featured
نہال صغیر
مالی خسارے کے ناقابل برداشت بوجھ کے سبب بالآخر ملی گزٹ بند ہوگیا ۔اسے بند کرتے ہوئے ایک انٹر ویو میں اس کے مالک و مدیر نے کہا بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا قوم کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔میڈیا میں اپنی پیٹھ بنانے کیلئے سب سے پہلے تو اس کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے ۔چار سال قبل فلسطینی قائد اسمٰعیل ہانیہ نے کہا تھا کہ آج جنگیں صرف میڈیا کے ذریعہ لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔یہ آج کے دور کی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔غالبا دس یا پندرہ سال قبل مہاتر محمد نے او آئی سی کے اجلاس میں مسلمانوں کے یا مسلم دنیا کا میڈیا کی بات کی تھی ۔غالبا اسی کے بعد الجزیرہ کا قیام عمل میں آیا تھا ۔یہ دو مثالیں ان لوگوں کی دی گئی ہیں جو دو الگ الگ مسلم ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔میڈیا کی کیا اہمیت ہے اسے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ پرامن مذہب اسلام کو دہشت گردی پھیلانے والا مذہب مشہور کروادیا گیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ۔میڈیا کایہ اثر ہے کہ اپنے وطن سے ہزاروں میل کی دور پر واقع عراق و شام میں اپنی آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین آج دہشت گرد قرار دیئے جاچکے نیز اسی میڈیا کے دجالی ذرائع پر یقین کرتے ہوئے ہمارے سیکڑوں علماء روزانہ مجاہدین کو کافر اور دہشت گرد ہونے کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں ۔حالانکہ یہی علمائے دین اکثر معاملات میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ میڈیا جھوٹ بولتا ہے ۔یعنی اپنے مطلب کی بات ہو تو آمنا صدقنا اور اپنے خلاف ہو تو مسترد کردینا اب یہ ہمارے ان بزرگوں کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ان مختصر واقعات و حالات کو بیان کرنے سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ میڈیا کیا ہے اور وہ کیا کرسکتا ہے ؟ایسے میں ہمارا ذرائع ابلاغ نہ ہونا کتنی بڑی بد نصیبی کی بات ہے ۔جس حد تک ممکن ہے اور جتنے بھی ابلاغ کے ذرائع ہمارے پاس ہیں اس سے تو یقینا کچھ نہ کچھ ہماری باتیں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں ۔لیکن ہم نے چونکہ اس کے مقصد اور اہمیت کو دیر میں جانا یا اب بھی ہم اس موڈ میں نہیں ہیں کہ اسے زیادہ اہمیت دیں اس کا انجام یہ ہے کہ ہمارے خلاف جس قدر شدت سے پروپگنڈہ ہے اس کے جواب میں ہمارا ردعمل صفر کے برابر ہے ۔
میڈیا نے عوام کی ذہن سازی کی ہے ان کے ذہن میں وہ بٹھایا ہے جو ان کا مقصد تھا ۔جیسا کہ اوپر کہاگیا کہ انہوں نے عوام کو یہ باور کرادیا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گردہیں ۔حالانکہ سینکڑوں بار یہ اعداد شمار بتایا جاچکا کہ دہشت گرد کے طور پر جتنی بھی تنظیموں کا نام فہرست میں شامل کیا گیا ہے اس میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ ہمارا میڈیا ہوتا تو اس بات کو دن رات اپنی نشریات میں بتاتا جس سے یقینا عوام کے ذہنوں کی صفائی ہوتی ۔پہلے مسلمانوں کی زبان اردو ہوا کرتی تھی تب اردو کے اخبارات و رسائل کی بہت بڑی تعداد کتابوں کی دکانوں پر نظر آتے تھے ۔تب بہت حد کم از کم مسلمان تو یہ جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے لیکن اب مسلمانوں کی اکثریت بھی اردو سے ناواقف ہو چکی ہے ۔اب عام مسلمان بھی ہندی انگریزی اور دیگر مقامی زبان کو ہی ترجیح دینے لگے ہیں یا پھر یہ سمجھ لیں کہ حکومت اور اس کی مشنری نے ایسا کیا کہ مسلمان اردو سے دور ہوتے گئے ۔انگریزی ،ہندی اور مقامی زبان کے اخبارات و رسائل پڑھتے ہیں ۔ان میں بھی وہی زہر پھیلایا جاتاہے ۔اس کی وجہ سے ان کے ذہن بھی مسموم ہو رہے ہیں ۔دوسرے تو دوسرے اب خود مسلمانوں کا ذہن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ ایسی کمی ہے تب ہی تو اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ایسے حالات میں اب جہاں خود کو اردو سے وابستہ رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ کو دیگر زبانوں میں بھی ڈھالیں ۔لیکن یہ سب صرف زبان ہلادینے سے ہی ہو جائے گا ۔ہمارے پاس علاء الدین کا کوئی چراغ تو ہے نہیں کہ جن آکر ہمارے مسائل حل کردے گا ۔ہم جب اردو کے اخبارات و رسائل کی ہی سرپرستی ہی نہیں کرسکتے تو دیگر زبانوں میں اپنے ذرائع ابلاغ کو کیسے توسیع دے سکتے ہیں ۔ہفتہ روزہ سیرت کن حالات سے گذر کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے وہ بس ہم ہی جانتے ہیں ۔آج تک ایسا کوئی نہیں ملا جو بغیر کسی جد و جہد کے ہمیں اس نوعیت مدد کرے کہ کوئی پریشانی نہ ہو ۔لیکن ہم میں ایساکوئی فکر مند شاید ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو اس کے پاس جذبہ تو ہوگا لیکن وہ مدد کرنے سے معذور ہوگا ۔جو قوم ایک ہفتہ روزہ کی سرپرستی نہیں کرسکتی اس سے کیا توقع کہ وہ کسی اور زبان میں اخبار یا کوئی میڈیا ہائوس قائم کرسکے ۔حال کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پچھلے سولہ برسوں سے جاری ملی گزٹ 2016 کی آخری شمارہ کے بعد اشاعت بند ہو چکی ہے ۔اس سے قبل سید شہاب الدین (اللہ ان کی زندگی میں برکت دے اور انہیں ان کے قوم کے تئیں خلوص زندگی بھر کی جد و جہد کو قبول کرے )کا مسلم انڈیا بھی بند ہو چکا ہے ۔مسلم انڈیا نے مسلمانوں کے تعلق سے اعداد شمار کا جو خزانہ مسلم انڈیا نے جمعہ کیا وہ کسی نے آج تک نہیں کیا ۔اگر ہم اسی طرح بے حسی کا شکار ہے تو پھر صرف باتیں کرنے اور ماتم کناں رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔مسائل تو صرف عمل سے حل ہو ں گے ۔اس لئے حرکت میں آئیں اور عمل کی طرف قدم بڑھائیں ۔
میڈیااور ہم مسلمان
نہال صغیر
مالی خسارے کے ناقابل برداشت بوجھ کے سبب بالآخر ملی گزٹ بند ہوگیا ۔اسے بند کرتے ہوئے ایک انٹر ویو میں اس کے مالک و مدیر نے کہا بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا قوم کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔میڈیا میں اپنی پیٹھ بنانے کیلئے سب سے پہلے تو اس کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے ۔چار سال قبل فلسطینی قائد اسمٰعیل ہانیہ نے کہا تھا کہ آج جنگیں صرف میڈیا کے ذریعہ لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔یہ آج کے دور کی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔غالبا دس یا پندرہ سال قبل مہاتر محمد نے او آئی سی کے اجلاس میں مسلمانوں کے یا مسلم دنیا کا میڈیا کی بات کی تھی ۔غالبا اسی کے بعد الجزیرہ کا قیام عمل میں آیا تھا ۔یہ دو مثالیں ان لوگوں کی دی گئی ہیں جو دو الگ الگ مسلم ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔میڈیا کی کیا اہمیت ہے اسے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ پرامن مذہب اسلام کو دہشت گردی پھیلانے والا مذہب مشہور کروادیا گیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ۔میڈیا کایہ اثر ہے کہ اپنے وطن سے ہزاروں میل کی دور پر واقع عراق و شام میں اپنی آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین آج دہشت گرد قرار دیئے جاچکے نیز اسی میڈیا کے دجالی ذرائع پر یقین کرتے ہوئے ہمارے سیکڑوں علماء روزانہ مجاہدین کو کافر اور دہشت گرد ہونے کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں ۔حالانکہ یہی علمائے دین اکثر معاملات میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ میڈیا جھوٹ بولتا ہے ۔یعنی اپنے مطلب کی بات ہو تو آمنا صدقنا اور اپنے خلاف ہو تو مسترد کردینا اب یہ ہمارے ان بزرگوں کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ان مختصر واقعات و حالات کو بیان کرنے سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ میڈیا کیا ہے اور وہ کیا کرسکتا ہے ؟ایسے میں ہمارا ذرائع ابلاغ نہ ہونا کتنی بڑی بد نصیبی کی بات ہے ۔جس حد تک ممکن ہے اور جتنے بھی ابلاغ کے ذرائع ہمارے پاس ہیں اس سے تو یقینا کچھ نہ کچھ ہماری باتیں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں ۔لیکن ہم نے چونکہ اس کے مقصد اور اہمیت کو دیر میں جانا یا اب بھی ہم اس موڈ میں نہیں ہیں کہ اسے زیادہ اہمیت دیں اس کا انجام یہ ہے کہ ہمارے خلاف جس قدر شدت سے پروپگنڈہ ہے اس کے جواب میں ہمارا ردعمل صفر کے برابر ہے ۔
میڈیا نے عوام کی ذہن سازی کی ہے ان کے ذہن میں وہ بٹھایا ہے جو ان کا مقصد تھا ۔جیسا کہ اوپر کہاگیا کہ انہوں نے عوام کو یہ باور کرادیا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گردہیں ۔حالانکہ سینکڑوں بار یہ اعداد شمار بتایا جاچکا کہ دہشت گرد کے طور پر جتنی بھی تنظیموں کا نام فہرست میں شامل کیا گیا ہے اس میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ ہمارا میڈیا ہوتا تو اس بات کو دن رات اپنی نشریات میں بتاتا جس سے یقینا عوام کے ذہنوں کی صفائی ہوتی ۔پہلے مسلمانوں کی زبان اردو ہوا کرتی تھی تب اردو کے اخبارات و رسائل کی بہت بڑی تعداد کتابوں کی دکانوں پر نظر آتے تھے ۔تب بہت حد کم از کم مسلمان تو یہ جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے لیکن اب مسلمانوں کی اکثریت بھی اردو سے ناواقف ہو چکی ہے ۔اب عام مسلمان بھی ہندی انگریزی اور دیگر مقامی زبان کو ہی ترجیح دینے لگے ہیں یا پھر یہ سمجھ لیں کہ حکومت اور اس کی مشنری نے ایسا کیا کہ مسلمان اردو سے دور ہوتے گئے ۔انگریزی ،ہندی اور مقامی زبان کے اخبارات و رسائل پڑھتے ہیں ۔ان میں بھی وہی زہر پھیلایا جاتاہے ۔اس کی وجہ سے ان کے ذہن بھی مسموم ہو رہے ہیں ۔دوسرے تو دوسرے اب خود مسلمانوں کا ذہن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ ایسی کمی ہے تب ہی تو اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ایسے حالات میں اب جہاں خود کو اردو سے وابستہ رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ کو دیگر زبانوں میں بھی ڈھالیں ۔لیکن یہ سب صرف زبان ہلادینے سے ہی ہو جائے گا ۔ہمارے پاس علاء الدین کا کوئی چراغ تو ہے نہیں کہ جن آکر ہمارے مسائل حل کردے گا ۔ہم جب اردو کے اخبارات و رسائل کی ہی سرپرستی ہی نہیں کرسکتے تو دیگر زبانوں میں اپنے ذرائع ابلاغ کو کیسے توسیع دے سکتے ہیں ۔ہفتہ روزہ سیرت کن حالات سے گذر کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے وہ بس ہم ہی جانتے ہیں ۔آج تک ایسا کوئی نہیں ملا جو بغیر کسی جد و جہد کے ہمیں اس نوعیت مدد کرے کہ کوئی پریشانی نہ ہو ۔لیکن ہم میں ایساکوئی فکر مند شاید ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو اس کے پاس جذبہ تو ہوگا لیکن وہ مدد کرنے سے معذور ہوگا ۔جو قوم ایک ہفتہ روزہ کی سرپرستی نہیں کرسکتی اس سے کیا توقع کہ وہ کسی اور زبان میں اخبار یا کوئی میڈیا ہائوس قائم کرسکے ۔حال کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پچھلے سولہ برسوں سے جاری ملی گزٹ 2016 کی آخری شمارہ کے بعد اشاعت بند ہو چکی ہے ۔اس سے قبل سید شہاب الدین (اللہ ان کی زندگی میں برکت دے اور انہیں ان کے قوم کے تئیں خلوص زندگی بھر کی جد و جہد کو قبول کرے )کا مسلم انڈیا بھی بند ہو چکا ہے ۔مسلم انڈیا نے مسلمانوں کے تعلق سے اعداد شمار کا جو خزانہ مسلم انڈیا نے جمعہ کیا وہ کسی نے آج تک نہیں کیا ۔اگر ہم اسی طرح بے حسی کا شکار ہے تو پھر صرف باتیں کرنے اور ماتم کناں رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔مسائل تو صرف عمل سے حل ہو ں گے ۔اس لئے حرکت میں آئیں اور عمل کی طرف قدم بڑھائیں ۔
0 comments: