Muslim Issues

مسلمانوں کا میڈیا ..... باتیں ہیں باتوں کا کیا!

9:04 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

ہمارے برادران، دوست احباب میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل کو لے کر کافی بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے ۔ کچھ مسلم تنظیمیں خاص طور سے جماعت اسلامی اور اس کی دوسری نظریاتی تنظیموں میں میڈیا کے تئیں کافی گرمجوشی دیکھنے کو ملتا ہے ۔میں پچھلے پینتیس سالوں سے جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلم میڈیا کی بحث میں اس کی ضرورت اور اہمیت سنتا آرہا ہوں ۔اس سے آگے کہیں کچھ سننے کو ملا تو اتنا کہ کسی دور میں جمعیتہ العلماء نے بھی انگریزی پریس کے لئے اہل خیر حضرات سے تعاون لیا تھا ۔ایک بار نوے کی دہائی میں دہلی کے اخبارات میں اس تعلق سے کچھ خبر شائع ہوئی تھی تو جمعیتہ کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ اس فنڈکا آئی سی آئی سی آئی بینک میں اکاؤنٹ ہے جس میں غالبا نو لاکھ روپئے جمع ہیں ۔اس مراسلہ میں اکاؤنٹ نمبر بھی درج کیا گیا تھا ۔لیکن اخبار نہیں نکل سکا اس کی کیا وجہ تھی پتہ نہیں ۔حیدر آباد سے بھی کئی کوششیں ہوئیں کہ مسلمانوں کا کوئی انگریزی روزنامہ شائع ہو لیکن اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔صرف جماعت اسلامی ہند کا ایک ترجمان ہفتہ روزہ ’ریڈینس ویوز ‘پابندی سے شائع ہو رہا ہے ۔لیکن وہ بھی صرف سبسکربشن پر مہیا ہے ۔عام طور پر وہ بھی اسٹالوں پر دستیاب نہیں ہے ۔
اوپر یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی ادارت میں شائع ہونے والا پندرہ روزہ ملی گزٹ بند ہوگیا ۔یہ اخبار جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ملت کا ترجمان تھا ۔لیکن مالی خسارہ کے سبب اس کی اشاعت آئندہ کیلئے ممکن نہ ہو سکی۔ڈاکٹر ظفر الاسلام نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ اس کا مالی خسارہ ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تک پہنچ گیا تھا جو ان کے لئے برداشت کرپانا ممکن نہیں تھا اس لئے انہیں اس کی اشاعت کو موخر کرنا پڑی۔بیس کروڑ ملی آبادی میں اب کیا اتنا دم خم بھی نہیں بچا کہ وہ ایک ایسا اخبار جاری رکھ سکے جس کاخرچ صرف ڈیڑھ لاکھ روپئے ماہانہ ہے؟ایسی پوزیشن میں لمبی چوڑی باتیں کرنا یا کوئی بیجا دعویٰ کرنا محض احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے ۔جبکہ اسی قوم کی شادی و دیگر تقریبات وغیرہ میں چلے جائیں آپ کو احساس ہی نہیں ہو گا کہ یہ اسی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی تقریب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے زیاہ پسماندہ قوم ہے ۔دوسری طرف یہی قوم تعلیم رہائش اور میڈیا کے شعبہ میں آتی ہے تو سب سے زیادہ کمزور ،نحیف و لاغر نظر آتی ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟ایسا صرف اس لئے ہے کہ قوم کے سامنے ترجیحات کا معاملہ ہے ۔بقول ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے قوم کی ترجیحات میں میڈیا شامل ہی نہیں ہے۔قوم کی بات تو بعد میں آئے گی قوم کی جو تنظیمیں ہیں ان کی ترجیحات میں بھی میڈیا شامل نہیں ہے ۔ایک قومی ملی تنظیم کے مہاراشٹر کے صدر نے ایک بار استفسار پر کہا کہ میڈیا کے تعلق سے جب ہم نے پیش قدمی کی تو ایک دینی ادارہ سے فتویٰ جاری ہو گیا اور ہم نے وہیں اپنے قدم کو پیچھے کی جانب موڑ لیا ۔اس گفتگو کے وقت ایک اردو روز نامہ کے باریش رپورٹر نے ان سے کہا کہ اگر میڈیا کے تعلق سے کسی عالم سے مشورہ لینا ہو تو مولانا ولی رحمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے رجوع ہوں انشاء اللہ رکاوٹ نہیں آئے گی ۔بہر حال برسبیل تذکرہ یہ بات آگئی کہ میڈیا کے تعلق سے اگر کوئی آگے آتا بھی ہے تو اس کے ساتھ کیسی کیسی پریشانیاں آتی ہیں۔لیکن مسئلہ اب بھی وہی ہے کہ قوم کی ترجیحات میں میڈیا ہے ہی نہیں ۔ہم صرف شکایتیں کرنے اور میڈیا کی بے راہ روی اور تعصب کا رونا رونے کے قابل ہی رہ گئے ہیں ۔ان شکوہ شکایت سے آگے بھی ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں اس تعلق سے ہم کب بیدار ہوں گے؟ میڈیا ہاؤس بنانا اسے کامیابی سے چلانا اسقدر آسان نہیں جتنا ہم نے اسے سمجھ رکھا ہے ۔بھلا وہ قوم کس طرح میڈیا ہاؤس کھڑا کرسکتی ہے اور اسے کامیابی سے چلاسکتی ہے جس سے ایک پندرہ روزہ انگریزی اخبار کا بوجھ نہیں اٹھایا جارہا ہے ۔ ایک اردو ہفتہ روزہ کو صرف دس ہزار ماہانہ کے اشتہار کی ضرورت تھی میں نے کم از کم چار تاجر دوستوں سے کہا کہ آپ لوگ مل کر اس کو اشتہار دیں لیکن وہ اخبار آج بھی اسی طرح مالی خسارہ میں ادھر ادھر سے اپنے اخراجات پورا کررہا ہے لیکن کوئی اسے پر وقار طریقے سے اشتہار دے کر اس کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہا ہے۔اس طرح کے حالات ہماری بے حسی اور زوال کی انتہا کی جانب جانے کی پیش گوئی کررہے ہیں ۔کیا ہم اب بھی باتیں اور خوش گپیوں سے باہر آکر حقائق کی دنیا کا ادراک کرکے کچھ عملی قدم اٹھاکر چھوٹے اخبارات کو ہی بچانے اور اسے مستحکم کرنے کی شروعات کرسکتے ہیں۔یاد رکھئے جس طرح ٹرین کے انجن کو بجلی یا ڈیزل ،موٹر کاریا بس کو پیٹرول اور ڈیزل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اخبارات یا میڈیا ہاؤس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اب یہ سرمایہ آپ پورا کریں یا پھر وہ لوگ پورا کریں گے جو آپ کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ۔اگر وہ سرمایہ کاری کریں گے تو وہ آپ کی ترجمانی کیوں کریں ؟کیا آپ سرمایہ کاری کرکے باطل کی ترجمانی کرسکتے ہیں !نہیں نا تو پھرباطل سے حق کی ترجمانی کا کیا جواز ہے؟یہ چند باتیں میرے دل کی آواز ہے ممکن ہے کہ قوم کی غیرت جاگ جائے اور یہ قوم کا ترجمان ملی گزٹ دو بارہ پھر سے جاری ہو جائے ۔ 

0 comments: