عاشقین رسول ﷺ کے جذبات کوسلام، مگر۔۔۔۔۔ ایک بار پھر اصل مسائل کی طرف سے عوام کی توجہ موڑنے کی سازش۔

7:30 PM nehal sagheer 0 Comments

مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی
مدیر الفرقان لکھنؤ، چئرمین رحمان فاؤنڈیشن (چیریٹیبل ٹرسٹ)

خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے مزاج سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ رحمت دو عالم محبوب کل جہاں (فداہ ابی وامی اور ان پر اور ان کی آل پر لاکھوں درودوسلام )کی ذات گرامی سے کس قدر شدید محبت انکے ان امتیوں کو بھی ہر دور میں رہی ہے، جو بظاہر انکی تعلیمات کی پوری پابندی بھی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ جب ہمارے جیسے صرف نام کے مسلمانوں کا یہ حال ہے تو اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا کیا حال ہوگا، جو جان ودل سے ان پر فدا رہتے ہیں، اور انکی ہی تعلیمات کی روشنی میں پوری زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز شب و روز میں بار بار انکے حضور ہدیۂ درود وسلام بھیج کر اپنے قلب حزیں کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ 
ابھی چند روز پہلے ہمارے ملک کے صوبے اترپردیش میں ایک دریدہ دہن نے آنحضرت ﷺ کی شان میں ایسے گستاخانہ کلمات کہے کہ جن کو نقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اور پھر مسلمانوں میں، بجا طور پر، غصہ کی لہر دوڑ گئی، ملک میں مختلف مقامات پر لاکھوں کی تعداد میں مسلمان احتجاج کرتے ہوئے اور اس فاتر العقل کی گرفتاری اور سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
ہمارے خیال میں کوئی بے حس شخص ہی ہوگا جو اِن احتجاج کرنے والوں کے اس رد عمل کو غیر ضروری یا بلا وجہ قرار دے گا۔۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں بے شمار مقامات پر احتجاج ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھنٹوں تک سڑکوں پر رہے،بعض مقامات پر لوگوں نے سڑکوں کو جام بھی کر دیا۔مگر انہوں نے نہ کسی راہ گیر پر کوئی پتھر مارا،نہ کسی کار، بس یا موٹر سائیکل میں آگ لگائی۔ وہ صرف انتظامیہ سے ہی مطالبہ کرتے رہے، کسی شہری کی جان یا مال کو انہوں نے نشانہ نہیں بنایا۔
اس حد تک اگر کوئی شخص ان احتجاج کرنے والوں کے جذبات کو اور سخت غم و غصّہ کے باوجود ان کے پر امن اظہار کو اس لائق سمجھتا ہے کہ اس کی تحسین کی جائے، تو اس رائے کو سرسری طور پر غلط قرار دینا کم ازکم حقیقت پسنداور اصلاح کا عملی تجربہ رکھنے والوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔
تاہم، ایک بات ہے، جو اس موقع پر ان محمد مصطفیٰ ﷺ کے شیدائیوں سے ان کے محبت بھرے جذبات کو سلام کرتے ہوئے کہنا بھی ہم اپنا فرض اور ان کا حق سمجھتے ہیں۔
ہمارا ملک اس وقت ایک دوراہے پر پہنچ چکا ہے، جو لوگ ملک کی آبادی کے بارے میں کچھ تفصیلی اور گہری واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کروروں کی تعداد میں وہ لوگ ہیں جو دراصل ہندو نہیں تھے۔ انہیں بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہندو بنالیاگیا ہے، اور مستقل طور پر انہیں ہندو بنائے رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر کچھ دن بعد مسلمانوں سے کوئی جھگڑا کھڑا کیا جائے، اور جب بھی ایسا ہوتا ہے، تو کبھی بھی وہ چالاک وعیار طبقہ خود مسلمانوں سے لڑنے کے لئے سامنے نہیں آتا ؛بلکہ انہیں لوگوں کو آگے کردیتاہے جنہیں ہندو بناکر اپنا غلام اور آلۂ کاربنائے رکھنے کے اصل مقصد سے ہی وہ جھگڑا کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ’’ہندو۔مسلم‘‘فساد کا ماحول بنانے کی ضرورت اس وقت بہت زیادہ شدید ہوجاتی ہے، جب ملک کی آبادی کی اس حصہ میں اپنے اصل دشمن اور اس کی سازشوں کی پہچان عام ہونے لگتی ہے، ماہ دسمبر ۲۰۱۵ء کے اداریہ میں ، میں نے تفصیل سے لکھا تھا کہ بہار کے الیکشن نے ایک بار پھر یہ موقع فراہم کردیاہے کہ ملک کی آبادی کی اس اکثریت کو اپنی اصل شناخت یاد آجائے، اور اس کی سمجھ میں یہ اہم ترین حقیقت آجائے کہ اس کے اصل دشمن مسلمان نہیں ہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جن کو وہ غلطی سے بہت عرصہ سے’’اپنا سمجھتے رہے ہیں‘‘۔میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ بہار کے الیکشن ہی سے یہ آواز اٹھنی شروع ہوئی ہے، یہ آواز تو بہت عرصہ سے اٹھ رہی ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے اس آواز کو سننے اور دھیان سے سننے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہاہے، اور بہار کے الیکشن میں یہ آواز بڑے زور سے گونجی ہے اور بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
اور یہی وہ بات ہے جس سے اس مخصوص فرقہ پرست اور فسطائی گروہ کو سخت پریشانی لاحق ہے، اور اسی وجہ سے اس گروہ کے لئے مسلسل اس کی کوشش کرنا ضروری ہے کہ ملک کے مختلف مقامات میں، خصوصاً ان ریاستوں میں؛ جہاں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں یا ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں، وہ ہندو۔ مسلم منافرت کا ماحول گرمائے، تاکہ لوگوں کے ذہن ودماغ اصل مسئلے کی طرف سے ایک بار پھر ہٹ جائیں،اور اس کے لئے وہی پرانا نسخہ’’ ہندو ۔ مسلم منافرت‘‘پھیلانا ان نفرت کے سوداگروں کے لئے ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے ۔
یہ ہے دشمن کی وہ چال جسے سمجھنے اور اس کو ناکام کرنے کے سلسلے میں تدبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان دشمن کی چالوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور باربار ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ 
اب ذات رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخانہ بکواس کی تازہ ترین واردات ہی کو ذرا اس نقطۂ نظر سے دیکھئے، آپ خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ لوگوں کے ذہن ودماغ پر ہندو ۔ مسلم نفرت کے جذبات چھاجائیں اور غیر مسلم سماج کی باہمی طبقاتی کشمکش کا موضوع پس پشت چلا جائے۔ اتر پردیش میں آئندہ سال الیکشن ہونے ہیں، اور سیاسی بازیگروں کی یہ سیاسی ضرورت ہے کہ عوام کے حقیقی مسائل کی طرف سے ان کی توجہ ہٹا کر ان مصنوعی مسائل کی طرف موڑ دی جائے ، جن سے ان کی روز مرہ کی زندگی کا تعلق نہیں ، اور یہ کہ ان کو اپنی اصل شناخت سے غافل کرکے انہیں مذہبی طور پر نہیں سیاسی طور پر ہندو بنا لیا جائے، کہ ان بازیگروں کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، ان کی دل چسپی صرف اور صرف مذہب کے نام پر سیاست سے ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہندو مذہب کے نام کی چیز دنیا میں موجود ہی نہیں ہے۔ یہ تو نام ہے مختلف قوموں سے تشکیل شدہ مسلمانوں کے خلاف ایک مصنوعی اکثریتی محاذ کا ، دوسرے الفاظ میں یہ ایک سیاسی لیبل ہے نہ کی مذہبی شناخت۔
ایک پہلو اور ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ گزشتہ تین مہینوں کے دوران،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے، ملک کے حالات میں نہایت گہری تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس فسطائی فرقہ پرست گروہ نے ملک میں نفرت وعدم رواداری اور شدت پسندی کا جو ماحول پیدا کیا ہے، اس پر مختلف طبقات میں شدید ناراضگی وتشویش کی لہر، بلکہ ایسا طوفان اچانک پیدا ہوا کہ اُس نے اِس گروہ کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ پے بہ پے ان کے لیے پریشانیاں اور الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں، اور صاف دکھ رہا ہے کہ ہوا اکھڑ رہی ہے۔ ان حالات میں ان کے بس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ کسی طرح فساد وبد امنی اور نفرت کے حالات پیدا کر کے لوگوں کی توجہ ان مسائل سے ہٹائی جائے۔ 
اگر ہمارا یہ تجزیہ صحیح ہے ، اور ہمیں پورا یقین ہے کہ بالکل صحیح ہے، تو بتائیے کہ ہمارا رد عمل مسلمانوں کو مشتعل کرکے سڑکوں پر اتارنے اور میڈیا کی پوری طاقت استعمال کرکے ملک میں ہندو مسلم منافرت پھیلانے کی اس سازش کے جواب میں ہونا چاہئے؟ یہی ناکہ ہم ایسا طرز عمل اختیار کریں جس سے ان سازشوں کے غبارے کی ہوا ہی نکل جائے، اور فضا میں کوئی گرمی یا اشتعال پیدا ہی نہ ہونے پائے، اور سماج کی اصل شناخت اور حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹنے ہی نہ پائے۔ 
ہم اس مقصد کے حصول کے لئے کئی تدبیریں اختیار کرسکتے ہیں۔
۱۔ برادران وطن کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو چھوٹے چھوٹے جلسوں ، کے ذریعہ مخاطب بناکر رحمت دوعالم ﷺ کی شخصیت اور ان کے لائے ہوئے دین وشریعت کا تعارف کرانا ۔
۲۔ چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں میں اور آسان زبان میں لکھے گئے لٹریچر کے ذریعہ اسلام کے پیغامِ امن ومساوات کو عام کرنے کی کوشش۔
۳۔ مضمون نگاری اور تقریروں کے مقابلے کے نام پر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کو سیرت نبوی اور تعلیمات نبوی کے براہ راست مطالعہ کا موقع فراہم کرنا۔
۴۔ خدمت خلق کے مختلف کام انجام دینا۔
الغرض اس قسم کے بہت سے مثبت کام ہو سکتے ہیں، جو رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کے جواب میں کئے جاسکتے ہیں، اور شاید ہی کوئی اس بات سے اختلاف کر سکے، کہ احتجاج وغیرہ کے مقابلے میں یہ اور اسی طرح کے دوسرے کام قرآن وحدیث کی تعلیمات اور اسوۂ رسول اکرم ﷺ سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ 
ذرا یاد کیجئے اس واقعہ کو جب ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ اور ان کے سب سے بڑے شیدائی سیدنا صدیق اکبرؓ دونوں ایک ساتھ تھے،کہ کسی دریدہ دہن نے گالیوں کی بوچھار کردی، دونوں خاموش رہے، مگر بالآخر ایک وقت آیا کہ صدیق اکبر کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو جواب میں انہوں نے بھی کچھ کہہ دیا ۔ بس حضور اکرم ﷺ فوراً وہاں سے اٹھ کر چل دئے، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر نے آپ کے ایک دم اٹھ کر چل دینے کی وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تک تم بھی خاموش رہے اللہ کی طرف سے دیا جاتا رہا، جب تم بول پڑے تو اللہ کی طرف سے جواب کا سلسلہ بند ہو گیا۔۔۔۔۔
میری ملت کے غمزدہ بھائیو! اور عزیز نوجوانو! خدارا غور کرو، یہ اللہ کی طرف سے جواب دئے جانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ ایسے حالات کے رونما ہونے کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے کہ جن میں وہ گالیاں دینے والے یا تو ہدایت پاجاتے یا نیست ونابود ہوجاتے۔ 
پس گزارش یہ ہے کہ سازشوں کو سمجھیں اور ان کا جواب غصہ سے نہیں سوچ سمجھ کر اس طور پر دیں کہ جس سے صرف آپ کی بھڑاس ہی نہ نکلے، بلکہ دشمن کی سازش ناکام ہو، اور آپ کو مستقل اور پائدار فتح کی حقیقی خوشی ملے۔
Attachments area

0 comments: