کیا واقعی عدلیہ آزاد ہے اور عوام کو ڈرنے کی ضرورت نہیں

7:36 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر۔بلاد آدم ۔ ضلع ویشالی ۔ بہار 843105 موبائل:9987309013 

’’ملک میں عدلیہ آزاد ہے اور قانون ابھی اپنا کام کررہا ہے اس لئے کسی بھی شہری کوخواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہوخوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کے حقوق کے نگراں ہیں ۔ انہیں تحفظ فراہم کرانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ملک میں عمومی طور پرعدم رواداری نہیں ہے ۔صرف چند لوگ ہیں جو نفرت انگیز بیان بازی کررہے ہیں ۔اس میں کہیں نہ کہیں سیاست بھی کارفرما ہے ،لیکن کسی کو بھی ملک کے آئین کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔یہ چند اقوال ہیں جو نئے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر ایک پروگرام میں ملک میں رواداری کے مسئلے پر ہورہی بحث پر صحافیوں سے فرما رہے تھے ۔ جسٹس ٹھاکر کی باتوں میں ان کی صاف ستھری شبیہ اورانصاف پسندی و سچائی کی جھلک دکھتی ہے ۔اس کے علاوہ ان کے بیان میں اور کوئی خاص بات نہیں ہے ۔اگر ملک میں امن و قانون کی حکومت ہو تو اسے بتانے اور جتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ،وہ خود ہی نظر آتا ہے لوگوں کی باتوں ،عام آدمی کی نجی محفلوں چائے خانوں کی خوش گپیوں کے درمیان بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ عوام عدالتی نظام سے کس قدر مطمئن ہے۔ اس طرح کی باتیں وقتی طور پر خوشگواریت کا احساس تو دلاتی ہیں لیکن پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں انصاف ہو تا ہوا نظر آئے۔سلمان خان کو بامبے ہائی کورٹ کے ذریعہ بری کئے جانے کے بعد عام آدمی کا کیا تاثر ہے وہ ذیل کی کچھ بالکل عام قسم کے لوگوں کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے۔اسٹیشن کو جاتے ہوئے تین مزدور ٹائپ کے لوگوں کی آپسی گفتگو کاموضوع سلمان خان پر بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی تھا۔ان کا لب لباب یہ تھا کہ سب پیسوں کی مایا ہے غریب کا یہاں کوئی نہیں ہے ۔سلمان کی گاڑی سے جو ہلاک ہوئے یا جن کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان کے خاندان کے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ان کے لئے کورٹ کا فیصلہ کیا ہے یا حکومت کیا کررہی ہے ؟ایک شخص نے طنزیہ انداز میں کہا کہ بھائی فٹ پاتھوں پر سونے والے انسان تھوڑے ہی ہیں جن کے لئے کوئی کچھ آواز اٹھائے ۔مائکروبلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کچھ اس طرح تھا جو کافی مقبول بھی ہوا’’بس یہی سمجھ آیا ہے کہ آج سلمان کو سزا ہو جاتی تو میرا پیسے پر سے بھروسہ اٹھ جاتا‘‘ایک اور ٹوئٹ تھا’’قانون اندھا ہوتا ہے اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں،اندھے پن کی وجہ سے کئی بار وہ لمبے ہاتھ مجرم کی گردن تک پہنچنے کے بجائے اسکی جیبوں میں چلے جاتے ہیں ‘‘۔ اس طرح کے فیصلے مایوسی پیدا کرتے ہیں اور نظام عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے اٹھنے کا سبب بن رہے ہیں ۔لیکن سب کچھ غلط نہیں ہو رہا ہے، کچھ نہ کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے جیسا کہ ایک فیصلہ یکساں سول کوڈ کے مریضوں کی مایوسی کے تعلق سے ہے ۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے سپریم کورٹ نے بی جے پی دہلی کے مقامی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے کی درخواست رد کردی ساتھ ہی اس کے وکیل سے کہا بھی کہ اگر اس طرح کی حرکت آیندہ ہوئی تو عدالت سختی کے ساتھ پیش آئے گی۔عدالت کا ایک اور ریمارک بھی اچھا تھا ’’جس کے ساتھ (مسلم خواتین)کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے وہ خود کیوں نہیں عدالت سے رجوع ہوتیں‘‘ ۔واضح ہو کہ مسلم خواتین سے انہی حضرات کو ہمدردی ہے جن کی نگرانی میں اورجن حمایت سے فسادات ہوتے ہیں اور اس میں یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ مسلم خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے ۔خود بیٹیوں کی سیلفی کی اور گھروں میں بیت الخلاء بنوانے کے تحریک کے علمبردار جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی نگرانی میں اور سرپرستی میں خواتین کو بے حرمت کیا گیا اور انہیں زندہ آگ کے حوالے کردیا گیا ۔وہ واقعہ تو رہتی دنیا تک کے لئے تاریخ میں محفوظ ہو گیا جب ایک حاملہ خاتون کا پیٹ چاک کرکے بچہ نکال کر تلوار پر اچھالا گیا اور پھر آگ کے حوالے کردیا گیا ۔ایسے لوگ محض مسلم خواتین کی ہمدردی کا ڈھونگ کرکے اسلام اور مسلم معاشرہ کی بدنامی کے لئے ہی ایسے معاملات کو لے کر سڑکوں ،پارلیمنٹ یا کورٹ میں جاتے ہیں ۔شکر ہے کہ عدالت نے نہ صرف اس عرضی کو خارج کردیا بلکہ انہیں پھٹکار بھی لگائی جس سے یقیناعدلیہ کی دھندلاتی شبیہ کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔کیوں کہ اب ہماری عدالتیں عقائد اور اجتماعی ضمیر کی بنیاد پر فیصلے سنانے لگی ہیں ۔عدلیہ کے تعلق سے شانتی بھوشن کی بات اب تک یاد ہے جب انہوں نے سپریم کورٹ میں کسی معاملہ کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے اکثر جج بدعنوان ہیں ۔اس پر جج صاحب نے اعتراض کہ آپ ایسا نہ کہیں بلکہ یہ کہیں کہ کچھ جج بدعنوان ہیں لیکن شانتی بھوشن اپنی بات پر قائم رہے۔ابھی حال میں سابق چیف جسٹس کاٹجو نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ پچاس فیصد سے زیادہ جج بدعنوان ہیں ۔ اب یہ بات کاٹجو سے زیادہ کون جان سکتا ہے وہ خود اس سسٹم کا حصہ رہے ہیں ۔
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ملک میں پنپ رہے عدم برداشت کے ماحول پر گرما گرم بحث ہی چھایا رہا ۔دو تین دن اسی بحث اور الزام جوابی الزام میں بیت گئے ۔یہ بحث اس وقت ختم ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اس میں مداخلت کی ۔بات ختم ہو گئی لیکن ۔تیسرے دن راجیہ سبھا میں پھر حکمراں محاذ کی جانب سے کماری شیلجا کے اس بیان پر کہ گجرات کے مندر میں داخلہ کے دوران ان سے ان کی ذات پوچھی گئی تھی بی جے پی کے مختار عباس نقوی کے ذریعہ اس رجسٹر کا زیرکس کاپی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کے مطابق شیلجا نے وزیٹر بک میں مندر کی تعریفوں کے پل باندھے گئے تھے ۔لیکن کماری شیلجا نے کہا کہ جہاں ان سے ان کی ذات پوچھی گئی تھی وہ دوسرا مندر ہے ۔اس واقعہ پر تیسرا دن بھی ہنگاموں کی نظر ہو گیا ۔صحافیوں نے اس بات پرسوال اٹھایا کہ آخر جب ایک معاملہ ختم ہو گیا تھا تب پھر سے اس معاملہ کو اٹھانے کے پیچھے حکمراں جماعت کی کیا منشا تھی؟
عدم برداشت کے اس ماحول میں جب عامر خان جیسے لوگ ملک کے بگڑتے حالات کی وجہ سے بیرون ملک کہیں جانے کی بات کریں تو سمجھا سکتا ہے کہ فرقہ پرستوں اور ہندو دہشت گردوں نے ماحول میں کتنا زہر گھول رکھا ہے ۔عامر خان کی بات پر جس طرح رد عمل کا اظہار کیا گیا اس سے خود ان لوگوں نے جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ملک میں عدم برداشت کا ماحول کہیں نہیں ہے ،یہ ثابت کردیا ہے کہ عامر خان کی بات سچ ہے ۔ملک بہت بری طرح عدم برداشت کے نرغے میں ہے ۔ ایک بات تو ماننے والی ہے کہ یہ عدم برداشت ایک چھوٹے سے طبقہ میں ہے لیکن اس طبقہ کو حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔جس کی وجہ سے کافی طاقت ور اور بے لگام ہو گیا ہے ۔مودی بیرون ملک جاکر وہاں کہتے ہیں عدم برداشت نا قابل قبول ہے اور دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے ۔یہی بات ملک میں کہتے ہوئے شاید انہیں شرم آتی ہے کہ ان کی ناک کے نیچے ان کے بھکت لوگوں کا بولنا اور ان کا چلنا پھرنا دشوار کئے ہوئے ہیں اور وہ ہیں کہ خاموشی کا لڈو منھ میں دبائے بیٹھے ہیں۔اس طرح سے شاید وہ بین الاقوامی فورم پر اپنے آپ کو ایک روادار اور بہترین منتظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں وہ گجرات 2002 کے خون کا دھبہ دھونا چاہتے ہیں ۔ان کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اندھی اور بہری ہے وہ کچھ دیکھتی اور سنتی نہیں ہے ۔دنیا سب کچھ دیکھتی اور سنتی بھی ہے ۔اس کا اندازہ ان کو ان کے بیرون ملک دوروں میں اپنے خلاف ہورہے احتجاج سے تو ہو ہی گیا ہوگا ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ خود ہی اپنا سر ریت میں گھسا کر شتر مرغ کی طرح خود کومحفوظ تصور کریں ۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف عامر خان نے ہی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان کی بیوی کرن راؤ ملک میں بن رہے حالات کی وجہ سے اپنے بچوں کے تحفظ کے تئیں کافی فکر مند ہے ۔بلکہ اس طرح کا اظہار دسیوں لوگوں نے کیا ہے ۔اس کا نقطہ عروج داداری میں محمد اخلاق کا ظالمانہ اور بزدلانہ قتل تھا جس پر وزیر اعظم خاموش رہے ۔پندرہ دن کے بعد جب وزیر اعظم کو دادری واقعہ کو افسوسناک کہنے کی فرصت ملی تب انہوں نے برائے نام افسوس کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ اس سے مرکز کا کیا تعلق۔ٹھیک ہے امن و قانون کی صورتحال کو بہتر بنانا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اور وہ یقیناًاس کی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی ۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ محمد اخلاق کے قتل میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان کا تعلق مرکز میں حکمراں جماعت سے ہے ۔نیز ملک میں حالات بگاڑنے میں مدد گار ہونے والے بیانات دینے والی اور اشتعال انگیزی کرنے افراد بھی حکمراں جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں اخلاق سے پہلے مراٹھی اور کنڑ کے تین ادیبوں اور سماجی خدمات گار کو قتل کردیا گیا اور ان کے قتل کے الزام میں بھی گرفتار کئے گئے افراد کا تعلق حکمراں جماعت کو جن لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے انہی تنظیم سے ہے ۔ایسے حالا ت میں محسوس یہ ہونے لگا کہ حالات کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئے ہیں ۔اور احتجاج کی آواز یا تو ختم کردی گئی ہے یا کمزور کردی گئی ہے تو ادیبوں فنکاروں سمیت مختلف میدان کے نامور افراد نے اپنے ایوارڈ واپس کرنے شروع کئے کیوں کہ ان کے پاس اور کوئی موثر طریقہ نہیں بچا تھا ۔لیکن موجودہ حکومت کے ذمہ دار وزراء اور ارکان نے سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اسے بغاوت اور کانگریس کی سازش قرار دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایوارڈ واپسی کی تحریک تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور بیرون ملک حکومت کو کافی خفت کا سامنا کرنا پڑا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے وزیر اعظم غیر ملکی سرمایہ کاری کی جی توڑ کوشش کررہے ہیں لیکن کوئی نظر التفات کرنے کو راضی ہی نہیں ہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ ملک میں امن و چین اور مثبت معاشی پالیسی ہی معاشی ترقی کا سبب بنا کرتا ہے ۔ صرف باتوں اور نئے نئے اعلانات اور نعروں سے کچھ نہیں ہوا کرتا ۔اگر وزیر اعظم مودی کو اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے ۔ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کو تیزی دینا ہے ۔حسب وعدہ ایک کروڑ سے زیادہ نئے روزگار پیدا کرنے ہیں تو انہیں دو کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اول یہ کہ باتوں ،وعدوں اور نعروں سے الگ ہو کر عملی اقدام کرنے ہوں گے اور دوم ملک میں امن و سکون کی فضا برقرار رکھنے کے لئے اپنی پارٹی کے اراکین کی زبان کو قابو میں کروانا ہوگا ۔اس کے بغیر پانچ سال تیزی کے ساتھ گزر جائیں گے ۔وعدے پورے نہیں ہوں گے ۔نتیجہ کانگریس مکت بھارت کا ان کا نعرہ بی جے پی مکت بھارت میں تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔جس کے آثار حالیہ کئی ضمنی ،اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں نظر آنے لگے ہیں ۔
زہر پھیلانے والے عوام کے ایک بڑے حصے کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنے والوں کے خلاف صرف ایک طبقہ کی جانب سے آواز موثر اور پر زور طور پر اٹھی ہے اور وہ ہے ادیبوں ،اسکالروں اور دانشوروں کا طبقہ ۔اس میں عدلیہ کا کوئی رول نظر نہیں آتا ۔جبکہ ایک طوفان بد تمیزی ہر طرف سے اٹھتی رہی ۔لیکن مکمل سکوت کو کسی نے توڑا تو اس طبقہ نے جس کا ذکر ہو چکا ہے ۔حالانکہ کئی معاملہ میں عدالت کا ضمیر بیدار ہو تا رہا ہے اور اس نے خود سے ایکشن لیا ہے لیکن ملک کی موجودہ صورتحال میں عدلیہ نے خاموشی ہی برتی کہیں سے کوئی ردعمل نہیں سامنے آیا ۔ایسی صورت میں چیف جسٹس کا بیان یقیناتپتے صحرا میں کسی نخلستان کی طرح ہے لیکن ان کے بھروسہ دلانے پر عوام کس طرح یقین کریں کہ عدالتی نظام کی موجودگی میں انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔جیسا کی مضمون کے پہلے پیراگراف میں بیان کیا گیا کہ صرف باتوں سے کیا ہوتا ہے ۔اس ملک میں سرے عام شراب پی کر تیز رفتار گاڑی چلا کر کوئی بااثر شخص غریبوں کی زندگی کے چراغ گل کردیتا ہے اور عدالت اسے بری کردیتی ہے ۔ایسے فیصلے سے تو مایوسی ہی پھیلے گی نا اور عدالت عوام کی نظر میں تمسخر کا ذریعہ ہی تو بنے گی ۔جس کا نظارہ سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ۔پارلیمنٹ ہو یا سیاسی پارٹیاں ان سب سے تو عوام کا اعتماد جاتا ہی رہا۔ گنتی کے چند سیاست دانوں کے علاوہ بھی کسی پر بھروسہ نہیں رہا ۔ایک عدلیہ ہی عوام کی امیدوں کی آخری پناہ گاہ تھی اس پر بھی تعصب اور امارت کے سیاہ بادل چھاتے جارہے ہیں۔آخر میں بھی ایک ٹوئٹ کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا سلمان خان کے فیصلے پر کسی نے ٹوئٹ کیا ’’یعنی شراب سلمان خان نے نہیں اس کی کار نے پی تھی‘‘۔ 

0 comments: