Politics

ہندوستانی معیشت اور بی جے پی کے برے دن!

3:24 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر

مودی صاحب اچھے دنوں کے وعدوں کے ساتھ حکومت میں آئے تھے ۔ لیکن اپنی پالیسی کو عجلت میں نافذ کرنے کی وجہ سے اچھے دن تو کیاخاک آتے کرنسی کی منسوخی سے عوام اور ہندوستانی معیشت برے دن بلکہ انتہائی برے دن آگئے ہیں۔ اب یہ لگتا ہے کہ ان کے برے دن آنے والے ہیں اور ساتھ ہی بی جے پی بھی تاریخ کا حصہ بننے کی جانب گامزن ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے عوام اور ملک دونوں کا حال برا کردیا ہے ۔عوام کراہ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آئندہ یوپی الیکشن میں عوام مودی اور بی جے پی کے خلاف ایسا سرجیکل اسٹرائیک کریں گے کہ وہ اسے بھول نہیں پائیں گے ۔اس کے آثار بھی نظر آرہے ہیں ۔محض جوش جذبات اور متنازعہ تقریروں سے نہ تو ملک کو چلایا جاسکتا ہے اور نہ عوام کو ایک بار سے زیادہ بیوقوف بنایا جاسکتا ہے ۔عوام کو جن مشکلات کاسامنا ہے وہ جس کرب سے گذر رہے ہیں اس کا اندازہ مودی یا ان کی پارٹی کو نہیں ہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کو معمولی پریشانی تو ہے لیکن ملک کے لئے اسے برداشت کرنا پڑے گا ۔سو سے زیادہ افراد کی موت ہوجائے ۔کوئی طالب علم کرنسی کرائسس کی وجہ سے اپنا تعلیمی فیس ادا نہ کر پائے اور صدمہ سے خود کشی کرلے ۔ہسپتال میں علاج نہ ہو پائے اور مریض مر جائے ۔کسی لڑکی کی شادی ہو اس کی ماں غم سے نڈھال ہو کہ شادی کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے ؟لیکن ہمارے ارباب اقتدار کو یہ معمولی واقعات نظر آرہے ہیں ۔اتنی پریشانی تو عوام نے تب بھی نہیں برداشت کی تھی جب ملک پر ایمرجنسی کا سایہ پڑا تھا۔اس سے عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے اور غصہ بڑھ رہا ہے جس کا خمیازہ یقیناًموجودہ حکومت کو بھگتنے ہوں گے ۔اگر بی جے پی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو یہی عوامی غصہ اور بے چینی اس کے برے دن پر جا کر منتج ہوں گے۔ 
عوام کی اس پریشانی اور حکومت کی بے حسی کا خیال کرتے ہوئے ذرا تصور کریں کہ آ پ کے کسی عزیز کا آپریشن ہو ڈاکٹر نے آپریشن بھی کردیا ہو اس کے بعد وہ خون چڑھانے کے لئے بلڈ بینک کا رخ کرے لیکن وہاں اس گروپ کا خون نہ ہو اس وقت آپ کی کیا حالت ہو گی اور ڈاکٹر اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا خیال کریں گے۔آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟یقینی آپ اس ہسپتال اور اس ڈاکٹر کو یا تو پاگل کہیں گے یا غیر ذمہ دار ۔سوا سو کروڑ کی آبادی والے ملک میں اچانک بغیر کسی تیاری کے ملک کی معیشت میں اسی فیصد سے زیادہ کی شرکت والی کرنسی کا بند کردینا کسی بھی طور دانشمندانہ فیصلہ نہیں کہا جائے گا ۔گاندھی جی کا ایک قول جو عام طور پر کورس کی کتابوں میں ہوتا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب تم کوئی فیصلہ کرنے لگو تو سماج کے سب سے کمزور طبقہ کی طرف دیکھو کہ تمہارے اس فیصلہ سے اس کو کیا فائدہ پہنچے گا ۔مودی حکومت نے وہی کام نہیں کیا انہوں نے عوام کی مشکلات کی جانب دیکھنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔آج تک یہ خبر آرہی ہے کہ چھ مہینہ یا آٹھ تک میں نوٹ کی کمی پوری ہو پائے گی ۔کیا آپ تصور کریں گے کہ اس آٹھ ماہ میں ہندوستانی معیشت کی کیا حالت ہوگی ۔اغلب خیال یہ ہے کہ جہاں جی ڈی پی میں دو فیصد تک کمی واقع ہو گی وہیں معیشت کو بھاری چوٹ لگنے کا خدشہ ہے ۔ان خدشات میں دم بھی ہے ۔اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ آپ اپنی دوکان کو چھ سات ماہ بند کرکے رکھیں اس کے بعد کھولیں کیا آپ کو توقع ہے کہ آپ کا کاروبار چل پائے گا ۔ایسے حالات میں زیادہ خطرہ اس بات ہے کہ اس کاروبار کو دوبارہ جمانے میں آپ کو اتنے زیادہ صبر و ثبات کی ضرورت ہے جو عام طور پر نہیں ہوتا ۔دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں کرنسی تبدیل کی گئی اور ان کی معیشت اوندھے منھ گری آج تک وہ سنبھل نہیں پائے ۔روس نے بھی نوے کی دہائی میں اپنی کرنسی تبدیل کی اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ بدعنوانی یا دہشت گردی جیسے عالمی مسئلہ سے اس طرح نہیں نپٹا جاسکتا اس کے لئے انتہائی سوجھ بوجھ اور دانشمندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔کسی بھی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے ردعمل اور برے اثرات کو بھی نظر میں رکھا جائے ۔سو اسو کروڑ نفوس کے ملک کا یہ حال ہے کہ سارے کام دھندے چھوڑ کر بینکوں میں لائین لگانے کو لوگ مجبور ہو گئے ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں اور یہ کچھ حد تک ٹھیک بھی ہے کہ اب قطاروں کی تعداد میں کمی آگئی ہے ۔یعنی لوگوں کی روزانہ ضروریات کے لئے کچھ حد تک رقم مہیا ہو گئی ہے ۔لیکن محض لوگوں کی انتہائی اہم ضروریات کو کچھ حد تک پورا کردینے سے کام نہیں چلتا ۔اس سے زندگی تو کچھ حد تک رینگنے لگے گی لیکن ملکی معیشت کو چست درست رکھنے کے لئے بازار میں جس تعداد میں رقومات کی ضرورت ہے وہ اب بھی دستیاب نہیں ہے اور اسی ضروریات کی تکمیل کے لئے ماہرین آٹھ ماہ کا وقفہ مان رہے ہیں ۔اس عرصہ میں کاروباراور معیشت کا وہی حشر ہو گا جو اوپر بیان کیا جاچکا ۔

0 comments: