دہشت گردی :افسانہ اور حقیقت !

8:00 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر

دہشت گردی آج کا ہاٹ ایشو ہے ۔جو اس کے بارے میں جانتا ہے وہ بھی اور اس کے اے بی سی ڈی سے بھی واقف نہیں ہے وہ بھی اس پر رائے زنی کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ دہشت گردی کے تعلق سے دنیا بھرمیں اور ملک عزیز میں بھی بڑی چالاکی سے کچھ ایسی قوتوں کے ذریعے جو اسلام اور مسلمانوں سے مخاصمت رکھتی ہیں یہ بات بڑی کامیابی کے ساتھ پھیلائی جاچکی ہیں کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور دہشت گردانہ کارروائیوں ملوث اکثریت مسلمانوں میں سے ہے۔ اس سلسلے میں کچھ حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ (1 )دہشت گردی کیا ہے ؟(2 )اسکے اسباب کیا ہیں؟(3 )کیا صرف مسلم نام والی تنظیمیں ہی دہشت گردی کے لئے ذمہ دار ہیں ؟(4 )کیا مسلم نام والی ہر اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم مان لینا چاہئے جس کی لسٹ صہیونی میڈیا یا پنجہ یہود میں گرفتار امریکی سامراج کی طرف سے جاری ہو؟(5) اور کیا دہشت گردی کے تعلق سے جن مسلم گروپوں کو ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے ہمیں ان خبروں کو من و عن سچ مان لینا چاہئے ؟ 

(1 )آج دہشت گردی کے معاملے میں جن تنظیموں کو ماخوذ کیا جاتا ہے اگر وہ کسی قوم یا گروہ کے لئے دہشت گرد ہیں تو کسی گروہ یا قوم اور ملک کے لئے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں ۔مثال کے طور پر تحریک آزادی ہند میں ہم جن لوگوں کو اپنا آئڈیل اور ہیرو مانتے ہیں وہی اشخاص نو آبادیاتی نظام میں ملکہ ایلزبیتھ کی حکومت کے باغی اور دہشت گرد تھے ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے ۔بد قسمتی سے ابھی تک دنیا میں اس کی کوئی مصدقہ اور متفقہ تعریف متعین نہیں ہے۔ہر گروہ اور ملک کی اس کے تئیں جدا گانہ رائے ہے ۔کوئی ملک یا گروہ مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی انتقامی یا جوابی کارروائی کو سیدھے دہشت گردی کی ڈور سے جوڑ دیتا ہے ۔خواہ وہ گروہ ملک کی آزادی کے لئے کوشاں ہو لیکن چونکہ وہ مسلمان ہے اس لئے متفقہ طور پر اس کو دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔اور میڈیا کی جانب سے اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔جس سے میڈیا عوام میں مسلمانوں کی ایک خاص تصویر بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ چونکہ اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کا ایک ایجنڈا یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی قوت کو توڑا جائے اور سیاسی اور معاشی پیمانے پر ان کو بے اثر کیا جائے جیسا کہ پارلیمانی الیکشن سے قبل سبرامنیم سوامی کا راہل کنول کے ساتھ انٹر ویو منظر عام پر آیا تھا ۔مسلمانوں کے مسلکی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف مسلکی گروہ کی تحریک کو بھی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور دوسرے مسلک کے لوگ اپنے مخالفین کو بھی دہشت گرد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ فی الحال شام و عراق وغیرہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور اب پیرس حملہ کے بعد دو خاص مسلکی گروہ نے دو مخالف مسلکی گروہ کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔لیکن کسی نے اگر سوال کردیا کہ بھائیو ہندوستان کا سب سے بڑا موسٹ وانٹیڈ کون ہے ؟جیسا کہ مولانا محمود مدنی نے ایک چینل پر اجیت انجم کے ایسے ہی سوالوں کا جواب دبے لفظوں میں کچھ یوں ہی دینے کی کوشش کی تھی۔یعنی اب دہشت گردی میں ملوث قرار دینے کے لئے مسلمانوں پر باہر سے الزام لگانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کو ہم میں سے ہی کچھ گروہ یا افراد مل گئے ہیں جو ہم پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگاتے رہتے ہیں ۔ہمارے مسلکی تضاد کو انتشار میں بدلنے میں ہمارا دشمن کامیاب ہو چکا ہے اور اس میں ہم نے خود ہی دانستہ نادانستہ طور پراپنے دشمنوں کی مدد کی ہے ۔اس لئے ہمیں مروجہ رسوم کے بجائے دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ میں اس سلسلے میں آپ کو مزید بور نہیں کروں گا کہ اسلام کا کیا نقطہ نظرانسانی جان کی حرمت کے لئے کیا ہے۔ یہ آئے دن آپ کے سامنے بات آتی رہتی ہے ۔ ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ ہر وہ کارروائی جو کسی بے گناہ اور معصوم انسانی جانوں کی ضیاع کا سبب بنے وہ دہشت گردی ہے ۔خواہ وہ بم دھماکوں میں انسانی جانوں کا نقصان ہو یا فرقہ وارانہ فسادات میں ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام یا اونچی ذات کے ہندوؤں کے ذریعے دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کا قتل اور ان کا سماجی سیاسی اور معاشی مقاطعہ یا امریکہ میں کسی شخص کے ذریعہ اسکولوں میں فائرنگ سے معصوم بچوں کا قتل یہ سب بھی دہشت گردی ہے ۔نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے فلسطینی دنیا کے نام نہاد حقوق انسانی حقوق کے چمپیئن کے سائے میں اسرائیل کی دہشت گردی کا شکار ہیں لاکھوں قتل کردئے گئے۔دو سال کے عرصے میں شام کا شیطان بشار الاسد کے فوجی ایران اور حزب اللہ کی مدد سے تین لاکھ سے زیادہ معصوموں کا قتل کر چکے ہیں ۔آپ دیکھیں گے کہ اسی ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف کیسی دہشت ناک وارداتیں انجام دی گئیں لیکن وہ محض ایک فسادات کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جاتی ہے کمیشن مجرمین کی نشاندہی بھی کرتا ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے ۔لیکن اسی فسادات اور بابری مسجد کی شہادت کے رد عمل میں جب بم دھماکہ ہوتا ہے تو اسے سیدھے سیدھے دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں اس پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ابھی تک صرف یہ ذہنیت بنائی گئی ہے کہ دہشت گردی صرف مسلمانوں کی جانب سے انجام دی جانے والی کارروائی ہے ۔اس لئے سب سے پہلے تو دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے اور اس کی ایک فہرست ترتیب دی جائے کہ کیا کیا کا رروائی دہشت گردی ہے۔
(2 )دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں ؟ہم اور آپ اس مشاہدے سے گزرے ہیں کہ جب بھی کوئی وبائی امراض چھوٹے یا بڑے پیمانے پر پھیلتی ہے تو ہمای حکومت کا شعبہ صحت عامہ اس کے اسباب جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ آخر کیوں یہ بیماری پھیل رہی ہے ؟اکثر وبائی امراض کے پھیلنے کی اہم وجہ صفائی کا فقدان اور گندگی کا ڈھیر ہو تی ہے ۔پھر محکمہ صحت سب سے پہلے شہر یا اس علاقہ کی صفائی کی جانب متوجہ ہوتا ہے تاکہ اس وبائی مرض پر قابو پایا جاسکے ۔اسی طرح کے بنیادی اسباب دہشت گردی کے وبائی شکل اختیار کرلینے میں بھی ہیں ۔میں تو دیکھ رہی ہوں اور یقیناآپ کے بھی مشاہدہ میں ہوگا کہ ہر طرف ظلم اور نا انصافی کی گندگی پھیل ہوئی ہے اور اس پر دہشت گردی کا مچھر پل رہا ہے ۔لیکن پوری دنیا کے لال بجھکڑ صرف مچھر کو ختم کرنے کی طرف دھیان دے رہے ہیں ۔لیکن اس ظلم اور نا انصافی کی گندگی کے ڈھیر کو ختم کرنے کی جانب متوجہ نہیں ہو رہے ہیں ۔دنیا کے بڑے بڑے مفکر اس سلسلے میں اتنے احمقانہ سوالات اٹھاتے ہیں اور ایسی ظالمانہ کارروائی کی حمایت کرتے ہیں کہ ان کی عقل اور ان کی سوجھ بوجھ پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے ۔کبھی کبھی غصہ بھی آتا ہے کہ اگر پیرس پر کسی گروہ نے فائرنگ میں سو سوا سو لوگوں کو مارڈالا ہے تو اس کا بدلہ اس احمقانہ کارروائی سے لیتے ہیں کہ شام پر ان کے بموجب داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاتی ہے جس میں عام شہریوں کی موت ہوتی ہے ۔ بتایا جائے کہ یہ دہشت گردی کو ختم کرنے والی کارروائی ہے یا دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والی ۔یہ رپورٹ تو انٹر نیٹ پر موجود ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں ،جس کے بارے میں کہا جاتا رہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے اڈوں پر کئے جارہے ہیں لیکن اس کا شکار عام شہری بنے جس میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی رہی ہے ۔ڈرون کا نشانہ مساجد ،مدارس،شادی کی تقریب اور قبرستان میں کسی کے جنازے میں شامل افراد بھی بنے ۔ابھی تک دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ انتقامی کارروائی ہی زیادہ رہی ہے۔ ایمانداری اور اپنے ضمیر کی آواز پر یہ بتائیں کہ اگر کسی خاندان کا سب کچھ لٹ گیا ہو ۔اس کے خاندان کے لوگ اس کے عزیز جن سے وہ ازحد محبت کرتا ہے ان کو راحتیں پہنچانے کے لئے وہ بڑی محنت اور مشقت سے بھی بخوشی گز ر جاتا ہے ۔اگر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے انہی عزیزوں کو بموں اور گولیوں کا نشانہ بنادیا جائے تو کیا اس سے کسیبہتر رد عمل کی توقع کی جانی چاہئے ۔میرا تجزیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے اسباب میں اہم وجہ ظلم اور نا انصافی ہی ہے ۔بغیر اس کے خاتمہ کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
(3 )دہشت گردانہ کارروائیوں کے معاملہ میں ملوث تنظیموں کے معاملے میں اقوام متحدہ اور امریکہ کی دہشت گردتنظیموں کی فہرست میں دس فیصد بھی مسلم نام والی تنظیمیں نہیں ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ خود ہندوستان میں دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں بہت قلیل تعداد مسلم نام والی تنظیمیں ہیں باقی سب غیر مسلم ہیں ۔لیکن تشہیر صرف مسلم نام والی تنظیموں کا کیا جاتا ہے۔ملک عزیز کی کئی مقتدر ہستیوں کا قتل ہوا کسی میں بھی مسلمان ملوث نہیں ہے ۔سارے ہی قتل میں ہندواکثریت کے لوگ ہی مجرم پائے گئے ۔اس کے علاوہ کئی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مسلمانوں کو ملوث کیا گیا لیکن عدالت میں ان کے خلاف جرم ثابت نہیں کیا جا سکا کیوں کہ جن لوگوں کو پھنسایا گیا تھا وہ معصوم تھے ۔گناہ گار کوئی اور ہے جس کو ملک کا پورا سسٹم بچانا چاہتا ہے ۔یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں کو سابق آئی جی پولس مہاراشٹر نے اپنی کتاب ہو کلڈ کرکرے میں بے نقاب کیا ہے ۔لیکن ارباب اقتدار اس کو سرے سے بحث میں ہی نہیں لاتے ۔کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دہشت گردی کے نام پر صرف مسلمانوں کو نشان بنایا جاتا ہے اور اصل دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔اس لئے جیسا کہ میں نے اس سے قبل پوائنٹ نمبر 2 دہشت گردی کے اسباب کے ضمن میں بات کہی کہ دہشت گردی کے معاملے میں انصاف کے پیمانے کو سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے ۔ کسی کو بے جا تنگ کرنا اس کو تعصب کا نشانہ بنانا اور کسی کے جرموں پر اسے پارلیمان کی سیٹ پیش کرنے سے دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوگا ۔
(4 )کیا مسلم نام والی ہر اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم مان لینا چاہئے جس کی لسٹ صہیونی میڈیا یا پنجہ یہود میں گرفتار امریکی سامراج کی طرف سے جاری ہو؟دہشت گردی پر بحث کرتے ہوئے یا اس کے اسباب و علاج پر روشنی ڈالتے ہوئے اس پوائنٹ نمبر 4 پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ کیا ہم ان سبھی مسلم تنظیموں اور مسلم شخصیت کو دہشت گرد مان لیں جن کی لسٹ ہمیں صہیونی میڈیا یا یہودیوں کے غلام امریکہ کی جانب سے پیش کیا جائے ۔کیااپنے ملک کی آزادی اورظالم و جابر حکمراں کے خلاف لڑنا بھی دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے ؟اور اگر ایسا ہے تو ہمیں سب سے پہلے پوری دنیا کے ایسے لوگوں کی فہرست پھاڑ کر پھینک دینی ہوگی جنہوں نے اپنے اپنے وطن کی آزادی کی جدو جہد میں اپنے خون کے نذرانے پیش کئے ۔انہیں بھی نئے غیر اعلان شدہ قانون کے مطابق دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہئے ۔جو صدیوں سے اپنے ملک کے عوام کے لئے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جن کے لئے اس ملک کے عوام ادب و احترام کا جذبہ رکھتے ہیں ۔کیا کوئی ہم سے بھگت سنگھ اور اشفاق خان کے تئیں دلی جذبات، ان کے لئے ادب و احترام کو جدا کرسکتا ہے ؟میں یہاں فلسطین کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ آج وہان کے مجاہدین کو صہیونیوں کے ایماء پر خود ملک عزیز کی میڈیا میں بھی دہشت گرد کہا اور لکھا جاتا ہے ۔کیا مجھے کوئی بتائے گا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کی جبریہ تخلیق دہشت گردی ہے یا اس دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے بم بارود اور توپ و میزائل کا جواب اینٹ پتھروں اور غلیل سے دینے والے دہشت گرد ہیں ؟ایسا ہی کچھ شام و عراق میں بھی ہو رہا ہے کہ ظالم حکومتوں کے خلاف لڑنے والی قوتوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے ۔انہیں بد نام کیا جارہا ہے ۔تاکہ دنیا کی سپر پاوروں کا مفاد محفوظ رکھا جاسکے۔آخر کسی ملک کے عوام کو یہ آزادی کیوں نہیں دی جارہای ہے کہ وہ خود سے ہی یہ انتخاب کریں کہ وہ اپنے ملک کے لئے حکومتوں کا انتخاب خود ہی کریں گے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ۔دنیا کی کسی قوت کو یہ حق کب سے اور کس نے دے دیا کہ کوئی ملک اپنے یہاں کس طرز کی حکومت قائم کرے اور کس طرح کی نہیں ۔وہ کیسا قانون بنائے اور کیسا نہیں ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کسی ملک میں کون کون سی عوامی تحریکیں ہیں اور وہ کیا چاہتی ہیں نیز ان کی سچائی اور ان کی حقیقی جانکاری کو عوام تک آزادانہ ترسیل کو آسان بنانا نہایت ضروری ہے ۔لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جب ایسی کوئی تنظیم کوئی ویب سائٹ بناتی ہے تو اس کو بلاک کیا جاتا ہے اور جب دنیا کی ان قوتوں کو جومسلمان اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں کسی ملک کی تحریک کو بدنام کرنا ہوتا ہے تو ایک عدد ویب سائٹ بھی بن جاتا ہے اور اس پر کسی پیرس حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوسٹ بھی آجاتی ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ اس تنظیم کی پچھلی دس سے زیادہ ویب سائٹ تم لوگوں نے بلاک کردی تو یہ سائٹ کہاں سے آگئی ۔یہاں پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ انٹیلجنس اپنے ملک اور اپنے نظریاتی مفادات کے مد نظر خود ہی تخلیق کرتے ہیں ۔تاریخ میں ایسی بے شمار شواہد موجود ہیں ۔چونکہ یہاں موقع نہیں ہے کہ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اسے بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔عراق و شام میں جس مزاحمتی گروپ کو خطرناک دہشت گرد بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔آج کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا ہے کہ ایسے خطرناک دہشت گردوں نے صرف ایک سال قبل ہمارے ملک کی نرسوں کو عزت و احترام سے کیوں بھیج دیا ؟میں بھی سوچتاہوں اور تمام لوگوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے اور ہمیں دکھانے کی کیا کوشش کی جارہی ہے ۔اسی ضمن میں میں ایک بات یہ بھی کہنا چاہوں گاکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ جنگ یا خلفشار سے ملک عزیز کا کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن دنیا کی کچھ قوتیں زبردستی ہندوستان کو بھی اس خلفشار کا حصہ بنانا چاہتی ہیں ،جس سے ملک کو بچانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے کہ آخر وہ کون سی قوت ہے جو ملک عزیز کو بھی جنگ کی بھٹی میں جھونکنا چاہتی ہے ،اس کی نشاندہی ضروری ہے۔ میں پچھلے دو سال سے دیکھ رہاہوں کہ مشرق وسطیٰ کی آگ یہاں بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں حکومتی کارندے اس میں کارآمد ثابت ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔
(5 ) خبروں کے ذریعہ دہشت گردی کے تعلق سے جن مسلم گروپوں کو ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے ہمیں ان خبروں کو من و عن سچ مان لینا چاہئے ؟یہ پوائنٹ نمبر 5 بھی پوائنٹ نمبر 4 کا ہی تسلسل ہی ہے ۔میں اس سے قبل لکھ چکا ہوں کہ ہو کچھ اور رہا ہے اور جو ہو رہا ہے وہ کر کوئی اور رہا ہے لیکن ہمیں کچھ اور پیش کیا جارہا ہے ۔اس کی تحقیق بہت ضروری ہے ۔اب تحقیق کیسے کریں اس کی کئی صورتیں ہیں ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ جیسے ملک عزیز میں کہیں کوئی فساد یا انکاؤنٹر ہو تا ہے تو اس کی تحقیق کے لئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی جاتی ہے پھر وہ اپنی رپورٹ میڈیا کے سامنے پیش کرتی ہے ۔اسی طرح ایسی بین الاقوامی تنظیم ملک عزیز میں بھی ہو جس میں سبھی مکتبہ فکر کے علماء ،اسکالر اور دانشور ہوں وہ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو تو اس کی تحقیق کے لئے جائیں اور صورت واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئیں اور یہاں عوام کے سامنے پیش کریں ۔لیکن فی الحال یہ صورتحال ذرا مشکل ہے تو دوسری صورت یہ ہے کہ ہمیں مختلف واقعات کی کڑیوں کو ملاکر یا مختلف رپورٹس یا مختلف رہنماؤں کے بیانات کو ملا کر پڑھیں اس پر غور کریں اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کریں ۔اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے ۔اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو خدارا خاموش رہیں اور دیکھیں کہ مستقبل کے پردے سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے ۔بقول علامہ اقبال دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا ۔چونکہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ’’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہوکہ تم انجانے میں کسی کو کوئی نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہو‘‘(سورہ الحجرات آیت 6 )۔

0 comments: