گائے کی سینگ پر ہندوستان
آج ہندوستان ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے اور اسی دوراہے پر کھڑے ہیں سو کروڑ سے زائد ہندوستانی ۔پیچھے کی طرف دیکھنے پر شاندار ماضی سرشار کرتا ہے اور سونے کی چڑیا ہمکتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن جب سامنے نگاہ اٹھتی ہے تو ایک گہری اور تاریک کھائی پر جاکر نظریں ٹک جاتی ہیں ۔
یہ ملک ہمیشہ سے مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب کا گہوارہ رہا ہے ۔ قرون وسطی کے حکمرانوں اور خصوصاً مغلوں نے تہذیبی مماثلت اور قومی یکجہتی سے عبارت یہاں کی شاندار قدروں کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ وسیع النظری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کی شان و شوکت اور عظمت میں گرانقدر اضافہ بھی کیا ۔ مذہبی کشادگی ، تہذیبی یکسانیت اور ایک دوسرے کے تہواروں اور سوگ میں شرکت یہاں کی خصوصیت رہی ہے ۔
یہ وہی ملک ہے جہاں کے قدیم شہر دہلی میں ہر سال بھادوں کے شروع میں ایک پر رونق میلہ لگتا ہے جسے’’ پھول والوں کی سیر ‘‘ یا ’’ سیر گل فروشاں ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ’’ پھول والوں کی سیر ‘‘ کے آغاز میں مسلمان خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پہ اور ہندو جوگ مایا جی کے مندر میں پنکھے چڑھاتے ہیں ۔ جوگ مایا جی کے مندر کی بنیاد راجا یدھشٹر کے عہدمیں رکھی گئی تھی اور مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی نے اس کی ازسر نو تعمیر کروائی تھی ۔
’’ پھول والوں کی سیر‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی دلچسپ ہے ۔اکبر شاہ ثانی ( عہد حکومت : ۱۸۳۷ ۔ ۱۸۰۶ء) کے چشم و چراغ مرزا جہاں گیر نے لال قلعے میں مقیم ایک انگریز ریزیڈنٹ اسٹین کو غصے میں تھپڑ رسید کردیا تھا جس کی پاداش میں انھیں الہ آباد میں نظر بند کردیا گیا ۔ شہزادے کی ماں نواب ممتاز محل نے خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے آستانہ پر اپنے لخت جگر کی رہائی کے لئے منت مانی اور جب مرزا جہاں گیر نے آزاد فضا میں سانس لی تو الہ آباد سے پرانی دہلی تک مغلوں کے مخصوص انداز میں جشن کا اہتمام کیا گیا ۔ پھولوں سے راستے کو سجایا گیا ۔ پھول برسائے گئے اور ڈھول تاشہ بجا کر مسرت کا اظہار کیا گیا ۔ نواب ممتاز محل نے شاہی طریقے سے اپنی منت پوری کی اور کئی دنوں تک مہرولی میں میلہ سجا رہا ۔ اس میلے میں ہندو اور مسلمان بلا تفریق شانہ بشانہ سیر کرتے نظر آئے ۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر ( عہد حکومت : ۱۸۵۸ء ۔ ۱۸۳۷ء) نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی باہمی رفاقت سے مسرور ہوکے میلے کی رونق میں مزید چار چاند لگا دیئے ۔ بہادر شاہ ظفر کی قومی یکجہتی پر یقین کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے وہ ہندوؤں کے پنکھے کے جلوس میں شرکت سے محروم رہ گئے ۔ دوسرے دن مسلمانوں نے پنکھے کا جلوس نکالا اور بضد ہوئے کہ بادشاہ سلامت اس میں ضرور تشریف لائیں ۔ مغل تاجدار نے جواب دیا ’’ کل ہندوؤں کے پنکھے کے ساتھ گیا ہوتا تو آج تمہارے پنکھے کے ساتھ ضرورچلتا ۔ آتش بازی ہندو مسلمان دونوں کی طرف سے چھوٹے گی لہذا اس میں شریک ہوجاؤں گا ۔ ‘‘ شاہی دور ختم ہوگیا لیکن خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر پنکھے اور پھولوں کی چادر اور جوگ مایا جی کے مندر میں پنکھے چڑھانے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے ۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آج ہندو توا کا گمراہ ٹولہ مغلوں کی کشادہ قلبی اور انسانیت نوازی کو من گھڑت قصوں کے ذریعے مسخ کررہا ہے ۔اس زعفرانی ٹولہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کا بھی شوشہ چھوڑا جاتا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغلوں نے ہی اپنے عہد میں ’’ اکھنڈ بھارت ‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا اور انھوں نے اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے متعددچھوٹی بڑی ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کیا تھا ۔ آزادی کے وقت پورے ملک میں چھوٹی بڑی ۵۵۴ ریاستیں موجود تھیں ۔ مذکورہ تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغلوں کے دور میں یہاں کتنی ریاستوں کا وجود رہا ہوگا ؟
عہد حاضر میں بھگوا گمچھا اوڑھے کٹر پنتھی ہندو کندھے پر مذہبی اور سماجی رواداری اور تہذیبی یکسانیت کی ارتھی اٹھا کر پورے ملک میں دہشت پھیلا رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے انصاف پرور بادشاہ کو ظالم و جابر اور ہندوؤں کا دشمن ثابت کیا جاچکا ہے اور اب جنگ آزادی کے مجاہد اور انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان کی ایمانداری ، جذبے ، وطن پرستی اور شہادت پر انگشت نمائی کی جارہی ہے اور انھیں ہندوؤں کا قاتل کہا جارہا ہے ۔جبکہ فتح علی ٹیپو کی روا داری اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دور حکومت میں ہر سال ۱۵۶ مندروں کو حکومتی امداد سے نوازا جاتا تھا ۔ اس میں زمین اور جواہرات کے عطیات بھی شامل ہیں ۔ شنکر اچاریہ کے بنائے ہوئے مشہور زمانہ سرینگری مٹھ کو جب مراٹھا فوج نے لوٹ مار کا نشانہ بنا کر تہس نہس کیا تو شیر میسور نے مٹھ کی باز آباد کاری کا فرمان جاری کیا اور مالی تعاون بھی فراہم کیا تاکہ یہاں حسب معمول پوجا پاٹھ جاری ہوسکے ۔ علاوہ ازاں ٹیپو سلطان نے نانجن گوڈ کے مشہور سری کنٹیشور مندر کے تعمیری کام کے لئے ۱۰ ہزار سونے کے سکے دیئے ۔ انھوں نے میلکوٹ مندر کے پجاریوں کے مابین پیدا ہونے والے تنازع کو نمٹانے اور پجاریوں میں صلح صفائی کرانے میں اہم کردار نبھایا ۔ مجاہد آزادی نے کلا لے کے لکشمی کانتا مندر کو بھی تحفوں سے نوازا ۔ ٹیپو سلطان کی قومی یکجہتی اور ملنساری کا علم اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے مندروں کے شہر سرنگا پٹنم کو اپنی سلطنت کے مستقل دارالحکومت کا رتبہ دیا ۔
ٹیپو سلطان کی طاقت اور انگریزوں کے دلوں میں ان کے دبدبے کا اندازہ گورنر جنرل کارنوالس کے مدراس کے گورنر میڈوز کو تحریر کردہ مکتوب سے ہوتا ہے ۔ خط میں لکھا ہے ’’ اس ملک میں اپنی شہرت ، عزت اور وجود قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے نبرد آزما ہوں ۔ ہمیں اس طاقت کو ہمیشہ کے لئے مٹا دینا چاہیے ۔ اس کے لئے یہ سب سے اچھا موقع ہے کیونکہ ہندوستان کی دوسری طاقتیں ہماری مدد کررہی ہیں ۔ اگر ٹیپوسلطان کو اس طرح چھوڑ دیا گیا تو ہمیں ہندوستان کو خیر باد کہنا پڑے گا ۔ ‘‘
گورنر جنرل کارنوالس کے اس مکتوب سے یہ اطلاع بھی ملتی ہے کہ اس وقت ہندوستان کی دوسری طاقتیں انگریزوں کی مدد کررہی تھیں ۔ آج وہی طاقتیں ٹیپوسلطان کے خلاف زہر اگل رہی ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرٹی مینرو نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے ’’ ہماری فوجی قوت ایسی ہے کہ موقع دیکھ کر ہم بہ آسانی پورے ہندوستان پر قابض ہوسکتے ہیں لیکن ٹیپو کی طاقت اس میں سنگ گراں کے طور پر حائل ہے ۔ اگر سرنگا پٹنم پر قبضہ ہوجائے تو تمام معاملات آسان ہوجائیں گے ۔ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ باضابطہ منصوبہ بندی کی جائے ۔‘‘ ٹیپو سلطان کی بہادری اور انگریزوں کے کٹر دشمن نپولین بونا پارٹ کی طرف سے انھیں تعاون کی پیش کش تاریخ کے صفحات پر آج بھی روشن ہے ۔ ہندوستان سے کوسوں دور فرانس میں آج بھی ٹیپوسلطان کی دلیری اور ملک کے تئیں وفاداری کے واقعات لوگوں کو ازبر ہیں ۔ محض اتنا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سائنس ادارے ناسا ( نیشنل ایروناٹک اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن) نے اپنی ریسیپشن لابی میں ٹیپوسلطان کی فوج اور انگریزوں کے درمیان لڑائی کی ایک پینٹنگ کو نمایاں طور سے آویزاں کر رکھا ہے ۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے اپنی سوانح حیات ’’ دی ونگس آف فائر‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ناسا کے پاس اپنی جو سائنسی تحقیق ہے اس کے مطابق سائنسی تاریخ میں سب سے پہلا میزائل ٹیپو سلطان کی فوج میں ہی تیار کیا گیا تھا ۔
گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ڈرامہ نگار ، اداکار اور مصنف گریش کرناڈ نے ٹیپوسلطان کے یوم ولادت کے موقع پر کرناٹک میں آر ایس ایس کے کارکنوں کے ذریعے اشتعال انگیزی کے بعد میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ’’ ٹیپوسلطان کے تعلق سے ہندوؤں میں تعصب کا بیج بویا جارہا ہے ۔ا گر وہ ہندو ہوتے تو انھیں مہاراشٹر کے راجا شیواجی جیسا ہی درجہ دیا جاتا ۔ لیکن ٹیپو سلطان کو صرف ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس اعزاز سے محروم کئے جانے کی کوششیں ہورہی ہیں جو برداشت نہیں کی جانی چاہیئے ۔ ‘‘
ایک ٹولہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے جنون میں شیطانیت پر اُتر آیا ہے ۔ تاریخ کو طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت توڑ مروڑ کے پروسا جارہا ہے اور ناخواندہ اور کم عقل ہم وطنوں کے ذہن میں مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔ انھیں دہشت گرد اور ان کے اسلاف کو متعصب بتایا جارہا ہے ۔ یوں بھی ہندوستان کی سیکولر امیج برباد ہوچکی ہے ۔ سرکاری عمارتوں ، پولس اسٹیشنوں اور پولس کی گاڑیوں کو دیکھنے پر حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے ۔ غیر اعلانیہ طور پر ملک کے ہندو راشٹر بن جانے کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں ۔ ممبئی اوشیورہ لنک روڈ سے میں جب بھی گزرتاہوں ، مجھے ان آر بیٹ مال کے مقابل ایک بورڈ اکثر متوجہ کرتا ہے جس پر درج ہے ’’ ہندوراشٹر کے اوشیورہ ضلع میں آپ کا سواگت ہے ۔ ‘‘
ایسے پریشان کن اور خطرناک حالات میں یہ سوچ کر دل تھوڑا مطمئن ہوجاتا ہے کہ غیر مسلموں کی نئی نسل تعلیم یافتہ اور ذی فہم ہے ۔ ان کی آنکھوں پر تعصب کی عینک بھی نہیں ہے ۔ انھیں معلوم ہے کہ باہر سے آنے والے مسلم بادشاہوں کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ ملکی اور غیر ملکی سبھی بادشاہوں کی اولین ترجیح حکومت تھی ۔ ان میں چند حکمراں ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں یہاں کے باشندوں نے اپنی حفاظت اور مقامی راجا کے مظالم سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی غرض سے بلایا تھا ۔ تاریخ کے مطابق پورے ہندوستان پر مسلم بادشاہوں نے تقریباً ۷۰۰ برس حکومت کی ہے ۔ بعض مورخین نے ۹۰۰ سال کا ذکر کیا ہے ۔ا ن کا کہنا ہے کہ باقی کے ۲۰۰ برس ہندوستان کے چنندہ حصوں پر مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ۔ اگر مسلم بادشاہ فرقہ پرست اور تعصبی ہوتے تو آج اس ملک میں صرف مسلمان موجود ہوتے اور ایک بھی غیر مسلم نظر نہیں آتا ۔
زمانہ قدیم سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ ہر طاقتور نے کمزور کی حق تلفی کی ہے ۔ ہر طاقتور بادشاہ نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لئے دوسرے ملک پر حملہ کیا ہے ۔ چنگیز خاں ، ہلاکو خاں ، امیر تیمور اور سکندر اعظم جیسے متعدد خود غرض اور جابر بادشاہوں کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ کیا جرمن کے قائد ایڈولف ہٹلر کو بھلایا جاسکتا ہے ؟ کیا اٹلی کے ڈکٹیٹر بینیٹومسولینی کو متذکرہ شخصیتوں سے الگ رکھا جاسکتا ہے ؟ اور پھر امریکہ ، برطانیہ ، جاپان ، چین ، فرانس ، جرمنی ، روس اور اسرائیل کا رول بھی بالکل ظاہر ہے ۔ ہم ہندستانیوں کو بھی تو غلامی کی زنجیریں پہننے کے لئے مجبور کیا گیا اور ہم نے اپنے بھائیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے بے بسی سے دیکھا ہے ۔
اورنگ زیب عالم گیر اور ٹیپو سلطان جیسے مسلم بادشاہوں کی اچھائیوں کو سامنے لانے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ اس ملک کے کروڑوں باشندوں کو یہ کون سمجھائے گا کہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر اپنے اخراجات پورے کرتے تھے ۔ اپنے ذاتی کاموں کے وقت وہ سرکاری چراغ تک بجھا دیتے تھے ۔ انھوں نے اپنے بھائیوں کی سازشوں کے خلاف جتنے بھی لشکر روانہ کئے اس کی قیادت ہندو سپہ سالاروں نے کی ۔ کیا ایسا حکمراں متعصب ہوسکتا ہے ؟ اس سلسلے میں بشمبر ناتھ پانڈے اور دیگر غیر مسلم مورخوں کی تصانیف پر مذاکرے اور سیمینار ہونا چاہئے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون ؟ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس نوعیت کے کاموں کو بھی اسلام سے جوڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔ ہندوؤں کے طرح مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا جارہا ہے ۔ مدرسے اور مسجدیں تو عالیشان بن رہی ہیں مگر لائبریریوں اور ریسرچ سینٹروں کو بے کار اور حقیر شئے سمجھ لیا گیا ہے ۔ کیا ہمارے آباء واجداد بے وقوف تھے جو لائبریریوں اور ریسرچ سینٹروں کو فوقیت دیتے تھے یاوہ عیسائی اور یہودی ممالک بے عقل ہیں جنہوں نے ہر مسلم ملک پر حملے کے بعد سب سے پہلے وہاں کی لائبریری پر قبضہ کیا اور واپسی پر ساری کتابیں اپنے ساتھ لے گئے ۔ عراق میں بھی جونیئر جارج بش نے یہی کیا تھا ۔
آر ایس ایس کی مثال بھی سامنے ہے ۔ اس تنظیم کے کارکنان اپنے عہد کے تئیں پوری طرح ایماندار ہیں ۔ کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد انھوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیاہے ۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے مجردانہ زندگی گزاری ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لئے اپنی نجی زندگی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان تعلیمی ضرورتوں کے لئے بھی فراغت کا مظاہرہ کریں ۔ جس طرح عالم دین پیدا کئے جارہے ہیں اس طرح قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو اسکالر بنانے کی طرف بھی توجہ دیں ۔ یاد رہے کہ سلمان رشدی کی ’’ شیطانی آیات ‘‘ نامی متنازعہ کتاب کا جواب کسی عالم دین نے نہیں بلکہ ڈاکٹر رفیق زکریا نامی ایک اسکالر نے ’’محمد اور قرآن ‘‘نامی کتاب لکھ کر دیا تھا اور اس کتاب کو انگریزی میں اسی پبلشر نے شائع کیا تھا جس نے سلمان رشدی کی کتاب چھاپی تھی ۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد مقامی مسلمانوں نے اسلامک ریسرچ سینٹر کے ذریعے بڑی تعداد میں انگریزی تراجم پر مبنی قرآن مجید شائع کروا کے تقسیم کئے تھے ۔ اس مہم کا خاطر خواہ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی معاشرے میں اسلام اور قرآن مجید سے تعلق سے جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی تھیں وہ دور ہوگئیں اور اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔
گذشتہ دنوں مقامی اردو اخبار ( روزنامہ : انقلاب : ۲۱ ۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء) میں چھپنے والی ایک خبر نے مجھے ہنسنے پر مجبورکردیا ۔ خبر یہ تھی کہ مہاراشٹر کی بی جے پی شیوسینا سرکار درختوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کررہی ہے ۔ عوام میں شجر کاری کے فروغ کے لئے مہاراشٹر سرکار نے سوشل فاریسٹری کے موضوع پر جو کتابچہ شائع کیا اس میں کھجور ، زیتون اور انگور کو اسلام ، انجیر ، انار اور انگور کو عیسائیت ، پیپل ، ریٹھا اور بیر کو ہندو ازم اور سال ، برگد اور کھیرنی کو بودھ مذہب سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ یہ ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے ۔ اس طرح تعلیم اور سرکاری اداروں کا بھی بھگوا کرن کیا جارہا ہے ۔ پونہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے طلبا کے احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں تاریخ کے ساتھ چھیڑ خانی کی جرأت کی گئی تھی لیکن اٹل بہاری واجپئی نے ہر کوشش کی سختی سے مخالفت کی تھی ۔آج ماحول تبدیل ہوچکا ہے ۔ گائے کو سیاسی جانور بنا دیا گیا ہے اور اس سے دودھ کی بجائے ووٹ کی توقع کی جارہی ہے ۔ بی جے پی لیڈر انل وج نے جب سے اسے قومی جانور بنانے کا مطالبہ کیا ہے جنگل میں شیروں کو بھی اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔
ان دنوں ملک میں بیف پر پابندی کے نام پر ایک نئی بحث جاری ہے ۔ ایسے کشیدہ ماحول میں نیشنل سیمپل سروے آفس کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً آٹھ کروڑ (۸۰ ملین) لوگ بیف کھاتے ہیں ۔ اگر اسے اور آسان الفاظ میں کہیں تو ہر تیرہ ہندوستانیوں میں سے ایک ہندوستانی بیف کھاتا ہے ۔ ان اعداد و شمار کو کمیونٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو ملک میں ایک کروڑ ۲۶ لاکھ ہندو ، چھ کروڑ ۳۵ لاکھ مسلمان ، ۶۵ لاکھ عیسائی اور ۹ لاکھ دیگر کمیونٹی کے لوگ بیف کھانے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اگر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی اور اترا کھنڈ کے کانگریسی وزیر اعلیٰ ہریش راوت کے مشوروں کو سنجیدگی سے تسلیم کرنے کی بات کی جائے تو مذکورہ آٹھ کروڑ بیف کھانے والے ہندوستانیوں کو یہ ملک چھوڑ کر پاکستان چلے جانا چاہیے ۔ کیونکہ انھیں یا بالی ووڈ اسٹار رشی کپور کو ہندستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’ منوسمرتی‘‘ میں جانوروں کو بطور غذا استعمال کرنے کا تذکرہ موجود ہے ۔ گنگا جل بھی مقدس ہے لیکن اسے پیا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ؟
سوامی وویکارنند کی تقاریراور تحریروں کی کئی جلدوں پر مشتمل ایک کلیات ''The Complete works of swami vevekananda''دستیاب ہے ۔ مذکورہ کتاب میں ایک جگہ درج ہے کہ کسی نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا ’’ آپ کی نگاہ میں ہندوستان کا سنہری دور کون سا تھا ؟ ‘‘ سوامی وویکانند نے اس سوال کا بڑا دلچسپ جواب دیا تھا ۔ انھوں نے کہا ’’ جب پانچ برہمن ایک گائے کھا جایا کرتے تھے ۔ ‘‘ اس کتاب میں سوامی وویکانند کا یہ جملہ بھی موجود ہے ۔ موصوف کے بقول ’’ برہمن شُدر عورتوں سے بیاہ رچاتے تھے اور دن میں ایک وقت بیف کھاتے تھے ۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کی خاطر بچھڑے کو قتل کیا جاتا تھا ۔ برہمنوں کے لئے شُدر عورتیں کھانا بنایا کرتی تھیں ۔ ‘‘
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنے ایک مشہور مضمون ’’ کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا ‘‘ میں تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔پروفیسر ڈی این جھا نے بھی گوشت خوری کی تاریخ کا مفصل جائزہ لیا ہے ۔اور اس تعلق سے ان کی کتاب THE MYTH OF THE HOLY COWبازار میں مل رہی ہے ۔ شر پسندوں نے جنوبی ہند میں واقع کتابوں کی ان دکانوں پر حملہ کیا تھا جہاں یہ کتاب بک رہی تھی ۔ اہم بات یہ ہے کہ جنوبی ہند میں پروفیسر ڈی این جھا کی اس کتاب پر پابندی بھی عائد کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے اسے کلین چٹ دیتے ہوئے بازار میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی ۔ حال ہی میں اس سیر حاصل تصنیف کا نیا ایڈیشن پرنٹ کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا مضمون بھی شامل ہے ۔ اسی طرح نامورسائنسداں اور تاریخ کے محقق پشپ متربھارگو نے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں انھوں نے قدیم تاریخی اور مذہبی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے پرانے ہندوستان میں ہندوؤں کے بیف کھانے کاذکر کیا ہے ۔
ونئے کرشنا چترویدی کے ’’ پنچ جنیہ ‘‘ میں تحریر کردہ مضمون کا ایک جملہ ہے ’’ قدیم ویدوں میں گؤ کشی کرنے والوں کو موت کی سزا دینے کے بارے میں لکھا ہے ‘‘ انھوں نے یہ مضمون دادری میں محمد اخلاق کے درد ناک قتل کے بعد قلم بند کیا تھا اور محمد اخلاق کے قتل کو جائز ٹہرانے کی کوشش کی تھی ۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ گؤ کشی کرنے والوں کو سزا کون دے گا ؟ آر ایس ایس ، بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد ، سناتن سنستھا ، ہندوسینا ، اکھل بھارتیہ ہندومہا سبھا ، ہندو جاگرتی منچ ، ہندو سوراجیہ پرتشٹھان ، گؤ رکھشا سمیتی ، ہندو جن جاگرن سمیتی اور ابھینو بھارت کے کارکنان یا اس ملک کا قانون ؟
ونئے کرشنا چترویدی ’’ پنچ جنیہ ‘‘ میں طفیل چترویدی کے نام سے بھی لکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ۱۸۵۷کے انقلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گائے کے معاملے میں پہلا انقلاب اس وقت شروع ہوا تھا جب انگریزوں نے بھارتی فوجیوں کو گائے کی چربی والے کارتوسوں کودانت سے کاٹنے کا حکم دیا تھا ۔گائے کے تقدس کی بانسری بجانے والے شدت پسندوں کی دوغلی پالیسی کو امریکی محکمہ زراعت ( یو ایس ڈی اے) کی تازہ رپورٹ نے بے نقاب کیا ہے ۔ یو ایس ڈی اے کے مطابق ہندوستان عالمی مارکیٹ میں برازیل کے بعد بیف سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران گوشت کے کاروبار کو گلابی انقلاب (pink revolution )سے تعبیر کیا تھا اور الیکشن میں جیتنے کے بعد اس کاروبار کو بند کرانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ہندوستان عالمی مارکیٹ میں بیف سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک بن کر ابھرا ہے ۔ دادری میں محمد اخلاق کے قتل کے بعد متنازعہ بیان دینے والے رکن اسمبلی سنگیت سوم بھی اس گلابی انقلاب میں ملوث پائے گئے ہیں ۔وہ ’’ الدعا فوڈ پروسیسنگ کمپنی ‘‘ کے تین پرموٹرس میں سے ایک ہیں اور ان کے دو دیگر ساتھی ڈائریکٹر معین الدین قریشی اور یوگیش راوت ہیں ۔ یہ ان شدت پسندوں کا دوہرا کردار ہے جو گائے کو لے کر ’’ دوسرے انقلاب‘‘ کی مہم چلا رہے ہیں ۔
بی جے پی نے سنگیت سوم کی اصلیت سامنے آنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کے اور بھی لیڈر اس کاروبار میں شامل ہوں ۔ دادری میں محمد اخلاق کے فریج میں بکرے کا گوشت ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ میڈیا سے اب دادری غائب ہوچکا ہے ۔ کسی کو معلوم نہیں کہ پولس نے ملزمین کے خلاف کیا کارروائی کی ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے پریس کانفرنس میں بلند بانگ دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ دادری سانحے میں بی جے پی کے تین لیڈروں کا ہاتھ ہے اور وہ چور کو نہیں چور کی نانی کو پکڑ کے عوام کے سامنے پیش کریں گے ۔ اب تک نہ چور کا پتا چلا اور نہ ہی چور کی نانی کا ۔
ہمارے سیاستدانوں کی غیرت کا جائزہ لیجئے ۔ غیر ممالک میں سرکاری دوروں کے وقت ان کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے ۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈ ہوتے ہیں جن پر شرمناک سلوگن لکھے ہوتے ہیں ۔ ناراض بھیڑ کی جانب سے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن وہ بڑی بے شرمی سے انھیں ہاتھ دکھاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فساد کروائے جاتے ہیں اور پھر بے غیرتی سے وہاں کا دورہ کرکے پورے ملک کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دولت پہ دولت کمانے کے باوجود ان کی ہوس کا گڑھا کبھی بھرتا نہیں ہے ۔ مذکورہ افعال اس بات کی علامت نہیں ہیں کہ یہاں کے بیشتر سیاستدانوں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں ان کے پیش نظر صرف ان کے ذاتی فائدے ہوتے ہیں ؟
کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملک کے ایک مایہ ناز رہنما ، مجاہد آزادی اور اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش (۱۱ ۔ نومبر ۲۰۱۵ء) پر امسال صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کی طرف سے خاموشی کا مظاہرہ کیاگیا ۔ شاید پرنب مکھرجی اور نریندر مودی اس عظیم رہنماکے یوم پیدائش سے لا علم تھے تبھی تو ان سربراہوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کوئی پیغام ٹوئٹ نہیں کیا گیا ۔ مرکزی وزیر تعلیم و فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی نے بھی منسٹری آف ایچ آر ڈی کے ہینڈلر سے ٹوئٹ کردہ خراج عقیدت کے پیغام کو ری ٹوئٹ کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے یہ وعدہ کیا تھاکہ اگر کوئی آدھی رات کو ان کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو وہ اس کی مدد کے لئے کھڑے رہیں گے ۔ وزیر اعظم نے ہندوستانیوں کو مدد کی امید تو دلا دی لیکن ان کا زیادہ تر وقت ملک کے باہر بیت رہا ہے اور لوگ آدھی رات کو ان کے دروازے پر دستک دینے کا انتظار کررہے ہیں ۔
وزیر اعظم اپنی پارٹی کے لیڈروں کی بے لگام زبان کو روکنے میں بھی بے بس نظر آرہے ہیں اور اس کا نقصان پارٹی سے زیادہ انھیں پہنچ رہا ہے ۔ منوہر لال کھٹر ، سنجیوسالیان ، سادھوی پراچی ، سنگیت سوم ، مہیش شرما ، جتندر تیاگی ، سدھارتھ ناتھ سنگھ ، ساکشی مہاراج ، یوگی آدتیہ ناتھ ، کیلاش وجے ورگے ، سادھوی نرنجن جیوتی ،وی کے سنگھ ، اشونی اپادھیائے ، کملیش تیواری اور سبرامنیم سوامی ہزیان گوئی پر آمادہ ہیں اور بولتے وقت عقل کے دروازے بند کرلیتے ہیں ۔ کیرالا ہاؤس میں گائے کے گوشت کا تنازعہ پیدا کرنے والے ہندوسینا کے صدر وشنو گپتا کو نئی دہلی میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی طرف سے ہندو توا کو فروغ دینے کے لئے اعزاز سے نوازا گیا ۔ مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈ سے کو عدالت کے حکم پر ۱۵ نومبر کے دن پھانسی دی گئی تھی ۔ ممبئی کے نزدیکی ضلع تھانہ میں ہندو مہاسبھا کی طرف سے اس دن نتھو رام گوڈسے کی برسی ’’ بلیدان دیوس‘‘ کے نام سے منائی گئی ۔ بی جے پی کی مرکزی سرکار نے سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے یاد گاری ڈاک ٹکٹ کو بند کرکے رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رول ادا کرنے والے یوگی اوید ناتھ کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا ۔ مذکورہ بالا تمام واقعات سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ آنے والا وقت ملک کے لئے نقصان دہ ہے ۔ وطن کی سا لمیت ، مذہبی رواداری ، بولنے ، لکھنے اور کھانے پینے کی آزادی اور آئندہ نسل کا کیریئر اور سکون خطرے میں ہے ۔ ’’ ہندو راشٹر ‘‘ کے بہانے ہٹلری طرز کے جس ’’ ہندوتوا ‘‘ کو تھوپنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ ’’ ہندوتوا ‘‘ نہ صرف اقلیتوں کے لئے بلکہ خود امن پسند اور تعصب سے بے نیاز ہندوؤں کے لئے بھی وبال بن جائے گا ۔ انتہا پسندوں نے اس وقت ہندوستان کوگائے کی سینگ پر رکھ دیا ہے ۔
فرحان حنیف وارثی ۔موبائل :
0 comments: