نوٹ منسوخی کے طوفان کے آگے بے روزگاری کی سنامی منتظر ہے!
نہال صغیر
مودی حکومت کی حکمت عملی یعنی دہشت گردی اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے کرنسی کی منسوخی کی سرجیکل اسٹرائیک سے جو عوامی پریشانی کی سونامی اٹھی ہے اس نے عوام کو ہر طرف سے بے خبر کرکے صرف نوٹ کے حصول کے لئے ہی متوجہ کررکھا ہے جس کی حد بھی طے ہے ۔یعنی آپ صرف اتنی ہی رقم نکال سکتے ہیں جس سے آپ اپنی انتہائی ضروریات کو پوری کرسکیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس درمیان کئی اہم خبریں آئیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی نہ تو میڈیا نے کوئی خاص شور مچایا اور نہ ہی عوام کے اس طبقہ کی وطن پرستی کی آگ بھڑکی جو بات بات میں پاکستان بھیجنے کی بات کرتا تھا۔پیٹ کی آگ وطن پرستی کی آگ پر حاوی ہو گئی ہے۔نوٹ کی پریشانی میں لوگوں کو کشمیر میں ہوئے دو بار مزاحمت پسندوں کے حملے میں سلامتی دستوں کے بھاری جانی نقصان وطن پرستی کے جوش و جنون میں ابال نہیں آیا اور نا ہی فاروق عبد اللہ کے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے بارے اس بیان پر جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’وہ جگہ کیا تمہارے باپ کی ہے‘‘ پر مذمت اور دیش دروہی کے الزامات والا کوئی بیان نہیں آیا ۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑے بڑے جغادری بھی خاموش ہی رہے ۔شاید انہیں پتہ ہے کہ نوٹ بندی کی مار عام لوگوں پر اسقدر شدید پڑی ہے کہ وہ خواہ کچھ بھی ہو جائے کسی جانب توجہ نہیں دیں گے اور جب کوئی توجہ ہی نہیں ملے تو فائدہ کیا ہے بیان دینے کا ۔پتہ نہیں اس حقیقت میں کس قدر سچائی ہے کہ حکومت کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ نوٹ کی منسوخی سے عوام کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اگر یہ سچ ہے تو انہوں نے اخلاقی طور پر حکومت میں رہنے کا حق کھودیا ہے ۔لیکن مدت ہوئی جب قومی سیاست سے اخلاقیات کا شعبہ نکالا جاچکا ہے ۔یہی سبب ہے کہ اب کسی بھی معاملے میں کوئی اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کرتا ۔انہوں نے نوٹ کی منسوخی پر جن دو وجوہات کا حوالہ دیا تھا وہ دونوں ناکام ہو چکے ہیں اور ابھی آگے کتنی ناکامیاں منھ کھولے کھڑی ہیں اس کا حکومت کو اندازہ تو ہے لیکن وہ اسے قبول نہیں کرے گی ۔اس کی وجہ وہی اخلاقی دیانت داری کی کمی ہے جو کسی ملک یا قوم کے مقدر کا ستارہ چمکاتا ہے ۔اگر یہ قومی ترقی کی خواہش کے اظہار میں مخلص ہو تے تو نوٹ بندی کے فیصلے کو افراتفری میں نافذ نہ کرتے اور اگر کردیا تھا تو ہنگامی طور پر عوامی مشکلات کا مداوا کرتے ۔ابھی تو صرف چھوٹے کاروباریوں کا دیوالیہ ہوا ہے آئندہ چند ماہ میں درمیانی درجہ کے کاروبار بھی فلاپ ہو ں گے کیوں کہ کرنسی جتنی جاری کی گئی ہے اس سے انتہائی ضروریات کی ہی تکمیل ہو سکتی ہے ۔بازار معیشت کو گردش کرنے کے لئے جتنی کرنسی کی ضرورت ہے وہ ابھی کئی ماہ اور نہیں مل آپائے گی ۔اس دوران سوچا جاسکتا ہے معیشت کا کیا حال ہوگا ۔اس کا انجام یہ ہوگا کہ وزیر اعظم نے جس دو کروڑ سالانہ روزگار مہیا کرانے کا وعدہ کیا تھا ٹھیک اس کے الٹ یہ ہوگا کہ مزید بے روزگاری بڑھے گی اور اتنی بڑھے گی کہ انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
0 comments: