Books
اللہ اور ملا
نہال صغیر
رشدی کی شیطانی آیات کا ادبی زبان میں جواب دینے والے محمد سعید علی میاں ٹولکر نے اپنی تازہ تصنیف ’’اللہ اور ملا ‘‘ سے کچھ لوگوں کو چونکایا ہے ۔انہوں نے شیطانی آیات کا جواب ’’رحمانی آیات ‘‘ لکھ کر دیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین کوشش تھی جس کی پذیرائی کی جانی چاہئے ۔زیر نظر کتاب ’’اللہ اور ملا ‘‘ میں انہوں نے سلسلہ وار قرآن سنت سے اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی عظمت و بزرگی کی وضاحت کی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ کے بارے میں ہمارے دور میں کیسے کیسے نظریات قائم ہو گئے ہیں ۔انہوں نے اس کی بنیاد پر اپنے قلم کی نوک کو نشتر کی طرح استعمال کرکے غلط نظریات کا آپریشن کرکے اس کے تدارک کی کوشش کی ہے ۔معلوم ہوا کہ ان کی کتاب پر جلد بازی میں کچھ افراد کے ذریعہ اعتراض کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا دبائو ڈالا گیا ۔جبکہ اس کی توضیح نہیں کی گئی کہ کیوں ؟ میں نے ہفتہ وار اخبار کے اعتراض کے چند نکات کے مطابق مطالعہ کیا اور تسلسل کے ساتھ آدھی سے زیادہ کتاب پڑھ چکا ہوں لیکن کہیں کوئی ایسی بات نہیں ملی جس سے اس کتاب کو کلی طور سے مسترد کردیا جائے ۔ہاں کچھ باتیں انہوں نے ایسی لکھی ہیں جس سے ہر شخص کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی اس کیلئے کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہے ۔مجھے بھی ان کی بعض باتوں یا دعووں سے اتفاق نہیں ہے جیسے انہوں نے کتاب کے سرورق پر نام کے نیچے لکھا ہے ’پوری اسلامی دنیا کیلئے پہلی مدلل کتاب‘لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اس ایک دعوے کی بنیاد پر ہم ان کی علمی کاوش کو یکسررد کردیں ۔ایسے ہی شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے مسلمانوں میں اہل علم و تفتیش اور محققین کمیاب ہوتے جارہے ہیں ۔جن کا ذہن اس جانب کام کرتا ہے تو وہ ایسے اذہان کے خوف سے کونے میں سمانے کو ہی بہتر تصور کرتے ہیں کہ کون جائے خواہ مخواہ ان سے الجھنے !اس کا نجام یہ ہے پوری ملت پر جمود کی سی کیفیت طاری ہے ۔مذکورہ کتاب ہمیں سوچنے اور غور فکر کی دعوت دیتی ہے۔مصنف نے لہجہ ذرا سخت اپنایا ہے ۔اس لئے کچھ لوگوں کو گراں بار ہے ۔ہر شخص کی سوچ و فکر یکساں نہیں ہوتی ہے ۔ ہمیں یہ قبول ہے کہ مصنف نے سخت لہجہ کے بجائے حکیمانہ طرز اپنایا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔لیکن جس طرح ڈاکٹروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ایک صرف مرض کی تشخیص کرکے دوا دے دیتا ہے جبکہ دوسرا ناقابل علاج مرض کیلئے عمل جراحی سے کام لیتا ہے ۔مصنفین اور محققین و ناصح بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک صرف نصیحت کرکے خامیوں کی نشاندہی کرکے خاموش ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا ذرا سختی کے ساتھ ان خامیوں اور اس کے برے اثرات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل 150/= روپئے میں دستیاب یہ ایک بہترین کتاب ہے ۔اردو زبان کے ساتھ خود اردو والے جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کتاب کے ساتھ بھی ہے، املا اور ٹائپنگ کی غلطیاں بہت ہیں ۔جگہ بجگہ اردو کے بجائے مصنف کا کوکنی لہجہ غالب آجاتا ہے ۔مزید جانکاری یا کتاب کی دستیابی کے لئے مصنف سے ان کے موبائل نمبر 7507480947 پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔مصنفین ،محققین اور اہل علم کی قدر کیجئے یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ان کی غلطیوں کی جانب متوجہ ضرور کیجئے لیکن ان کی عزت و تکریم میں محض معمولی اختلاف کی بنیاد پر کمی مت کیجئے ۔
رشدی کی شیطانی آیات کا ادبی زبان میں جواب دینے والے محمد سعید علی میاں ٹولکر نے اپنی تازہ تصنیف ’’اللہ اور ملا ‘‘ سے کچھ لوگوں کو چونکایا ہے ۔انہوں نے شیطانی آیات کا جواب ’’رحمانی آیات ‘‘ لکھ کر دیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین کوشش تھی جس کی پذیرائی کی جانی چاہئے ۔زیر نظر کتاب ’’اللہ اور ملا ‘‘ میں انہوں نے سلسلہ وار قرآن سنت سے اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی عظمت و بزرگی کی وضاحت کی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ کے بارے میں ہمارے دور میں کیسے کیسے نظریات قائم ہو گئے ہیں ۔انہوں نے اس کی بنیاد پر اپنے قلم کی نوک کو نشتر کی طرح استعمال کرکے غلط نظریات کا آپریشن کرکے اس کے تدارک کی کوشش کی ہے ۔معلوم ہوا کہ ان کی کتاب پر جلد بازی میں کچھ افراد کے ذریعہ اعتراض کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا دبائو ڈالا گیا ۔جبکہ اس کی توضیح نہیں کی گئی کہ کیوں ؟ میں نے ہفتہ وار اخبار کے اعتراض کے چند نکات کے مطابق مطالعہ کیا اور تسلسل کے ساتھ آدھی سے زیادہ کتاب پڑھ چکا ہوں لیکن کہیں کوئی ایسی بات نہیں ملی جس سے اس کتاب کو کلی طور سے مسترد کردیا جائے ۔ہاں کچھ باتیں انہوں نے ایسی لکھی ہیں جس سے ہر شخص کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی اس کیلئے کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہے ۔مجھے بھی ان کی بعض باتوں یا دعووں سے اتفاق نہیں ہے جیسے انہوں نے کتاب کے سرورق پر نام کے نیچے لکھا ہے ’پوری اسلامی دنیا کیلئے پہلی مدلل کتاب‘لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اس ایک دعوے کی بنیاد پر ہم ان کی علمی کاوش کو یکسررد کردیں ۔ایسے ہی شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے مسلمانوں میں اہل علم و تفتیش اور محققین کمیاب ہوتے جارہے ہیں ۔جن کا ذہن اس جانب کام کرتا ہے تو وہ ایسے اذہان کے خوف سے کونے میں سمانے کو ہی بہتر تصور کرتے ہیں کہ کون جائے خواہ مخواہ ان سے الجھنے !اس کا نجام یہ ہے پوری ملت پر جمود کی سی کیفیت طاری ہے ۔مذکورہ کتاب ہمیں سوچنے اور غور فکر کی دعوت دیتی ہے۔مصنف نے لہجہ ذرا سخت اپنایا ہے ۔اس لئے کچھ لوگوں کو گراں بار ہے ۔ہر شخص کی سوچ و فکر یکساں نہیں ہوتی ہے ۔ ہمیں یہ قبول ہے کہ مصنف نے سخت لہجہ کے بجائے حکیمانہ طرز اپنایا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔لیکن جس طرح ڈاکٹروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ایک صرف مرض کی تشخیص کرکے دوا دے دیتا ہے جبکہ دوسرا ناقابل علاج مرض کیلئے عمل جراحی سے کام لیتا ہے ۔مصنفین اور محققین و ناصح بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک صرف نصیحت کرکے خامیوں کی نشاندہی کرکے خاموش ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا ذرا سختی کے ساتھ ان خامیوں اور اس کے برے اثرات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل 150/= روپئے میں دستیاب یہ ایک بہترین کتاب ہے ۔اردو زبان کے ساتھ خود اردو والے جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کتاب کے ساتھ بھی ہے، املا اور ٹائپنگ کی غلطیاں بہت ہیں ۔جگہ بجگہ اردو کے بجائے مصنف کا کوکنی لہجہ غالب آجاتا ہے ۔مزید جانکاری یا کتاب کی دستیابی کے لئے مصنف سے ان کے موبائل نمبر 7507480947 پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔مصنفین ،محققین اور اہل علم کی قدر کیجئے یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ان کی غلطیوں کی جانب متوجہ ضرور کیجئے لیکن ان کی عزت و تکریم میں محض معمولی اختلاف کی بنیاد پر کمی مت کیجئے ۔
0 comments: