چیف جسٹس ٹھاکر صاحب جاتے جاتے مفاد عامہ میں کچھ تاریخی فیصلے کرجائیں!
نہال صغیر
چیف جسٹس آف انڈیا ٹی ایس ٹھاکر 3 ؍جنوری کو اپنی مدت پوری کررہے ہیں اس لئے انہوں نے وزارت انصاف کو اپنے جانشین کے طور پر کھیہر سنگھ کا نام بھیج دیا ہے ۔وطن عزیز میں عدلیہ کو درپیش مسائل میں دو اہم ہیں ۔اول زیر التوا مقدمات اور روز نئے نئے مقدمات کا اضافہ اوردوئم انصاف کے نظام کو چلانے اور اس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے ججوں کی کمی ۔موجودہ چیف جسٹس نے ابھی چند دن قبل ہی یہ کہا تھا کہ عدلیہ میں پانچ سو ججوں کی اسامیاں خالی ہیں ۔ عدلیہ جس کے نام سے ہی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو انصاف کی امید رکھنی چاہئے ۔لیکن کیا ایسا ہی ہے ۔کوئی غریب آدمی سپریم کورٹ تو بہت دور کی بات ہے نچلی عدالتوں میں بھی انصاف پانے کے لئے جانے کی ہمت جٹا پاتاہے ۔وکیلوں کی فیس اور عدالت میں دیگر ملازمین جو مقدمات کو ججوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ان کی مٹھی گرم کئے بنا کوئی کام ممکن نہیں ہے ۔ایک سابق چیف جسٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ موجودہ نظام انصاف میں ایک امیر آدمی وکیلوں کی فوج کھڑی کرکے اپنے لئے فیصلے خرید لیتا ہے جبکہ ایک غریب آدمی موجودہ سسٹم سے انصاف نہیں لے سکتا ۔اس کی ایک دو نہیں سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔شاید عام آدمی کی اسی بے بسی کا احساس تھا جس کی وجہ سے موجودہ چیف جسٹس نے ایک سمینار میں وزیر اعظم مودی کے سامنے آبدیدہ ہو کر عدالتوں اور ان میں انصاف کی صورتحال کو بیان کیا تھا ۔آبدیدہ ہونے پر یاد آیا کہ ہمارے وزیر اعظم بھی اکثر کسی مسئلہ پر تقریر کرتے ہوئے روہانسی ہو جاتے ہیں ۔لیکن وزیر اعظم کا آبدیدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ آئندہ کسی انتخاب میں ان کی پارٹی کو اس کا فائدہ ہو سکتا ہے ۔لیکن جب کوئی چیف جسٹس آبدیدہ ہو کر اپنی بے بسی بیان کرے تو پھر عام آدمی انصاف کے لئے کون سے دروزاے کھٹکھٹائے ،کہاں جائے؟ اس سے حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے ۔ چونکہ جسٹس ٹھاکر 3 ؍جنوری تک اپنے عہدہ پر ہیں ۔اس دوران وہ مفاد عامہ میں کوئی ایسا تاریخی فیصلہ ضرور دے سکتے ہیں جو ان کی بے بسی سے اوپر اٹھ کر ان کی جرات کے اظہار کا ذریعہ بن جائے اور جس سے قانون اور انصاف کی دنیا میں ان کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جائے ۔
0 comments: