ڈانس بار کی رقاصاؤں کوروزگار کا حق ہے لیکن قریشیوں کو نہیں
نہال صغیر
یعقوب میمن کی پھانسی پر اٹھنے والے سوالات ابھی دبے بھی نہیں تھے کہ پھانسی کے دو روز بعد اخبارات میں ایک خبر آئی تھی مسلم نوجوان میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی قوم کے ساتھ جان بوجھ کر ظلم اور نا انصافی ہو رہی ہے نیز انہیں جان بوجھ کر حاشیہ پر ڈالا جارہا ہے ۔یہ اس رپورٹ کے حوالے سے تھی جو خفیہ محکمہ نے وزارت داخلہ کو سونپی تھی ۔ رپورٹ میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مسلم نوجوان سمجھتا ہے ،گویا مسلم نوجوان کا احساس محض احساس ہی ہے ۔اس میں سچائی نہیں ہے یا اسے محض غلط فہمی ہے۔آخر مسلم نوجوان ایسا سمجھنے میں حق بجانب کیوں نہیں ہے ؟ ہزاروں فسادات میں اسے اور اس کی قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔ہر فساد کی کہانی ایک جیسی ۔سبھی فسادات میں پولس کا رو ل امن قائم کرنے والی قوت کے بجائے ایک فریق کارہا ۔فسادات کے بعد بم دھماکوں کا سلسلہ چلا اس میں بھی مسلم نوجوانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ۔بیس اکیس سال جیلوں میں بند رکھنے کے بعد انہیں با عزت بری کیا جانا ۔یعنی ان کے پورے کریئر کی بربادی ۔انہیں مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے اور اس کی قوم کو حاشیہ پر ڈالنے کا منصوبہ کے سوا اسے اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی داخلہ پالیسی جو غیر اعلان شدہ رہی ہے وہ یہ کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو دبا اور کچل کر ہی رکھنا ہے۔ان کو کسی بھی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دینا ہے ۔حکومت اور انتظامیہ کے بعد عدالتوں کو بھی تعصب کی فضا سے مسموم کردیا گیا ۔شاید دنیا کا یہ پہلا ملک ہے جہاں عدلیہ میں فیصلے حق اور انصاف کی بجائے آستھا اور عوامی ضمیر کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔
ممبئی میں ڈانس باروں پر لگی پابندی کو سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اٹھالیا کہ اس طرح کی پابندی سے ذریعہ معاش حاصل کرنے کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔اس سے قبل بامبے ہائی کورٹ نے بھی اسی قسم کا فیصلہ دیا تھا ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح کی پابندی شہریوں کو کوئی بھی پیشہ،کاروبار یا تجارت کرنے کی اجازت دینے والے آئین کے آرٹیکل 19 (1جی) کے خلاف ہے ۔ہمیں اس طرح کے فیصلے پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔جیسے دوسرے لوگ عدالتی فرمان کی قدر کرتے ہیں ویسے ہم بھی عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ۔لیکن اس طرح فیصلے یا انتظامی حکم نامے کو سبھی شہریوں کو سامنے رکھ کر دیکھنے کی کوشش تو کی ہی جانی چاہئے ۔حال ہی میں مہاراشٹر سمیت کئی صوبوں میں صرف گائے ہی نہیں بلکہ اس کی نسلوں کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ۔یہ سب کچھ اتنی جلد بازی میں کیا گیا کہ کسی کو معلوم ہوا کسی کو نہیں ۔ہائی کورٹ میں بھی مفاد عامہ کی درخواست دی گئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔گائے نسل کے ذبیحہ پر پابندی سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا مسئلہ پیدا ہوا ۔کسانوں کے ساتھ بھی یہ جڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ گائے بیل کو پالنے اور اسے فروخت کرنے کا کام وہی کرتے ہیں۔گائے نسل کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف مہاراشٹر میں سب سے زیادہ غیر مسلم کسانوں نے ہی احتجاج کیا ۔یعنی قرض کے بوجھ سے کراہ رہے کسانوں کو بی جے پی نے اس پابندی سے ایک اور جھٹکا دیا ۔لاکھوں کسانوں کا اربوں روپیہ کا بیل بے کار اور بے سود ہو کر رہ گیا ۔ملک عزیز کی عدلیہ کو فحاشی پھیلانے والی ڈانس بار کی فاحشہ کے روزی روٹی کی فکر ہے لیکن اسے ریاست اور ملک میں گائے اور اس کے نسل کے ذبیحہ پر لگنے والی پابندیوں سے لاکھوں لوگوں کے بھوکوں مرنے کی کوئی فکر نہیں ہے ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عدالت ایک طرف انصاف کی دہائی دیتی ہے لیکن دوسری جانب سے آنکھیں بند رکھتی ہے ۔کئی معاملے ایسے ہوئے کہ عدالت نے خود سے پہل کرتے ہوئے ایکشن لیا ۔لیکن ملک میں مسلم نوجوان خفیہ ایجنسیوں اور سلامتی دستوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتے رہے ۔عدالتیں ان کو بری کرتی رہیں ،پولس اورخفیہ ایجنسیوں کوڈانٹ پھٹکار لگا تی رہیں اور مسلمانوں کی جانب سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ آج ہمیں انصاف مل گیا !پتہ نہیں یہ کس طرح کا انصاف ہے جس میں زندگی کے گیارہ گیارہ یا اکیس بیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد عدالت عالیہ کا فیصلہ آتا ہے کہ با عزت بری کیا جاتا ہے ۔لیکن غلام قوموں کی بات ہی نرالی ہوتی ہے وہ غلامی میں اتنے مجبور اور لاچار نیز ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہو جاتے ہیں کہ انہیں گرفتاری بھی آزادی ہی نظر آتی ہے ۔
بہرحال ملک عزیز میں آزادی کے بعد سے ہی یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ یہاں دو طرح کا نظام رائج ہے اکثریت اور زور آوروں کے لئے قانون کا فیصلہ الگ اور اقلیت و پسماندوں کے لئے الگ ۔ مختلف موقعوں پر سامنے آتا رہا ہے ۔ عدالت کا دستور کا حوالہ دے کر روزگار کے حق کی بات کرنا بالکل درست لیکن کیا مسلمانوں اور ان کے ایک طبقہ قریشیوں پر یہ دستور کا آرٹیکل کیوں نہیں لاگو کیا جاتا۔مسلمانوں کوبھی کیوں نہیں اپنی روزی کمانے کا حق حاصل ہے ۔کیوں عدالتیں اس پر سو موٹو نہیں لیتی ہیں کہ کسی شخص یا گروہ پر کسی خاص گروہ یا شخص کی خواہش تھوپنا دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔کیوں ملک میں یہ فضا پیدا کی جارہی ہے کہ آپ کیا کھائیں کیا پہنیں اور کیا لکھیں یہ ایک خاص طبقہ طے کرے گا ۔دادری میں محض ایک افواہ کہ اخلاق کے گھر میں گوشت ہے ،پر اس کا قتل ہو جاتا ہے ۔پولس آتی ہے تو وہ بھی بجائے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے سب سے پہلے فریج میں سے گوشت ضبط کرکے اسے فارنسک تفتیش کے لئے بھیجتی ہے ۔آخر کیوں ملک عزیز میں انسانی جان کسی جانور سے کم ترسمجھی جانے لگی ہے ؟عدالتوں کا ضمیرکیوں بیدار نہیں ہو رہا ہے ؟ ڈانس بار کی ناچنے والیوں کو ان کے روزگار کا حق دینے والی عدالت کو دستور کا یہ آرٹیکل پورے طور سے نافذ کرنے کے لئے حکومت کو آرڈر دینا چاہئے ۔
آزادی کے بعد ملک عزیز میں اقلیتوں اور پسماندوں کو ساری دستوری ضمانت دینے کے باوجود اس کا ایماندارانہ نفاذ کبھی نہیں ہوا۔اس کی واحد وجہ یہ رہی کہ بیورو کریسی پر برہمنوں یا سورن ہندوؤں کا قبضہ رہا ۔ عدالت پر بھی وہی قابض رہے ۔انہوں نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو دی جانے والی مراعات کو کسی نہ کسی بہانے سے روکا ۔نوے کی دہائی میں منڈل کمیشن کے نفاذ کے باوجود ابھی تک برہمن ہی ہر جگہ اکثریت میں ہیں ۔لیکن اگر ریزرویشن کا موجودہ ڈھانچہ برقرار رہا تو آنے والے بیس پچیس سالوں میں تقریبا تمام ہی جگہوں سے برہمنوں کی بالادستی ختم ہو جائے گی اسی لئے گجرات میں ہاردک پٹیل کی قیادت میں پٹیلوں کو بھڑکا کر ریزر ویشن کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش اور سازش کی جارہی ہے تاکہ ملک پر برہمنوں کا تسلط قائم رہے ۔ لیکن اس میں حکومت شاید کامیاب نہیں پائے گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ طبقہ اتنا بیدار ہو گیا ہے کہ اس کی بیداری سے مودی جیسے دبنگ لیڈر کو بھی بہار الیکشن میں پسینے چھوٹ گئے اور فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کے باوجود وہ بہار ہار گئے ۔
ملک کی عدلیہ پر پوری طرح نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ عوام کا اعتماد اب تک قائم ہے وہاں سے ہی دو طرح کے فیصلے آئیں گے یا ایک مسائل سے جوجھ رہے الگ لگ گروہ میں ایک کو انصاف اور دوسرے کو نظر انداز کردیا جائے گا تو ملک میں عدم اطمینان اور بے چینی کی فضا تیزی سے پنپے گی ۔اس طرح کی بے چینی یقینی طور پر ملک کی سالمیت کے خطرہ ہے۔شاید ہمارے ارباب اقتدار کو اس بات اندازہ نہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں ۔اور یہ آگ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کو بھی اس بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا میں بہا کر لے جائے گی ۔وقت رہتے ہوئے جتنی جلدی ممکن ہو یہاں انصاف کے نظام کو بغیر کسی تعصب کے سب کے لئے برابر نافذ کیا جانا چاہئے ۔دوسرے انصاف پانا بھی آسان بنایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔آج غریب اور لاچار و مجبور انسان عدالت کا رخ کرتے ہوئے ڈرتا ہے ۔انصاف کے راستوں میں کئی دلال بیٹھے ہوئے ہیں جن کی خواہشات کو پورا کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔کیا ارباب سیاست انصاف کے عمل کو آسان اور شفاف بناکر ملک کی سالمیت پر منڈلارہے خطرات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے
0 comments: