Media
یوں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے معاملات پر دو رنگی یا دوغلہ پن صاف طور پر نظر آتا ہے ۔لیکن وطن عزیر کو کہیں کوئی فوقیت ہو کہ نہیں لیکن مسلم دشمنی میں ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس میںفوقیت حاصل ہوگی۔دو چار دن قبل محمد سمیع نے اپنی بیوی کی تصویر فیس بک پر اپلوڈ کی تھی ۔جس میں لباس کا انتخاب مسلم خاتون جیسا نہیں تھا ۔اس پر کچھ پرجوش مسلم نوجوانوں نے مشورے دیئے کہ مسلم خواتین کو کس طرح رہنا چاہئے ۔ ایک نیوز ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا ۔اس میں اینکر نے ان مشوروں کو کچھ ایسے انداز سے پیش کیا گویا ان نوجوانوں نے بہت ہی گھنائونا کوئی جرم کردیا ہو ۔گھنائونا اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس میں خواتین کمیشن سے بھی رائے لی گئی تھی ،انہوں نے یہ کہا کہ سائبر قانون میں ایسی سختی آنی چاہئے کہ اس طرح کے گھنائونے کمینٹ کرنے والوں کو سخت سزا ملے ۔جبکہ ہمیں ان سارے کمینٹ میں جو کہ میڈیا میں دکھایا جارہا ہے کوئی گھنائونا پن نظر نہیں آتا۔ ہمیں عام طور پر ایسے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔لیکن یہاں تل کا تاڑ بنانے کی پرانی روایت پر کچھ زیادہ ہی عمل کیاجارہا ہے ۔حد یہ ہے کہ کچھ اردو اخبارات بھی اس سے متاثر نظر آرہے ہیں ۔اس لئے زیادہ نہیں ایک سال قبل جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں جب ملک میں عدم برداشت کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی ۔اس میں عامر خان نے بھی برسبیل تذکرہ یہ کہہ دیا تھا کہ ان کی بیوی نے ایک بار یہاں کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کسی اور ملک میں جا کر بسنے کی بات کی تھی ۔اس پر ہندو توا بریگیڈ کو بہت غصہ آیا اور ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ عامر کوپاکستان جانے کا مشورہ دیدیا ،بلکہ انہیں سوشل سائٹ پر گندی اور بھدی گالیوں سے بھی نوازا جانے لگا ۔واضح ہو کہ اپنے مخالفین اور اپنے نظریہ سے اختلاف کرنے والوں کیلئے بھدی زبان استعمال کرنا انہیں گالیاں دینا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی سمیت اگر اختلاف کرنے والی خاتون ہے تو اسے ریپ کی دھمکی دینا یہ ہندوتوا بریگیڈ کا پرانا تہذیبی وراثت ہے ۔جسے انہوں نے بڑی محنت سے سنبھال کر رکھا ہے ۔ایسا ہی عامر کے ساتھ بھی ہوا ان کی بیوی کرن رائو کے ساتھ زنا بالجبر کی دھمکی تک دی گئی۔لیکن اتنی سنگینی کے باوجود ان لوگوں میں وہ سنجیدگی نہیں دیکھی گئی جو آج سمیع کو چند مسلم نوجوانوں کی جانب سے مشورہ دینے کے بعد دیکھی جارہی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جو آزاد خیال کہلانا پسند کرتا ہے ۔کسی بھی معاشرے میں اور کسی بھی طرز حکومت میں پرامن اور مہذب انداز میں مشورہ دینا جرم تو کجا قابل اعتراض بھی نہیں مانا جاتا ۔لیکن وطن عزیز کے انداز نرالے ہیں ۔یہاں مسلمان چکی کے دو پاٹوں ،ہندوتوا بریگیڈ اور نام نہاد آزاد خیال طبقہ کے درمیان پستا رہتا ہے ۔موجودہ سمیع تنازعہ کے تناظر میں تو بی جے پی نے بھی کہا کہ سمیع کی بیوی کچھ بھی پہننے کیلئے آزاد ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔یعنی اس ملک میں آپ کچھ بھی پہننے یا دوسرے لفظوں میں نیم عریاں لباس زیب تن کرنے کیلئے آزاد ہیں جبکہ نقاب ،برقع یا حجاب پر تنقید کیا جاتا ہے ۔کہیں سے ہلکی پھلکی مذمت کی کوئی کمزور و نحیف سی آواز آجاتی ہے ۔ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی ایئر فورس میں مسلم نوجوانوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی لگا دی۔یعنی آپ ہر اس کام کیلئے آزاد ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو تی ہو۔لیکن اسی ملک میں مسلمان کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ،کیا قربانی کریں اور کیا نہ کریں ،یہ دوسرے طے کریں گے ۔ایئر فورس میں مسلم نوجوان داڑھی نہیں رکھ سکتا لیکن سکھوں کی داڑھی اور پگڑی پر کوئی پابندی نہیں۔بیئر بار میں عورتوں کو ناچنے اور عریانیت کی تشہیر کی اجازت صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ دستور کے مطابق کسی کے روزگار پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔لیکن بیل ذبیحہ پر پابندی عائد کرکے قریشی برادری کو بے روزگار کرنے سے دستور ہند کا وہی آرٹیکل مانع نہیں ہوتا ۔یہ دورنگی یا دوغلہ پن کیا ملک کے اتحاد اور امن و سلامتی کے لئے سم قاتل نہیں بن سکتا؟
سمیع کو مشورہ پر ہنگامہ آرائی اور عامر کو دھمکی پر خاموشی
نہال صغیر
یوں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے معاملات پر دو رنگی یا دوغلہ پن صاف طور پر نظر آتا ہے ۔لیکن وطن عزیر کو کہیں کوئی فوقیت ہو کہ نہیں لیکن مسلم دشمنی میں ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس میںفوقیت حاصل ہوگی۔دو چار دن قبل محمد سمیع نے اپنی بیوی کی تصویر فیس بک پر اپلوڈ کی تھی ۔جس میں لباس کا انتخاب مسلم خاتون جیسا نہیں تھا ۔اس پر کچھ پرجوش مسلم نوجوانوں نے مشورے دیئے کہ مسلم خواتین کو کس طرح رہنا چاہئے ۔ ایک نیوز ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا ۔اس میں اینکر نے ان مشوروں کو کچھ ایسے انداز سے پیش کیا گویا ان نوجوانوں نے بہت ہی گھنائونا کوئی جرم کردیا ہو ۔گھنائونا اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس میں خواتین کمیشن سے بھی رائے لی گئی تھی ،انہوں نے یہ کہا کہ سائبر قانون میں ایسی سختی آنی چاہئے کہ اس طرح کے گھنائونے کمینٹ کرنے والوں کو سخت سزا ملے ۔جبکہ ہمیں ان سارے کمینٹ میں جو کہ میڈیا میں دکھایا جارہا ہے کوئی گھنائونا پن نظر نہیں آتا۔ ہمیں عام طور پر ایسے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔لیکن یہاں تل کا تاڑ بنانے کی پرانی روایت پر کچھ زیادہ ہی عمل کیاجارہا ہے ۔حد یہ ہے کہ کچھ اردو اخبارات بھی اس سے متاثر نظر آرہے ہیں ۔اس لئے زیادہ نہیں ایک سال قبل جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں جب ملک میں عدم برداشت کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی ۔اس میں عامر خان نے بھی برسبیل تذکرہ یہ کہہ دیا تھا کہ ان کی بیوی نے ایک بار یہاں کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کسی اور ملک میں جا کر بسنے کی بات کی تھی ۔اس پر ہندو توا بریگیڈ کو بہت غصہ آیا اور ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ عامر کوپاکستان جانے کا مشورہ دیدیا ،بلکہ انہیں سوشل سائٹ پر گندی اور بھدی گالیوں سے بھی نوازا جانے لگا ۔واضح ہو کہ اپنے مخالفین اور اپنے نظریہ سے اختلاف کرنے والوں کیلئے بھدی زبان استعمال کرنا انہیں گالیاں دینا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی سمیت اگر اختلاف کرنے والی خاتون ہے تو اسے ریپ کی دھمکی دینا یہ ہندوتوا بریگیڈ کا پرانا تہذیبی وراثت ہے ۔جسے انہوں نے بڑی محنت سے سنبھال کر رکھا ہے ۔ایسا ہی عامر کے ساتھ بھی ہوا ان کی بیوی کرن رائو کے ساتھ زنا بالجبر کی دھمکی تک دی گئی۔لیکن اتنی سنگینی کے باوجود ان لوگوں میں وہ سنجیدگی نہیں دیکھی گئی جو آج سمیع کو چند مسلم نوجوانوں کی جانب سے مشورہ دینے کے بعد دیکھی جارہی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جو آزاد خیال کہلانا پسند کرتا ہے ۔کسی بھی معاشرے میں اور کسی بھی طرز حکومت میں پرامن اور مہذب انداز میں مشورہ دینا جرم تو کجا قابل اعتراض بھی نہیں مانا جاتا ۔لیکن وطن عزیز کے انداز نرالے ہیں ۔یہاں مسلمان چکی کے دو پاٹوں ،ہندوتوا بریگیڈ اور نام نہاد آزاد خیال طبقہ کے درمیان پستا رہتا ہے ۔موجودہ سمیع تنازعہ کے تناظر میں تو بی جے پی نے بھی کہا کہ سمیع کی بیوی کچھ بھی پہننے کیلئے آزاد ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔یعنی اس ملک میں آپ کچھ بھی پہننے یا دوسرے لفظوں میں نیم عریاں لباس زیب تن کرنے کیلئے آزاد ہیں جبکہ نقاب ،برقع یا حجاب پر تنقید کیا جاتا ہے ۔کہیں سے ہلکی پھلکی مذمت کی کوئی کمزور و نحیف سی آواز آجاتی ہے ۔ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی ایئر فورس میں مسلم نوجوانوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی لگا دی۔یعنی آپ ہر اس کام کیلئے آزاد ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو تی ہو۔لیکن اسی ملک میں مسلمان کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ،کیا قربانی کریں اور کیا نہ کریں ،یہ دوسرے طے کریں گے ۔ایئر فورس میں مسلم نوجوان داڑھی نہیں رکھ سکتا لیکن سکھوں کی داڑھی اور پگڑی پر کوئی پابندی نہیں۔بیئر بار میں عورتوں کو ناچنے اور عریانیت کی تشہیر کی اجازت صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ دستور کے مطابق کسی کے روزگار پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔لیکن بیل ذبیحہ پر پابندی عائد کرکے قریشی برادری کو بے روزگار کرنے سے دستور ہند کا وہی آرٹیکل مانع نہیں ہوتا ۔یہ دورنگی یا دوغلہ پن کیا ملک کے اتحاد اور امن و سلامتی کے لئے سم قاتل نہیں بن سکتا؟
0 comments: