاتے ہیں جو اپنے دور اقتدار میں اپنے ہی عوام پر ظلم ڈھاتے رہے اور آواز بلند کرنے پر گوشمالی بھی کرتے رہے ہیں۔ بہرصورت یہ بات بھی عوام اور سیاست دانوں کے بیچ کی ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے۔
پچھلے دنوں کسی پاکستانی کالم نگار نے اپنے ایک بڑے سیاست داں کے بارے میں لکھا تھا کہ موصوف پر آج کل دین داری کا شدید دورہ ہے۔ وہ ہر وقت آیۃ الکرسی کا ورد کرتے رہتے ہیں، تو دوسرے نے کہا، آیۃ الکرسی کا نہیں وہ کرسی کرسی کا ورد کر رہے ہیں۔ بالکل ایسا ہی آج کل ہمارے یہاں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ہر نیتا، ہر لیڈر کرسی کے لیے آیۃ الکرسی کا ورد کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ’جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو‘ بھی کچھ پڑھتے دیکھے گئے، لیکن بیچ کی بات کچھ اور ہے، اس لیے ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
٭٭٭
0 comments: