ہند پاک تعلقات کی بحالی پر پٹھان کوٹ کاسایہ !

8:10 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر 

پٹھان کوٹ میں دہشت گردانہ حملہ آخر کیا اشارہ دیتا ہے ۔ صرف چنددن قبل ہی مودی نواز شریف سے لاہور
 میں ملاقات کرکے واپس لوٹے تھے  اور ان کی ملاقات سوائے اپوزیشن اور شیو سینا کے کسی لئے بھی قابل اعتراض نہیں تھی ۔ملک اور بیرون ملک کچھ قوتیں ایسی ہیں جو برصغیر میں حالات کو معمول پر نہیں آنے دینا چاہتیں۔ان قوتوں میں علاقائی اور ملکی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی ۔لیکن دونوں ملکو ں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو کسی بھی قیمت پر سدھاریں اور یہ صرف باتوں اور شرائط کی پابندی سے نہیں ہو سکتا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جنہیں ہند پاک دوستی منظور نہیں یا جن کو اس دوستی سے نقصان ہونا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں ماحول پر امن ہو ۔اس لئے نامساعد حالات کے باوجود بھی گفتگو اور بحالی امن کی کارروائی جاری رہنی چاہئے ۔نواز مودی کی ملاقات کے وقت ہی کئی طرح کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا ۔ذیل میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نواز مودی کی ملاقات کا اصل سبب کیا تھا ۔ 
مودی کے نواز شریف کی یوم پیدائش کی مبارکباد دینے کے لئے کابل سے سیدھے لاہور کے سفر پر برکھا دت کا ٹوئٹ کے ذریعہ تبصرہ سب سے بہترین تھا ۔انہوں نے لکھا تھاکہ ’’مودی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ۔اپنے اصول خود وضع کرو،روایتی اور سرکاری پروٹوکول کے چکروں میں نہ پڑیں اور میڈیا کو دور ہی رکھیں ۔یہی دانشمندی ہے۔ایک مزید ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’مودی کا لاہور رکنے اور نواز شریف سے ملاقات کا فیصلہ ماسٹر اسٹروک اقدام ہے ۔مودی اپنے حامیوں ہی نہیں بلکہ ناقدین کو اور بھی حیران کرتے ہیں‘‘۔دنیا صرف موسمیاتی تبدیلی سے ہی نہیں گذر رہی ہے ۔بلکہ ملکوں کے مفادات اور ان کی پالیسی بھی بدل رہی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حالات نے انہیں اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے کے لئے مجبور کیا ہے ۔نریندر مودی کا حالیہ دورہ پاکستان جس کے بارے میں دسمبر کے دوسرے ہفتہ میں اپنے دورہ پاکستان کے وقت سشما سوراج نے مزدہ سنایا تھا کہ وزیر اعظم اگلے سال یعنی 2016 میں پاکستان جائیں گے ۔لیکن روس کے دورہ سے واپسی پر افغانستان میں پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کرنے کے بعد وہ سیدھے لاہور نواز شریف سے ملنے چلے آئے ۔موقع تھا نواز شریف کی یوم پیدائش کا ۔لیکن وہاں پہلے سے ہی ایک اور شخصیت موجود تھی ۔عام طور پر میڈیا میں اس اچانک خبر پر سیاسی پنڈتوں کی حیرانگی قابل دید تھی۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا تھاکہ ’’موسمیاتی تبدیلی پاک بھارت تعلقات میں ؟مودی نے نواز شریف سے مصافحہ کیا‘‘۔میڈیا حیرت زدہ ہے کہ یہ اچانک ملاقات کیوں ؟سب اسے اچانک ملاقات قرار دے رہے ہیں ۔کچھ لوگ غالب کی زبان میں کہہ رہے تھے 
؂ بے خودی بے سبب نہیں غالب ۔۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ملکوں کے درمیان باہمی روابط یا سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات اچانک نہیں ہوا کرتی ہے ۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ اسٹریٹیجی کا ہی حصہ ہوتا ہے ۔عام طور پر ملکوں کے حالات اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں میں کسی بھی ملک کی انٹلی جنس کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔اور بغیر اس کی مرضی اور اس کے اشاروں کے کوئی حرکت اور پیش قدمی نہیں ہوتی ۔دو سال قبل گوا میں ہونے والے ایک پروگرام میں طالبان کے سابق ترجمان ملا عبد السلام ضعیف کی شرکت بھی اسی ذیل میں تھی ۔ اس تعلق سے جب سوالات ہوئے تو سیدھا سا ایک جواب دیا گیا کہ محکمہ خفیہ نے اس کی اجازت دی تھی ۔ممکن ہے کہ حالیہ پٹھان کوٹ حملہ بھی ملک یا بیرون ملک میں موجود ان ہی قوتوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو جنہیں یہ دوستی یا امن قبول نہیں۔کیوں کہ ایسا ہونے سے کئی گروہ اور سیاسی جماعتوں کی دوکانداری کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔واضح ہو کہ جب امریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ وہ افغانستان کے دلدل میں پھنس چکا ہے اور اس کے یہاں سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ طالبان سے صلح کی جائے ۔اس کے لئے اس نے اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح نکالی ۔اس طرح اس نے طالبان سے روابط بڑھا کر اپنے فوجیوں کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کا راستہ نکال لیا ۔عام خیال یہ ہے کہ ملکی سلامتی وغیرہ بس عام سا معاملہ ہے سیاست داں اسے سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ملکوں کے درمیان باہمی روابط سب سے زیادہ معاشی معاملات سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں سب سے زیادہ اہمیت اور ترجیح معاشی معاملات کو ہی دی جاتی ہے ۔
کئی دہائیوں سے مسلسل جنگوں کا میدان بنے افغانستان میں قدرتی معدنیات کے ذخائر بے بہا ہیں ۔اس پر سبھی کی نظر ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک کے لئے افغانستان کی تعمیر نو میں اپنے لئے بہت بڑے معاشی مواقع نظر آرہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہندوستان میں شیو سینا اور دوسری شدت پسند تنظیموں کی پرواہ کئے بغیر مودی کابل سے لاہور چلے گئے ۔یعنی ناشتہ کابل میں دن کا کھانا لاہور میں اور رات کا کھانا دہلی میں ۔ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے بامیان میں خام لوہے کے ذخائر دو ارب ٹن ہیں ۔اور وہاں بھارتی کمپنیاں اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کے ساتھ مل کر ساٹھ کروڑ ٹن اسٹیل بنانے کا کارخانہ لگانے اور آٹھ سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لئے ایک بجلی گھر تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔اس سے قبل اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کے ساتھ ملک کرکئی بھارتی کمپنیوں کا گروپ افغان آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی نے جس میں جندل گروپ کے سب سے زیادہ شیئر ہیں نے بامیان میں خام لوہا نکالنے کی کامیاب بولی لگائی ہے۔
’’اندازہ لگائیں مودی کے علاوہ اور کون ہے لاہور میں ‘‘ یہ برکھا دت کے ایک ٹوئٹ کاحصہ ہے جو کہ انہوں نے مودی کے لاہور دورہ کے دوران کیا تھاجس میں انہوں نے جندل گروپ کے سجن جندل کی لاہور میں موجودگی کے راز کو افشا کیاجوکہ ہندوستان میں اسٹیل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔انہوں نے اپنی ایک سیلفی ٹوئٹ کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ وہ نواز شریف کو یوم پیدائش کی مبارکباد دینے کے لئے آئے ہیں ۔اس ٹوئٹ کے جواب میں پاکستانی تحریک انصاف پارٹی کے اسد عمر نے ٹوئٹ پر کہاکہ ’’برکھا دت کا کہنا ہے کہ بھارتی اسٹیل میگنیٹ مودی کے ساتھ مل کر نواز شریف سے ملاقات کے لئے آرہے ہیں۔جس پر سوال اٹھتا ہے کہ مودی کے اس دورے کا ایجنڈہ کیا ہے‘‘۔ ان ٹوئٹ اور جوابی ٹوئٹ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالیہ وزیر اعظم ہند کا دورہ پاکستان کا مقصد کیا ہے ؟ظاہر سی بات ہے اس سے محض معاشی فوائد حاصل کرناہے۔ یعنی مودی نے الیکشن سے قبل عوام سے جو وعدے کئے تھے اس کے پورے ہونے کے فی الحال آثار نہیں ہیں ۔ہاں جن لوگوں کے چندہ کے پیسوں کی طاقت سے میڈیا کو خرید کر 2014 کا قومی انتخاب جیتا گیا ہے ۔باری ہے ان کے قرض چکانے کی ۔اور حالیہ دورہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق برکھا دت نے اپنی کتاب میں اس راز پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ کاٹھمنڈو سارک سربراہ کانفرنس میں بھی عام خبروں سے ہٹ کر نوین جندل نے مودی اور نواز شریف کی ایک گھنٹہ طویل ملاقات کا انتظام کروایا تھا جو کہ خفیہ تھی ۔لیکن بھارت و پاکستان کی حکومتوں نے اس کی تردید کی تھی۔میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ مودی اور نواز شریف نے دور سے ہی ہائے ہیلو کہنے پر اکتفا کیا تھا ۔ اصل میں ملکی معاملات اور بین الاقوامی تعلقات ایک ایسی ٹیڑھی کھیر ہے جس کی وجہ سے دانتوں تلے انگلیاں آجاتی ہیں ۔اس لئے بہت سارے معاملات خفیہ اور انتہائی راز داری سے انجام دئیے جاتے ہیں ۔ ان رازوں پر سے بہت بعد میں پردہ اٹھ پاتا ہے ۔
پشاور کے سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی مودی کے حالیہ دورہ پاکستان پر بی بی سی کے نمائندہ واتسلیہ رائے سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ اس میں پاکستانی فوج کی حمایت شامل ہے۔پاکستانی فوج بھی یہ سمجھتی ہے کہ گفتگو ہونی چاہئے اور رشتوں میں سدھار آنا چاہیئے لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں گفتگو اور رشتوں کو سدھارنے کی کوشش میں کشمیر کا مسئلہ کہیں پیچھے نہ رہ جائے‘‘ ۔ مودی کے لاہور دورہ کی خبر پر جو عام خیالات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا اسے کچھ سرکاری اہل کار دور کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی رضامندی کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں لیا جاسکتا ۔لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہے ۔بھارتی انٹیلی جنس کے کلیرنس سلامتی مشیر وغیرہ کے مشوروں کے بغیر نریندر مودی نے بھی یہ قدم نہیں اٹھایا ہوگا ۔ افغانستان کو جہاں ڈیڈ لاک کہا جاتا وہیں اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی سوویت روس کی نوآبادیات کا حصہ رہے ایشیائی ممالک کا دروازہ بھی ہے ۔اس سے تعلقات بہتر بنائے بغیر اور وہاں امن و امان کے قیام کے بغیر کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔اس پر بی بی سی اردو کا تبصرہ ہے ’’یاد رہے کہ پاکستان کے زمینی راستے سے گزر کر افغانستان اور اس سے بھی وسطی ایشاء کی ریاستوں تک پہنچنا بھارت کا ایک دیرینہ خواب رہا ہے لیکن گذشتہ دس برس میں بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے معاشی مفادات نے اس خواہش کو اور بھی شدید کردیا ہے‘‘۔واضح ہو کہ گذشتہ دس سالوں میں بھارت افغان تجارت کا حجم بڑھ کر آٹھ ارب ڈالر سے اسی ارب ڈالر ہو گیا ہے ۔مختصراًاتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی تعمیر نوع میں شامل ہونے والا راستہ پاکستان ہو کر ہی گزرتا ہے۔اس لئے ڈیڑھ سال میں کوئی کارنامہ انجام نہیں سکنے والی مودی حکومت کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا جس کا فائدہ وزیر اعظم نے اٹھایا ۔اس سے تعلقات میں وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔لیکن اس سے کسی مکمل تعاون اور پرامن بقائے باہم کے کسی ابدی معاہدہ کی امید نہیں ہے ۔لیکن اس ملاقات سے بہر حال کچھ خوشگواریت کا احساس تو ہوتا ہی ہے ۔جس کو کچھ وقت کے لئے ہی محسوس تو کیا ہی جاسکتا تھا۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی اور دوستی کے قیام کی خوشگواریاں یا خوش فہمیاں زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پاتیں ۔پٹھان کوٹ حملہ کو بھی اسی رنگ میں بھنگ ڈالنے یا مٹھاس میں کڑواہٹ گھولنے کی ایک کوشش کہہ سکتے ہیں۔ 
Attachments area

0 comments: