International
نہال صغیر
موجودہ دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو شام میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا قتل عام یقیناًسب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔شام کا موجودہ قتل عام انسانوں کی آزادی چھین کر انہیں غلامی کے دور میں واپس لے جانے کی ایک لا حاصل کوشش ہے ۔کوئی حریت پسند جب اپنی آزادی کا پرچم بلند کرتا ہے تو اس کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے آزادی اور بس آزادی ۔دنیا کی تاریخ میں ایسا شاید ہی کوئی واقعہ ہو جب کسی نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ہو اور اس کی بقا اور سلامتی کیلئے ہر قربانی سے گذرنے کا عہد نہ کیا ہو ۔لیکن آزادی کے دشمن اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر وہ ان کی آزادی کو چھین لیں اور ان کے جذبہ حریت کو ختم کردیں ۔لیکن وہ آزادی چھین لینے کوشش کرنے کے لئے آزاد تو ہیں پر کسی کے دل میں نقش جذبہ آزادی کو نہیں مٹا سکتے ۔دنیا کی تاریخ شاہدہے کہ آزادی کے متوالوں نے اس کو حاصل کر ہی لیا ہے ۔شام کے حریت پسندوں کی آزادی کو بھی بشار الاسد نے سلب کرنے کی کوشش کی اس کے لئے اس نے ہر ناجائز کوشش کی یہاں تک کہ اس نے حریت پسندوں سے جنگ کے نام پر پورے ایک شہر کو کھنڈر بنا ڈالا ہے ۔اس کے لئے وہ انسانیت کی حد سے نیچے گر یہ سب کچھ کررہا ہے ۔اس میں اس کے ساتھ ایران اور روس شامل ہیں ۔انسانیت کے خلاف اس جرم کا یہ مثلث پتہ نہیں انسانی برادری سے سزا پاتا ہے کہ نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جو جور و جفا اور قہر انہوں نے عوام پر برپا کیا ہے اور معذور ضعیف خواتین اور بچوں کو جس طرح نشانہ بنایا ہے اس کی سزا انہیں قدرتی طور پر ضرور ملے گی۔ اب وہ سزا کسی بھی طرح ملے ۔دنیا میں اس ظلم اور درندگی سے عوام کے اس طبقہ میں غصہ بڑھتا ہے جو عام طور پر پرامن ہوتا ہے لیکن اپنے سینوں میں طوفان دبائے رہتا ہے ۔اسی طوفان نے انقرہ میں ایک روسی سفیر کو موت کی وادی میں پہنچادیا ۔گرچہ کسی مہذب سوسائٹی میں سفیر کے قتل کو منا سب نہیں کہا جاسکتا ۔اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام عوام میں سے ایک شخص نے کیا ہے ۔یہ وہی غصہ ہے جو عوام کو کھولاتا رہتا ہے ۔یہ جس وقت پھٹتا ہے تو اس کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا ۔حلب کے موجودہ قتل عام پر مسلمانوں کا ایک طبقہ بجائے اس کے کہ وہ بشار ،روس اور ایران کی اس گھناؤنی حرکت کی مذمت کرتا اور مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہوتا اس کے الٹ اس نے ظالموں کی اس درندگی کیلئے جواز پیش کرنا شروع کردیا ۔برا ہو اس مسلکی منافرت کا جس نے ظالم کی مخالفت کی بجائے اس کی حمایت انہیں کھڑا کردیا ۔وہ یمن میں سعودی حملہ کو پیش کررہے ہیں ۔جبکہ یمن اور شام کے معاملہ میں فرق ہے اور ابھی تک یمن میں سعودی مظالم کا کوئی واقعہ سامنے بھی نہیں آیا ہے ۔ہمیں ایسے لوگوں کی ذہنیت پر افسوس ہے ۔اللہ انہیں ہدایت دے تاکہ وہ ظلم کے خلاف مظلوم کے آنسو پوچھنے اور ان کی دلداری کے لئے فرقہ وارانہ تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر آگے آسکیں ۔
حلب کا تقابل یمن سے ،متعصبانہ ذہنیت کی عکاس
نہال صغیر
موجودہ دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو شام میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا قتل عام یقیناًسب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔شام کا موجودہ قتل عام انسانوں کی آزادی چھین کر انہیں غلامی کے دور میں واپس لے جانے کی ایک لا حاصل کوشش ہے ۔کوئی حریت پسند جب اپنی آزادی کا پرچم بلند کرتا ہے تو اس کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے آزادی اور بس آزادی ۔دنیا کی تاریخ میں ایسا شاید ہی کوئی واقعہ ہو جب کسی نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ہو اور اس کی بقا اور سلامتی کیلئے ہر قربانی سے گذرنے کا عہد نہ کیا ہو ۔لیکن آزادی کے دشمن اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر وہ ان کی آزادی کو چھین لیں اور ان کے جذبہ حریت کو ختم کردیں ۔لیکن وہ آزادی چھین لینے کوشش کرنے کے لئے آزاد تو ہیں پر کسی کے دل میں نقش جذبہ آزادی کو نہیں مٹا سکتے ۔دنیا کی تاریخ شاہدہے کہ آزادی کے متوالوں نے اس کو حاصل کر ہی لیا ہے ۔شام کے حریت پسندوں کی آزادی کو بھی بشار الاسد نے سلب کرنے کی کوشش کی اس کے لئے اس نے ہر ناجائز کوشش کی یہاں تک کہ اس نے حریت پسندوں سے جنگ کے نام پر پورے ایک شہر کو کھنڈر بنا ڈالا ہے ۔اس کے لئے وہ انسانیت کی حد سے نیچے گر یہ سب کچھ کررہا ہے ۔اس میں اس کے ساتھ ایران اور روس شامل ہیں ۔انسانیت کے خلاف اس جرم کا یہ مثلث پتہ نہیں انسانی برادری سے سزا پاتا ہے کہ نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جو جور و جفا اور قہر انہوں نے عوام پر برپا کیا ہے اور معذور ضعیف خواتین اور بچوں کو جس طرح نشانہ بنایا ہے اس کی سزا انہیں قدرتی طور پر ضرور ملے گی۔ اب وہ سزا کسی بھی طرح ملے ۔دنیا میں اس ظلم اور درندگی سے عوام کے اس طبقہ میں غصہ بڑھتا ہے جو عام طور پر پرامن ہوتا ہے لیکن اپنے سینوں میں طوفان دبائے رہتا ہے ۔اسی طوفان نے انقرہ میں ایک روسی سفیر کو موت کی وادی میں پہنچادیا ۔گرچہ کسی مہذب سوسائٹی میں سفیر کے قتل کو منا سب نہیں کہا جاسکتا ۔اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام عوام میں سے ایک شخص نے کیا ہے ۔یہ وہی غصہ ہے جو عوام کو کھولاتا رہتا ہے ۔یہ جس وقت پھٹتا ہے تو اس کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا ۔حلب کے موجودہ قتل عام پر مسلمانوں کا ایک طبقہ بجائے اس کے کہ وہ بشار ،روس اور ایران کی اس گھناؤنی حرکت کی مذمت کرتا اور مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہوتا اس کے الٹ اس نے ظالموں کی اس درندگی کیلئے جواز پیش کرنا شروع کردیا ۔برا ہو اس مسلکی منافرت کا جس نے ظالم کی مخالفت کی بجائے اس کی حمایت انہیں کھڑا کردیا ۔وہ یمن میں سعودی حملہ کو پیش کررہے ہیں ۔جبکہ یمن اور شام کے معاملہ میں فرق ہے اور ابھی تک یمن میں سعودی مظالم کا کوئی واقعہ سامنے بھی نہیں آیا ہے ۔ہمیں ایسے لوگوں کی ذہنیت پر افسوس ہے ۔اللہ انہیں ہدایت دے تاکہ وہ ظلم کے خلاف مظلوم کے آنسو پوچھنے اور ان کی دلداری کے لئے فرقہ وارانہ تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر آگے آسکیں ۔
0 comments: