Media
میڈیا: وسائل، مسائل اور چیلنج
قاسم
سید
جمہوریت کا چوتھا
ستون کہے جانے والے میڈیا کے پائوں لڑکھڑا رہے ہیں۔ ہندوستانی سیاست کے بدلتے مزاج
اور سماج پر پڑنے والے اثرات نے اس کی ترجیحات بدلنے کی رفتار میں اضافہ کردیا ہے۔
دور سے جائزہ لینے والوں کو اس اضطرابی کیفیت اور مطالباتی دبائو کا اندازہ نہیں ہوسکتا
جو اس ستون سے وابستہ لوگوں کے نصیب کا حصہ بن گئی ہیں۔ وہ دوطرفہ دبائو کا شکار ہیں۔
ایک جو سچ دیکھنا نہیں چاہتے اور دوسرے وہ جو صرف سچ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اخبار کا قاری
خاص طور سے اس معاملے میں بہت بے رحم اور سنگ دل ہے، اس کا رویہ جذباتی اور دوٹوک ہے۔
اپنی سمجھ اور فکر کے مطابق کسی معاملہ میں بنائی گئی رائے میں کسی طرح کی ترمیم و
تبدیلی ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ عقیدت کے لات و منات کی پرستش میں مداخلت کو ناجائز
و حرام خیال کرتا ہے۔ شخصیت پرستی کے آنگن میں معقولیت کی ہوائوں کا گزر نہیں ہوتا۔
یہاں صرف جذبات اور اندھی عقیدت کے تھپیڑے چلتے ہیں۔ جب اپنی پسندیدہ شخصیت کے تعلق
سے کوئی ایسی بات پڑھتے اور سنتے ہیں جو پندار عقیدت میں نشتر چبھوتی ہو، اس پیکر جمال
میں ہلکی سی خراش آجائے تو بلبلا جاتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں کہ یہ پتھر مخالفین
کی بستی سے آیا ہوگا۔ اس وقت عقل و شعور کو بالائے طاق رکھ کر طرح طرح کی قیاس آرائیوں،
فتوئوں کی زبان میں گفتگو شروع ہوکر فتنوں کے انجام تک پہنچتی ہے۔ اس منزل پر یہ احساس
نہیں ہوتا کہ بہترین صلاحیتیں کس طرح ضائع ہورہی ہیں، خودپسندی و خودپرستی کے پرفریب
جال میں اس طرح پھنسے ہیں کہ قوت برداشت کی برف ذرا سی نکتہ چینی و معقول اعتراض کی
گرمی سے پگھل کر بہنے لگتی ہے۔ یہ تصور محال ہوتا ہے کہ جس کو اتنا چاہتے ہیں، زندگی
کی کتاب معتبر بنالیا ہے، جس کی تحریریں حوالوں کے لئے چن لی ہیں، اس میں کوئی بشری
کمزوری بھی ہوسکتی ہے یا اس سے زندگی کے کسی لمحہ یا دور میں کسی غلطی کا ارتکاب ہوا
ہوگا۔ تصویر کا تکلیف دہ رخ یہ ہے کہ مخالفت و حمایت کی بنیاد حقائق پر کم ذاتی پسند
و ناپسند پر زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کے متعلق بدگمانیاں پہلے سے ہیں تو اس سے متعلق
کوئی اچھی بات سننے کا حوصلہ نہیں پاتے، وہ فرد، جماعت ہر قسم کی معقولیت سے محروم
اس کی ہر بات غلط اور گمراہ کن ہے۔ اس کے برعکس محبوب فرد یا جماعت کا ہر کلمہ، کلمہ
حق، ہر فرمان فرمانِ الٰہی سا لگتا ہے۔ اس کی غلطیاں بھی اچھی لگتی ہیں، اس کی خامیوں
کے لئے معقول عذر تلاش کرنے میں تکلف نہیں ہوتا۔ اس افراط و تفریط کے ماحول میں قاری
کو مطمئن کرنا اور اس کے جذبات کی تسکین کرنا اگنی پریکشا سے کم نہیں، سنجیدہ تحریریں
اس کے مزاج پر گراں گزرتی ہیں۔ اینٹی اسٹیبشلمنٹ ذہنیت نے لکشمن ریکھا کھینچ دی ہے
کہ اس سے باہر جانے پر آپ کی ملت سے وفاداری، نیک نیتی، معقولیت مشتبہ ہے۔ دنیا کی
امامت کا دعویٰ کرنے والے ایسی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے کہ خودشناسی کی صلاحیت بھی
کھوبیٹھے۔ جذباتیت نے معاملہ کو اور نازک بنادیا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ پہلے لیڈر
قیادت کرتے تھے اور اب عوام کرتے ہیں، یعنی عوام کے مزاج، مطالبات کے مطابق انھوں نے
خود کو ڈھال لیا ہے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو سچ سننا اور دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ قوت
و اقتدار کے مالک ہیں، ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کی ڈور ہے جو کٹھ پتلی بننے کو
تیار نہیں، اس کا خون منجمد کرنے کے بہت سے راستے اور طریقے ہیں اور ظاہر ہے جب جسم
میں خون کی گردش کم ہوجائے تو سانس اکھڑنے لگتی ہے اور رک جائے تو دم نکل جاتا ہے۔
مسلم سماج نے میڈیا کو متحرک رکھنے کا کوئی متبادل نظام وضع نہیں کیا ہے، لیکن چاہتا
وہ سب کچھ ہے اور اسی بانکپن، تیکھے تیوروں کے ساتھ حق گوئی و بے باکی کی سان پر چڑھے
لفظوں کے اوزار اگر اس سے کوئی خواہش کی جائے تو خدا کے حوالہ کردیتا ہے کہ وہ کارساز
و مشکل کشا ہے، سب کے مسائل حل کرتا ہے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ چھری حلقوم تک آگئی
ہے اور شکنجہ کستا جارہا ہے، گھیرا لگاتار تنگ ہورہا ہے۔ ہر آنے والا دن نئے مسائل
اور نئے چیلنج کے ساتھ منھ پھاڑے کھڑا ہوتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس سیلاب بلا سے کون
محفوظ رہتا ہے اور کون سرخرو، اس صورت حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ اپنے حقوق کے تئیں جتنے
حساس و بیدار اور متحرک ہیں، فرائض کے بارے میں اتنے ہی بے پروا اور غیرذمہ دار ہیں۔
وہ میڈیا کو اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق تو چلانا چاہتے ہیں مگر اس کے حوالہ سے اپنی
ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ معاملہ سماج کے اس طبقہ کا ہے جو وسائل
سے مالامال ہے، قدرت نے اسے بھرپور نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کی ہر خواہش کو پورا
کرنے کی سعادت سے سرفراز کیا ہے، جو ہر سال حج کرنا کار ثواب سمجھتا ہے، جس کی چھٹیاں
کعبہ کے سائے میں گزرتی ہیں، جو جلسہ جلوسوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کو جنت میں جانے
کا راستہ گردانتا ہے، جو ہوائوں کو مٹھی میں کرنے کا فن جانتا ہے، جس کے ابرو چشم کے
اشاروں پر مسلم سیاست کے پیچ و ختم سنورتے ہیں۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ دھڑکنیں تھامنے
کا انتظام کیا جارہا ہے، اب صرف وہی زندہ رہے گا جو فلم ایکٹروں کی طرح تیارکردہ اسکرپٹ
پر کام کرے گا اور ڈائیلاگ رائٹر کے دیے گئے ڈائیلاگ کی ادائیگی کرے گا اور ڈانس ڈائرکٹر
کے اشارے پر کولہے مٹکائے گا۔ اس میں اپنی اسکرپٹ، اسٹوری، ڈائیلاگ، مناظر اور گیت
لکھنے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی اور اگر اجازت دی بھی گئی تو اس کا جائزہ لیا جاتا
رہے گا کہ آپ کو جو لائن آف ایکشن دی گئی ہے اور جن رہنما خطوط کی پاسداری کرنے کی
ہدایت ملی ہے، کیا ان کا ایمانداری و دیانت داری سے اتباع کیا جارہا ہے، کیونکہ ان
سے انحراف کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اب یہ تمام کام ان لوگوں کے لئے مختص
ہوجائے گا جن کے پاس وسائل کے مسائل نہیں ہیں، جو خاص مقصد کے تحت اس میدان میں ہنر
آزمانے آتے ہیں یا طے شدہ اہداف کے مطابق سرگرم عمل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں انقلابی
تبدیلیوں نے میڈیا کے اس حصہ کو بھی بری طرح زدوکوب کیا ہے جو اپنی آبرو بچاکر آزادانہ
سانسیں لینے کا قائل تھا، جس کی گردن کی رگیں ضرورت سے زیادہ سخت تھیں اور اسے اپنی
ادا پر ناز تھا، اس نے ہر طرح کے سرد و گرم حالات کا مقابلہ کیا اور عزت و وقار سے
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، روکھی سوکھی سے گزارا کیا اور لذت طعم و دہن سے ناآشنائی کے
باوجود فخر کے ساتھ منزل کی جانب گامزن رہا۔ جس نے دار و رسن کے مراحل سے گزرنا زیادہ
بہتر سمجھا مگر گھٹنوں کے بل کسی کی خدائی کو سجدہ نہیں کیا، جو اپنی فقیری میں مست
رہا اور امیری کی صدائوں کو اَن سنا کیا، فاقے برداشت کئے مگر تملق کی روٹیاں کھانا
گوارا نہیں کیا۔ اب یہ آوازیں منحنی ہوگئی ہیں، ان کو دبا دیا گیا ہے یا وہ خود میدان
سے ہٹ رہی ہیں، کیونکہ انھیں سننے والا کوئی نہیں۔ کارپوریٹ کے موثر عمل دخل نے رہی
سہی کسر پوری کردی ہے۔ روغنی بریانی نے خشک چاولوں کا مزہ بگاڑ دیا ہے۔ قاری بھی اسی
سمت بہہ رہا ہے اور میڈیا کو سہارا دینے والوں کا رجحان بھی یہ جانے بغیر کہ سلوپوائزن
بڑی خوبصورتی و مہارت سے رگوں میں اتارا جارہا ہے اس کے بدترین اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ایک طرف مسلکی منافرت کا بازار گرم کرنے کی حکمت عملی پر باریکی سے کام ہورہا ہے، وہیں
عریاں اشتہارات کے سہارے فحاشی کو گھروں میں داخل کردیا گیا ہے۔ سماج اپنی ذمہ داری
پر خاموش ہے اور بولنے والے گونگے ہوگئے ہیں۔ نفسانفسی افراتفری پیدا کرتی ہے اور افراتفری
میں انسان خودغرض ہوجاتا ہے اور خودغرضی ناسور بن کر جسم کو ناکارہ بنادیتی ہے۔ یہ
بہت نازک دور ہے، نئے بہانوں سے آزمائشیں مسکراکر باہیں دراز کرتی ہیں۔ دوطرفہ مطالبات
اور چیلنجوں نے اس میڈیا کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جو اپنی ڈگر سے ہٹنا نہیں چاہتا
اور دبائو اس کے پائوں کو لڑکھڑانے تک لے آیا ہے، اسے راستہ بتایا جائے کہ وہ کیا
کرے، دبائو قبول کرلے، سینہ تان کر کھڑا رہے، مصالحت کرے، دم توڑدے یا راستہ سے ہٹ
جائے اس کا جواب قاری کے پاس ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com
0 comments: