Politics
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
اُترپردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہیں، انتخابی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ سیاستداں عوام سے رابطے کے لیے نئے شعبدوں اور نئے حربوں کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کو تشویش اور پریشانی لاحق ہے کہ جس موسم اور جن حالات میں انتخابات ہو رہے ہیں وہ کسی بھی طرح غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کے سیاسی مطلع پر جس طرح کے سرخ و سیاہ بادل چھاتے رہے ہیں اور ان کی وقت بے وقت کی گرج تڑک سے عوام میں مایوسی اور نااُمیدی پیدا ہوتی رہی ہے اور انہیں اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ اس بار کا الیکشن ملک میں ایک نئے انقلاب کی دستک دے رہا ہے جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دے گا۔
لوک سبھا انتخابات یعنی 2014 میں جس طرح مرکزی اقتدار پر قبضے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے اس سے کہیں زیادہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں استعمال ہونے کے امکانات ہیں اور اس کی زد ریاست کی سب سے بڑی اقلیت پر پڑنے والی ہے۔ مسلمان تو آزادی کے بعد سے ہر الیکشن میں ایک مہرہ کی حیثیت میں ہی رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے اس بار ان سے یہ پہچان بھی چھین لی جائے گی۔
ایک خیال کے مطابق اترپردیش کے مغربی اور مشرقی دونوں کی سیاسی صورت حال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب میں برادری واد کے ساتھ ہی مظفرنگر کے فسادات میں مسلمانو ںکی نسل کشی کے علاوہ گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جو حیوانیت کا ننگا ناچ کیا گیا وہ علاقہ کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ایسے اُبلتے مسائل ہیں جو الیکشن کے وقت ناگ کے خوفناک پھن کی طرح امیداروں کے روبرو ہوں گے۔ ان حالات میں کسی بھی پارٹی کے کسی بھی امیدوار کو رائے دہندگان کو مطمئن کرپانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں غریبوں، پسماندہ طبقوں اور دلتوں کے درمیان لکچھمی جی ہی کوئی حتمی رول ادا کرسکیں گی۔ واضح رہے کہ اس الیکشن میں نوٹ بندی کا کوئی اثر اس لیے نہیں ہوگا کہ جو لوگ صبح و شام لکچھمی کی پوجا کرتے رہے ہیں، انہیں قبل از وقت اپنے مال کو ٹھکانے لگانے کا موقع دے دیا گیا تاکہ الیکشن میں کام آسکیں۔ بی جے پی جس کا اس وقت مرکز پر بھی قبضہ ہے الیکشن جیت لینے کے لیے اپنے کارکنان کو کرو یا مرو جیسے فارمولے پر عمل کروانے سے بھی باز نہیں آئے گی۔ یوں بھی اترپردیش اسمبلی ا لیکشن اس بار اس کے لیے موت و حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا تو اس وقت آسمان چھوتے غبارہ کی نہ صرف ہوا ہی نکل جائے گی بلکہ اس کے چیتھڑے اس طرح اڑجائیں گے کہ انہیں بٹورپانا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اترپردیش کے مشرقی علاقے میں برادری واد بہ نسبت مغرب کے کم ہے بلکہ نا کے برابر ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ گھر گھر کی سیاست کا ہے۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی تنظیم کا لیڈر ہے اور الیکشن کے وقت نئی نئی تنظیموں اور لیڈروں کی نمود میں مزید اضافہ رائے دہندگان کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ بقول شخصے کہ یہاں کی سرزمین ایسی ہے کہ آپ کسی بھی جگہ سے کوئی بھی اینٹ اٹھائیں وہاں سے کوئی نہ کوئی نیتا نکل آئے گا۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کا ووٹ بٹ جاتا ہے اور نتیجہ صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کا ووٹ دیگر سیاسی جماعتیں بی ایس پی، ایس پی وغیرہ کے کھاتو ںمیں بھی جاتا ہے جیسا کہ پچھلے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی اکثریت نے ایس پی کو ووٹ دیا اور بھاری تعداد میں مسلمان ایم ایل اے بھی کامیاب ہوئے مگر مسلمانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ اکھیلیش حکومت کے قیام کے چند مہینوں بعد ہی فسادات کا تحفہ پیش کیا گیا اور مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ انتظامیہ سراپا تماشائی بنی رہی اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد مغربی یوپی کے مظفرنگر میں حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے اور سیکولرزم کے علمبردار ملّا ملائم جی ایک خاص وقت تک اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے رہے اور جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو ایک دوسرے پر الزام لگاکر خود کو بری الذمہ قرار دے لیا۔
یہ صورت حال تو سیکولرزم کے نام پر ابھرنے والی تقریباً تمام ہی پارٹیوں کی ہے جو سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کو ورغلاتی ہیں، عدل و انصاف اور رواداری کا جھانسہ دیتی ہیں اور جب مسلمان ان کے بہکانے میں آجاتے ہیں انہیں ٹسوپیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے میں ڈال دیتی ہیں۔ غور کیجیے کیا تقسیم ملک کے بعد سے انتخابی سیاست میں مسلمانوں کے ساتھ ٹسو پیپر جیسا سلوک نہیں ہوتا رہا ہے۔ یاد رکھیے، سیاست شطرنج کی ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بساط ہے جس پر کھلاڑی ہمہ تن چوکنا رہتا ہے، تھوڑی سی عدم توجہی پوری بساط کو پلٹ دیتی ہے اور ذرا سی ہوشیاری ہی دھرم و مذہب کے سیاسی ترازو میں ہمیں تولنے کی عام روش سے بچا بھی سکتی ہے۔ اب تک سیاسی شعور و دور اندیشی سے کام نہ لیے جانے کی وجہ سے ہی ہم سیاسی پارٹیوں کے لقمۂ تر بنے ہوئے ہیں۔ ہاں گزشتہ چند برسوں سے جس طرح کی عام مسلمانوں میں احساس بے داری دیکھی جارہی ہے اس سے تھوڑی سی اُمید تو کی جارہی ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنے اجتماعی وزن کا مظاہرہ مسلمان کریں گے اور اپنے جائز حقوق کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی تیار کریں گے۔
جب تک ہم خود کو سمجھنے اور اپنی اہمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کریں گے ہم دوسروں کی خوراک ہی بنے رہیں گے۔ کسی بھی قوم کے بننے اور سنوارنے کے لیے ستربرس بہت ہوتے ہیں اس دوران نہ ہم اپنی کوئی سیاسی تنظیم تشکیل کرسکے اور نہ ہی کوئی اپنا لیڈر ہی منتخب کرسکے۔ ہم انہیں کو اپنا لیڈر اور اپنی تنظیم مانتے رہے جو ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرنے کی کوشش میں رہے جہاں ہمیں عزت کے ساتھ جینے کا کوئی حق ہی نہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر ان لوگوں کو بہرصورت نظر انداز کردینا چاہیے جو اپنی ذات کے لیے پوری ملت کو استعمال کرتے رہتے ہیں، جو بتدریج ملت کو تباہی کے غار میں ڈھکیلتے رہے ہیں اور جو بہروپیوں کی شکل میں انتخابات کے موقعوں پر مسلمانوں کے دروازوں پر کشکول لیے ووٹوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں او رمسلمان ان بہروپیوں کے روپ بہروپ قول و عمل کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور وہ لوگ جو مخلص ہیں منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
مسلم لیڈر شپ کے سیاسی شعور سے کام نہ لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ صرف انتخابات تک ہی سیاسی پارٹیوں کے نزدیک مسلم ووٹوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے، جیسے ہی انتخابات کا وقت ختم ہوتا ہے اور نئی حکومت کی تشکیل عمل میں آتی ہے مسلمان اور ان کے مسائل حاشیے پر ڈال دیے جاتے ہیں۔ نہ تو ووٹ اور آبادی کے لحاظ سے حکومت میں انہیں مناسب نمائندگی دی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت کی ترجیحات میں ہی ان کے مسائل ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ بعض بعض حالات میں انہیں سنگین حالات سے بھی دوچار کردیا گیا ہے۔ اترپردیش جس کا ذکر اوائل سطروں میں ہوچکا ہے، میں ان کی اوقات بتادی گئی، پھر بھی مسلمان او ران کے قائدین کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ چھوٹی چھوٹی ذاتیں، برادری کے نام پر، علاقائیت اور پس ماندگی کے نام پر اپنے مسائل حکومت سے حل کرالیتی ہیں لیکن افسوس کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اپنے مسائل حل کرانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے اور ہر جگہ اسے دھتکار، لعنت و ملامت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بہرحال پچھلے انتخابات بہ نسبت اس بار کے انتخابات میں کافی فرق ہے۔ موجودہ سیاسی حالات ملک کے سیکولر اور انصاف پسند عوام خصوصاً مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ بڑی ہوش مندی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ ذرا سی چوک آپ کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو بکھیر کر رکھ دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچ اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭
یوپی اسمبلی انتخابات اور مسلمان
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
اُترپردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہیں، انتخابی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ سیاستداں عوام سے رابطے کے لیے نئے شعبدوں اور نئے حربوں کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کو تشویش اور پریشانی لاحق ہے کہ جس موسم اور جن حالات میں انتخابات ہو رہے ہیں وہ کسی بھی طرح غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کے سیاسی مطلع پر جس طرح کے سرخ و سیاہ بادل چھاتے رہے ہیں اور ان کی وقت بے وقت کی گرج تڑک سے عوام میں مایوسی اور نااُمیدی پیدا ہوتی رہی ہے اور انہیں اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ اس بار کا الیکشن ملک میں ایک نئے انقلاب کی دستک دے رہا ہے جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دے گا۔
لوک سبھا انتخابات یعنی 2014 میں جس طرح مرکزی اقتدار پر قبضے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے اس سے کہیں زیادہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں استعمال ہونے کے امکانات ہیں اور اس کی زد ریاست کی سب سے بڑی اقلیت پر پڑنے والی ہے۔ مسلمان تو آزادی کے بعد سے ہر الیکشن میں ایک مہرہ کی حیثیت میں ہی رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے اس بار ان سے یہ پہچان بھی چھین لی جائے گی۔
ایک خیال کے مطابق اترپردیش کے مغربی اور مشرقی دونوں کی سیاسی صورت حال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب میں برادری واد کے ساتھ ہی مظفرنگر کے فسادات میں مسلمانو ںکی نسل کشی کے علاوہ گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جو حیوانیت کا ننگا ناچ کیا گیا وہ علاقہ کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ایسے اُبلتے مسائل ہیں جو الیکشن کے وقت ناگ کے خوفناک پھن کی طرح امیداروں کے روبرو ہوں گے۔ ان حالات میں کسی بھی پارٹی کے کسی بھی امیدوار کو رائے دہندگان کو مطمئن کرپانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں غریبوں، پسماندہ طبقوں اور دلتوں کے درمیان لکچھمی جی ہی کوئی حتمی رول ادا کرسکیں گی۔ واضح رہے کہ اس الیکشن میں نوٹ بندی کا کوئی اثر اس لیے نہیں ہوگا کہ جو لوگ صبح و شام لکچھمی کی پوجا کرتے رہے ہیں، انہیں قبل از وقت اپنے مال کو ٹھکانے لگانے کا موقع دے دیا گیا تاکہ الیکشن میں کام آسکیں۔ بی جے پی جس کا اس وقت مرکز پر بھی قبضہ ہے الیکشن جیت لینے کے لیے اپنے کارکنان کو کرو یا مرو جیسے فارمولے پر عمل کروانے سے بھی باز نہیں آئے گی۔ یوں بھی اترپردیش اسمبلی ا لیکشن اس بار اس کے لیے موت و حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا تو اس وقت آسمان چھوتے غبارہ کی نہ صرف ہوا ہی نکل جائے گی بلکہ اس کے چیتھڑے اس طرح اڑجائیں گے کہ انہیں بٹورپانا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اترپردیش کے مشرقی علاقے میں برادری واد بہ نسبت مغرب کے کم ہے بلکہ نا کے برابر ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ گھر گھر کی سیاست کا ہے۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی تنظیم کا لیڈر ہے اور الیکشن کے وقت نئی نئی تنظیموں اور لیڈروں کی نمود میں مزید اضافہ رائے دہندگان کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ بقول شخصے کہ یہاں کی سرزمین ایسی ہے کہ آپ کسی بھی جگہ سے کوئی بھی اینٹ اٹھائیں وہاں سے کوئی نہ کوئی نیتا نکل آئے گا۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کا ووٹ بٹ جاتا ہے اور نتیجہ صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کا ووٹ دیگر سیاسی جماعتیں بی ایس پی، ایس پی وغیرہ کے کھاتو ںمیں بھی جاتا ہے جیسا کہ پچھلے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی اکثریت نے ایس پی کو ووٹ دیا اور بھاری تعداد میں مسلمان ایم ایل اے بھی کامیاب ہوئے مگر مسلمانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ اکھیلیش حکومت کے قیام کے چند مہینوں بعد ہی فسادات کا تحفہ پیش کیا گیا اور مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ انتظامیہ سراپا تماشائی بنی رہی اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد مغربی یوپی کے مظفرنگر میں حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے اور سیکولرزم کے علمبردار ملّا ملائم جی ایک خاص وقت تک اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے رہے اور جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو ایک دوسرے پر الزام لگاکر خود کو بری الذمہ قرار دے لیا۔
یہ صورت حال تو سیکولرزم کے نام پر ابھرنے والی تقریباً تمام ہی پارٹیوں کی ہے جو سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کو ورغلاتی ہیں، عدل و انصاف اور رواداری کا جھانسہ دیتی ہیں اور جب مسلمان ان کے بہکانے میں آجاتے ہیں انہیں ٹسوپیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے میں ڈال دیتی ہیں۔ غور کیجیے کیا تقسیم ملک کے بعد سے انتخابی سیاست میں مسلمانوں کے ساتھ ٹسو پیپر جیسا سلوک نہیں ہوتا رہا ہے۔ یاد رکھیے، سیاست شطرنج کی ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بساط ہے جس پر کھلاڑی ہمہ تن چوکنا رہتا ہے، تھوڑی سی عدم توجہی پوری بساط کو پلٹ دیتی ہے اور ذرا سی ہوشیاری ہی دھرم و مذہب کے سیاسی ترازو میں ہمیں تولنے کی عام روش سے بچا بھی سکتی ہے۔ اب تک سیاسی شعور و دور اندیشی سے کام نہ لیے جانے کی وجہ سے ہی ہم سیاسی پارٹیوں کے لقمۂ تر بنے ہوئے ہیں۔ ہاں گزشتہ چند برسوں سے جس طرح کی عام مسلمانوں میں احساس بے داری دیکھی جارہی ہے اس سے تھوڑی سی اُمید تو کی جارہی ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنے اجتماعی وزن کا مظاہرہ مسلمان کریں گے اور اپنے جائز حقوق کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی تیار کریں گے۔
جب تک ہم خود کو سمجھنے اور اپنی اہمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کریں گے ہم دوسروں کی خوراک ہی بنے رہیں گے۔ کسی بھی قوم کے بننے اور سنوارنے کے لیے ستربرس بہت ہوتے ہیں اس دوران نہ ہم اپنی کوئی سیاسی تنظیم تشکیل کرسکے اور نہ ہی کوئی اپنا لیڈر ہی منتخب کرسکے۔ ہم انہیں کو اپنا لیڈر اور اپنی تنظیم مانتے رہے جو ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرنے کی کوشش میں رہے جہاں ہمیں عزت کے ساتھ جینے کا کوئی حق ہی نہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر ان لوگوں کو بہرصورت نظر انداز کردینا چاہیے جو اپنی ذات کے لیے پوری ملت کو استعمال کرتے رہتے ہیں، جو بتدریج ملت کو تباہی کے غار میں ڈھکیلتے رہے ہیں اور جو بہروپیوں کی شکل میں انتخابات کے موقعوں پر مسلمانوں کے دروازوں پر کشکول لیے ووٹوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں او رمسلمان ان بہروپیوں کے روپ بہروپ قول و عمل کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور وہ لوگ جو مخلص ہیں منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
مسلم لیڈر شپ کے سیاسی شعور سے کام نہ لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ صرف انتخابات تک ہی سیاسی پارٹیوں کے نزدیک مسلم ووٹوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے، جیسے ہی انتخابات کا وقت ختم ہوتا ہے اور نئی حکومت کی تشکیل عمل میں آتی ہے مسلمان اور ان کے مسائل حاشیے پر ڈال دیے جاتے ہیں۔ نہ تو ووٹ اور آبادی کے لحاظ سے حکومت میں انہیں مناسب نمائندگی دی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت کی ترجیحات میں ہی ان کے مسائل ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ بعض بعض حالات میں انہیں سنگین حالات سے بھی دوچار کردیا گیا ہے۔ اترپردیش جس کا ذکر اوائل سطروں میں ہوچکا ہے، میں ان کی اوقات بتادی گئی، پھر بھی مسلمان او ران کے قائدین کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ چھوٹی چھوٹی ذاتیں، برادری کے نام پر، علاقائیت اور پس ماندگی کے نام پر اپنے مسائل حکومت سے حل کرالیتی ہیں لیکن افسوس کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اپنے مسائل حل کرانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے اور ہر جگہ اسے دھتکار، لعنت و ملامت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بہرحال پچھلے انتخابات بہ نسبت اس بار کے انتخابات میں کافی فرق ہے۔ موجودہ سیاسی حالات ملک کے سیکولر اور انصاف پسند عوام خصوصاً مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ بڑی ہوش مندی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ ذرا سی چوک آپ کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو بکھیر کر رکھ دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچ اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭
0 comments: