جزیرۃالعرب کی شورش میں ایران کا کردار....!
عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com
سعودی عربیہ کی حکومت نے علامہ یوسف القرضاوی , مولانا مودودی , سید قطب شہید اور حسن البنا جیسے تحریکی مزاج مصنفوں کی کتابوں پر پابندی لگا دی ہے -اس کا مطلب کہ تحریکات اسلامی کے تئیں سعودی عربیہ کے موجودہ حکمراں سلمان بن عبدالعزیز کا اپنا رویہ بھی وہی ہے جو مرحوم شاہ عبداللہ کا تھا - پتہ نہیں شاہ عبداللہ کا مشیرکارکون تھا جس نے انہیں گمراہ کیا لیکن اب سلمان بن عبدالعزیز کو تو کوئی سمجھائے کہ محترم خادم حرمیین شریفین اسی طرح ترکی میں بھی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے تحریکات اسلامی کی سرگرمیوں کو منجمد کرنے کیلئے عربی رسم الخط کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدارس تک میں تالا لگوا دیا تھا مگر کیا وہاں کی سیکولر حکرمتیں طیب اردگان جیسے مجاہد کا راستہ روک سکیں - محترم خادم حرمین شریفین شکر ہے ابھی آپ نے قرآن پر پابندی نہیں لگائی ہے اور اگر لگا سکتے ہیں تو یہ جرات بھی کر ڈالئے مگر یاد رہے آپ خود بھی حافظ قرآن ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ آپ نہ تو لوگوں کے سینوں سے اسلامی انقلاب کو تحریک دینے والی اس اللہ کے کلام کو نکال سکتے ہیں اور نہ ہی اس انقلاب کو روک سکتے ہیں جومومنین کے قلب میں پیوست ہے اور آپ کویہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ فرعون نے حضرت موسیٰ کا راستہ روکنے کیلئے بنی اسرائیل کے تمام بچوں کا قتل کر ڈالا مگر اللہ کی قدرت اور شان دیکھئے کہ وہ حضرت موسیٰ کی اسی کےمحل میں پرورش کر رہا تھا - ذرا آپ بھی ہوشیار رہیں امام مہدی کا ظہور بھی عنقریب آپ کے اسی خطے سے ہونے والا ہے- یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی ہے جو کبھی جھوٹی نہیں ہوسکتی- دیکھئے کہیں یہ نوجوان بھی آپ کے محل اور خاندان میں ہی نہ پل رہا ہو ...! بہرحال ہمیں آپ کے اس فیصلے پر کوئی حیرت اور دکھ نہیں ہے کیونکہ اللہ کا دین غالب ہوکررہے گا اوراس دین کا محافظ اللہ خود ہے -آپ کو اسلام سے نہیں اپنی خاندانی حکومت سے محبت ہے اسی لئے آپ کے خاندان کو ہمیشہ اپنے عوام سے بغاوت کا خطرہ رہا ہے اورآپ نے کبھی بھی سعودی باشندوں پر مشتمل اتنی بھی فوج نہیں بنائی کہ وہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا بھی مقابلہ کرسکے جبکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کی سادگی دیکھئے کہ وہ آپ کی حکومت سے بیت المقدس اورفلسطین کی آذادی کی امید بھی لگائے بیٹھا تھا- شاید آپ ایک طاقتورفوج بھی اس لئے نہیں بنانا چاہتے کہ کہیں آپ کی یہ فوج خود آپ کورضا شاہ پہلوی وغیرہ کی طرح یورپ میں پناہ لینے کا راستہ نہ دکھا دے - خیر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی حق تو بہرحال غالب ہو کر رہے گا -
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کو اسلام سے نہیں اپنے اقتدار سے محبت ہے اور یہ لوگ اسلام اور مقدس سرزمین مکہ اور خانہ کعبہ کو اپنے اقتدار کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں - انہیں بیک وقت جہاں اپنے عوام اور اسلام پسندوں سے خطرہ ہے ایران کی صفوی حکومت جو خود بھی ایک زمانے سے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے سعودی بادشاہوں کیلئے الگ خطرے کا سگنل دیتی رہی ہے- وہ تو بھلا ہو امریکہ اور صدام حسین کا کہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے طوفان کوعراق میں ہی دفن کر دیا- ورنہ ایران نے تو رضا شاہ پہلوی کے زمانے سے ہی آل سعود کی حکومت کے اطراف میں اپنی شیعہ ملیشیائوں کاگھیرا تنگ کررکھا ہے اوراس طاق میں ہے کہ موقع ملتے ہی حرمین شریفین کی گردن دبوچ لے- جس طرح اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی سرحدیں نیل اور فرات تک کے علاقوں پر مشتمل ہیں ایران کا بھی دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ پر صرف اور صرف صفوی حکمرانوں کو ہی حکومت کرنے کا حق ہے -اپنے اسی ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے اس نے عراق سے لیکر یمن سیریا اورلبنان میں ہرطرف شیعہ ملیشیائوں کاجال بچھارکھا ہے - اخوان کے ایک بزرگ رہنما اور کئ کتابوں کے مصنف احمد الراشد اپنی کتاب " آذادی سے فرار" میں لکھتے ہیں کہ مصرکی اسلامی بیداری ایک سنی بیداری تھی اوریہ بیداری مستقبل میں اسلامی مملکت کیلئے ایک عمدہ مثال قائم کر سکتی تھی جس کے سامنے گروہی شیعی اور خمینی مملکت کی شکل کا مضمحل ہو جانا یقینی تھا - وہ لکھتے ہیں کہ جب مرسی کی حکومت اپنے تربیتی اورمیڈیائی منہج کے ذریعے صاف اور شفاف اسلامی شعور کو عام کرتی اور تاریخ اسلامی کی درست تفسیروتفہیم سےعامتہ المسلمین باخبرہوتے توایرانی بدعت اور خرافات جسے ایران آج شعوری طور سے ساری دنیا میں رواج دینا چاہ رہا ہے اس کا یہ مکروہ چہرہ ایک سد راہ بن جاتی - مصر کا یہ اسلامی انقلاب اگر کامیاب ہو جاتا تومصری مملکت اورترکی کے مابین عسکری اوردفاعی معاہدہ بھی یقینی تھا - اس طرح یہ معاہدہ ایران کی صفوی حکومت کے مفاد کے بالکل برعکس ثابت ہوتا کیونکہ ایران جواسلامی عربی شعاروامن کو تباہ کرنا چاہتا ہے اس کا عزم ہے کہ وہ پورے علاقہ میں سب سے طاقتور اور مضبوط مملکت کی حیثیت اختیار کر سکے-اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی یہ سازشیں اپنے پہلے مرحلے میں کامیاب اور بار آور ہیں -انہوں نے حزب اللہ کو لبنان میں نصیریوں کو شام میں اور رافضیوں کو یمن میں متحرک کررکھا ہے اورمصر جہاں کہ ایک زمانے تک فاطمی شیعہ حکمرانوں کا غلبہ تھا اس پر بھی قبضہ کرنے کیلئے وہ پر عزم ہے - اس کے علاوہ انہوں نے عراق کی شیعی جماعتوں کو ہر طرح کا تعاون دیا اور عراق میں شیعی حکومت قائم کردی لیکن جب اس نے دیکھا کہ عنقریب مصر کے اسلامی تجربات اورسرگرمیوں کی کامیابی ایران کے ان سارے منصوبوں پر پانی پھیردیگی اورایران کومجبوراً اپنی دہلیزکی طرف لوٹنا پڑجائےگا۔ مصر کا اسلامی انقلاب ایران کیلئے چیلنج بن گیا -ان سب کے باوجوداخوان کےلوگ ایران کی سازش کو سمجھ نہیں سکے تو اس لیے کہ ان کے دل اخوت اسلامی کے جذبات سے مغلوب تھے -اور انہوں نے گمان کرنا شروع کر دیا کہ ممکن ہے کہ ایران ان کے ساتھ باہمی معاہدہ کرلے- جبکہ ایران نے کمال ھلباوی کو اخوان کے درمیان سے نکالا اور اس کے ذریعے اخوان میں پھوٹ ڈالنے کی سازشیں کی اوراخوان کی مرکزی قیادت میں فساد برپا کرنے کیلئے اس کو مال اورجعلسازی سے لیس کرکے داخل کردیا لیکن الحمد اللہ استاد مرشد اور مکتب الارشاد بہت بیدار تھے - چنانچہ ھلباوی کو نکال دیا گیا اور یہ انقلابی سرگرمی پورے طورپر پردفن ہوگئی اور اللہ کی حفاظت نے جماعت کو سلامت رکھا لیکن اس کے باوجود ھلباوی مسلسل اپنی گمراہی میں پڑا رہا آور بعض ویڈیو سے پتہ چلا کہ وہ انقلاب سیسی میں شریک تھا اوراس نے سازشیں قائدین اور باغی تحریک کے نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی اور وہ اپنی موجودگی کو چھپانا چاہ رہا تھا لیکن کیمرے نے اس کو بلاارادہ ایک لمحے کیلئے ظاہرکردیااوراسے بعض اخوانیوں نے دیکھ لیا تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کلی طور سے منحرف ہے -
مرسی نے جہاد شام کی مدد و حمایت کیلئے مہم شروع کی اور اس کیلئے ایک اسلامی کانفرنس منعقد کی اور یوسف القرضاوی اور دوسرے علماء نے فتوے صادر کئے کہ مسلمان رضاکارانہ طورپر جہاد شام میں شامل ہوں - مرسی نے کچھ مصری ہتھیارشامی مجاہدین کو دینے کااعلان کیا تو ایران بھڑک اٹھا ایران جس نے کہ حزب اللہ ,جیش المھدی اور تمام ملیشیائی عراقی تنظیموں ,بحرینی یمنی افغانی اورپاکستانی لشکروں کی مدد سے معرکہ شام کا بوجھ اپنے اوپراٹھا رکھا تھا غیض وغضب میں مبتلا ہو گیا-اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ شام پر مسلسل قبضہ ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے جسکا مقصد عربی اسٹریٹیجی امن کی دیواروں کو منہدم کرنا ہے اور پھرجوکچھ سیسی ،برادعی ,عمر وموسیٰ,حزب النور ,عبدالمنعم ابوالفتوح ,ھلباوی اور مصر کے میڈیا نے کیا وہ صرف موجودہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا جرم نہیں ہے بلکہ وہ امت کے اسٹریٹیجی امن کے حق میں بھی سب سے بڑا جرم سمجھا جانا چاہیے-افسوس ایران سمیت عرب کے نااہل حکمراں بھی قبطیوں کے ساتھ شامل ہوکر جہنم کے اس گڑھے میں گر گئے اور مصر کے اسلام پسند مسلمانوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا -
0 comments: