جیسی رُوح ویسے فرشتے
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
مثل مشہور ہے ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘ چنانچہ کہنے والے کہتے ہیں کہ قوم خود جیسی ہوتی ہے اسے حکمراں بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔ کچھ لوگ اس سے آگے جاتے ہیں اور کہتے ہیں تم حکمرانوں کی برائیاں کیا کرتے ہو قوم کی حالت تو دیکھو، کون سی برائی ہے جو اس میں نہیں ہے! حکمراں بدلنے ہیں تو ہمیں پہلے قوم کو بدلنا ہوگا۔
یہ انسانی تاریخ کا ایک اہم سوا ل ہے کہ قوم رہنما پیدا کرتی ہے یا رہنما قوم کو قوم بناتا ہے؟ اور اس سوال کا سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ تاریخ میں دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔ کبھی قوم اور اس کے تاریخی تقاضے رہنما کو جنم دیتے ہیں او رکبھی رہنما تاریخ کے تقاضوں کو روشن کرکے قوم تشکیل دیتا ہے۔ البتہ تاریخ کی اکثر مثالیں بتاتی ہیں کہ جیسے رہنما یا حاکم ہوتے ہیں قومیں بھی ویسی ہی ہوجاتی ہیں۔
ہمارا ملک ایک مہان ملک ہے، جو لوگ اس کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اس فلسفے سے بھی واقف ہیں کہ ’’قوم رہنما پیدا کرتی ہے یا رہنما قوم کو قوم بناتا ہے۔‘‘ زیادہ دور کیوں جائیں آپ تحریک آزادی سے آزاد ہندوستان تک کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیں، اندازہ ہوجائے گا کہ آزادی کے سورماؤں نے قوم کو قوم بنایا یا قوم نے اپنے رہنما پیدا کیے۔ سوال یہ ہے کہ گاندھی، نہرو اور آزاد کو قوم نے پیدا کیا یا ان قائدین نے قوم کو ایک لڑی میں پرو کر تمام قوموں کو ایک قوم بنایا۔ ہمارے حکمراں طبقے کو ایک شاندار قوم ملی، مگر اس نے اپنے اس دھاگے کے ہی بخیے ادھیڑنے شروع کردیے جس سے پوری قوم جڑی ہوئی تھی۔
جی ہاں! قوم کو بدلنے، اسے سنوارنے کے لیے اللہ نے اپنے نبی اور رسول بھیجے ہیں، انسانی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ نبوت اور رسالت کی طویل تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رسول اور انبیاء کافروں، مشرکوں، فاسقوں، فاجروں، ظالموں، جابروں اور گمراہوں کے لیے مبعوث ہوئے اور اس بدترین انسانی مواد سے انہوں نے صدیقین، صالحین اور متقین پیدا کیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر کی ضرورت ’مریضوں‘ سے ہی برآمد ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کی تاریخ ’خاص تاریخ‘ ہے اور ہم عام تاریخ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت سے فرار اور دلیل کو الٹ دینے کی صورت ہے۔ مگر چلئے یوں ہی سہی۔
آئیے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا۔ ملک کی باگ ڈور قومی قیادت کے ہاتھوں میں آئی اور قوم و ملک کی قسمت تحریک آزادئ وطن کے سرخیل پنڈت جواہر لعل نہرو کے سپرد ہوئی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے جس سیکولر ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر انہیں ان کی زندگی میں حاصل نہ ہوسکی۔ وہ ملک میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسی حکومت چاہتے تھے جس کے لیے وہ نہرو جی کو بار بار متوجہ بھی کرتے رہے لیکن ہماری جمہوری حکومت اپنے طرز پر ہی چلتی رہی۔ ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری حکومت کو اپنا فکری و نظریاتی دشمن سمجھتا تھا اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کو اپنی راہ کا کانٹا مانتا تھا۔ ایک ایک لمحہ اس کے لیے ناقابل برداشت جب ہونے لگا تو اس نے ملک کے اس عظیم سپوت کو اس دارفانی سے دار بقا کو پہنچادیا۔ بابائے قوم کی شہادت سے ملک بھر میں جہاں کہرام مچ گیا وہیں وقت کی حکومت لرز اٹھی۔ دراصل یہ گاندھی جی کا قتل نہیں تھا بلکہ ملک کے ان عوام کا قتل تھا جن کے جذبات و احساسات گاندھی جی سے جڑے ہوئے تھے۔
سیکولرزم کا دوسرا بڑا کردار ملک کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا تھا جن کی موجودگی میں جمہوریت دشمن طاقتیں سر نہیں اُبھار پا رہی تھیں لیکن جیسے ہی پنڈت نہرو اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ طاقتیں کھلم کھلا حکومت اور سیکولرزم کے لیے چیلنج بن گئیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بے شک کانگریس پارٹی کا ملک پر تقریباً نصف صدی تک راج رہا لیکن سیکولرزم او رجمہوریت کے جو ثمرات عوام کو ملنے چاہیے تھے وہ خاطر خواہ نہیں ملے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم جمہوری گاڑی کا پٹری سے اتر جانا ہے جس کے سبب وہ لوگ اقتدار پر قابض ہوگئے جو کسی بھی سیکولر اور جمہوری ملک کے لیے سم قاتل ثابت ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ اور موجودہ حکومت کا کسی طور موازنہ نہیں، پھر بھی اگر کوئی کرتا ہے تو ایک مخمصہ سا سامنے آتا ہے جس کا حل اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ قوم کے اندر نہیں تھا بلکہ ملک کے حکمراں طبقے کے اندر تھا جو اقتدار کا حریص تھا، جس کی فطرت میں سازش تھی، جو خود کو قوم سے الگ ایک اعلیٰ مخلوق سمجھتا تھا، جس کی اجتماعی شخصیت ایک نئی دنیا آباد کرنے کی حامل اور اس کا تسلسل تھی اور جو اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کے جنون میں مبتلا تھا۔ وہ قوم جو ابھی تک زندہ تھی اور تحریک آزادئ ہند کی فضا میں سانس لے رہی تھی، مگر اپنے شاطر حکمرانوں کو سمجھ نہ سکی۔ ایک راج کے رخصت کے بعد دوسرے راج کا جنم ہوا، راجا او رمہاراجا بدلے گئے لیکن راج درباری جو پہلے تھے وہ اب بھی ہیں کیونکہ ان کے بغیر کوئی بھی راجا راج نہیں کرسکتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو راج تخت کے چاروں کونوں پر موجود ہوتا ہے۔ یعنی تخت کے ڈگمگانے، گرنے، بچانے اور اسے مستحکم رکھنے میں انہیں کا رول ہوتا ہے۔ خدا سلامت رکھے ان درباریوں کو کیونکہ موجودہ مودی حکومت ابھی تو پوری طرح ایستادہ بھی نہیں ہوسکی تھی کہ درباریوں نے حکومت کو ایسا مشورہ دے ڈالا جو گلے کا پھندا ثابت ہوا۔ شاید ایسے ہی موقع پر کہا گیا ہے کہ ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔
حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں بیرونی ملکوں میں جمع ملکی کالادھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ بیرونی ملکوں سے کالا دھن حکومت تو نہ لاسکی البتہ ملکی کالے دھن والوں پر اس طرح شکنجہ کسنے کی کوشش کی کہ کالے دھن کے بڑے دھنوان نے اپنے کالے دھن کو بہ آسانی کال کوٹھریوں میں پہنچادیا اور حکومتی شکنجہ میں غریب عوام پھنس کر موت و حیات جیسے حالات سے گزرنے لگی۔ اور وہ تمام بدعنوانیاں جو پورے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کیے دے رہی ہیں ان سے چشم پوشی، قوم کے ساتھ دھوکا اور فریب ہی کہا جائے گا۔
عوام کی اکثریت کے حقیقی مسائل غربت، بے روزگاری، مہنگائی، رشوت ستانی، بدعنوانی اور ہر بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اگر کوئی لیڈر یا رہنما نوٹوں کے عوض نعرے لگوانے اور چوکوں و چوراہوں پر اپنے نام کے بینر اور سائن بورڈ لگوانے کے بجائے عوام کی حقیقی محبت اور خوشنودگی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے مذکورہ بالا حقیقی مسائل کی مد میں عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔ عوام باشعور ہوچکے ہیں وہ اسی کو اپنا رہنما تسلیم کریں گے جو ان کے اصل مسائل کو حل کی طرف پیش رفت کرے گا۔
یہ عجیب منطق ہے کہ اختیار کا سرچشمہ ’الف‘ ہے اور معاشرے کی خرابی کے ذمہ دار ’ب‘ اور ’ج‘ ہیں؟ اصول ہے کہ جس کے پاس سارے اختیارات ہوتے ہیں نیک و بد کا ذمہ دار بھی وہی ہوتا ہے۔ مگر یہاں یہ ہو رہا ہے کہ اختیارات باپ کے پاس ہیں اور بچوں کے بگاڑنے کا الزام پڑوسیوں پر لگایا جارہا ہے۔ ہماری قوم جیسی کچھ بھی ہے اپنے حکمرانوں کا عکس ہے اس کے برعکس جو قیاس ہے اسے دلالی تو کہا جاسکتا ہے دلیل نہیں۔ مضمون کے اوائل میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا قوم رہنما پیدا کرتی ہے اور یا رہنما قوم کو قوم بناتا ہے۔ مضمون کے آخری پیرے سے سوال کا جواب یقیناًمل جاتا ہے۔ رہنما یا حکمراں تو عوام کے حقیقی مسائل سے ہمیشہ ہی چشم پوشی کرتے رہے ہیں مگر آپ کو چشم بینا سے کام لینا ہے ورنہ آپ پر بھی یہ محاورہ صادق آجائے گا کہ ’’جیسی روح ویسے فرشتے۔‘‘
0 comments: