مسلمانوں کی دہشت گرد بیٹیاں ...!!
عمر فراہی
شام کی ایک مسجد تکلاخ میں بشرالاسد کے فوجیوں نے ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی اور اس لڑکی کے منھ پر مسجد کا مائیک رکھ کراس کی چیخ کو پوری بستی کو سنایا مگر بے بس اور کمزور بستی کے لوگ اس ظلم کے خلاف کوئی مزاحمت بھی نہیں کر سکے - شام کی ایک خاتون صحافی نے اس حادثے کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں کبھی بھوک بمباری سردی اور قتل و غارت گری سے خوفزدہ نہیں ہوئی مگر اس حادثے کے بعد اکثر مجھے رات رات بھر نیند نہیں آتی- یہ واقعہ جو کسی نیوز پورٹل پر ہمارے سامنے سے گذرا جس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق تو نہیں کی جاسکتی لیکن شام کے فوجیوں کے بارے میں ایک بار حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا بھی یہ بیان آچکا ہے کہ اسد کے فوجی عورت اور دولت کے رسیا ہیں - بدقسمتی سے اب ظلم اور درندگی کا یہی کھیل خود حزب اللہ اور آیت اللہ دونوں مل کر کھیل رہے ہیں- ویسے دنیا کے تقریباً مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی آفت مصیبت فساد اور جنگ کے دوران عورتوں کو ہی سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے - ہم دیکھ بھی چکے ہیں کہ کس طرح بوسنیا ، برما اور گجرات میں ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا گیا جسے میڈیا نے دلچسپی لیکر نشربھی کیا اور لوگوں نے مزے لیکرسن بھی لیا لیکن دنیا کے کسی بھی مہذب اور سیکولر ادارے کو اتنی توفیق ہوتی ہے کہ وہ خاتون کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا حل تلاش کریں تاکہ پچھلے چالیس پچاس سالوں سے اسی ظلم اور درندگی کی وجہ سے نوجوانوں میں جو انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوا ہے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکے- کچھ عرصہ پہلے ہماری نظر سے ایک کتاب گذری جس کا نام تھا "صرف پانچ منٹ" یہ کتاب مریم نام کی ایک ایسی نوجوان دوشیزہ اور اس کی سہیلی کی المناک داستان پر مبنی ہے جسے شام کا آنجہانی حکمراں وحشی حافظ الاسد جو بشارالاسد کا باپ تھا اس کے فوجیوں نے ایک کالج سے یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ اسے پانچ منٹ میں پوچھ تاچھ کے بعد رہا کر دیا جائے گا ایک گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور پورے پانچ سال تک جیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بناتے رہے -اس لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک اخوانی نوجوان کی بہن تھی- حافظ الوحشی کے سپاہی اس لڑکی پر مسلسل تشدد کر رہے تھے تاکہ اس کا بھائی خود کو حاضر کردے- ظلم اور تشدد کے اس دور سے گذرتے ہوئے مریم کو تقریباً ڈیڑھ سال گذر گئے- مریم کے والد جو کہ بہت پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کی ماں جو تنہا رشتہ داروں کی مدد سے گھر کو سنبھال رہی تھی اس کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے- ظالموں نے اتنا رحم کیا کہ اسے اس کی ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی- مگر اس وقت مریم کے صدمے کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وحشی کے سپاہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دس بارہ نوجوانوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہوئے لے جا رہے ہیں جس میں ایک مریم کا بھائی بھی تھا- مریم نے بھائی کی گرفتای کی اس خبر کو کسی طرح ماں سے چھپانے کی کوشس تو ضرور کی مگرجیل کے اہلکاروں سے یہ امید بے سود تھی انہوں نے بہت ہی فاتحانہ انداز میں ماں سے بتا ہی دیا کہ آج ہم نے تمہارے بیٹے کو بھی گرفتار کر لیا ہے-ایک ماں پر اس حادثے کا کیا اثر پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے- بدقسمتی سے اس ماں کو صرف چھ مہینے کے اندر یہ خبر بھی دے دی گئی کہ اس کے بیٹے کو فوجی عدالت کے ذریعے موت کی سزا سنا دی گئی ہے اور اسے کسی بھی وقت تختہ دار پر بھی چڑھا دیا جائے گا - ماں تو اپنے بیٹے اور بیٹی کا صدمہ لیکر اس دنیا سے رخصت ہو گئی مریم کو جب رہا کیا گیا تو جیل کے باہر اب اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا -
ہو سکتا ہے کہ مریم کی اس کہانی کو بھی کسی دہشت گرد ناول نگار نے کسی خاص مقصد کیلئے ایک افسانوی رنگ دے دیا ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر کہانی اپنےافسانوی انداز میں آنے کیلئے حقیقت کی محتاج ہوتی ہے - مصر کی ایک خاتون دانشورزینب الغزالی کی شخصیت اور قیدوبند کے دوران جبروتشدد کی حقیقت سے پورا عالم اسلام واقف ہے -ان کا بھی قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے کچھ یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا تھا جن میں کچھ ایسے بچے اور خاندان بھی تھے جن کے باپ اور بھائی جمال ناصر کی جیلوں میں قید تھے یا انہیں قتل کر دیا گیا تھا- یہی وجہ تھی کہ زینب الغزالی جمال ناصر کی سوشلسٹ طرز حکومت کی شدت سے مخالفت کیا کرتی تھیں- جمال ناصر نے جس طرح انہیں نو سال تک سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جبروتشدد کے دور سے گزرا انہوں نے خود اپنی کتاب زنداں کے شب و روز میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو بیان کیا ہے جو اپنے آپ میں ظلم اور حیوانیت کی تاریخ میں ایک دستاویز ہے- انہوں نے لکھا ہے کہ جمال ناصر کے سپاہی نہ صرف انہیں الٹا لٹکا کر پیٹا کرتے بلکہ کبھی ایک کمرے میں بند کرکے ان کے اوپر خونخوار کتوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر وہ کتوں کے حملوں سے نہ صرف لہو لہان ہو جاتیں بلکہ یہ کتے ان کے کپڑوں کو نوچ کرانہیں برہنہ بھی کر دیتے تھے - اس طرح کے واقعات جدید جمہوری تہذیب اور عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اپنے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں-خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد پہلی بار مسلم ملکوں میں بھی دینداراور با عصمت خاتون کو جیلوں کے اندر قید کر کے تشدد سے گذارنے کی روایت شروع ہوئی اور مسلم دنیا کے دیگر حکمراں بھی خاموش رہے-
بات اکیسویں صدی کی جدید تہذیب, موجودہ لبرل طرز سیاست اور حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کے اس مہذب دور کی کی جائے تو ہمیں 2013 میں نہ صرف مصر کا فوجی انقلاب منھ چڑاتا ہے جہاں فوجی حکومت نے نہ صرف اس انقلاب کے خلاف احتجاج کرنے والی بھیڑ کو گولیوں سے بھون دیا بلکہ احتجاج میں شامل خواتین کو بھی پابند سلاسل کر کے دس دس سال قید کی سزا سنا دی گئی مگر اس ظلم کے خلاف حقوق نسواں کی علمبردار کسی تنظیم نے کوئی احتجاج اور مظاہرہ نہیں کیا تو اس لئے کہ ان کے نزدیک ایک صالح اسلامی نظام کی نمائندگی کرنے والی مسلمانوں کی بیویاں اور بیٹیاں بھی دہشت گرد ہیں- سچ تو یہ ہے کہ حاجرہ ,آسیہ اور مریم ہر دور میں ریگستانوں کی گرمی زنجیروں کا زخم اور بیڑیوں کے بوجھ کو برداشت کرنے کیلئے تیار رہی ہیں - 6 جولائی 2009 ء کا یہ واقعہ کسی بھی دردمند دل کو دہلا دینے کیلئے کافی ہے جب سبز لباس اور سفید اسکارف میں ملبوس ایک نحیف اور کمزور عورت جس کے ہاتھ اور پیر آہنی زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے جیل اہلکاروں کے ساتھ آہستہ آہستہ کمرہ عدالت میں داخل ہو تی ہے اور اس کے ہاتھوں سے ٹپکنے والا خون یہ کہہ رہا تھا کہ جیسے ابھی ابھی اسے تشدد سے گذرنا پڑا ہے -اس کی یہ حالت دیکھ کر کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی تڑپ اٹھے- اسے جج کے سامنے ایک خطرناک دہشت گرد کے طورپر پیش کیا جاتا ہے - وہ جج کے سامنے بیان دیتی ہے کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں - میرے سامنے قرآن کے اوراق پھاڑ کر پھینکے جاتے ہیں اور مجھ سے کہا جاتا ہے کہ میں اس پر چلوں - میں نے کئی بار جیل اہلکار سے کہا کہ مجھے میرے بھائی اور میرے وکیل سے ملنے دیا جائے مگر مجھے ملنے نہیں دیا جاتا - میرا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے- میں دنیا میں امن چاہتی ہوں میں امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک سے نفرت نہیں کرتی ہوں البتہ مجھے امریکہ کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے -
امریکہ کی عدالت میں پیش کی جانے والی اس عورت کا نام عافیہ صدیقی ہے اور انہیں امریکی عدالت نے چھیاسی سال کی سزا سنائی ہے- پاکستان کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والی عافیہ صدیقی نے بچوں کی ذہنی نشوونما کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے جنھیں 2003 میں گرفتاری کے بعد سے ابھی تک ان کے بچوں سے بھی ملنے نہیں دیا گیا ہے -امریکہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کئ بار احتجاج اور دستخطی مہم چلائی گئی مگر امریکی حکومت نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر پاکستانی حکومت اپیل کرے تو راستہ نکالا جاسکتا ہے - پاکستانی حکومت کی اپنی کیا مجبوری ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانے لیکن جس طرح دیگر مسلم ممالک کے حکمراں بھی اس معاملے میں بے غیرتی کا شکار ہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم حکمراں اخلاقی زوال کے ایک ایسی نچلی سطح سے گذر رہے ہیں جہاں دور دور تک کوئی معتصم با اللہ بھی نظر نہیں آتا - تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک زمانے سے طالبان جسے دنیا دہشت گرد کہتی ہے اور جن کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ لوگ عورتوں پر ظلم کرتے ہیں جب انہوں نے اپنے علاقے میں جاسوسی کی نیت سے آئی ہوئی برطانیہ کی خاتون صحافی ایون ریڈلی کو گرفتار کیا تو خود ایون ریڈلی نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ اب نہ صرف ان کی عزت و آبرو کو نیلام کر دیا جائے گا بلکہ ان کا زندہ بچ رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا-اور بیشک جس طرح شام میں مریم , مصر میں زینب الغزالی, امریکہ میں عافیہ صدیقی اور ایران میں ریحانہ جبار کو لبرل اور سیکولر قانون کی مہذب تلوار سے پر تشدد سزائیں دی گئیں اورآج کل عراق اور شام کی طرف ہجرت کرنے والی نوجوان لڑکیوں کو دنیا کے ہر ممالک کی جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے چاہتے تو طالبان بھی ایون ریڈلی کو ان کے خلاف جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیتے مگر انہوں نے اس خاتون کے ساتھ جس اخلاقی سلوک کا مظاہرہ کیا نہ صرف اس خاتون نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں دنیا پرحکومت کرنے کا حق ہے کلمہ حق پر ایمان لا کر اسلام میں بھی داخل ہو گئیں - شاید ہم ایک سال پہلے کے اس واقعے کو بھی بھول چکے ہیں جب عرب حریت پسندوں نے ہندوستان کی تقریباً چالیس نرسوں کو نہ صرف ایک تہ خانے میں رکھ کر ان کی جان بچائی بعد میں بحفاظت ایرپورٹ تک پہنچایا تاکہ وہ اپنے وطن جاسکیں اور ڈری سہمی نرسوں کو اطمینان دلایا کہ آپ فکر نہ کریں آپ ہماری بہن جیسی ہیں -اسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے تو بہرحال ان کی اس اسلامی غیرت اور حمیت کے مظاہرے کو بھول چکے ہیں - تعجب ہے کہ حال ہی میں مولانا سجاد نعمانی نے حدیث اور انٹرنیٹ کے حوالے سے عرب حریت پسندوں کواس دور کے خوارج کا فتنہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ یہ زانی اور قاتل ہیں - سوال یہ ہے کہ جس حدیث کی روشنی میں انہوں نے پچیس سے پینتیس سال کے ان نوجوانوں کو خوارج, دہشت گرد اور زانی کے لقب سے نوازا ہے اسی حدیث میں کہیں ان نوجوان لڑکیوں کا بھی ذکر ہے جو سیکڑوں کی تعداد میں عراق اور شام کی طرف ہجرت کر چکی ہیں-اگر عرب کے ان نوجوانوں کو اپنا دفاع کرنے کی بنیاد پر زانی اور دہشت گرد کہا جاسکتا ہے تو کیا ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو جواس جنگ کی بھٹی میں ان کی معاون اور مددگار ہیں ، کو طوائف اور آوارہ کہنا مناسب ہوگا ؟
0 comments: