فتنہ مادیت, دجال اور ہم

8:11 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی ۔ ممبئی
umarfarrahi@gmail.com

دنیا میں جہاں کہیں پر بھی مسلمان اسپین برما, بوسنیا,اور فلسطین جیسے مظالم سے گذرتا ہے تو عالم اسلام کا سیدھا سادھا اور بے بس مسلمان وہ چاہے عالم ہو جاہل ہو کسان ہو یا تاجر یہ محسوس کر نے لگتا ہے کہ گویا یہ ظلم اسی پر ڈھایا جارہا ہے اور پھر اس کا پورا وجود درد سے کراہتے ہوئے برجستہ پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی بھیج دے محمود کوئی....! مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں اگر کوئی محمود , محمد بن قاسم ,صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد آسمان سے نازل بھی ہوجائیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ یہ لوگ پہچان بھی لئے جائیں اور کیا ہمارا موجودہ سیاسی نظام اور ماحول ہمیں یہ اجازت دیگا کہ ہم انہیں ان کے اس مجاہدانہ کردار میں قبول بھی کر سکیں- ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ اگر اپنی کسی فوج اور طاقت کے ساتھ نمودار بھی ہوئے تو خوارج ,باغی اور دہشت گرد قرار پائیں گے جو ہو بھی رہا ہے- سچ تو یہ ہے کہ اشتہاری میڈیا, انٹرنیٹ کے جھوٹ , برہنہ تہذیب ,سودی معیشت , فحاشی کی یلغار, موسیقی کے طوفان , ادب کی بے ادبی, دجل و فریب, سرکاری بدعنوانی, حرام رزق اور حق و باطل کے  اس پر فتن مشتبہ دور میں حضرت امام مہدی اور دجال کی اصلیت کو بھی صرف وہی لوگ شناخت کر پائیں گے جو علم کے ساتھ ساتھ اس بدعت اور برائی سے بھی  بدظن اور بیزار ہیں - بلکہ مسلمانوں کی اکثریت مادیت اور ریاکاری کے فتنے میں اس قدر قید ہو چکی ہے کہ آج اگر شام کے علاقے میں حضرت مہدی کا ظہور ہو جائے تو وہ بھی دہشت گرد قرار پائیں گے - جیسا کہ دجال کے ظہور سے  پہلے کی کچھ علامتیں ظاہر بھی ہو رہی ہیں اور ہم  محسوس بھی کر رہے ہیں کہ جو محمود ہیں وہ دہشت گرد  ہیں اور جو دہشت گرد ہیں وہ برسر اقتدار ہیں اور جو اہل علم اور دانشور ہیں وہ ان کے آلہ کار ہیں اور تلبیس حق و باطل کے فتنے میں قید ان کی تعداد طبقہ خاص اور اہل علم میں سے زیادہ ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ  قحط الرجال کے اس دور میں حق پرست علماء کی شناخت بھی بہت مشکل ہے-اتفاق سے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے  پہلے بھی یہی ماحول تھا یعنی وقت کے اہل ایمان اور اہل کتاب جنہیں اپنے تعلیم یافتہ ہونے اور اپنی تہذیب و تمدن اور  ترقی پر بہت ناز تھا انہوں ںے آخری نبی ﷺجس کا کہ انہیں خود بھی انتظار تھااس لیںے انکار کر دیا کیوں کہ یہ رسول ایک ایسی قوم سے تھا جو ان سے کمتر اور کم پڑھے لکھے لوگ تھے -اگر آج کے مسلمانوں سے ان کا تقابلی موازنہ کیا جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت اہل کتاب میں کم سے کم اپنے رب سے ڈرنے والے ایسے علماء اور کاہن موجود تھے جنھوں نے اپنے علم سے رسول کی ولادت کے بعد ہی یہ اعلان کرنا شروع کر دیا تھا کہ وقت کے رسول محمد صلیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہو چکی ہے - تاریخ میں آتا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء کی اسی پیشن گوئ کے مطابق اپنے نو مولود بچوں کا نام محمد رکھنا شروع کر دیا تھا - ذرا غور کیجئے کہ آج کے دور میں دنیا کے کسی بھی خطے میں جہاں مسلمانوں کا ہر وہ عالم اورامام جو دوسرے عالم سے اپنے آپ کو بہتر اورافضل سمجھتا ہے کیا وہ موجودہ پر فتن دور کا ادراک رکھتا ہے - حدیث ہے کہ آخری دور میں علم اٹھ جائے گا -اور گمراہی کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی اکثریت پر وہن غالب آجائیگا - ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ جن پر وہن غالب نہیں ہے ان کیلئےخارجی قاتل اور زانی ہونے کی سند جاری ہورہی ہے اور جن پر وہن غالب ہے  یہ ہمارے دور کے علماء اور دانشور ہیں جو خود دجال کے مادی فتنے میں قید ہیں - تعجب ہے کہ حالات حاضرہ پر مسلمانوں کے ان علما اور مفکروں کی معلومات کا ذریعہ انٹرنیٹ اور دجالی میڈیا  ہے یا ایسی تمام خبریں جو اسرائیل اور ایران سے نشر ہورہی ہیں اور یہ دونوں قومیں کم و بیش تقریباً تیرہ سو سال سے اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار ہیں اور یہ لوگ خاص طور سے یورپ کے عیسائیوں اور ہندوستان کے ہندوؤں میں عرب کے مسلمانوں کی ایک خونخوار تصویر پیش کر رہے ہیں مگر ہمارے  علماء اور کچھ دیگر لکھاریوں کو اپنے اطراف میں ہونے والی ان سازشوں کا تو علم نہیں ہے کہ کون ان کے خلاف سازش میں مصروف ہے ۔ مگر جس میدان میں قدم رکھنے سے ہی ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں  وہاں کی خبریں اور ان کے بارے میں اس طرح لکھ رہے ہیں جیسے کہ یہی دجال کا اصل فتنہ ہو- حالانکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ شورش کے بارے میں تھامس فرائیڈ مین اور انصاف پسند مغربی دانشوروں کو بھی یہ اعتراف ہے کہ اگر فلسطین کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہوتا, عربوں پر جنگ مسلط نہ کی گئی ہوتی, عوام کی آذادانہ طورپر اپنی حکومت ہوتی , مصر اور شام میں عوامی حکومت کے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا ہوتا اور ان ممالک میں ایران اسرائیل اور عرب کے نوابوں نے ٹانگ نہ اڑائی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے- دنیا کے حکمرانوں کی یہی وہ نا انصافی اور ظلم کی داستان ہی مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کی وجہ سے عرب کے نوجوان ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں جسے ہندوستان کے علماء اور دانشور بھی نہ صرف سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ  حدیث اور قرآن کی غلط تعبیر پیش کرکے اس طرح اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں جیسے کہ وحی کے نزول کا سلسلہ انہیں پر ہو رہا ہو - اسی بحث اور ایک مضمون کے ردعمل میں ہمارے ایک قاری نے کہا کہ عرب حریت پسندوں کے خلاف تو اب سعودی کے مفتی اعظم کا بھی بیان آچکا ہے کیا وہ غلط ہیں-اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ جب مصر میں نہتے اخوانیوں پر گولیاں برسائی جارہی تھیں اور تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم ملک میں باحجاب معزز خواتین کو نہ صرف سڑکوں پر گھسیٹ کر مصری فوجیوں نے ان کے لباس کو تار تار کیا بلکہ سیکڑوں خواتین کو جیلوں میں بھی ڈال کر تشدد سے گذارا جا رہا ہے اور سعودی حکومت نے کھلے عام اس ظلم کی حمایت کی تو اس وقت یہ مفتی اعظم  کہاں تھے  - میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کی کسی جیل میں کسی دیگر مذہب کی خاتون کو قید کر کے تشدد  سے اس طرح گزارا گیا ہو یا اگر ایسا ہوا بھی تو اس ملک کے لوگوں نے برداشت بھی کر لیا ہو- یورپ تو کسی ملک میں اپنے کسی شہری کی گرفتاری برداشت نہیں کرتا اور جہاں تک ممکن ہے ہرجانہ دیکر رہا کروا لیتا ہے -ایران کی بھی مثال دیکھئے کہ ان کے لوگوں نے ایک سعودی باشندے  نمر النمر کی سزائے موت پر سعودی سفارت خانے کو اس لئے آگ لگا دیا کیوں کہ وہ ان کے ہم مسلک تھے - مگر عالم اسلام کے کسی سنی عالم دین نے باقی کے چھیالیس سنی مسلمانوں کی سزائے موت پر کوئی سوال اٹھانے کی جرات نہیں کی - جبکہ یہ ممکن بھی ہے کہ یہ  نوجوان جنھیں القاعدہ سے تعلق کی بنیاد د پرسزا دی گئی ہے النمر ہی کی طرح سیاسی ملزم اور سعودی حکومت کے شکار رہے ہوں- عالم اسلام کے سنی علما کی یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے کہ وقت کی حکومتیں اور دجالی میڈیا جو تصویر پیش کرتا ہے یہ علماء بھی اس جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں - کیا سعودی عرب کے مفتی کو امریکہ کی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر ہو رہے ظلم اور تشدد کے بارے میں علم نہیں ہے - اگر نہیں ہے تو وہ مفتی کیسے اگر ہے تو پھر ان کی زبان اس مظلوم عورت پر ہو رہے ظلم پر خاموش کیوں ہے- کیا وہ ملت کی بیٹی نہیں ہے - سچ تو یہ ہے کہ نہ تو یہ ملت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی پاکستان کا یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور انسانوں میں بھی سب سے کمزور مخلوق پر ہونے والی ظلم کی داستان ہے- اس معاملے میں تو پورے عالم اسلام کے علما کو عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے تحریک چھیڑ دینی چاہیے مگر بہت ہی شرم کی بات ہے کہ داعش کے خلاف تو عالم اسلام کے سارے علماء اور مسلمانوں کی نام نہاد تنظیمیں بیان بازی میں ایک دوسرے پر فوقیت لے جارہی ہیں تاکہ اپنی حکومتوں سے واہ واہی اور تمغے حاصل کر سکیں مگر ان کی صفوں میں دور دور تک کوئی امام ابو حنیفہ, حنبل, ابن تیمیہ, غزالی اور محمد بن وہاب جیسے علماء موجود نہیں ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نہی عن المنکر کے فرائض انجام دے سکیں - امام غزالی نے ماضی میں عالم اسلام کی اسی خستہ اور بوسیدہ تصویر کو اپنی کتاب احیاء العلوم میں پیش کر تے ہوئے لکھا ہے کہ رعیت کی خرابی سلاطین کی خرابی میں ہے اور سلاطین کی خرابی علماء کی خرابی کا نتیجہ ہے اور علماء کی خرابی کی وجہ دولت اورجاہ کی محبت کا غلبہ ہے اور جس پر دنیا کی محبت غالب آجائے وہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا احتساب اور روک ٹوک بھی  نہیں کر سکتا- وہ مزید لکھتے ہیں کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ خلفاء راشدین خود بڑے عالم و فقیہ اور صاحب فتویٰ تھے مگر جب ان لوگوں کا دور آیا جنہیں حکومت اور خلافت کا استحقاق نہیں تھا تو انہیں مجبوراً علماء سے مدد لینی پڑی اس طرح شاہی دربار میں علماء کی قدرو منزلت میں جو اضافہ ہوا ان کے زمانہ کے لوگوں نے شاہی دربار میں علماء کی یہ شان سلاطین و حکام کا یہ رجوع اور اہل علم کا یہ استغناء اور بے لوثی دیکھی تو وہ یہ سمجھے کہ حصول جاہ و عزت اور حکام کے تقرب کیلئے فقہ کا علم بہترین نسخہ ہے اور وہ دیگر علوم اور فرائض سے بے اعتنائی برتتے ہوئے اسی طرف راغب ہو گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء جو مطلوب تھے وہ طالب ہو گںُے- یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں حکومت اور خلافت کا کاروبار خلیفہ وقت اور مجاہدین کے ذریعے عروج پر تھا اور اکثر دور ملوکیت میں بھی کبھی کوئی قاسم کوئی طارق کوئی ایوبی اور محمود پیدا ہو جایا کرتے تھے مگر اٹھارہویں صدی کے سائنسی اور مادی انقلاب نے تو سیاست اور حکومت کے زاویے کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور یہ صورتحال اور بھی نازک اور بدترین دور میں داخل ہو چکی ہے- جدید لبرل طرز سیاست میں علماء اور فقہا کا یہ مقام جدید لبرل دانشوروں اور صحافیوں نے حاصل کر لیا ہے
مزید بدقسمتی یہ ہے کہ اب جہاں اہل دانش اور نام نہاد دانشور کارپوریٹ میڈیا میں تبدیل ہو چکے ہیں کارپوریٹ کلچر نے نہ صرف  عام انسانوں, صنعت و تجارت اور سماج کے مزاج کو بدل دیا ہے وہیں سیاست بھی اب انسانوں کی فلاح وبہبود کا ادارہ نہ ہو کر عیاشی اور بد عنوانی کا اڈہ بن چکی ہے اورجدید میڈیا جو کہ ان کی بدعنوانی پر نظر رکھنے کیلئے وجود میں آیا تھا یاانہیں ایک اچھی اور صاف ستھری حکومت کیلئے رہنمائی کر سکتا تھا خود بھی ان کی بدعنوانی میں شریک ہو کر سیاستدانوں کا آلہ کار بن چکا ہے - سابق چیف جسٹس کاٹجو نے بہت سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں کو تو کھڑا کرکے گولی مار دینا چاہیے - اچھا ہے کہ کاٹجو مسلمان نہیں ہیں ورنہ ان سے بھی یہ سوال کر دیا جاتا کہ کہیں آپ داعش اور طالبان کی حمایت تو نہیں کر رہے ہیں - شکر ہے کہ جدید سیاسی تہذیب میں کاٹجو کی ذہنیت کو تحریک نہیں ملتی مگر جب ان کے خلاف بغاوت کی چنگاری اٹھتی نظر آتی ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ کروا دیا جاتا ہے اور پھر حکومتی سرمائے پر پل رہے  میڈیائی دانشور دہشت گردی کا شور مچانے لگتے ہیں- اس طرح حق و باطل کی معرکہ آرائی میں امن اور تشدد کے صرف دو ہی مجاہد نظر آتے ہیں وہ ہیں دہشت گرد اور دانشور -اب شاید ہمیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ مظلوموں کے محمود اور محمد کہاں ہیں - حدیث ہے کہ دجال اپنے ایک ہاتھ میں جنت اور دوسرے ہاتھ میں جہنم کی تصویر پیش کرے گا - پس جس نے جہنم کو ترجیح دی اس نے جنت پا لیا اور دجال کی جنت کا طلب گار جہنم رسید ہو جائیگا - دجالی میڈیا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر یہی دو چہرہ پیش کر رہا - ان کے ساتھ کون لوگ کھڑے ہیں اور ان کی پست پناہی کون کر رہا ہے اور ان کا کردار کیا ہے یہ لوگ بھی باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں- مگر سوال پھر وہی دنیاوی نفع اور نقصان کو برداشت کرنے کا ہے- یہی مادیت ہے اور مادیت ہی دجال کا اصل فتنہ ہے -

0 comments: