حق کی تلاش ....!!
عمر فراہی
UmarFarahi <umarfarrahi@gmail.com>
مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران اور شورش کے تعلق سے مسلمانوں کا وہ طبقہ جو خاص طور سے طبقہ خاص سے تعلق رکھتا ہے اور جو لوگ صحافت خطبات لٹریچر اور شوسل میڈیا کے ذریعے عوام کی ذہنیت کو صحیح رخ دے سکتے ہیں ان کی اپنی تحقیقات اور معلومات تو صفر ہے ۔ مگر باطل میڈیا کے اس پروپگنڈے پر ان کا ایمان پختہ ہے کہ جو لوگ عراق اور شام میں اپنے ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں ان کا یہ عمل سراسر غیر اسلامی اور دہشت گردی کے مترادف ہے- یہ بات بھی عجیب سی لگتی ہے کہ ایک طرف اگر عرب نوجوانوں کی مسلح جدوجہد کوغلط قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف اس ‘‘دہشت گردی’’ کے خلاف ایران اور شام کے حکمرانوں کی عوامی جدوجہد کو سختی سے کچلنے کی کوشش بھی دہشت گردی کے اسی زمرے میں شمار کیا جاتا ہے- جہاں تک اس پورے بحران میں عالمی طاقتوں کا کردار ہے تو بہرحال اس بات پر مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں ہے - سوال یہ ہے کہ پھر حق پر ہے کون-آخر ہندوستان کا مسلمان اس مشکل صورتحال میں جبکہ جدید میڈیا نے مسلمانوں کی مثبت رہنمائی سے منھ پھیر رکھا ہے کس تنظیم اور کس مسلک کے عالم سے درست رہنمائی حاصل کرے - ذہن میں خیال آتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند جو کہ ایک زمانے سے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف رہی ہے اسکی طرف رجوع کیا جائے مگر پھر خیال آتا ہے کہ بانی جماعت مولانا مودودی کو بھی ابو بکر البغدادی کی طرح اسلامی طرز سیاست اور خلافت کی جدوجہد کا قصوروار قرار دیکر شیعوں اور یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جا چکا ہے- بدقسمتی سے اب اس جماعت کے لوگ خود بھی خلیفہ البغدادی کے لئے وہی خطاب تجویز کر رہے ہیں - یہ الگ بات ہے کہ مولانا مودودی حق پر تھے اور ان کے حق پر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان پر ڈر اور خوف کا غلبہ نہیں تھا - مگرآج کی جماعت اسلامی ہند مصلحت کا شکار ہو کر حق سے منحرف ہوتی جا رہی ہے- شاید یہی وجہ کہ ماضی میں جس طرح جماعت اسلامی کے لوگ عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں کے رابطے میں ہوا کرتے تھے اور انہیں عالم اسلام کی صورت حال کا اندازہ بھی تھا موجودہ حالات میں ان کے قائدین کا کردار صفر ہے -اس طرح جو لوگ خود روشنی کی تلاش میں ہوں یا روشنی کی جستجو بھی نہ ہو وہ دوسروں کو حق کا راستہ بھی کیسے بتا سکتے ہیں - ملک میں سلفی حضرات کہنے کیلئےغیر مقلد ہیں مگر سعودی حکومت کی تقلید ان کیلئے بھی جائز ہے اس لئے ان کیلئے حق وہی ہے جو سعودی حکومت کی طرف سے جاری ہوتا ہے- سعودی حکومت کا اپنا کردار بھی مصر میں داغدار ہو چکا ہے اس لئے سعودی حکومت اوراہل حدیث حضرات کی معلومات پر یقین کر لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا - دیوبندی اور ندوی حضرات کوعالمی سیاست میں اتنی دلچسپی کبھی نہیں رہی لیکن اب ان کے کچھ مخلص علماء مصر میں اخوان کی جدوجہد کو حق مانتے ہیں اوراس کی اہم وجہ مولانا علی میاں ندوی کی شخصیت ہے جنھوں نے اہل دیوبند اور ندوہ کواخوان کی حقیقت سے متعارف کروایا - مگر اب ہندوستان میں ایسی شخصیات بھی ناپید ہیں - پھر بھی مولانا سلمان ندوی کے بروقت جرات مندانہ بیان نے کسی حد تک مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو واضح کر دیا ہے- اسی طرح ملک کے علماء اور صحافیوں کے ایک خاص طبقہ کی باگ ڈور بھی ایران کے ہاتھ میں ہے- اور ایران جو خود عراق اور شام میں ایک حریف کا کردار ادا کر رہا ہے اسے تو اپنے دشمن کی اچھائی کو بھی برائی میں بدلنے کا حق ہے- بریلوی حضرات کیلئے تو بہرحال یہ سارے مسلمانوں کے مسلک قابل مذمت ہیں ان کا دنیا کی کسی انقلابی تحریک سے کوئی رابطہ ہو بھی نہیں سکتا اس لئے ان کی تحقیق اورمعلومات جو صرف مغربی میڈیا پر منحصر ہے نظرانداز کر دینا ہی بہتر ہے- غرض کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی یہ تمام مسلکی تنظیمیں ملک کی فاشسٹ حکومت اورغیر مسلموں کے ایک خاص طبقے کو خوش کرنے یاکسی نہ کسی انجانے خوف اور مفاد کی وجہ سے حق بات کہنے سے قاصر ہیں -
ہمارے اس موضوع کی اصل بحث یہ ہے کہ کیا دنیا میں صرف اسلام پسند تحریکیں ہی مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنا دفاع کررہی ہیں اوران کے مخالفین اپنے طیاروں اور میزائلوں سے پھول برسا رہے ہیں- اب اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمان مسلح جدوجہد کو ترک کرکے پرامن سیاسی تحریک یا دعوت و تبلیغ میں مصروف ہو جائیں تو دنیا میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوگا اور مسلمانوں پر کبھی کوئی تکلیف نہیں آئے گی تو وہ غلط ہے- شاید اسے نہیں پتہ کہ ابھی تک کہ دو عظیم عالمی جنگوں میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا پھر بھی صرف تیس سال کے اندر عالمی طاقتوں نے ان دونوں جنگوں میں تین کروڑ انسانوں کو ہلاک کر دیا - جہاں تک مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کی بات ہے تویہ لوگ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ مسلمان مادیت پر مبنی دجال کے سرمایہ دارانہ نظام اوران کے باطل دین میں پورے کا پورا داخل نہ ہوجائیں..! موجودہ دور میں مادیت ہی وہ سب سے بڑا فتنہ اور انسانوں کا باطل خدا ہے جس کے سامنے مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے حکمراں اور اب مسلماتوں کے نام نہاد علماء اور خود ساختہ دانشور بھی سر بسجود ہو کر تحریکات اسلامی کی مسلح جدوجہد کی مذمت کر رہے ہیں- یوں تو اللہ کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ جیسا کہ اس کا حق ہے پھر بھی ڈاکٹراسرارعالم جواپنے نام کی طرح ایک پراسرار شخصیت بھی ہیں لیکن ان کی کئی کتابیں جس میں کہ" عالم اسلام کی اخلاقی صورتحال ,دجال اکبر اور یا ساری الجبل" کافی مقبول رہی ہیں -انہوں نے اپنی ایک کتاب دجال اکبر میں لکھا ہے کہ باطل،مسلمانوں کے ادھورے اسلام سے بھی خوفزدہ ہے اور اسے ہر وقت یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں وہ اپنے اس ادھورے سے پورے کی طرف نہ رجوع ہو جائیں - وہ لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کوئ مسلمان کسی کونے میں چھپ کر بھی نماز پڑھ رہا ہوگا تو وہاں سے گذرنے والے لوگوں میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے اشارہ کرتے ہوئے کہے گا کہ دیکھو وہ دہشت گرد ہے...!
اس کا مطلب کہ اس دور میں مسلمان اپنے دفاع اور تحفظ کیلئے مسلح جدوجہد کا تو تصور ہی نہیں کر سکتا بلکہ وہ غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کیلئے اپنی اپنی اجتماعی عبادت کو ترک کرکے انفرادی اور جزوی عبادت کے باوجود بھی باطل کی نگاہ میں مشکوک رہے گا- ترکی میں مصطفیٰ کمال اتا ترک ایسا کر چکا ہے جہاں نہ صرف مسجدوں اور مدرسوں میں تالے لگائے گئے عورتوں کے حجاب تک پر پابندی لگائی گئ- ترکی کی فوج نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے ایک اسلام پسند وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو صرف اسلامی نظم پڑھنے کی وجہ سے معزول کر دیا - سوال یہ ہے کہ مسلمان کہاں اور کس حد تک غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کیلئے مصالحت اور منافقت اختیار کر ے گا - ویسے اسرارعالم صاحب کا یہ ایک ذاتی خیال ہے جس کی تصویر مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ جس طرح سے یورپ وغیرہ میں اسلام تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے اورمسجدوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہواہے یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ 1965 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے عرب نوجوانوں نے اسرائیل اور مغرب کے خلاف جو مسلح جدوجہد کی شروعات کی عرب کے اس خطے میں اخوان کے بعد حماس اورپھرالقاعدہ جیسی ملیٹنٹ تنظیمیں مضبوط سے مضبوط ہوتی گئی ہیں اور پھر جیسے جیسے انہیں کامیابی ملی نہ صرف ان کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں انیسویں صدی کے بعد جبکہ اسلام تیزی کے ساتھ سیاسی زوال کا شکار تھا ان کی اسی جدوجہد کی وجہ سے اکیسویں صدی میں اسلامی بیداری کے سورج کو دوبارہ طلوع ہوتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے- لیکن سچ کہا جائے تو مسجدوں کو آباد کر کے یا صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے بعد بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے مطلوبہ مسلمان ہیں بھی یا نہیں اور ہم کہاں تک اسلام کے اس اصل ڈھانچے پر عمل پیرا ہیں جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا ...! کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت روم کے لوگ عیسائُیت سے پھر گئے تھے یا کلیسا کو منہدم کر دیا گیا تھا اور ان کے اندر سے حضرت عیسیٰ کی عظمت و احترام کا جذبہ ختم ہو چکا تھا ...! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا- آخری رسول کی بعثت کے بعد بھی نہ صرف حضرت عیسیٰ اور کلیسا کا احترام باقی تھا پادریوں کا دبدبہ بھی برقرار تھا- ان کے اندرایسے اللہ والے کاہن اور راہب موجود تھے جنھوں نے نبوت سے پہلے نوجوانی کی عمرمیں ہی شام کے ایک سفر کے دوران اللہ کے رسول کو پہچان لیا تھا کہ یہی اب اس دنیا میں انسانوں کے آخری نبی ہیں - یہاں تک کہ عیسائی اس صلیب کا بھی احترام کرتے تھے جس پر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا -اس کے باوجود مکہ میں ایک نبی کی آمد ہوتی ہے روم سے ٹکراؤ ہوتا ہے رومی صلاح الدین ایوبی کے دور تک صلیبوں کی برکت سے جنگ جیتنا چاہتے ہیں مگر صلیب سے انہیں کوئ مدد نہیں ملتی -ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نام تو مشرکین مکہ بھی لیتے تھے اور اللہ کی نہایت مقدس سرزمین پر انہیں دنیا کی سب سے مقدس عمارت مسجد الحرام کی سر پرستی بھی حاصل تھی اس کے باوجود تاریخ نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ تاریخ کے ایک نئے انقلاب نے ان کو بدل دیا- اب ہمیں اپنا بھی محاسبہ کرنا چاہئے کہ صرف مسجدوں اور درگاہوں کو آباد کر دینا یا وعظ نصیحت اور شوسل میڈیا سے حدیث اور قرآن کی باتیں پہنچا دینا ہی مسلمان ہونے کیلئے کافی ہے- سچائی یہ ہے کہ کچھ بہت زیادہ اعتدال پسند مسلمان جو یا تو سیکولرزم کے علمبردار ہیں یا غیروں کو مطمئن کرنے کیلئے غیروں کی مرضی کا اسلام چاہتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ کچھ ممالک میں جو مسلمان یا اسلامی تحریکیں مسلح جدوجہد کے ذریعے سیاسی انقلاب لانا چاہتی ہیں انکے خون خرابے سے اسلام کی شبیہ خراب ہورہی ہے دوسرے لفظوں میں تحریکات اسلامی کی جدوجہد سے جب تک غیر اسلامی طاقتیں مطمئن نہیں ہوتی ہیں اسے قابل قبول نہیں کہا جاسکتا - اللہ کا فیصلہ بہرحال واضح ہے کہ اس نے رسول کو اس کتاب کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ اسلام کو تمام جنس دین پرغالب کردے خواہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گذرے- سوال یہ ہےکہ اگر کچھ وقت کیلئے اسلامی تحریکیں غیروں کی پسند پرراضی بھی ہو جائیں تو کیا انہیں کامیابی مل سکتی ہے- الجزائر فلسطین اور مصر وغیرہ اس کی تازہ مثالیں ہیں- ان تحریکوں کے لیڈران کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں پرامن طریقے سے انسانوں کی بجائے اللہ کی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جو اب سلاخوں کے پیچھے ہیں -سچ تو یہ ہے کہ اس زمین پر اصل تصادم کسی مذہب سے مذہب کے درمیان نہیں ہے بلکہ اصل جنگ اور کشمکش مذہب اور مادیت کے درمیان ہے- مگر چونکہ دنیا کے دیگر مذاہب نے اٹھارھویں صدی کے مادی انقلاب کے سامنے گھٹنا ٹیک دیا ہے اور تحریکات اسلامی نے شکست قبول نہیں کی ہے اس لئے اس وقت گلوبل میڈیا جو دجال کا آلہ کار ہے پوری طاقت کے ساتھ تحریکات اسلامی کی جدوجہد اور کامیابی کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کر رہا ہے اور ہم اس فتنے کا شکار ہیں -
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد سے ہی باطل طاقتوں اوران کے میڈیا نے اکثر و بیشتر مسلمانوں کے اسلامی شعار کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھااورایک ایسے وقت میں جبکہ عالمی دہشت گردی یا کسی اسلامی تنظیم کی طرف سے مسلح جدوجہد کی شروعات بھی نہیں ہوئی تھی صہیونی میڈیا نے سعودی عرب کے اسلامی نظام اور مسلم عورتوں کے حجاب اور طلاق کے مسئلے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا - وہ تو بھلا ہو آیۃ اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب اور پھرافغان مجاہدین اورطالبان کی مسلح جدوجہد اور القاعدہ جیسی تنظیموں کےعروج کا جنھوں نے سعودی عرب کے اسلامی نظام سے ان کی توجہ کو ہٹا کر مغربی میڈیا کو دہشت گردی کے پروپگنڈہ کا نیا موضوع دے دیا - بدقسمتی سے اب ان کا یہ خوف اسلامک اسٹیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے- اور غالباً ایک صدی سے اسلام کے اصل ڈھانچے میں جو خلاء پیدا ہوچکا تھا اب وہ مکمل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اگر خلافت کی شکل میں اسلامی طرز سیاست کو بھی فتنہ قرار دیں تو اللہ ان کے اپنے خود ساختہ دین سے بھی بے نیاز ہے ممکن ہے کہ دین کی اصل روح سے خالی ان کی نماز ان کا روزہ زکوٰۃ اور حج انہیں واپس لوٹا دیا جائے ۔ کیونکہ ایمان میں پورے پورے داخل ہونے کا تقاضہ تو جبھی پورا ہو سکتا ہے جب اہل ایمان رسول اور خلفاء راشدین کے اصل دین پر ہوں- اور یہی حق ہے-
ہمارے اس موضوع کی اصل بحث یہ ہے کہ کیا دنیا میں صرف اسلام پسند تحریکیں ہی مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنا دفاع کررہی ہیں اوران کے مخالفین اپنے طیاروں اور میزائلوں سے پھول برسا رہے ہیں- اب اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمان مسلح جدوجہد کو ترک کرکے پرامن سیاسی تحریک یا دعوت و تبلیغ میں مصروف ہو جائیں تو دنیا میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوگا اور مسلمانوں پر کبھی کوئی تکلیف نہیں آئے گی تو وہ غلط ہے- شاید اسے نہیں پتہ کہ ابھی تک کہ دو عظیم عالمی جنگوں میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا پھر بھی صرف تیس سال کے اندر عالمی طاقتوں نے ان دونوں جنگوں میں تین کروڑ انسانوں کو ہلاک کر دیا - جہاں تک مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کی بات ہے تویہ لوگ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ مسلمان مادیت پر مبنی دجال کے سرمایہ دارانہ نظام اوران کے باطل دین میں پورے کا پورا داخل نہ ہوجائیں..! موجودہ دور میں مادیت ہی وہ سب سے بڑا فتنہ اور انسانوں کا باطل خدا ہے جس کے سامنے مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے حکمراں اور اب مسلماتوں کے نام نہاد علماء اور خود ساختہ دانشور بھی سر بسجود ہو کر تحریکات اسلامی کی مسلح جدوجہد کی مذمت کر رہے ہیں- یوں تو اللہ کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ جیسا کہ اس کا حق ہے پھر بھی ڈاکٹراسرارعالم جواپنے نام کی طرح ایک پراسرار شخصیت بھی ہیں لیکن ان کی کئی کتابیں جس میں کہ" عالم اسلام کی اخلاقی صورتحال ,دجال اکبر اور یا ساری الجبل" کافی مقبول رہی ہیں -انہوں نے اپنی ایک کتاب دجال اکبر میں لکھا ہے کہ باطل،مسلمانوں کے ادھورے اسلام سے بھی خوفزدہ ہے اور اسے ہر وقت یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں وہ اپنے اس ادھورے سے پورے کی طرف نہ رجوع ہو جائیں - وہ لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کوئ مسلمان کسی کونے میں چھپ کر بھی نماز پڑھ رہا ہوگا تو وہاں سے گذرنے والے لوگوں میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے اشارہ کرتے ہوئے کہے گا کہ دیکھو وہ دہشت گرد ہے...!
اس کا مطلب کہ اس دور میں مسلمان اپنے دفاع اور تحفظ کیلئے مسلح جدوجہد کا تو تصور ہی نہیں کر سکتا بلکہ وہ غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کیلئے اپنی اپنی اجتماعی عبادت کو ترک کرکے انفرادی اور جزوی عبادت کے باوجود بھی باطل کی نگاہ میں مشکوک رہے گا- ترکی میں مصطفیٰ کمال اتا ترک ایسا کر چکا ہے جہاں نہ صرف مسجدوں اور مدرسوں میں تالے لگائے گئے عورتوں کے حجاب تک پر پابندی لگائی گئ- ترکی کی فوج نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے ایک اسلام پسند وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو صرف اسلامی نظم پڑھنے کی وجہ سے معزول کر دیا - سوال یہ ہے کہ مسلمان کہاں اور کس حد تک غیر مسلم دنیا کو خوش کرنے کیلئے مصالحت اور منافقت اختیار کر ے گا - ویسے اسرارعالم صاحب کا یہ ایک ذاتی خیال ہے جس کی تصویر مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ جس طرح سے یورپ وغیرہ میں اسلام تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے اورمسجدوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہواہے یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ 1965 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے عرب نوجوانوں نے اسرائیل اور مغرب کے خلاف جو مسلح جدوجہد کی شروعات کی عرب کے اس خطے میں اخوان کے بعد حماس اورپھرالقاعدہ جیسی ملیٹنٹ تنظیمیں مضبوط سے مضبوط ہوتی گئی ہیں اور پھر جیسے جیسے انہیں کامیابی ملی نہ صرف ان کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں انیسویں صدی کے بعد جبکہ اسلام تیزی کے ساتھ سیاسی زوال کا شکار تھا ان کی اسی جدوجہد کی وجہ سے اکیسویں صدی میں اسلامی بیداری کے سورج کو دوبارہ طلوع ہوتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے- لیکن سچ کہا جائے تو مسجدوں کو آباد کر کے یا صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے بعد بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے مطلوبہ مسلمان ہیں بھی یا نہیں اور ہم کہاں تک اسلام کے اس اصل ڈھانچے پر عمل پیرا ہیں جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا ...! کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت روم کے لوگ عیسائُیت سے پھر گئے تھے یا کلیسا کو منہدم کر دیا گیا تھا اور ان کے اندر سے حضرت عیسیٰ کی عظمت و احترام کا جذبہ ختم ہو چکا تھا ...! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا- آخری رسول کی بعثت کے بعد بھی نہ صرف حضرت عیسیٰ اور کلیسا کا احترام باقی تھا پادریوں کا دبدبہ بھی برقرار تھا- ان کے اندرایسے اللہ والے کاہن اور راہب موجود تھے جنھوں نے نبوت سے پہلے نوجوانی کی عمرمیں ہی شام کے ایک سفر کے دوران اللہ کے رسول کو پہچان لیا تھا کہ یہی اب اس دنیا میں انسانوں کے آخری نبی ہیں - یہاں تک کہ عیسائی اس صلیب کا بھی احترام کرتے تھے جس پر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا -اس کے باوجود مکہ میں ایک نبی کی آمد ہوتی ہے روم سے ٹکراؤ ہوتا ہے رومی صلاح الدین ایوبی کے دور تک صلیبوں کی برکت سے جنگ جیتنا چاہتے ہیں مگر صلیب سے انہیں کوئ مدد نہیں ملتی -ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نام تو مشرکین مکہ بھی لیتے تھے اور اللہ کی نہایت مقدس سرزمین پر انہیں دنیا کی سب سے مقدس عمارت مسجد الحرام کی سر پرستی بھی حاصل تھی اس کے باوجود تاریخ نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ تاریخ کے ایک نئے انقلاب نے ان کو بدل دیا- اب ہمیں اپنا بھی محاسبہ کرنا چاہئے کہ صرف مسجدوں اور درگاہوں کو آباد کر دینا یا وعظ نصیحت اور شوسل میڈیا سے حدیث اور قرآن کی باتیں پہنچا دینا ہی مسلمان ہونے کیلئے کافی ہے- سچائی یہ ہے کہ کچھ بہت زیادہ اعتدال پسند مسلمان جو یا تو سیکولرزم کے علمبردار ہیں یا غیروں کو مطمئن کرنے کیلئے غیروں کی مرضی کا اسلام چاہتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ کچھ ممالک میں جو مسلمان یا اسلامی تحریکیں مسلح جدوجہد کے ذریعے سیاسی انقلاب لانا چاہتی ہیں انکے خون خرابے سے اسلام کی شبیہ خراب ہورہی ہے دوسرے لفظوں میں تحریکات اسلامی کی جدوجہد سے جب تک غیر اسلامی طاقتیں مطمئن نہیں ہوتی ہیں اسے قابل قبول نہیں کہا جاسکتا - اللہ کا فیصلہ بہرحال واضح ہے کہ اس نے رسول کو اس کتاب کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ اسلام کو تمام جنس دین پرغالب کردے خواہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گذرے- سوال یہ ہےکہ اگر کچھ وقت کیلئے اسلامی تحریکیں غیروں کی پسند پرراضی بھی ہو جائیں تو کیا انہیں کامیابی مل سکتی ہے- الجزائر فلسطین اور مصر وغیرہ اس کی تازہ مثالیں ہیں- ان تحریکوں کے لیڈران کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں پرامن طریقے سے انسانوں کی بجائے اللہ کی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جو اب سلاخوں کے پیچھے ہیں -سچ تو یہ ہے کہ اس زمین پر اصل تصادم کسی مذہب سے مذہب کے درمیان نہیں ہے بلکہ اصل جنگ اور کشمکش مذہب اور مادیت کے درمیان ہے- مگر چونکہ دنیا کے دیگر مذاہب نے اٹھارھویں صدی کے مادی انقلاب کے سامنے گھٹنا ٹیک دیا ہے اور تحریکات اسلامی نے شکست قبول نہیں کی ہے اس لئے اس وقت گلوبل میڈیا جو دجال کا آلہ کار ہے پوری طاقت کے ساتھ تحریکات اسلامی کی جدوجہد اور کامیابی کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کر رہا ہے اور ہم اس فتنے کا شکار ہیں -
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد سے ہی باطل طاقتوں اوران کے میڈیا نے اکثر و بیشتر مسلمانوں کے اسلامی شعار کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھااورایک ایسے وقت میں جبکہ عالمی دہشت گردی یا کسی اسلامی تنظیم کی طرف سے مسلح جدوجہد کی شروعات بھی نہیں ہوئی تھی صہیونی میڈیا نے سعودی عرب کے اسلامی نظام اور مسلم عورتوں کے حجاب اور طلاق کے مسئلے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا - وہ تو بھلا ہو آیۃ اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب اور پھرافغان مجاہدین اورطالبان کی مسلح جدوجہد اور القاعدہ جیسی تنظیموں کےعروج کا جنھوں نے سعودی عرب کے اسلامی نظام سے ان کی توجہ کو ہٹا کر مغربی میڈیا کو دہشت گردی کے پروپگنڈہ کا نیا موضوع دے دیا - بدقسمتی سے اب ان کا یہ خوف اسلامک اسٹیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے- اور غالباً ایک صدی سے اسلام کے اصل ڈھانچے میں جو خلاء پیدا ہوچکا تھا اب وہ مکمل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اگر خلافت کی شکل میں اسلامی طرز سیاست کو بھی فتنہ قرار دیں تو اللہ ان کے اپنے خود ساختہ دین سے بھی بے نیاز ہے ممکن ہے کہ دین کی اصل روح سے خالی ان کی نماز ان کا روزہ زکوٰۃ اور حج انہیں واپس لوٹا دیا جائے ۔ کیونکہ ایمان میں پورے پورے داخل ہونے کا تقاضہ تو جبھی پورا ہو سکتا ہے جب اہل ایمان رسول اور خلفاء راشدین کے اصل دین پر ہوں- اور یہی حق ہے-
عمر فراہی
UmarFarahi <umarfarrahi@gmail.com>
0 comments: