International
حلب عہد رفتہ کی تاریخ میں آئینہ سازی اور شیشہ گری کی صنعت میں پوری دنیا میں مشہور تھا دنیا کے امراء اور اصحاب ثروت اپنے عیش کدوں شبستانوں اور نگارخانوں کے لئے حلب کے آئینے اورجام ومینا اور دیگر ظروف استعمال کرتے تھے، اقبال نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ’’ ز خاک تیرہ دروں تابشیشہ حلبی ‘‘ آج شیشہ حلب خون انسانی سے لبریز ہے جسے ایرانیوں اور روسیوں نے بشارجیسے ظالم اور خودسر کی حمایت میں پانی سے زیادہ ارزاں کردیا ہے ۔خون انسانی وہاں سستا اور ہر طرف بہتا ہے ،دنیا کے ملکوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان طاقتوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ حلب میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہورہی ہے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش اور کشاکش سے گذر رہے ہیں،کئی لاکھ انسانوں نے اپنی متاع جاں قربان کردی ہے کھلے آسمان سے معصوم شہریوں پر بمباری اور ٹینکوں سے گو لہ باری اور بکتر بند گاڑیوں سے آتش باری کے نتیجہ میں سیکڑوںکئی منزلہ عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں اور مال ومتاع خاکستر ہو رہا ہے۔کسی گھرسے کوئی آواز آتی ہے تو آہ وکراہ کی ، زخمیوں کے فریاد کی، نالہ وشیون کی ،کوئی اگرکسی شکستہ اور مسمار شدہ گھر سے زخمی حالت میں کسی کی مدد سے بچالیا جاتا ہے تو طبی مدد کے آتے آتے اس کا تار نفس ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی اس سیلاب بلا سے اور موت کے طوفان سے زندہ سلامت بچا ہوا ہے تو وہ بھی اپنی زندگی سے مایوس ہے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو کہتا ہے کہ ’’الموت قادم الینا ‘‘موت جو مقدر ہے بس اس کے آنے کی دیر ہے ، خو ن کے دریا میں کشتی جاں کو سلامت لے جانا مشکل ہے، ہمارے اہل وعیال موت کے منہ میں جاچکے اور ہم بھی اب اس خراب خانہ حیات سے جانے والے ہیں یہ میرا آخری بیان ہے اس کے بعد تم میری آواز کبھی نہیں سن سکو گے ‘‘ اور صرف اتنا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے،حلب کا شہر نگاراں گنج شہیداں اور مقامات آہ وفغاں سے تبدیل ہوگیا ہے وہاںعصمتیں تار تار ہوگئی ہیں، وہاںکے ایک ستم رسیدہ شخص نے دنیا کے علماء سے فتوی پوچھا ہے کہ‘‘ ایران اور حزب اللہ اور بشار کے جابر و قاہراور فاسق وفاجر فوجی ہمارے گھروں میں گھس کرزبردستی ہماری بیٹیوں کی عصمت ریزی کررہے ہیں اورہم بے بس ہیں کیا اس ننگ وعار سے بچنے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو مار ڈالیں ؟‘‘ ملک شام میں موت کی بھیانک آندھی چل رہی ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے اور مذمت کے کچھالفاظ بول کر اور لب ہلاکر رہ جاتی ہے۔دنیا کی تاریخ میں چشم فلک نے جور وستم کے ایسے منظر کم دیکھے ہیں ،لوگوں کے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ نہیں ہے ۔پینے کے لئے قطرہ آب نہیں ہے،سخت سردی اورزمستانی ہوا میں ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں سر پر سائبان نہیں ہے، کوڑے کے ڈھیر سے وہ اپنی غذا حاصل کررے ہیں ،تاریخ میں ایسا واقعہ پیش نہیںآیا کہ پورا شہر غلاظت کے ڈھیر سے اپنی غذا چن رہا ہو۔اسپتالوں میں دوائیں نہیں بے ہوشی کی دوا کے بغیر ڈاکٹر آپریشن کرنے پر مجبور ، لوگ اپنے مسمار شدہ گھروں کو چھوڑ کر جار ہے ہیں لا معلوم منزل کی طرف اور نامعلوم مستقبل کی طرف ، پا بجولاں لرزاں وترساں با دیدہ گریاں با قلب بریاں ، سامان بدست ، طفل بردوش ۔
شام کا جو منظر نامہ ہے اس سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے دنیا کا ضمیر اگر بیدار نہیں ہوتا تواس کو دہراتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ کوئی قند مکرر نہیں جس کا بیان کرنا پر لطف ہو۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا حل تلاش کیا جائے ۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اصل مجرم پڑوس کی وہ عرب مسلم حکومتیں ہیں ان کو اللہ نے سیال سونے کا سمندر بخشا تھا اور انہوں نے اس کی قدر نہیں کی ۔ قرآن مجید نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جہاد کے لئے اور مسلمانوںکی داد رسی کے لئے حربی اور عسکری تیار ی کا واضح حکم دیا تھا ،واعدوا لہم ماا ستطعتمیہ قرآن کی معروف اور مشہور آیت ہے ،اپنی دولت سے عیش وعشرت میں ڈوبنے کے بجائے ان عربوں کو کارخانے قائم کرنے تھے ، صنعتی انقلاب لانا تھا، اسلحہ سازی کرنی تھی،راکٹ بنانے تھے جنگی جہاز وں کی تیاری کے لئے منصوبے تیار کرنے تھے ۔ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ان کی اپنی تیار کردہ ہوتیں وہ اسلحہ تیار کرتے مقابلہ کے لئے بم بنائے جاتے ، فضائل جہاد پر کتابیں لکھی جاتیں اور ملک میںاور فوج میں تقسیم کی جاتیں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا کہ کوئی ان پر ظلم نہ کرسکے اور کوئی ان کے حقوق پر دست درازی نہ کر سکے کوئی ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ نہ کر سکے جیسا کہ فلسطین میں کیا گیا ،اس وقت مسجد اقصی ، قرآن کی آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوسروں کے قبضہ میں ہے۔یہ عرب حکمراں قیامت کے دن باز پرس سے بچ نہیں سکتے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب سندھ میں قزاقوں کی جیل میں قیداور محبوس ایک ستم رسیدہ لڑکی نے بصرہ کے گونر حجاج بن یوسف سے فریاد کی اور یہ لکھ بھیجا کہ ’’ یہاں بیشمار بیوائیں اور یتیم بچے آپ کی مدد کے منتظر ہیں اور آپ کیسے حاکم ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے اہل ایمان پر ظلم ڈھایا جارہا ہے اور آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔‘‘ حجاج بن یوسف کا بیان ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ’’اس بیان کو پڑھ کر میرے دن کا سکون اور رات کی نیند ختم ہو گئی ، مجھے اس فکر نے کھانے پینے سے روک رکھا ہے‘‘ پھر تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس نے دنیاکے نقشہ میں جو اس کے سامنے تھا ہندوستان کی جگہ پر اپنا خنجر پیوست کردیا ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اس نے سندھ پر حملہ کا فیصلہ کرلیا ہے اس نے سندھ کے راجہ داہر کو پہلے خط لکھا کہ مسلمان عورتیں اور بچے جو اس کی قید میں ہیں فورا ًرہا کردے اور جب راجہ داہر نے انکار کیا اور یہ لکھا کہ بحری قزاقوں نے یہ حرکت کی ہے اور ان پر میرا کوئی بس نہیں ہے تو اس نے چڑھائی کا ارادہ کیا اور سترہ سالہ سالار محمد بن قاسم کی سرکردگی میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی اجازت سے اس نے فوج بھیجی ۔
ایک بے بس لڑکی کی فریاد سن کر حجاج بن یوسف کی نیند اڑگئی تھی ،آخر شام کی ہزاروں عورتوں اور بچوں کی آہ اور کراہ مسلم حکمرانوں کی نیند کیوں نہیں ختم کرتی ہے وہ کیوں اپنے شبستانوں میں چین کی نیند سوتے ہیں کیوں ان کا خون سردہو گیا ہے۔کم سرمایہ سے پوروپ میں صنعتی انقلاب آیا تھا ، سیم وزرکی ریل پیل کے باوجودعرب حکمراں کیوں اپنے ملک کو طاقتور بنانے پر اپنی توجہ مرکوز نہیںکرتے ہیں، وہ کیوں صنعتی انقلاب لانے پر اپنی پوری توجہ مبذول نہیں کرتے؟ اس کے لئے پورے عالم اسلام سے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان کے جوہر قابل کو کیوں نہیں اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا یہ باتیں انہیںحکمرانی کے لئے نااہل بے شعورکم حوصلہ نہیں ثابت کرتی ہیں؟ عیش وعشرت میں مشغول شام کے پڑوسی عرب اسلامی ملکوں میں یہ جرات نہیں کہ شام کے مظلوموں کو ظلم سے بچا سکیں اوران کی داد رسی کرسکیں ، دولت کے نشہ میں چور خلیجی حکومتوں کو یہ ہمت نہیں کہ مسجد اقصی کو وا گذار کراسکیں ، آرام طلب عیش کوش عرب حکمرانوں کو یہ توفیق نہیںکہ اسرائیل کو بے دخل کر کے اصل فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین پر بسائیں ، افغانستان اور عراق کے دلخراش حادثے گذر گئے موج خوں سر پر سے گذر گئی ، لیکن ان حکرانوں کی سرمستیاں اور خرمستیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ۔ دنیا میں اسلام نشانہ پر ہواور ہر طرف مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو ان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہو ان کی عمارتیں گرائی جارہی ہوں ایسی حالت میں اگر اسلامی غیرت وحمیت کی رمق بھی باقی ہو تو چین کی نیند سونا مشکل ہوگا، ذرا سوچئے کہ اگر یہ عرب ملک بھی امریکہ اور روس اور مغربی ملکوں کی طرح طاقتور ہوتے تو شام میںمدداور مداخلت کی پوزیشن میں ہوتے یا نہیں ہوتے ؟روس شام سے کتنے زیادہ فاصلہ پر ہے لیکن روس کی مدد سے بشار الاسد نے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے۔ عرب حکمراں یا تو ملک میں صنعتی انقلاب لائیں اسلخہ سازی کی جانب توجہ دیں اور صرف وہ چیزیں استعمال کریں جو ان کا ملک خود تیار کرے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک اسلام کی کھوئی ہوئی حرمت کی بازیابی نہ ہو جائے یا پھر اقتدار کی کرسی اہل اور با صلاحیت لوگوں کے حوالہ کردیں ۔ افسوس اس وقت ایک ترکی بچا ہے جوہروقت بڑی طاقتوں کے نشانہ پر ہے ،شام میں اس وقت جو کچھ ہوا ہے خلیجی اور غیر خلیجی حکمران اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ، انہوں نے بے پناہ دولت کے باوجود صنعتی انقلاب لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کی کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ انہوں نے اپنے عوام کو اظہار خیال کی وہ آزادی دی جو اسلام نے عطا کی تھی انہوں نے اپنے عوام کو بے زبان جانوروں کی طرح بنا کر رکھا ہے ، اوروہ خود ہوس رانی اور عیش کوشی میں مگن رہے ۔اور دنیا مسلمان ملکوں کو پامال کرتی رہی ،روندتی رہی ۔اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتی رہی وہ سب کچھ کر گذرے اور عرب مسلم حکمراںخاموشی کے ساتھ صرف تماشہ دیکھتے رہے یاصرف مذمت کی تجویز پاس کرتے رہے اور اقوام امتحدہ سے اپیل کرتے رہے۔انہوں نے تارکین وطن کو پناہ تک نہیں دی ان میں بہت سے لوگوں نے بے پناہی کے عالم میںسمندری راستہ سے ربر کی کشتیوں پر یوروپ کے ملکوں کا رخ کیا، نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی، یہ امان یوروپ کے ملکوں میںملی ، جہاں اب عیسائی مشنریاں ان کو عیسائی بنانے میں مصروف ہیں ۔
عرب مسلم حکمرانوں کے بعد سب سے زیادہ ذمہ داری عالم اسلام کے علماء اور مفکرین پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے مسلم عرب حاکموں کی رہنمائی کیوں نہیں کی ۔ مجھے علم ہے کہ عرب ملک کے اندروہاں کے جن مفکرین نے حکومت کی غلط پالیسی پرزبان کھولی ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ ان کو نظر بند کردیا گیا ۔لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہاں کے علماء کی اکثریت نہ صرف خاموش رہی بلکہ اس نے حکومت کے غلط فیصلوں کی تائید کرڈالی ان تائید کرنے والوں میں مفتی بھی ہیں قاضی بھی ہیں عالم بھی ہیں اور امام بھی ہیں۔ لیکن ان ملکوںکے باہر کے علماء کو کیا ہوا کہ وہ اس اہم موضوع پر نہ لکھتے ہیں نہ بولتے ہیں، انہوں نے اپنے لبوں پر سکوت کی مہر لگا ڈالی ہے اور جب وہ ان ملکوں کی کسی تنظیم کی کانفرنس میں جاتے ہیں تو صرف اپنا کشکول گدائی ساتھ لے کر جاتے ہیں اور اپنے اداروں کی تعمیر کے منصوبے پیش کرتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
بر صغیر خود ایک چھوٹا عالم اسلام ہے ان میں کتنے عالم ہیں اور کتنے مسلم تنظیموں کے سربراہ ہیں جنہوں نے عرب حکمرانوں کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہو؟ شاید کسی نے نرمی کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی ۔جب وہ رہبری نہیں کریں گے تو پھر کون رہبری کرے گا ۔عرب مسلم حکمرانوں پر اخبارات میں جو عام طور پر خوگر حمد ہوتے ہیں اورسفارت خانوں کے ذریعہ نگاہ لطف و کرم کے امیدوار ہوتے ہیں کبھی کبھی تنقیدیں بھی شائع ہوتی ہیں۔ لیکن یہ سفارت خانے جہاں تمام اخبارات آتے ہیں اور مترجمین بھی ہوتے ہیں ان تنقیدوں کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے اور متعلقہ ملکوں کے وزارت خارجہ میںاس کی رپورٹ نہیں کرتے ہیں وہ صرف قصیدہ خوانیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور قصیدہ خواں اخبارات کوبطور رشوت مراحم خسروانہ سے نوازتے رہتے ہیں۔
ملک شام کے حکمراں کا ظلم سب سے سوا ہے اور اس ظلم کو سب سے زیادہ مدد اور طاقت ایران کی نام نہاد اسلامی حکومت سے ملتی رہی ، ایران کا یہ وہ جرم ہے جسے تاریخ معاف نہیں کر سکے گی ، ایران کے بے شمار شیعی مجتہدعلماء الجزیرہ ٹی وی پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ شام کے سلسلہ میں ایرانی حکومت کا موقف امام حسین کے روح جہاد کے مغایر ہے یہ یزید کی پیروی اور ہمنوائی ہے لیکن ان کو اپنے ملک کے اندر اظہار خیال کی آزادی حاصل نہیں ہے، ایرانی لابی کے وہ ہندوستانی صحافی بھی مجرم ہیں جو سطور میں اور کبھی بین السطور میں بشار الاسد کی حمایت کرتے ہیں اور جب ظلم کی حمایت سے دل سیاہ ہوجاتا ہے تو ہر ظلم کی حمایت ان کا شیوہ بن جاتا ہے وہ اس ظلم کے بھی طرف دار اور حامی بن جاتے ہیں جسے حکومت جمہوریت کے دعوے کے باوجود غیر جمہوری طور پر ذاکر نائک پر روا رکھتی ہے ۔ ایرانی لابی کے ایسے تمام صحافیوں کا اور ان کے اخبارات کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
بشار الاسد اور اس کے باپ حافظ الاسددونوں نے شام میں اسلام پسندوں کواور جمہوریت پسندوں کو ظلم کا نشانہ بنایاتھا،اسلام نے ظلم کے خلاف کھڑاہونا سکھایا ہے جس کی ابتدا واقعہ کربلا سے ہوتی ہے ۔اس لئے بشار کی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا درست ہے ، دنیا میں مسلمانوں نے طویل عرصہ تک حکومت کی ہے،ہمیشہ انصاف اور رواداری اسلام کی تاریخ کا طرہ امتیاز رہاہے ، اسلام کا مقصد جنگ انصاف کی بنیادوں کو مضبوط کرنا لیکن حلب کی جنگ میں بشار اور ایران اور روس کے ہاتھوں جو کچھ ہوا اور ہورہاہے وہ انسانیت کا قتل ہے اور اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے اوریہ دردمند دلوںکے لئے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ ہے ۔
تھمے کیا دیدہ گریاں ’’ حلب‘‘ کی نوحہ خوانی میں
عبادت چشم مؤمن کی ہے ہر دم با وضو رہنا
پُرہے مئے خوں رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
حلب عہد رفتہ کی تاریخ میں آئینہ سازی اور شیشہ گری کی صنعت میں پوری دنیا میں مشہور تھا دنیا کے امراء اور اصحاب ثروت اپنے عیش کدوں شبستانوں اور نگارخانوں کے لئے حلب کے آئینے اورجام ومینا اور دیگر ظروف استعمال کرتے تھے، اقبال نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ’’ ز خاک تیرہ دروں تابشیشہ حلبی ‘‘ آج شیشہ حلب خون انسانی سے لبریز ہے جسے ایرانیوں اور روسیوں نے بشارجیسے ظالم اور خودسر کی حمایت میں پانی سے زیادہ ارزاں کردیا ہے ۔خون انسانی وہاں سستا اور ہر طرف بہتا ہے ،دنیا کے ملکوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان طاقتوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ حلب میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہورہی ہے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش اور کشاکش سے گذر رہے ہیں،کئی لاکھ انسانوں نے اپنی متاع جاں قربان کردی ہے کھلے آسمان سے معصوم شہریوں پر بمباری اور ٹینکوں سے گو لہ باری اور بکتر بند گاڑیوں سے آتش باری کے نتیجہ میں سیکڑوںکئی منزلہ عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں اور مال ومتاع خاکستر ہو رہا ہے۔کسی گھرسے کوئی آواز آتی ہے تو آہ وکراہ کی ، زخمیوں کے فریاد کی، نالہ وشیون کی ،کوئی اگرکسی شکستہ اور مسمار شدہ گھر سے زخمی حالت میں کسی کی مدد سے بچالیا جاتا ہے تو طبی مدد کے آتے آتے اس کا تار نفس ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی اس سیلاب بلا سے اور موت کے طوفان سے زندہ سلامت بچا ہوا ہے تو وہ بھی اپنی زندگی سے مایوس ہے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو کہتا ہے کہ ’’الموت قادم الینا ‘‘موت جو مقدر ہے بس اس کے آنے کی دیر ہے ، خو ن کے دریا میں کشتی جاں کو سلامت لے جانا مشکل ہے، ہمارے اہل وعیال موت کے منہ میں جاچکے اور ہم بھی اب اس خراب خانہ حیات سے جانے والے ہیں یہ میرا آخری بیان ہے اس کے بعد تم میری آواز کبھی نہیں سن سکو گے ‘‘ اور صرف اتنا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے،حلب کا شہر نگاراں گنج شہیداں اور مقامات آہ وفغاں سے تبدیل ہوگیا ہے وہاںعصمتیں تار تار ہوگئی ہیں، وہاںکے ایک ستم رسیدہ شخص نے دنیا کے علماء سے فتوی پوچھا ہے کہ‘‘ ایران اور حزب اللہ اور بشار کے جابر و قاہراور فاسق وفاجر فوجی ہمارے گھروں میں گھس کرزبردستی ہماری بیٹیوں کی عصمت ریزی کررہے ہیں اورہم بے بس ہیں کیا اس ننگ وعار سے بچنے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو مار ڈالیں ؟‘‘ ملک شام میں موت کی بھیانک آندھی چل رہی ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے اور مذمت کے کچھالفاظ بول کر اور لب ہلاکر رہ جاتی ہے۔دنیا کی تاریخ میں چشم فلک نے جور وستم کے ایسے منظر کم دیکھے ہیں ،لوگوں کے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ نہیں ہے ۔پینے کے لئے قطرہ آب نہیں ہے،سخت سردی اورزمستانی ہوا میں ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں سر پر سائبان نہیں ہے، کوڑے کے ڈھیر سے وہ اپنی غذا حاصل کررے ہیں ،تاریخ میں ایسا واقعہ پیش نہیںآیا کہ پورا شہر غلاظت کے ڈھیر سے اپنی غذا چن رہا ہو۔اسپتالوں میں دوائیں نہیں بے ہوشی کی دوا کے بغیر ڈاکٹر آپریشن کرنے پر مجبور ، لوگ اپنے مسمار شدہ گھروں کو چھوڑ کر جار ہے ہیں لا معلوم منزل کی طرف اور نامعلوم مستقبل کی طرف ، پا بجولاں لرزاں وترساں با دیدہ گریاں با قلب بریاں ، سامان بدست ، طفل بردوش ۔
شام کا جو منظر نامہ ہے اس سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے دنیا کا ضمیر اگر بیدار نہیں ہوتا تواس کو دہراتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ کوئی قند مکرر نہیں جس کا بیان کرنا پر لطف ہو۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا حل تلاش کیا جائے ۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اصل مجرم پڑوس کی وہ عرب مسلم حکومتیں ہیں ان کو اللہ نے سیال سونے کا سمندر بخشا تھا اور انہوں نے اس کی قدر نہیں کی ۔ قرآن مجید نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جہاد کے لئے اور مسلمانوںکی داد رسی کے لئے حربی اور عسکری تیار ی کا واضح حکم دیا تھا ،واعدوا لہم ماا ستطعتمیہ قرآن کی معروف اور مشہور آیت ہے ،اپنی دولت سے عیش وعشرت میں ڈوبنے کے بجائے ان عربوں کو کارخانے قائم کرنے تھے ، صنعتی انقلاب لانا تھا، اسلحہ سازی کرنی تھی،راکٹ بنانے تھے جنگی جہاز وں کی تیاری کے لئے منصوبے تیار کرنے تھے ۔ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ان کی اپنی تیار کردہ ہوتیں وہ اسلحہ تیار کرتے مقابلہ کے لئے بم بنائے جاتے ، فضائل جہاد پر کتابیں لکھی جاتیں اور ملک میںاور فوج میں تقسیم کی جاتیں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا کہ کوئی ان پر ظلم نہ کرسکے اور کوئی ان کے حقوق پر دست درازی نہ کر سکے کوئی ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ نہ کر سکے جیسا کہ فلسطین میں کیا گیا ،اس وقت مسجد اقصی ، قرآن کی آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوسروں کے قبضہ میں ہے۔یہ عرب حکمراں قیامت کے دن باز پرس سے بچ نہیں سکتے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب سندھ میں قزاقوں کی جیل میں قیداور محبوس ایک ستم رسیدہ لڑکی نے بصرہ کے گونر حجاج بن یوسف سے فریاد کی اور یہ لکھ بھیجا کہ ’’ یہاں بیشمار بیوائیں اور یتیم بچے آپ کی مدد کے منتظر ہیں اور آپ کیسے حاکم ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے اہل ایمان پر ظلم ڈھایا جارہا ہے اور آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔‘‘ حجاج بن یوسف کا بیان ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ’’اس بیان کو پڑھ کر میرے دن کا سکون اور رات کی نیند ختم ہو گئی ، مجھے اس فکر نے کھانے پینے سے روک رکھا ہے‘‘ پھر تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس نے دنیاکے نقشہ میں جو اس کے سامنے تھا ہندوستان کی جگہ پر اپنا خنجر پیوست کردیا ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اس نے سندھ پر حملہ کا فیصلہ کرلیا ہے اس نے سندھ کے راجہ داہر کو پہلے خط لکھا کہ مسلمان عورتیں اور بچے جو اس کی قید میں ہیں فورا ًرہا کردے اور جب راجہ داہر نے انکار کیا اور یہ لکھا کہ بحری قزاقوں نے یہ حرکت کی ہے اور ان پر میرا کوئی بس نہیں ہے تو اس نے چڑھائی کا ارادہ کیا اور سترہ سالہ سالار محمد بن قاسم کی سرکردگی میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی اجازت سے اس نے فوج بھیجی ۔
ایک بے بس لڑکی کی فریاد سن کر حجاج بن یوسف کی نیند اڑگئی تھی ،آخر شام کی ہزاروں عورتوں اور بچوں کی آہ اور کراہ مسلم حکمرانوں کی نیند کیوں نہیں ختم کرتی ہے وہ کیوں اپنے شبستانوں میں چین کی نیند سوتے ہیں کیوں ان کا خون سردہو گیا ہے۔کم سرمایہ سے پوروپ میں صنعتی انقلاب آیا تھا ، سیم وزرکی ریل پیل کے باوجودعرب حکمراں کیوں اپنے ملک کو طاقتور بنانے پر اپنی توجہ مرکوز نہیںکرتے ہیں، وہ کیوں صنعتی انقلاب لانے پر اپنی پوری توجہ مبذول نہیں کرتے؟ اس کے لئے پورے عالم اسلام سے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان کے جوہر قابل کو کیوں نہیں اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا یہ باتیں انہیںحکمرانی کے لئے نااہل بے شعورکم حوصلہ نہیں ثابت کرتی ہیں؟ عیش وعشرت میں مشغول شام کے پڑوسی عرب اسلامی ملکوں میں یہ جرات نہیں کہ شام کے مظلوموں کو ظلم سے بچا سکیں اوران کی داد رسی کرسکیں ، دولت کے نشہ میں چور خلیجی حکومتوں کو یہ ہمت نہیں کہ مسجد اقصی کو وا گذار کراسکیں ، آرام طلب عیش کوش عرب حکمرانوں کو یہ توفیق نہیںکہ اسرائیل کو بے دخل کر کے اصل فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین پر بسائیں ، افغانستان اور عراق کے دلخراش حادثے گذر گئے موج خوں سر پر سے گذر گئی ، لیکن ان حکرانوں کی سرمستیاں اور خرمستیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ۔ دنیا میں اسلام نشانہ پر ہواور ہر طرف مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو ان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہو ان کی عمارتیں گرائی جارہی ہوں ایسی حالت میں اگر اسلامی غیرت وحمیت کی رمق بھی باقی ہو تو چین کی نیند سونا مشکل ہوگا، ذرا سوچئے کہ اگر یہ عرب ملک بھی امریکہ اور روس اور مغربی ملکوں کی طرح طاقتور ہوتے تو شام میںمدداور مداخلت کی پوزیشن میں ہوتے یا نہیں ہوتے ؟روس شام سے کتنے زیادہ فاصلہ پر ہے لیکن روس کی مدد سے بشار الاسد نے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے۔ عرب حکمراں یا تو ملک میں صنعتی انقلاب لائیں اسلخہ سازی کی جانب توجہ دیں اور صرف وہ چیزیں استعمال کریں جو ان کا ملک خود تیار کرے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک اسلام کی کھوئی ہوئی حرمت کی بازیابی نہ ہو جائے یا پھر اقتدار کی کرسی اہل اور با صلاحیت لوگوں کے حوالہ کردیں ۔ افسوس اس وقت ایک ترکی بچا ہے جوہروقت بڑی طاقتوں کے نشانہ پر ہے ،شام میں اس وقت جو کچھ ہوا ہے خلیجی اور غیر خلیجی حکمران اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ، انہوں نے بے پناہ دولت کے باوجود صنعتی انقلاب لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کی کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ انہوں نے اپنے عوام کو اظہار خیال کی وہ آزادی دی جو اسلام نے عطا کی تھی انہوں نے اپنے عوام کو بے زبان جانوروں کی طرح بنا کر رکھا ہے ، اوروہ خود ہوس رانی اور عیش کوشی میں مگن رہے ۔اور دنیا مسلمان ملکوں کو پامال کرتی رہی ،روندتی رہی ۔اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتی رہی وہ سب کچھ کر گذرے اور عرب مسلم حکمراںخاموشی کے ساتھ صرف تماشہ دیکھتے رہے یاصرف مذمت کی تجویز پاس کرتے رہے اور اقوام امتحدہ سے اپیل کرتے رہے۔انہوں نے تارکین وطن کو پناہ تک نہیں دی ان میں بہت سے لوگوں نے بے پناہی کے عالم میںسمندری راستہ سے ربر کی کشتیوں پر یوروپ کے ملکوں کا رخ کیا، نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی، یہ امان یوروپ کے ملکوں میںملی ، جہاں اب عیسائی مشنریاں ان کو عیسائی بنانے میں مصروف ہیں ۔
عرب مسلم حکمرانوں کے بعد سب سے زیادہ ذمہ داری عالم اسلام کے علماء اور مفکرین پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے مسلم عرب حاکموں کی رہنمائی کیوں نہیں کی ۔ مجھے علم ہے کہ عرب ملک کے اندروہاں کے جن مفکرین نے حکومت کی غلط پالیسی پرزبان کھولی ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ ان کو نظر بند کردیا گیا ۔لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہاں کے علماء کی اکثریت نہ صرف خاموش رہی بلکہ اس نے حکومت کے غلط فیصلوں کی تائید کرڈالی ان تائید کرنے والوں میں مفتی بھی ہیں قاضی بھی ہیں عالم بھی ہیں اور امام بھی ہیں۔ لیکن ان ملکوںکے باہر کے علماء کو کیا ہوا کہ وہ اس اہم موضوع پر نہ لکھتے ہیں نہ بولتے ہیں، انہوں نے اپنے لبوں پر سکوت کی مہر لگا ڈالی ہے اور جب وہ ان ملکوں کی کسی تنظیم کی کانفرنس میں جاتے ہیں تو صرف اپنا کشکول گدائی ساتھ لے کر جاتے ہیں اور اپنے اداروں کی تعمیر کے منصوبے پیش کرتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
بر صغیر خود ایک چھوٹا عالم اسلام ہے ان میں کتنے عالم ہیں اور کتنے مسلم تنظیموں کے سربراہ ہیں جنہوں نے عرب حکمرانوں کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہو؟ شاید کسی نے نرمی کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی ۔جب وہ رہبری نہیں کریں گے تو پھر کون رہبری کرے گا ۔عرب مسلم حکمرانوں پر اخبارات میں جو عام طور پر خوگر حمد ہوتے ہیں اورسفارت خانوں کے ذریعہ نگاہ لطف و کرم کے امیدوار ہوتے ہیں کبھی کبھی تنقیدیں بھی شائع ہوتی ہیں۔ لیکن یہ سفارت خانے جہاں تمام اخبارات آتے ہیں اور مترجمین بھی ہوتے ہیں ان تنقیدوں کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے اور متعلقہ ملکوں کے وزارت خارجہ میںاس کی رپورٹ نہیں کرتے ہیں وہ صرف قصیدہ خوانیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور قصیدہ خواں اخبارات کوبطور رشوت مراحم خسروانہ سے نوازتے رہتے ہیں۔
ملک شام کے حکمراں کا ظلم سب سے سوا ہے اور اس ظلم کو سب سے زیادہ مدد اور طاقت ایران کی نام نہاد اسلامی حکومت سے ملتی رہی ، ایران کا یہ وہ جرم ہے جسے تاریخ معاف نہیں کر سکے گی ، ایران کے بے شمار شیعی مجتہدعلماء الجزیرہ ٹی وی پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ شام کے سلسلہ میں ایرانی حکومت کا موقف امام حسین کے روح جہاد کے مغایر ہے یہ یزید کی پیروی اور ہمنوائی ہے لیکن ان کو اپنے ملک کے اندر اظہار خیال کی آزادی حاصل نہیں ہے، ایرانی لابی کے وہ ہندوستانی صحافی بھی مجرم ہیں جو سطور میں اور کبھی بین السطور میں بشار الاسد کی حمایت کرتے ہیں اور جب ظلم کی حمایت سے دل سیاہ ہوجاتا ہے تو ہر ظلم کی حمایت ان کا شیوہ بن جاتا ہے وہ اس ظلم کے بھی طرف دار اور حامی بن جاتے ہیں جسے حکومت جمہوریت کے دعوے کے باوجود غیر جمہوری طور پر ذاکر نائک پر روا رکھتی ہے ۔ ایرانی لابی کے ایسے تمام صحافیوں کا اور ان کے اخبارات کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
بشار الاسد اور اس کے باپ حافظ الاسددونوں نے شام میں اسلام پسندوں کواور جمہوریت پسندوں کو ظلم کا نشانہ بنایاتھا،اسلام نے ظلم کے خلاف کھڑاہونا سکھایا ہے جس کی ابتدا واقعہ کربلا سے ہوتی ہے ۔اس لئے بشار کی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا درست ہے ، دنیا میں مسلمانوں نے طویل عرصہ تک حکومت کی ہے،ہمیشہ انصاف اور رواداری اسلام کی تاریخ کا طرہ امتیاز رہاہے ، اسلام کا مقصد جنگ انصاف کی بنیادوں کو مضبوط کرنا لیکن حلب کی جنگ میں بشار اور ایران اور روس کے ہاتھوں جو کچھ ہوا اور ہورہاہے وہ انسانیت کا قتل ہے اور اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے اوریہ دردمند دلوںکے لئے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ ہے ۔
تھمے کیا دیدہ گریاں ’’ حلب‘‘ کی نوحہ خوانی میں
عبادت چشم مؤمن کی ہے ہر دم با وضو رہنا
0 comments: