International

مخیّر سعودی شخصیت نے بھارتی کا سرقلم ہونے سے کیسے بچایا؟


 
سعودی کاروباری شخصیت عواض بن غریح الیامی نے مقتول کے خاندان کو قاتل کو معاف کرنے پر آمادہ کیا ہے۔


العربیہ ڈاٹ نیٹ
 
سعودی عرب میں ایک بھارتی ورکر لمبدری نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ موت کے منھ میں جانے سے بچ سکے مگر وہ قتل کے جرم میں سر کٹوانے سے بچ گیا ہے حالانکہ وہ گذشتہ آٹھ سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے خلاف سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کا منتظر تھا۔
اس نے ایک لڑائی جھگڑے کے دوران میں ایک سعودی کو قتل کر دیا تھا۔عدالت نے اس کو سزائے موت کا حکم دیا تھا اور وہ اسی ادھیڑبن میں مبتلا تھا کہ اب اس کا سرقلم ہو کر رہے گا۔
لیکن سرقلم کیے جانے کی تاریخ نزدیک آنے پر اس قاتل کے لیے تو معجزہ رونما ہوگیا ہے۔ہوا یہ ہے کہ ایک سعودی کاروباری شخص عواض بن غریح الیامی اس کی مدد کو آگے آئے ہیں اور انھوں نے مقتول کے خاندان کو دیت ( خون بہا) کے بدلے میں اس کو معاف کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔
مقتول کے خاندان نے ان کی جانب سے ادا کردہ دیت کی رقم قبول کر لی ہے اور اس بھارتی قاتل کو معاف کردیا ہے۔عدالت نے بھی اس معافی کی توثیق کردی ہے اور اب بھارتی ورکر جیل سے رہائی کا منتظر ہے۔ واضح رہے کہ وہ وقوعہ سے قبل نجران میں ایک فارم میں کام کرتا رہا تھا۔

0 comments:

International

سعودی جج کو کس نے اغوا کیا؟


سعودی عرب کے مشرقی علاقے قطیف میں دہشت گردوں کے ایک گینگ نے ایک عدالت کے شیعہ جج شیخ محمد الجیرانی کو منگل کے روز اغوا کر لیا تھا۔انھیں مسلح افراد جزیرے طاروت میں واقع ان کے گھر کے باہر سے زبردستی اٹھا لے گئے تھے اور یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔
سعودی عرب کے وزیر عدل اور سپریم جوڈیشیل کونسل کے سربراہ ولید بن محمد السمعانی نے قطیف میں شیخ محمد الجیرانی کے اغوا پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ولید سمعانی نے ان کے تحفظ کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔
جج کی اہلیہ نے سب سے پہلے سکیورٹی فورسز کو منگل کی صبح ان کے اغوا کی اطلاع دی تھی۔پولیس نے اس کے بعد اغواکاروں کی تلاش اور شیخ جیرانی کی بہ حفاظت بازیابی کے لیے ایک بڑی کارروائی شروع کردی تھی۔جیرانی ایک محب وطن شیعہ عالم ہیں اور وہ سعودی عرب میں ایران کے دہشت گرد گروپوں کے مخالف رہے ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ان پر خمینی نظریے کے مسلح حامیوں نے حملہ کیا ہے۔طاروت کے میئر نے بتایا ہے کہ ماضی میں نامعلوم حملہ آوروں نے ان کی جائیداد پر حملہ کیا تھا اور ان کے مکان کو بھی نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی۔
سعودی عرب میں خمینی دہشت گرد گروپوں کے حامی انھیں اپنے مختلف حملوں کا ہدف بناتے رہے ہیں۔انھوں نے ان کے تشخص کو بھی مجروح کرنے کی کوشش کی تھی۔ سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس پر ان پر باغی ہونے کا الزام عاید کیا تھا اور شیعہ اجتماعات میں ان کے خلاف تقریریں کی جاتی رہی ہیں۔
انھیں محض اس وجہ سے ہدف بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ وہ پاسداران انقلاب ایران سے وابستہ نیٹ ورکس کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں اور ماضی میں انھوں نے ان نیٹ ورکس کے مخالفانہ نعروں کے باوجود ببانگ دہل ان کی مخالفت کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ وہ اپنی حب الوطنی میں اٹل ہیں۔وہ بہت بہادر ہیں۔ان کے یہ شخصی خصائص ہی اب ان کے لیے باعث آزار بن گئے ہیں۔
شیخ جیرانی کے اغوا کے واقعے سے اس امر کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے کہ انھوں نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا اور جو انتباہ کیا تھا، وہ درست ثابت ہوگیا ہے۔انھوں نے ان مجرمانہ گروپوں کو جو نام دیا ،وہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی کیونکہ قاسم سلیمانی کے ایجنٹ اور پاسداران انقلاب کے حامی برسرزمین موجود ہیں۔ وہ داعش کے ان قاتلوں ہی کی طرح خطرناک اور بُرے ہیں جو الاحساء ،قطیف اور الدمام میں مساجد اور بے گناہ عوام کو اپنے حملوں میں نشانہ بنا چکے ہیں۔
ان مجرم گروپوں نے سعودی شیعہ سوسائٹی کو ہراساں اور دہشت زدہ کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔ وہ اپنی مخالفت کرنے والے کسی بھی شخص ،خواہ وہ جج ہو ،کاروباری شخصیت ،صحافی یا مصنف ہو،کی توہین اور اس کو غائب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کے آزاد شیعہ شہری سخت مشکل سے دوچار ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چند ایک مجرموں نے ان کا سماجی مقاطعہ و محاصرہ کررکھا ہے لیکن ان میں چند ایک لوگ ایسے بھی ہیں جو بے خوفی اور بے باکی سے ان سے محاذ آرائی سے کتراتے ہیں۔ وہ ایک طرح سے معذرت خواہانہ موقف اختیار کرتے ہیں تا کہ نوجوان طبقہ کسی بھی طرح زیادہ مشتعل نہ ہو اور وہ یوں زیادہ انتہا پسند نہ بنے۔
ان کا ''مشتعل نہ کرنے'' کا یہ رویہ بالکل اسی طرح کا ہے جس طرح کا سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں بعض عذرخواہوں نے القاعدہ کے خلاف اختیار کیا تھا۔اس سے انتہا پسند گروپوں پر تنقید کی شدت کم ہو کر رہ جاتی ہے اور ان کے خلاف محاذ آرا ہونے کا عزم بھی ماند پڑتا ہے۔
تاہم حالیہ واقعات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ بے خوفی اور حوصلہ مندی کسی معاشرے میں دشمن سے دوبدو مقابلے کے لیے ناگزیر صفات ہیں۔شیخ محمد الجیرانی ان ہی صفات کو بروئے کار لائے تھے اور اسی وجہ سے جرائم پیشہ افراد نے انھیں اغوا کیا ہے۔
جیرانی بے خوف اور نڈر تھے اور انھوں نے ایسا ہی رہنے کا انتخاب کیا تھا کیونکہ خطرہ خواہ ابوبکر البغدادی یا قاسم سلیمانی سے لاحق ہو ،ان کی نوعیت ایک ہی جیسی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے شکریہ کے ساتھ 

 https://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2016/12/15/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AC%D8%AC-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%B3-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%BA%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D8%9F.html

0 comments:

Media

صحافی شاہد انصاری کی خبر میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا کوئی کیس ہی نہیں بنتا: جسٹس كانڈے ممبئی ہائی کورٹ


ممبئی: صحافی شاہد انصاری کے خلاف آزاد میدان فسادات کے ملزم نام نہاد پیر  معین اشرف کے بارے میں لکھی خبر کے بعد اس معاملے میں ناگپاڑہ پولیس تھانے میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے معاملے میں درج ہوئی ایف آئی آر کے بارے میں سماعت کے دوران ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس كانڈے نے کہا کہ اس معاملے میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے جیسی خبر میں کوئی بات ہی نہیں لکھی ہے.انہوں نے اس معاملے میں پولیس کو حکم دیا ہے کہ پولیس اگلی سماعت تک چارج شیٹ نہ داخل کرے
واضح رہے کہ شاہد انصاری نے آزاد میدان فسادات کے ملزم نام نہاد پیر اور مذہبی ٹھیکیدار معین اشرف کے ذریعہ انجمن اسلام کی کروڑوں کی جگہ پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ جمانے کو لے کر 28 ستمبر کو خبر شائع کی تھی جس کے بعد اس معاملے میں آزاد میدان فسادات کے ملزم معین اشرف کے قریبی سینٹرل ریجن کے ایڈیشنل کمشنر آرڈي شندے کے حکم کے بعد ناگپاڑہ پولیس تھانے میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا تھاشاہد نے اس معاملے میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا
معاملے میں قانونی جنگ لڑنے والے ایڈووكیٹ بھاویش پرمار نے کہا جس طرح سے انصاری کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے ممبئی پولیس کے جن سینئر حکام کا ہاتھ رہا ہم نے کورٹ کو بتایا ساتھ میں ثبوت کے طور پر پولیس تھانے میں موجود اسٹیشن ڈائری بھی پیش كي ہے کورٹ پر مکمل اعتماد ہے کہ جس طرح عدالت نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے ہمیں یقین ہے کہ انصاری کو اس میں انصاف ضرور ملے گا

بامبے لیکس ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ
 
http://bombayleaks.com/%E0%A4%AA%E0%A4%A4%E0%A5%8D%E0%A4%B0%E0%A4%95%E0%A4%BE%E0%A4%B0-%E0%A4%B6%E0%A4%BE%E0%A4%B9%E0%A4%BF%E0%A4%A6-%E0%A4%85%E0%A4%82%E0%A4%B8%E0%A4%BE%E0%A4%B0%E0%A5%80-%E0%A4%95%E0%A5%80-%E0%A4%96/

0 comments:

Muslim Issues

وہ صبح ضرور آئے گی




قاسم سید 
اس میں کوئی شک نہیں کہ نوٹ بندی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،معاشرہ کو ہر لحاظ سے بری طرح متاثرکر دیا ہے روز مرہ کی سرگرمیوں کے ستاھ گفت و شنید کے موضوعات تبدیل ہو گئے ہیں عام آدمی کی زندگی کے شب و روز کا زاویہ ہی بدل گیا ۔ شاید ایمرجنسی کے بعد یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی گونج بہت دورتک سنائی دے گی ، اقتصادی ماہرین کی جو رائے سامنے آتی رہی ہیں انہوں نے تو کلیجہ ہلا کر رکھ دیا ہے مگر سرکار اپنی ضدپر قائم ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے اس میں ملک کا وسیع تر مفاد پوشیدہ ہے ۔وزیر اعظم نے عوام میں موجود اپنی ساکھ کی بنا پر یہ داؤ کھیلا ہے اور کمزور اپوزیشن کی موجودگی نے ان کے حوصلوں کو پر عطاکر دیئے ہیں انہوں نے 50دن کی مہلت مانگی تھی جو پوری ہو گئی ہے مگر حالات بھلے ہی پہلے سے کچھ بہتر نظر آرہے ہوں لیکن دیہی آبادی کی مصیبتیں ختم نہیں ہوئی ہیں ۔سب سے سنگین اور نقصان دہ پہلو یہہے کہ سرکاری اداروں کا اعتبار مجروح ہواسرکار کے روز بدلتے اعلانات اور اقدامات میں غیر یقینی کی کیفیت نے عوام کے دبے ہوئے غصے میں اضطراب کی لہریں پیدا کر دی ہیں اورکہا نہیں جا سکتا کہ حکومت کب تک ان کی جائز اور حلال رقم کے حصول کی راہ میں بزور قوت حائل رہے گی ۔اور انہیں بھکاری بنا دینے کا احساس دلا کر زخموں پر نمک پاشی کرے گی ۔سرکار کی ترجیحات کاقبلہ بھی سمت کھوتا جا رہا ہے کیونکہ مقاصد  کالادھن ،جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ سے ہو کر کیش لیس اکنامی پر آکر ٹھہر گئے ہیں یہ وہ  ہے جو نیک نیتی پر شکوک و شبہات کے جالے تان دیتا ہے ۔ مگر اطمنان کی بات یہ ہے جس پر سرکار چین کی سانس لے سکتی ہے عوام ابھی تک صبر و تحمل کا ثبو ت دے رہے ہیں اور یہ ہندوستانیت کی معصومیت سادگی اور سادہ لوحی ہے اگریہ مزاج نہ ہوتا تو باہر سے آنے والے صدیوں حکومت نہیں کر پاتے ،بہر حال جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پانچ سال بعد ہی سہی وہ عوام کو احتساب ، انتقام یا فیصلہ کا موقع دیتی ہے اور وہ بڑی خاموشی کے ساتھ جمہوری شاہزادوں کی نکیل کس دیتی ہے اور امیر سے فقیر بنا دیتی ہے ۔اندار گاندھی جیسی طاقت ور حکمراں کو ایمرجنسی کے فیصلہ کی عبرتناک سزا دی ،اندرا گاندھی اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے غیر آئینی قدم اٹھایا مگر ان کی نیت یہ ظاہر کی گئی کہ وہ بد امنی ،لاقانونیت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں اور اس کے بد ترین نتائج سامنے آئے اسی طرح نوٹ بندی کے مقاصد کتنے ہی اعلی وارفع ہوں لیکن بد انتظامیوں نے سوالیہ نشان لگا دیا اور اگر واقعی اس قدم کا کوئی سیاسی پہلو ہے جیسا کہ بعض حلقے لگا تار الزام لگا رہے ہیں تو پھر یہ 125کروڑ عوام کے ساتھ شدید نا انصافی ہے ۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اسے منظم لوٹ کھسوٹ سے تعبیر کیا اور ان جیسے عالمی ماہر اقتصادیات کی رائے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس معاملہ پر جس نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو یک رخ کر دیا مسلم قیادت کی طرف سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی کہ یہ فیصلے صحیح ہے یا غلط ۔اسیا لگتا ہے کہ ان کی قوت گویائی ختم ہو گئی ہے یا وہ اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں مانتے ۔انہیں نہیں لگتا کہ عام ہندوستانی میں عام مسلمان بھی شامل ہے جو اس فیصلہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔وہ بھی مزدور اور کشان ہے ۔اس کے گھر میں بھی فاقے ہو رہے ہوں گے ،اس کے بچے بھی اپنے باپ کا ہر شام انتظار کرتے ہوں گے ،اس کے بھی چھوٹے موٹے کارخانے بند ہو گئے ہیں ۔ دوجون کے لئے ہاتھ پیر مارنے والے کی عقل ہی الٹی ہو گئی ہے کہ وہ کس در پر جاکر سر پھوڑے ۔البتہ اردو اخبارات ان کی مختلف مسائل پر پریس ریلیز سے ضرورگلزار رہتے ہیں عملی اقدامات کا جہاں تک تعلق ہے شاید وہ بھی حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔حد تویہ ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں کسی وقت اعلان ہو سکتا ہے سیاسی پارٹیوں نے کافی پہلے سے پوری طاقت جھونک دی ہے مگر مسلم محاذ پر قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے یا انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا ہے ان کی ضرورت تو محسوس کی جا رہی ہے لیکن کوئی رابطہ کرنا نہیں چاہتا خواہ سیاسی مسلم جماعتیں ہوں یا عاشقان ٹیکٹکل ووٹنگ ہوں یاغلامان ملائم سنگھ ،وفاداران کانگریس ہوں یا حامیان بی ایس پی ان سب کی مشترکہ خواہش ہے کہ یہ بس سب ایک ہو جائیں اور بی جے پی کو دھول چٹا دیں ۔باوجود اس کے کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو پارٹیاں مرکز میں حکمراں جماعت سے نبردآزما ہیں ریاست میں ایک دوسرے کی کٹر حریف ہیں ۔مثلا اترپردیش میں ایس پی ،بی ایس پی ،کیرل میں کانگریس اور لیفٹ ،تامل ناڈو میں ڈی ایم کے ،انا ڈی ایم کے ،مغربی بنگال میں ممتا بنرجی اور لیفٹ کیا ان میںعلاقائی سطح پر اتحاد ممکن ہے اور پھر ہم کیوں اس فکر میں دبلے ہوجاتے ہیں کہ یہ ایک ہوجائیں کیا ہم ایک ہو سکتے ہیں کیا مسلکی اختلافات ہمیں متحد کرنے گی راہ میں روڑا نہیں ہیں کیا ہماری مسجدیں الگ نہیں ۔ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے تیارنہیں ہوتے ،قبرستان  تک الگ ہیں ۔بعض مقامات پر اس معاملہ میں فسادات تک ہو گئے ہیں ۔حتی کہ مسلکی اختلافات کی بنا پر شادیاں تک نہیں ہوتیں۔ وہیں ذات پات کی دیواریں بھی حائل ہیں ۔جب ایک اللہ ،ایک رسول ؐاور ایک کلمہ کے ماننے والے ایک پلیٹ فارم پر آنے کے لئے تیار نہیں ۔نجی مجلسوں میں ہی نہیں اسٹیجوں پربھی زہر اگلتے رہتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں سے توقع کیوں کرتے ہیں جن کے سیاسی مقاصد و ترجیحات الگ ہیں۔،دوسرے جب انہیں ضرورت ہوگی تمام تلخیاں بھلا کر آپ سے مشورہ لئے بغیر ایک دوسرے کے بغل گیر ہو جائیں گے ۔جیسا کہ بہار میں ہوا ۔وہ مودی کو اپنی شادی میں بلانے سے گریز نہیں کریں گے جیسا کہ ملائم سنگھ نے کیا ۔وہ بی جے پی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں جیسا کہ ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی سرکار اور پھر وی پی سنگھ کے دور میں نظر آیا۔ وہ اپنی سیاسی ضرورت کے لئے بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کو بھی دوست بنا لیں گے جیسا کہ رفیق الملک نے کلیان سنگھ کے ساتھ ملک کر الیکشن لڑا یہ تو وہ سیاست داں ہیں کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی ۔اس لئے اپنی فکر کیجئے کچھ ایسا فیصلہ کیجئے جو بے توقیری ،بے وزنی ،بے بضاعتی ،ناقدری کو کم کرسکے ،یہ کاسہ کیسی ،دردر بھٹکنا ۔قدم بوسی کے لئے بے قراری ،ایک جھلک پانے کی بے چینی اور ملاقاتوں کے لئے بے صبری کے ڈھکوسلوں سے مسلمانوں کا کچھ بھلا نہیں ہونے والا ہے ۔ہم اب تک یہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ جب سیاست میں دوستی دشمنی مستقل نہیں ہوتی اور کوئی حرف آخر نہیں ہوتا تو پھر یہ ضابطہ ہمارے اوپر کیوںلاگو نہیں ہوگا ۔ہم نے اپنے دوست اور دشمن کیوں مستقل طو ر پر طے کر لئے ہیں ۔آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنا ایک راستہ طے کریں کچھ ایجنڈہ بنائیں کہ جو ان کو عملا قبول کرے گا اس کو ہماری حمایت ملے گی یہ ساری پارٹیاں اندرونی طور پر ایک دوسرے کی دوست ہیں بلکہ آڑے وقت میں مددگار بھی ہوتی ہیں ۔مودی کو ایک بات کا کریڈٹ دیاجانا چاہئے کہ انہوںنے مسلمانوں میں ٹینڈر باز سیاست کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں ۔الیکشن کے خاص وقت سرگرم ہونے اور مسلمانوں کی بولیاں لگانے والوں کے بھاؤگر گئے ۔کمروں کے اندر مفادات طے کرنے والوں کی بولیاں لگنا ختم نہیں ہواتو کم ضرور ہوگیا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اندر انتخابی سیاست کے ماہروںکا فقدان ہے۔اس لئے دور رس حکمت عملی نہیں بن پاتی وقتی اور فوری نتائج کی خواہش کچھ کرنے نہیں دیتی ۔ہمیں لگتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ طاقتور سیاسی عناصر کے بجائے کمزور طبقات کو ساتھ لیا جائے جب ہم اپنے سے طاقتور سے ہاتھ ملاتے ہیں تو ہمارے حیثیت مساوی ہو ہی نہیں سکتی ،ظالم مظلوم کی ہو بھی نہیں سکتی لیکن دبے کچلے طبقات جو اکثریت میں ہیں ان کے ساتھ شراکت نہ صرف مساوی حیثیت فراہم کرے گی بلکہ قائدانہ رول بھی اداکر سکتے ہیں ۔اتر پردیش میں ہی دلت طبقہ 22فیصد ووٹر ہے اورمسلمان کم و بیش 20فیصد یہ اشتراک ریاست کی سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے پھر کسی سے بھیک مانگنے ،میمورنڈم دینے ،اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔میمورنڈم لینے والے بنیں گے مانگنے نہیں دینے والے ہوں گے ہو سکتا ہے اس کے نتائج آج نہ ملیں مگر آنے والی نسلوں کے لئے باعزت زندگی کی بنیاد تو رکھ سکتے ہیں ،لگنے والے درخت کا پھل خود کھانے کی بے قراری خود کش انجام تک لے جاتی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ہم یوپی کے اسمبلی انتخابات میں منزل نہ پاسکیں لیکن 2019کے لئے تو تیاری کر سکتے ہیں ۔یقین جانئے وہ صبح جس کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ اسی سے طلوع ہوگی اگر ایسا سوچا جائے تو ہمارے اندر سے ہی کوئی کانشی رام ، اروند کیجریوال اور کنہیا نکل آئے گا بس آغاز کی دیرہے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

Media

سمیع کو مشورہ پر ہنگامہ آرائی اور عامر کو دھمکی پر خاموشی


نہال صغیر


یوں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے معاملات پر دو رنگی یا دوغلہ پن صاف طور پر نظر آتا ہے ۔لیکن وطن عزیر کو کہیں کوئی فوقیت ہو کہ نہیں لیکن مسلم دشمنی میں ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس میںفوقیت حاصل ہوگی۔دو چار دن قبل محمد سمیع نے اپنی بیوی کی تصویر فیس بک پر اپلوڈ کی تھی ۔جس میں لباس کا انتخاب مسلم خاتون جیسا نہیں تھا ۔اس پر کچھ پرجوش مسلم نوجوانوں نے مشورے دیئے کہ مسلم خواتین کو کس طرح رہنا چاہئے ۔ ایک نیوز ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا ۔اس میں اینکر نے ان مشوروں کو کچھ ایسے انداز سے پیش کیا گویا ان نوجوانوں نے بہت ہی گھنائونا کوئی جرم کردیا ہو ۔گھنائونا اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس میں خواتین کمیشن سے بھی رائے لی گئی تھی ،انہوں نے یہ کہا کہ سائبر قانون میں ایسی سختی آنی چاہئے کہ اس طرح کے گھنائونے کمینٹ کرنے والوں کو سخت سزا ملے ۔جبکہ ہمیں ان سارے کمینٹ میں جو کہ میڈیا میں دکھایا جارہا ہے کوئی گھنائونا پن نظر نہیں آتا۔ ہمیں عام طور پر ایسے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔لیکن یہاں تل کا تاڑ بنانے کی پرانی روایت پر کچھ زیادہ ہی عمل کیاجارہا ہے ۔حد یہ ہے کہ کچھ اردو اخبارات بھی اس سے متاثر نظر آرہے ہیں ۔اس لئے زیادہ نہیں ایک سال قبل جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں جب ملک میں عدم برداشت کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی ۔اس میں عامر خان نے بھی برسبیل تذکرہ یہ کہہ دیا تھا کہ ان کی بیوی نے ایک بار یہاں کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کسی اور ملک میں جا کر بسنے کی بات کی تھی ۔اس پر ہندو توا بریگیڈ کو بہت غصہ آیا اور ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ عامر کوپاکستان جانے کا مشورہ دیدیا ،بلکہ انہیں سوشل سائٹ پر گندی اور بھدی گالیوں سے بھی نوازا جانے لگا ۔واضح ہو کہ اپنے مخالفین اور اپنے نظریہ سے اختلاف کرنے والوں کیلئے بھدی زبان استعمال کرنا انہیں گالیاں دینا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی سمیت اگر اختلاف کرنے والی خاتون ہے تو اسے ریپ کی دھمکی دینا یہ ہندوتوا بریگیڈ کا پرانا تہذیبی وراثت ہے ۔جسے انہوں نے بڑی محنت سے سنبھال کر رکھا ہے ۔ایسا ہی عامر کے ساتھ بھی ہوا ان کی بیوی کرن رائو کے ساتھ زنا بالجبر کی دھمکی تک دی گئی۔لیکن اتنی سنگینی کے باوجود ان لوگوں میں وہ سنجیدگی نہیں دیکھی گئی جو آج سمیع کو چند مسلم نوجوانوں کی جانب سے مشورہ دینے کے بعد دیکھی جارہی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جو آزاد خیال کہلانا پسند کرتا ہے ۔کسی بھی معاشرے میں اور کسی بھی طرز حکومت میں پرامن اور مہذب انداز میں مشورہ دینا جرم تو کجا قابل اعتراض بھی نہیں مانا جاتا ۔لیکن وطن عزیز کے انداز نرالے ہیں ۔یہاں مسلمان چکی کے دو پاٹوں ،ہندوتوا بریگیڈ اور نام نہاد آزاد خیال طبقہ کے درمیان پستا رہتا ہے ۔موجودہ سمیع تنازعہ کے تناظر میں تو بی جے پی نے بھی کہا کہ سمیع کی بیوی کچھ بھی پہننے کیلئے آزاد ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔یعنی اس ملک میں آپ کچھ بھی پہننے یا دوسرے لفظوں میں نیم عریاں لباس زیب تن کرنے کیلئے آزاد ہیں جبکہ نقاب ،برقع یا حجاب پر تنقید کیا جاتا ہے ۔کہیں سے ہلکی پھلکی مذمت کی کوئی کمزور و نحیف سی آواز آجاتی ہے ۔ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی ایئر فورس میں مسلم نوجوانوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی لگا دی۔یعنی آپ ہر اس کام کیلئے آزاد ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو تی ہو۔لیکن اسی ملک میں مسلمان کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ،کیا قربانی کریں اور کیا نہ کریں ،یہ دوسرے طے کریں گے ۔ایئر فورس میں مسلم نوجوان داڑھی نہیں رکھ سکتا لیکن سکھوں کی داڑھی اور پگڑی پر کوئی پابندی نہیں۔بیئر بار میں عورتوں کو ناچنے اور عریانیت کی تشہیر کی اجازت صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ دستور کے مطابق کسی کے روزگار پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔لیکن بیل ذبیحہ پر پابندی عائد کرکے قریشی برادری کو بے روزگار کرنے سے دستور ہند کا وہی آرٹیکل مانع نہیں ہوتا ۔یہ دورنگی یا دوغلہ پن کیا ملک کے اتحاد اور امن و سلامتی کے لئے سم قاتل نہیں بن سکتا؟ 

0 comments:

’خواہ مخواہ‘ کی باتیں


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

قحط الرجال کا شکوہ عام ہے اور یہ شکوہ تقریباً ہر گزرنے والے دور میں اپنی منفرد معنویت کے ساتھ نہ صرف موجود ہی رہا ہے بلکہ ہر آنے والے دور میں اپنی دائمی ضرورت کو منتقل بھی کرتا رہا ہے۔ لہٰذا شکوہ کی اہمیت اور اس کی معنویت کو آپ یوں ہی نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ انسانی فطرت اور اس کی جبلت کا ایک لازمی جزو ہے۔ غور کیجیے، کیا آپ کے قول و عمل میں شکوہ کی عمل داری کی اجارہ داری نہیں ہے؟ اور اگر آپ شکوہ شکایت سے گریز بھی کرتے ہیں تو آپ کے بھائی بند آپ کو بخشنے والے نہیں، تو ایسے میں قحط الرحجال کا معنیٰ کیا بے معنیٰ نہیں ہوجاتا؟
پڑوس میں میرے ایک عزیز ساتھی سیّد نیاز احمد راجہ قیام پذیر ہیں۔ بڑ ے ہی وضعدار، ملنسار اور متواضع شخصیت ہیں۔ ہر ہفتہ اپنے دسترخوان پر دوستوں کو مدعو کرتے ہیں جس میں کچھ بن بلائے مہمان بھی شامل رہتے ہیں جو بعض وقت ناگواری کا سبب بھی بن جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بے وقت پہنچ کر ان کے صبر و تحمل کا امتحان بھی لینے لگتے ہیں۔ انہی میں ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنہیں راجہ صاحب نے ’بے وقت‘ نام دے کر حلقہ احباب میں ایک نئی شناخت دے دی ہے۔ ’بے وقت‘ کا نام آتے ہی لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ کون بزرگ ہیں۔
بے وقت صاحب کی بے وقت آمد سے کئی دیگر گھر بھی متاثر تھے۔ اکثر تو موصوف کا نام سنتے ہی دروازہ بند کرلیتے تھے۔ مگر مجال نہیں کہ وہ بہ آسانی ٹل جائیں۔ دروازہ اس طرح پیٹتے جیسے کبھی رمضان میں سحری کے وقت رمضانی فرشتے اپنا فرض ادا کرتے تھے، اس طرح سارے محلے کے لوگ موصوف کی ہٹ دھرمی اور توسیع پسندی سے عاجز آگئے تھے۔ بے وقت صاحب انتہائی ذہین و فطین تھے، کسی بھی شخص کو زیر کرلینا اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو معصوم مسلم نوجوانوں کو دھر پکڑنے میں ملکہ حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک دن راقم کو بھی بے وقت کی چھری تلے آنا ہی پڑگیا لیکن یہ قربانی بڑی سودمند رہی۔
چند ماہ گزرے تھے کہ راقم کے دروازے پر بھی ’بے وقت‘ کی دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا، علیک سلیک ہوئی۔ عرض کیا، کیسے تکلیف فرمائی؟ فرمایا، ارے میاں پہلے بیٹھنے کی اجازت تو دو۔ اور بے وقت صاحب صوفے پر بلاتکلف دراز ہوگئے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق چائے پانی کی رسم ادا کی او ربے وقت صاحب سے اپنی مصروفیت ظاہر کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا مگر ناکام رہا۔ موصوف گیسوئے دراز کی طرح دراز ہی ہوتے چلے گئے۔ ملکی اور غیر ملکی حالات پر اس طرح تبصرہ کرنے لگے جیسے ٹی وی اینکر پہلو بدل بدل کر خبروں کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ ان کی بے پناہ معلومات اور طاقت لسانی سے راقم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور سوچنے لگا کہ موصوف کا نام نامی کیوں نہ بدل دیا جائے اور ’بے وقت‘ کے بجائے ’خواہ مخواہ‘ کے نام سے یاد کیا جائے کیونکہ ہر معاملے میں ان کا خواہ مخواہ کا دخل رہتا ہی ہے اس لیے اس سے بہتر اور کوئی نام نہیں ہوسکتا۔
مدت کے گھر دیکھ لینے کے مصداق خواہ مخواہ صاحب نے بھی میرا گھر دیکھ لیا اور جب چاہتے خواہ مخواہ وارد ہوجاتے۔ بس اتنی رعایت فرماتے کہ جب میں کچھ لکھتا پڑھتا رہتا تو کچھ دیر خاموش رہتے، پھر اس طرح گویا ہوتے کہ بڑے بڑوں کی گویائی گم ہوجاتی۔
ایک روز اچانک ہی ’خواہ مخواہ‘ آدھمکے۔ کہنے لگے ’’میاں! تم تو کہتے تھے کہ ہمارے یہاں قیادت کا بحران ہے اور صرف کہتے ہی نہیں بلکہ لکھتے بھی رہتے ہو۔‘‘
خواہ مخواہ صاحب نے مجھے خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
تو ہم نے بھی اپنے دیدے نچاکر پوچھا۔ ’’ہاں تو کیا غلط کہتے تھے؟‘‘
کہنے لگے۔۔۔
’’ارے میاں! ہم نے تو ایک چینی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے یہاں جو بھی پتھر اُلٹایا، اس کے نیچے سے کلبلاتا ہوا ایک قائد نکل آیا۔ جس کے نکل بھاگتے ہی اس کے بلبلاتے ہوئے نابینا مقلدین نے فی الفور حلق پھاڑ کر یہ نعرہ لگایا کہ ’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔‘‘
اور پھر ہم نے خواہ مخواہ سے احتجاج کرتے ہوئے پوچھا۔
’’نابینا کیوں؟‘‘
فرمایا کہ ’’اگر دانا و بینا ہوتے تو کم از کم دیکھ سن لیتے کہ یہ جسے قائد قرار دے رہے ہیں وہ ہیؤں میں ہے؟ شیئوں میں ہے؟ یا نہ ہیؤں میں ہے یا نہ شیئوں میں؟ ‘‘
اب ہمیں بھی جلال آگیا اور دانت نکال کر پوچھا۔
’’کیوں؟ آپ نے کسی ٹی وی چینل پر ان کی کوئی ’پروفارمینس‘ د یکھ لی ہے؟‘‘
ہمارے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ہم نے تمہارے یہاں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ سیاست میں نئے چہروں کی ضرورت ہے۔ پہلے سیاست مجھ میں نہیں آئی تھی مگر جب ہم نے تمہارے ٹی وی پر تمہارے قائدین کو بچشمۂ خود دیکھا تو اس بات میں وزن محسوس ہوا۔ اچھا بتائو تمہارے یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں سے کیا کام لیا جاتا ہے؟ یہ خواہ مخواہ کی بات ہے کون نہیں جانتا کہ پڑھے لکھے، بے پڑھے لکھے سبھی اپنے پیسوں کے لیے بینکوں اور اے ٹی ایم کی لائنوں میں لگ کر اپنی شب و روز گزارتے ہیں اسی لیے تو رین بسیروں کے بستر بھی اس ٹھٹھراتی سردی میں خالی پڑے رہتے ہیں۔ خواہ مخواہ صاحب اپنی نظروں کو چیک کروائیں، کافی کمزور ہوگئی ہیں۔ ابھی تو نوٹ بندی ہے آگے دیکھیے کن کن کی نس بندی ہوتی ہے۔ ہاں یاد آیا، اچھا تو یہ بھی بتاسکو تو بتائو، ٹی وی کے دور میں تمہارے فلمی اداکاروں کا کیا حال ہے؟ اب ان سے کیا کام لیا جاتا ہے؟‘‘
’’کیا آپ کو معلوم نہیں۔ سیاست ہمارے یہاں اداکاری کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ فلمی اداکار تو بہرحال اداکار ہیں سب کے سب کھپ گئے اور جو بچ گئے تھے وہ ملک کی بڑی کمپنیوں کے پروڈکٹ بیچنے لگے۔ شہرت کی ضرورت تو اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہے جس کے لیے کوئی بھی کہیں تک جاسکتا ہے، ترقی کا یہ وہ زینہ ہے جس پر ہر شخص قدم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ترقی کا کیا مطلب؟ کیا تمہارے خیال میں تشہیری پیشے، اداکاری اور سیاست کاری سب جدا جدا پیشے ہیں؟ میاں پیشہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ صرف اسٹیج بدلتا رہتا ہے۔ مقصد سب کا ہم سب کا مال ہڑپ کر اپنا مال بنانا ہے چاہے وہ گلی کوچے میں چائے بیچنے والا ہی ہو، سب کا یہی اور بس یہی مقصد ہے، پیسہ کمانا اور اپنی نجی زندگی کو بلند سے بلند کرنا ہے۔‘‘
خواہ محواہ صاحب کی لن ترنی سے میں محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے دروازے پر دستک دے دی اور گفتگو یکایک تھم گئی۔ جب تک غیر متوقع مہمان موجود رہے خواہ مخواہ صاحب اپنا پہلو بدل بدل کر مہمان ذی وقار کو کوستے رہے۔ جونہی مہمان رخصت ہوئے خواہ مخواہ صاحب ایک لمبی سانس لے کر گویا ہوئے۔ ’’میاں تمہارے مہمان نے خواہ مخواہ دخل دے کر ہماری گفتگو کو بے مزہ کردیا۔‘‘
’’میں تمہارے یہاں اس لیے کبھی کبھی آتا ہوں۔‘‘ خواہ مخواہ صاحب نے پھر اپنی لن ترانی شروع کی۔
میں خاموش رہا۔
وقفہ صفر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر گویا ہوئے۔
کہنے لگے ’’تم سے تو بدرجہا بہتر راجہ صاحب ہیں جو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور چائے سے بھی نوازتے ہیں اور تم صرف چائے پر ہی ٹرخا دیتے ہو۔‘‘
خواہ مخواہ کی اس بات پر جب میں نے اعتراض کیا تو گفتگو کا رخ بدل دیا۔
فرمانے لگے۔ ’’اچھا تم یہ بتائو تم میں سے کوئی سیدنا عمرؓ کے سامعین کی طرح آج کے حکمرانوں سے کوئی سوال کرسکتا ہے؟ سوال حکمرانوں سے کرنا تو دور، اپنے پڑوس کے پیرجی سے کوئی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ پیرمغاں کے مزار پر جو چادر چڑھائی تھی وہ کہاں سے آئی تھی، کس قیمت کی تھی اور اس میں کتنی کمائی ہوئی۔ او رنہ ہی یہ پوچھنے کی کوئی جرأت کرسکتا ہے کہ پچھلے دنوں جو صوفی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس پر کروڑوں روپے کس نے خرچ کیے اور کیوں کیے تھے۔ بھلا بتائو پیروں فقیروں کے جلسے جلوسوں پر جب کروڑوں روپے خرچ ہوں گے تو ہمارے حکمراں کیوں پیچھے رہیں۔ وہ بھی الیکشن جیتنے کے لیے اپنی ریلیوں پر کھربوں روپے ٹھکانے لگائیں گے اور کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کیونکہ ان کا تو موروثی حق بنتا ہے عوام کو لوٹنا اور انہیں بے زبان بنائے رکھنا۔‘‘
ہم نے ایک بار پھر احتجاج کیا۔
’’دیکھئے آپ ہمارے رہنمائوں اور بزرگوں کی بے توقیری کر رہے ہیں۔‘‘ ایک خاص انداز سے دانت نکال کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آنکھیں پھیرتے ہوئے مخاطب ہوئے۔ ’’آخر تمہارے یہاں معیار توقیری کیا ہے؟ جو لچا، لفنگا، لمبی لمبی بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر، کلف لگے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ہوکر چار پانچ بندوق برداروں کو بغل میں دباکر جو اِدھر اُدھر گھومے وہی تمہارے یہاں صاحبِ توقیر ٹھہرا؟ ایسے ہی کو تم نے اپنا قائد مانا، ایسے ہی کو لیڈر سمجھا اور ایسے ہی کو اپنا رہنما مانا۔ پھر اسی کو ووٹ دے کر سر پر مسلط بھی کرلیا۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچاکر اپنی قسمت ان کے ہاتھوں میں تھمادی ۔ پھر انہیں کو حکمرانی کے مناصب بھی دے دیے تو اب رو نا کس بات کا؟
کون سا رونا؟
یہی کہ سیاست داں خود غرض ہیں، کرپٹ ہیں، حکمراں نا اہل ہیں، قوم اچھی ہے مگر قیادت کا بحران ہے۔‘‘
’’واہ خواہ مخواہ صاحب کتنی اچھی بات آپ نے کہی۔ لوگ خواہ مخواہ کہتے ہیں کہ قحط الرجال ہے۔ ظاہر ہے جب قوم ہی اندھی اور بہری ہوگی تو آئین ساز اداروں میں ایسے ہی خود غرض اور نا اہل ہی تو پہنچیں گے۔ تو قصور کس کا ہے؟ یہی ہمیشہ تم روتے ہو کہ قیادت کا بحران ہے، قیادت کا بحران ہے۔
پھر کون سا رونا؟‘‘
’’یہی کہ ارباب حل و عقد نااہل اور غدار قوم ہیں۔‘‘
’’کیسے کہہ دیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کیا اس رسوائی پر عوام رونا بھی نہ روئیں۔ کون کتنا روتا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔‘‘
’’میاں رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میاں اصلاح کرو اصلاح۔‘‘
’’اصلاح کرتے کرتے ہی تو رو رہے ہیں۔‘‘
’’ارے میاں میں سیاست دانوں کی اصلاح کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تمہیں کہہ رہا ہوں تم سدھروگے تو سیاست داں، حکمراں بھی سدھریں گے۔ اسی صورت میں قومی بحران اور قیادت کے بحران سے بھی تمہیں نجات مل جائے گی اور قحط الرجال کا شکوہ بھی ایک حد تک ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’واہ خواہ مخواہ صاحب۔ آپ تو معلومات کا پٹارا ثابت ہوئے۔‘‘ اور خواہ محواہ صاحب نے ایک کپ چائے پی اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ ’’تم نے چائے بڑی کڑک پلائی۔‘‘
او رمیں نے سر درد کی ایک گولی لی اور چادر اوڑھ کر سوگیا۔
٭٭٭

0 comments:

International

پُرہے مئے خوں رنگ سے ہر شیشہ حلب کا

  
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

      حلب عہد رفتہ کی تاریخ میں آئینہ سازی اور شیشہ گری کی صنعت میں پوری دنیا میں مشہور تھا دنیا کے امراء اور اصحاب ثروت اپنے عیش کدوں شبستانوں اور نگارخانوں کے لئے حلب کے آئینے اورجام ومینا اور دیگر ظروف استعمال کرتے تھے، اقبال نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ’’ ز خاک تیرہ دروں تابشیشہ حلبی ‘‘ آج شیشہ حلب خون انسانی سے لبریز ہے جسے ایرانیوں اور روسیوں نے بشارجیسے ظالم اور خودسر کی حمایت میں پانی سے زیادہ ارزاں کردیا ہے ۔خون انسانی وہاں سستا اور ہر طرف بہتا ہے ،دنیا کے ملکوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان طاقتوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ حلب میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہورہی ہے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش اور کشاکش سے گذر رہے ہیں،کئی لاکھ انسانوں نے اپنی متاع جاں قربان کردی ہے کھلے آسمان سے معصوم شہریوں پر بمباری اور ٹینکوں سے گو لہ باری اور بکتر بند گاڑیوں سے آتش باری کے نتیجہ میں سیکڑوںکئی منزلہ عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں اور مال ومتاع خاکستر ہو رہا ہے۔کسی گھرسے کوئی آواز آتی ہے تو آہ وکراہ کی ، زخمیوں کے فریاد کی، نالہ وشیون کی ،کوئی اگرکسی شکستہ اور مسمار شدہ گھر سے زخمی حالت میں کسی کی مدد سے بچالیا جاتا ہے تو طبی مدد کے آتے آتے اس کا تار نفس ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی اس سیلاب بلا سے اور موت کے طوفان سے زندہ سلامت بچا ہوا ہے تو وہ بھی اپنی زندگی سے مایوس ہے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو کہتا ہے کہ ’’الموت قادم الینا ‘‘موت جو مقدر ہے بس اس کے آنے کی دیر ہے ، خو ن کے دریا میں کشتی جاں کو سلامت لے جانا مشکل ہے، ہمارے اہل وعیال موت کے منہ میں جاچکے اور ہم بھی اب اس خراب خانہ حیات سے جانے والے ہیں یہ میرا آخری بیان ہے اس کے بعد تم میری آواز کبھی نہیں سن سکو گے ‘‘ اور صرف اتنا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے،حلب کا شہر نگاراں گنج شہیداں اور مقامات آہ وفغاں سے تبدیل ہوگیا ہے وہاںعصمتیں تار تار ہوگئی ہیں، وہاںکے ایک ستم رسیدہ شخص نے دنیا کے علماء سے فتوی پوچھا ہے کہ‘‘ ایران اور حزب اللہ اور بشار کے جابر و قاہراور فاسق وفاجر فوجی ہمارے گھروں میں گھس کرزبردستی ہماری بیٹیوں کی عصمت ریزی کررہے ہیں اورہم بے بس ہیں کیا اس ننگ وعار سے بچنے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو مار ڈالیں ؟‘‘ ملک شام میں موت کی بھیانک آندھی چل رہی ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے اور مذمت کے کچھالفاظ بول کر اور لب ہلاکر رہ جاتی ہے۔دنیا کی تاریخ میں چشم فلک نے جور وستم کے ایسے منظر کم دیکھے ہیں ،لوگوں کے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ نہیں ہے ۔پینے کے لئے قطرہ آب نہیں ہے،سخت سردی اورزمستانی ہوا میں ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں سر پر سائبان نہیں ہے، کوڑے کے ڈھیر سے وہ اپنی غذا حاصل کررے ہیں ،تاریخ میں ایسا واقعہ پیش نہیںآیا کہ پورا شہر غلاظت کے ڈھیر سے اپنی غذا چن رہا ہو۔اسپتالوں میں دوائیں نہیں بے ہوشی کی دوا کے بغیر ڈاکٹر آپریشن کرنے پر مجبور ، لوگ اپنے مسمار شدہ گھروں کو چھوڑ کر جار ہے ہیں لا معلوم منزل کی طرف اور نامعلوم مستقبل کی طرف ، پا بجولاں لرزاں وترساں با دیدہ گریاں با قلب بریاں ، سامان بدست ، طفل بردوش ۔
    شام کا جو منظر نامہ ہے اس سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے دنیا کا ضمیر اگر بیدار نہیں ہوتا تواس کو دہراتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ کوئی قند مکرر نہیں جس کا بیان کرنا پر لطف ہو۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا حل تلاش کیا جائے ۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اصل مجرم پڑوس کی وہ عرب مسلم حکومتیں ہیں ان کو اللہ نے سیال سونے کا سمندر بخشا تھا اور انہوں نے اس کی قدر نہیں کی ۔ قرآن مجید نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جہاد کے لئے اور مسلمانوںکی داد رسی کے لئے حربی اور عسکری تیار ی کا واضح حکم دیا تھا ،واعدوا لہم ماا ستطعتمیہ قرآن کی معروف اور مشہور آیت ہے ،اپنی دولت سے عیش وعشرت میں ڈوبنے کے بجائے ان عربوں کو کارخانے قائم کرنے تھے ، صنعتی انقلاب لانا تھا، اسلحہ سازی کرنی تھی،راکٹ بنانے تھے جنگی جہاز وں کی تیاری کے لئے منصوبے تیار کرنے تھے ۔ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ان کی اپنی تیار کردہ ہوتیں وہ اسلحہ تیار کرتے مقابلہ کے لئے بم بنائے جاتے ،  فضائل جہاد پر کتابیں لکھی جاتیں اور ملک میںاور فوج میں تقسیم کی جاتیں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا کہ کوئی ان پر ظلم نہ کرسکے اور کوئی ان کے حقوق پر دست درازی نہ کر سکے کوئی ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ نہ کر سکے جیسا کہ فلسطین میں کیا گیا ،اس وقت مسجد اقصی ، قرآن کی آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوسروں کے قبضہ میں ہے۔یہ عرب حکمراں قیامت کے دن باز پرس سے بچ نہیں سکتے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب سندھ میں قزاقوں کی جیل میں قیداور محبوس ایک ستم رسیدہ لڑکی نے بصرہ کے گونر حجاج بن یوسف سے فریاد کی اور یہ لکھ بھیجا کہ ’’ یہاں بیشمار بیوائیں اور یتیم بچے آپ کی مدد کے منتظر ہیں اور آپ کیسے حاکم ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے اہل ایمان پر ظلم ڈھایا جارہا ہے اور آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔‘‘ حجاج بن یوسف کا بیان ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ’’اس بیان کو پڑھ کر میرے دن کا سکون اور رات کی نیند ختم ہو گئی ، مجھے اس فکر نے کھانے پینے سے روک رکھا ہے‘‘ پھر تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس نے  دنیاکے نقشہ میں جو اس کے سامنے تھا ہندوستان کی جگہ پر اپنا خنجر پیوست کردیا ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اس نے سندھ پر حملہ کا فیصلہ کرلیا ہے اس نے سندھ کے راجہ داہر کو پہلے خط لکھا کہ مسلمان عورتیں اور بچے جو اس کی قید میں ہیں فورا ًرہا کردے اور جب راجہ داہر نے انکار کیا اور یہ لکھا کہ بحری قزاقوں نے یہ حرکت کی ہے اور ان پر میرا کوئی بس نہیں ہے تو اس نے چڑھائی کا  ارادہ کیا اور سترہ سالہ سالار محمد بن قاسم کی سرکردگی میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی اجازت سے اس نے  فوج بھیجی ۔
  ایک بے بس لڑکی کی فریاد سن کر حجاج بن یوسف کی نیند اڑگئی تھی ،آخر شام کی ہزاروں عورتوں اور بچوں کی آہ اور کراہ مسلم حکمرانوں کی نیند کیوں نہیں ختم کرتی ہے وہ کیوں اپنے شبستانوں میں چین کی نیند سوتے ہیں کیوں ان کا خون سردہو گیا ہے۔کم سرمایہ سے پوروپ میں صنعتی انقلاب آیا تھا ، سیم وزرکی ریل پیل کے باوجودعرب حکمراں کیوں اپنے ملک کو طاقتور بنانے پر اپنی توجہ مرکوز نہیںکرتے ہیں، وہ کیوں صنعتی انقلاب لانے پر اپنی پوری توجہ مبذول نہیں کرتے؟ اس کے لئے پورے عالم اسلام سے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان کے جوہر قابل کو کیوں نہیں اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا یہ باتیں انہیںحکمرانی کے لئے نااہل بے شعورکم حوصلہ نہیں ثابت کرتی ہیں؟ عیش وعشرت میں مشغول شام کے پڑوسی عرب اسلامی ملکوں میں یہ جرات نہیں کہ شام کے مظلوموں کو ظلم سے بچا سکیں اوران کی داد رسی کرسکیں ، دولت کے نشہ میں چور خلیجی حکومتوں کو یہ ہمت نہیں کہ مسجد اقصی کو وا گذار کراسکیں ، آرام طلب عیش کوش عرب حکمرانوں کو یہ توفیق نہیںکہ اسرائیل کو بے دخل کر کے اصل فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین پر بسائیں ، افغانستان اور عراق کے دلخراش حادثے گذر گئے موج خوں سر پر سے گذر گئی ، لیکن ان حکرانوں کی سرمستیاں اور خرمستیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ۔ دنیا میں اسلام نشانہ پر ہواور ہر طرف مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو ان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہو ان کی عمارتیں گرائی جارہی ہوں ایسی حالت میں اگر اسلامی غیرت وحمیت کی رمق بھی باقی ہو تو چین کی نیند سونا مشکل ہوگا، ذرا سوچئے کہ اگر یہ عرب ملک بھی امریکہ اور روس اور مغربی ملکوں کی طرح طاقتور ہوتے تو شام میںمدداور مداخلت کی پوزیشن میں ہوتے یا نہیں ہوتے ؟روس شام سے کتنے زیادہ فاصلہ پر ہے لیکن روس کی مدد سے بشار الاسد نے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے۔ عرب حکمراں یا تو ملک میں صنعتی انقلاب لائیں اسلخہ سازی کی جانب توجہ دیں اور صرف وہ چیزیں استعمال کریں جو ان کا ملک خود تیار کرے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک اسلام کی کھوئی ہوئی حرمت کی بازیابی نہ ہو جائے یا پھر اقتدار کی کرسی اہل اور با صلاحیت لوگوں کے حوالہ کردیں ۔ افسوس اس وقت ایک ترکی بچا ہے جوہروقت بڑی طاقتوں کے نشانہ پر ہے ،شام میں اس وقت جو کچھ ہوا ہے خلیجی اور غیر خلیجی حکمران اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ، انہوں نے بے پناہ دولت کے باوجود صنعتی انقلاب لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کی کوئی  پیش رفت ہوئی اور نہ انہوں نے اپنے عوام کو اظہار خیال کی وہ آزادی دی جو اسلام نے عطا کی تھی انہوں نے اپنے عوام کو بے زبان جانوروں کی طرح بنا کر رکھا ہے ، اوروہ خود ہوس رانی اور عیش کوشی میں مگن رہے ۔اور دنیا مسلمان ملکوں کو پامال کرتی رہی ،روندتی رہی ۔اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتی رہی وہ سب کچھ کر گذرے اور عرب مسلم حکمراںخاموشی کے ساتھ صرف تماشہ دیکھتے رہے یاصرف مذمت کی تجویز پاس کرتے رہے اور اقوام امتحدہ سے اپیل کرتے رہے۔انہوں نے تارکین وطن کو پناہ تک نہیں دی ان میں بہت سے لوگوں نے بے پناہی کے عالم میںسمندری راستہ سے ربر کی کشتیوں پر یوروپ کے ملکوں کا رخ کیا، نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی، یہ امان یوروپ کے ملکوں میںملی ، جہاں اب عیسائی مشنریاں ان کو عیسائی بنانے میں مصروف ہیں ۔
   عرب مسلم حکمرانوں کے بعد سب سے زیادہ ذمہ داری عالم اسلام کے علماء اور مفکرین پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے مسلم عرب حاکموں کی رہنمائی کیوں نہیں کی ۔ مجھے علم ہے کہ عرب ملک کے اندروہاں کے جن مفکرین نے حکومت کی غلط پالیسی پرزبان کھولی ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ ان کو نظر بند کردیا گیا ۔لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہاں کے علماء کی اکثریت نہ صرف خاموش رہی  بلکہ اس نے حکومت کے غلط فیصلوں کی تائید کرڈالی ان تائید کرنے والوں میں مفتی بھی ہیں قاضی بھی ہیں عالم بھی ہیں اور امام بھی ہیں۔ لیکن ان ملکوںکے باہر کے علماء کو کیا ہوا کہ وہ اس اہم موضوع پر نہ لکھتے ہیں نہ بولتے ہیں، انہوں نے اپنے لبوں پر سکوت کی مہر لگا ڈالی ہے اور جب وہ ان ملکوں کی کسی تنظیم کی کانفرنس میں جاتے ہیں تو صرف اپنا کشکول گدائی ساتھ لے کر جاتے ہیں اور اپنے اداروں کی تعمیر کے منصوبے پیش کرتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں
                                       بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب   تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
بر صغیر خود ایک چھوٹا عالم اسلام ہے ان میں کتنے عالم ہیں اور کتنے مسلم تنظیموں کے سربراہ ہیں جنہوں نے عرب حکمرانوں کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہو؟ شاید کسی نے نرمی کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی ۔جب وہ رہبری نہیں کریں گے تو پھر کون رہبری کرے گا ۔عرب مسلم حکمرانوں پر اخبارات میں جو عام طور پر خوگر حمد ہوتے ہیں اورسفارت خانوں کے ذریعہ نگاہ لطف و کرم کے امیدوار ہوتے ہیں کبھی کبھی تنقیدیں بھی شائع ہوتی ہیں۔ لیکن یہ سفارت خانے جہاں تمام اخبارات آتے ہیں اور مترجمین بھی ہوتے ہیں  ان تنقیدوں کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے اور متعلقہ ملکوں کے وزارت خارجہ میںاس کی رپورٹ نہیں کرتے ہیں وہ صرف قصیدہ خوانیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور قصیدہ خواں اخبارات کوبطور رشوت مراحم خسروانہ سے نوازتے رہتے ہیں۔
    ملک شام کے حکمراں کا ظلم سب سے سوا ہے اور اس ظلم کو سب سے زیادہ مدد اور طاقت ایران کی نام نہاد اسلامی حکومت سے ملتی رہی ، ایران کا یہ وہ جرم ہے جسے تاریخ معاف نہیں کر سکے گی ، ایران کے بے شمار شیعی مجتہدعلماء الجزیرہ ٹی وی پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ شام کے سلسلہ میں ایرانی حکومت کا موقف امام حسین کے روح جہاد کے مغایر ہے یہ یزید کی پیروی اور ہمنوائی ہے لیکن ان کو اپنے ملک کے اندر اظہار خیال کی آزادی حاصل نہیں ہے، ایرانی لابی کے وہ ہندوستانی صحافی بھی مجرم ہیں جو سطور میں اور کبھی بین السطور میں بشار الاسد کی حمایت کرتے ہیں اور جب ظلم کی حمایت سے دل سیاہ ہوجاتا ہے تو ہر ظلم کی حمایت ان کا شیوہ بن جاتا ہے وہ اس ظلم کے بھی طرف دار اور حامی بن جاتے ہیں جسے حکومت جمہوریت کے دعوے کے باوجود غیر جمہوری طور پر ذاکر نائک پر روا رکھتی ہے ۔ ایرانی لابی کے ایسے تمام صحافیوں کا اور ان کے اخبارات کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
  بشار الاسد اور اس کے باپ حافظ الاسددونوں نے شام میں اسلام پسندوں کواور جمہوریت پسندوں کو ظلم کا نشانہ بنایاتھا،اسلام نے ظلم کے خلاف کھڑاہونا سکھایا ہے جس کی ابتدا واقعہ کربلا سے ہوتی ہے ۔اس لئے بشار کی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا درست ہے ، دنیا میں مسلمانوں نے طویل عرصہ تک حکومت کی ہے،ہمیشہ انصاف اور رواداری اسلام کی تاریخ کا طرہ امتیاز رہاہے ، اسلام کا مقصد جنگ انصاف کی بنیادوں کو مضبوط کرنا لیکن حلب کی جنگ میں بشار اور ایران اور روس کے ہاتھوں جو کچھ ہوا اور ہورہاہے وہ انسانیت کا قتل ہے اور اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے اوریہ دردمند دلوںکے لئے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ ہے ۔
                                   تھمے کیا دیدہ گریاں ’’ حلب‘‘ کی نوحہ خوانی میں
                                    عبادت چشم مؤمن کی ہے ہر دم با وضو رہنا 

0 comments:

International

شام :کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو


نہال صغیر


آج صبح صبح ایک بزرگ ملی قائد سے فون پر گفتگو ہوئی ۔شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی تو ہم نے ہی آواز بلند کی ۔حلب کی مکمل بربادی کے دس دن بعد کئی ملی تنظیم نے مل کر پریس کانفرنس میں اپنی باتیں کہیں ۔لیکن اب بھی معاملہ یہ ہے کہ حلب کی بربادی اور شام میں چار سے چھ لاکھ مسلمانوں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے کی مظلومانہ شہادت میں امریکہ تو کہیں نظر نہیں آتا روس بھی بہت بعد میں ایران کی دعوت پر مسلم امہ کے زخمی بدن کو نوچنے کیلئے آیا ایران اول روز سے اس میں شامل رہا ۔یوں کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ ایران نے شام و عراق کو اپنی کالونی کا درجہ دے دیا ہے اور اس کالونی کو بچانے کیلئے اس نے اپنی پوری قوت لگادی ۔تازہ تازہ خبروں کے مطابق ایرانی فوج کے ساتھ ساتھ اس کے تیار کردہ دس ملیشیا بھی تھے جس میں حزب اللہ کا نام اول ہے ۔پہلے یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ حزب اللہ اسی کی دہائی میں امل ملیشیا کے ذریعہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور فلسطینی تحریک مزاحمت کو لبنان میں ختم کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے ۔ستر کی دہائی کے اخیر میں ایران کے انقلاب جس کو اسلامی انقلاب کا خوشکن نام دیا گیا ۔اس نعرہ نے جماعت اسلامی کو متاثر کیا اور اس کے علاوہ بھی انفرادی طور پر کئی لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔اسی نام نہاد اسلامی انقلاب کا ہی اثر تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک ایران یا یوں کہیں اب بھی ایران کے سنگین جرائم کے خلاف کسی کی زبان نہیں کھلتی ۔لیکن جب سے شام میں ایران کی مداخلت دنیا کے سامنے آتی گئی وہ بے نقاب ہو تا گیا ۔لیکن کچھ لوگ اب بھی اس کے نام نہاد اسلامی انقلاب کے سحر میں گرفتار ہیں۔حالانکہ موجودہ حلب میں تباہی اور ایران کا کھلا سفاکانہ رول اور اس کے عزائم جس میں اس کے ایک کمانڈر نے کہا کہ اب ہم یمن اور بحرین میں بھی مداخلت کریں گے سے کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ ایران کو شیطان بزرگ روس و امریکہ کا حلیف قرار نہ دیاجائے ۔ ایک عرصہ تک خمینی کے دیئے گئے خطاب شیطان بزرگ امریکہ و روس میں سے کئی دہائی قبل روس کو اس فہرست میں سے نکالا گیا ۔پھر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے سمجھوتہ کرکے دوسرے شیطان سے بھی دوستی کرلی گئی ۔حالانکہ ایران کے ایک کسی ذمہ دار کا بیان آیا تھا کہ امریکہ کیلئے اب بھی مرگ بر امریکہ جیسا تبرا بھیجا جائے گا۔لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔حالیہ شدت پسند تنظیم داعش کے بارے میں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر داعش مسلمانوں کاخیر خواہ ہے تو وہ ساری دنیا پر حملہ کررہا ہے لیکن اسرائیل پر اس کی نظر نہیں۔اس پر وہ کیوں حملہ نہیں کرتا۔اس سے استدلال کرکے کچھ لوگ داعش کو امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ کے بطور بتاتے ہیں ۔پتہ نہیں سچ کیا ہے ؟لیکن یہی سوال ایران کے تعلق سے کیوں نہیں کیا جاتا کہ انقلاب ایران کے بعد سے وہ مسلسل امریکہ و اسرائیل کے خلاف بیان تو دیتا رہا لیکن اس نے کبھی آگے بڑھ کر اسرائیل پر حملہ کرنے کی جسارت کیوں نہ دکھائی ۔اصل میں یہ سارے سوالات یا الزامات جو کسی سنی ملیشیا پر لگائے جاتے ہیں وہ میڈیا پروپگنڈہ کا حصہ ہوتے ہیں اور دنیا میں میڈیا صرف یہودیوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اس کے دوسرے اور تیسرے چہرے بھی ہیں ۔اس کا دوسرا چہرہ اگر ہندوستان میں برہمنی میڈیا ہے تو ایران کا میڈیا بھی تیسرے نمبر پر مسلم امہ کے خلاف سازشوں اور عربوں کی کردار کشی اور سنی اسلامی تحریکوں کے خلاف سرگرم رہتا ہے ۔لیکن اسلام کے نام سے خوشنما پیکٹ میں بند یہ سازش اور منصوبہ امت مسلمہ کو سمجھ میں اس لئے نہیں آتا کہ اس پر اسلام کے نام کی شاندارقلعی چڑھی ہوئی ہے ۔اس کا ہمارے پاس صرف گفتگو کرنے، دلوں کے بھڑاس نکالنے کے علاوہ کوئی علاج نظر نہیں آتا ۔ہم اپنا میڈیا مضبوط کرنے یا اس کے لئے دامے درمے ہر طرح سے آگے نہیں آتے ۔صرف باتوں میں ہی یا بد دعا کرکے ہی اپنی ذمہ داری ادا کردیتے ہیں۔جبکہ بددعا سے شیطان نہیں مرتا۔کل ملا کر ہمیں میڈیا کی ضرورت محسوس تو ہوتی ہے لیکن ہم شاید اس انتظار میں ہیں کہ کبھی آسمان سے اچانک میڈیا کا پورا سیٹ اپ ہمارے لئے آجائے گا ۔ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
بہر حال ذکر چل رہا تھا کہ چند ملی تنظیموں نے پریس کانفرنس کرکے حلب پر کچھ بولنے کی جرات دکھائی ۔ممبئی سے قریب بھیونڈی میں بھی احتجاج ہوا جس میں رضا اکیڈمی نے مرکزی کردار ادا کیا ۔لیکن ایک بات جس کی کمی کھل رہی ہے وہ ہے ایران کے خلاف اب بھی یا تو لب کشائی کی نہیں جارہی یا بہت ہلکے میں اس کی مذمت کی جارہی ہے ۔جبکہ شام میں ایران کی مداخلت اور اپنے علاقائی اثر رسوخ کو بڑھانے کیلئے بھیانک قتل عام میں شامل ہونے اور درندگی کے وافر ثبوت ہیں۔ جس کے خلاف کھل کر بات ہونی چاہئے۔ تاکہ ایران کو بھی یہ سمجھ میں آجائے کہ اس اسلامی انقلاب کے پردے میں جوکھیل جاری ہے اس سے دنیا نہیں تو کم از کم مسلم امہ واقف ہو چکی ہے ۔ایران کے خلاف لب کشائی میں ہچکچاہٹ پر جلال لکھنوی کا ایک شعر یا د آتا ہے جو ان حالات کے بالکل عین مطابق ہے    ؎ کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو ۔روتا نہیں شبنم صنعت آواز سے کوئی
ایران روس اور بشار الاسد کی ظالمانہ انسانیت سوز حرکتیں تو اب ساری دنیا کے سامنے منکشف ہو چکی ہیں اور ان ممالک میں عوامی احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے پھر ہمیں کس مصلحت نے روکے رکھا ہے ۔ محض  فلسطینیوں کی حمایت کا جھنڈا بلند کرنے کی وجہ سے کسی کو انسانیت کے خلاف جرائم کیلئے معاف نہیں کیا جاسکتا ۔فلسطینیوں کو یہ حمایت بھی صرف زبانی نیزاقوام عالم اورخصوصی طور پر مسلم امہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی تھا ،ہے یا رہے گا ۔یاد کیجئے ایک ویڈیو میں حلب کی ایک عمر رشیدہ خاتون نے کہا کہ ’تم سے زیادہ رحمدل تو یہود ہیں ‘۔یہ ایک حقیقت بھی ہے ۔اگر امل ملیشیا کے ذریعہ لبنان میں فلسطینیوں کے قتل عام کی روداد پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا ۔ایسے ہی دوستوں، جیسا کہ ایران ہے کے بارے میں فیض نے کہا تھا     ؎  تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ۔۔۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایران بھی دوست نہیں ہے ۔وہ مسلم امہ کا ہمدرد بھی نہیں ہے ۔یہاں مختصر سے مضمون میں اس کی مکمل روداد لکھنا ممکن نہیں ہے ۔ایران اور ان کے ہمنوا یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے شام میں مداخلت کرکے حالات بگاڑا ہے ۔لیکن شام کے محاذ جنگ سے کسی عرب ملک کے سرکاری کمانڈر کے مرنے کی خبر نہیں آئی لیکن ایران کے درجنوں کمانڈر شام میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔عرب ملکوں نے شام کے مزاحمت پسندوں کی صرف اخلاق حمایت کی ہے ۔ اس کے برعکس ایران نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور علاقے میں اپنے اثر رسوخ کو وسعت دینے کے لئے فوجی مداخلت کی اور اس کے ثبوت پیش کرنے کی اب ضرورت بھی نہیں ۔شام میں جگہ بجگہ اس کے ثبوت مل جائیں گے ۔ایک صحافی دوست جو ایک اردو روزنامہ کیلئے اداریہ اور مضامین لکھتے ہیں ۔انہوں نے مجھے ای میل کرکے کچھ یوں گویا ہوئے جیسے وہ شام کے حلب میں بربادی اور ایران کی درندگی کے لئے یمن کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج حلب کا ماتم کررہے ہیں وہ یمن کی بھی کچھ خیر خبر لیں گے ۔اس پر ایک بزرگ نے خوب تبصرہ کیا ہے وہ کہتے ہیںبحرین اور یمن میں ایک مرغی بھی مر جاتی ہے تو ایران ماتم شروع کردیتا ہے ۔ہمیں بھی مذکورہ صحافی کی ذہنیت سے صدمہ پہنچا ۔حالانکہ ہم نے کبھی اندھی حمایت یا اندھی مخالفت نہیں کی ۔ جب بھی سعودی حکومت کی کوئی خامی نظر آئی اس کی نشاندہی کی اور مذمت کی گئی ۔لیکن ایران کی خامیوں میں اگر ماضی کی ساری باتیں بھلا بھی دی جائیں تو موجودہ حلب کا سانحہ اور شام کی تباہی میں اس کے منافقانہ اور عوام مخالف کردار پر بھی اس طبقہ کی جانب سے کوئی منصفانہ بات سامنے نہیں آئی جو ہمیں یمن کی یاد دلا کر کہتا ہے کہ حلب میں انسانیت سوز حرکتوں کو بھول جائو ۔وہ یہیں نہیں رکتے ہمیں کہتے ہیں کہ اب ہم سعودی عرب یمن اور بحرین پر بھی قبضہ کریں گے ۔انہیں سعودی عرب کی بادشاہت پسند نہیں لیکن شام میں بشاری ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرتے ہیں اور پوری جان جوکھم میں ڈال کر اسے بچاتے ہیں ۔اس کیلئے چار چھ لاکھ انسانوں کا قتل عام بھی ایران نوازوں کے سامنے انسانیت کے خلاف کوئی جرم نہیں ہے ۔ ان کی ان باتوں سے یہ بات کھل گئی کہ یہ لوگ کتنے انسان نواز اور انسانیت کی قدر کرنے والے ہیں ۔ایران کو لاکھ بچانے کی کوشش کریں لیکن اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں اور تاریخ میں اس کا نام بھی چنگیز ،ہلاکو کی فہرست میں ہی شامل ہوگا ۔عنقریب وہ وقت بھی آنے والا ہے جب بشار الاسد جنگی جرائم کا سامنا کرے گا اور اس کا ساتھ دینے کے جرم میں روس اور ایران بھی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔انشاء اللہ

0 comments:

Muslim Issues

آزاد خیال طبقہ کی مسلم نوازی کی حقیقت




نہال صغیر

اس وقت دنیا ہی نہیں ہندوستان میں بھی مسلمان ہر چہار جانب سے اپنے دین و ایمان اور جان و مال پر حملہ کا شکار ہیں ۔ایسا ہی ایک حملہ آج کل اسلامی شعائر اور تہذیب و ثقافت پر ان لوگوں کی جانب سے کیا جارہا ہے جو ماضی قریب میں فساد زدہ مسلمانوں کی زبانی اشک سوئی کے بہانے ان کی ہمدردی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ایسے میں دو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں اس میں ایک ہیں جاوید آنند جو ٹیستا سیتلواد کے شوہر ہیں ۔یہ صاحب ایک انگریزی جریدہ کمیونل کمبیٹ نکالتے ہیں ۔دوسرا ایک نام ہے فیروز میٹھی بور والا کا ،یہ جناب بھارت بچائو آندولن کے بینر تلے مسلم سماجی کارکنان اور مذہبی شخصیات کو ساتھ لیکر چمکے اور اب یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی آواز اٹھارہے ہیں ۔انہیں ہندوستان کی اس افرا تفری والے ماحول میں سب سے زیادہ مسلم خواتین ہی مظلوم نظر آتی ہیں ۔جب حاجی علی میں خواتین کے داخلہ کی تحریک کو ترپتی دیسائی مہمیز دینے مصروف تھی جس کے پیچھے کچھ اور قوتیں تھیں ان میں فیروز میٹھی بور والا کا نام بھی شامل تھا ۔اسی وقت فیروز نے آزاد میدان کے باہر کیفیٹیریا علاقے میں مجھ سے کہا تھا کہ حاجی علی کے بعد مساجد میں خواتین کے داخلہ کی تحریک چلانی ہے ۔میں نے اسی وقت انتباہ دیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عوام کے اور بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے ۔مساجد میں خواتین کا داخلہ یا حاجی علی میں یہ خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک تہذیبی اور مذہبی معاملہ ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں خواتین کے تئیں وہ احساسات نہیں پائے جاتے جو دوسری قوموں یا مذاہب میں رائج ہیں ۔اسلام نے سبھی کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کی ہے ۔اس کا اثر نظر بھی آتا ہے ۔لیکن ایسے نام نہاد سماجی خدمت گار کے پاس لگتا ہے کہ یا تو کوئی کام نہیں ہے یا پھر انہیں اسلام مخالف اور مسلم دشمن قوتوں نے اپنے ایجنٹ کے طور پر مقرر کیا ہے ۔اس سے قبل بھی جب پورا میڈیا ذاکر نائک کے خلاف مہم چلا رہا تھا تب بھی یہ لوگ بی جے پی اور سنگھ کے ایجنٹ بن کر ذاکر نائک کے خلاف پریس کانفرنس میں ان پر الزامات طے کررہے تھے ۔
انڈین مسلم فار ڈیموکریسی تنظیم کے نام سے یہ لگتا ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی کوئی مثبت شبیہ پیش کرنے میں منہمک ہیں ۔لیکن ان کی حرکتیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ یہ لوگ چند مفروضوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنا اور اسلام کی اپنی نظریہ کے تحت تشریح کرکے اسے مسخ کرنے کی کوشش کرنے میں مگن ہیں ۔انہی مفروضوں میں ایک ہے تین طلاق کا مسئلہ ۔تین طلاق کے مسئلے کو اس طرح یہ لوگ اٹھاتے ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس اور کوئی دوسرا کام نہیں ہے ۔وہ صرف چار چار نکاح کرنے اور تین بار طلاق بول کر عورتوں کا استحصال کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ۔ان جاہلوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ احمقو! پہلے رپورٹ دیکھو کہ کس قوم یا مذاہب یا تہذیب کے علمبرداروں میں طلاق اور اس کے بغیر ہی علیحدگی کے سبب خواتین ہی نہیں مرد کی زندگی بھی جہنم بن جاتی ہے ۔لیکن مرد آزاد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جنسی آسودگی با ہر نکل کر پوری کرتے ہیں جبکہ عورتیں اتنی آزاد نہیں ہوتیں اس لئے انہیں یہ مواقع حاصل نہیں ہوتے یا بہت ہی کم ہے۔خود حکومت ہند کی سروے رپورٹ کے مطابق ہندوئوں میں بغیر طلاق کے علیحدگی کی شرح مسلمانوں کے مقابلے کئی گنا ہے ۔یعنی دونوں کی زندگی میں الجھن پریشانی کے سوا کچھ نہیں ۔اس کے برعکس مسلمانوں میں اسلامی قانون کے مطابق طلاق حلال لیکن ناپسندیدہ عمل کو اس لئے منظوری دی گئی ہے کہ زوجین میں جب کسی طور مصالحت کی کوئی صورت نہ ہو تو اپنی زندگی کو جہنم بنانے اور جلا کر یا کسی سازش کے تحت ایک دوسرے کا قتل کرنے کے بجائے قانونی طور پر علیحدہ ہو جائیں اور دونوں اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کریں ۔
جاوید آنند اور ان کے ساتھیوں کو ایک خلش یہ بھی ہے کہ مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتے ہیں لیکن وہ سعودی عربیہ میں مندر یا گرودوارہ کے خلاف ہیں ۔انہیں آج تک یہ بات معلوم نہیں یا انہوں نے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اگر مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے ؟شاید ان کے ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں کہ ہندوستان میں زنا بالجبر ،چوری ڈکیتی اور بد عنوانی سے پریشان حال لوگ اور لیڈران جس میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی شامل ہیں وہ ایسے حالات میں مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے لئے اسلامی قانون نافذ کیا جائے ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟ انہیں ان لوگوں سے ضرور پوچھنا چاہئے جو مسلمان نہیں ہیں اور وہ اسلامی قوانین کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ رائج قانون اور نظام ان جرائم کو قابو میں کرنے اور معاشرے میں امن و سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام ہے یہی سبب ہے کہ جو مسلمان نہیں ہیں انہیں بھی سعودی عرب جہاں اسلامی تعزیری قوانین نافذ ہیں اور جہاں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔اسی میں عوام کو نجات نظر آتی ہے ۔کچھ ماہ قبل سعودی عرب سے دو ایسی خبریں آئی تھیں جس نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا ۔یہ دونوں خبریں سعودی شاہی خاندان کے دو افراد کو سزا ملی ایک کو سزائے موت دوسرے کو چند کوڑے مارنے کی سزا ۔ایسا موجودہ دنیا میں نظر نہیں آتا جب خاص طبقہ یا اشرافیہ کو بھی قانون کے تحت یکساں تعزیر سے گذرنا پڑا ہو ۔ہم اسی لئے اسلامی قانون کی وکالت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں کہتا ہے قرآن کبھی پڑھو تو جانو گے کہ وہ ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ’’اور جب تم بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ‘‘(الانعام 152 )دوسری جگہ قرآن کہتا ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین پر یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ،اللہ تم سے زیادہ ان کاخیر خواہ ہے ۔لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ‘‘(النساء 135 )یہ دو آیات قرآنی جس میں ہمیں حق و انصاف کا علمبردار بن کر رہنے کی تلقین کی گئی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہم اسلامی حکومت کیوں چاہتے ہیں ۔کیا دوسرا طریق حکومت بھی ہے جس میں ایسا کوئی احکام ہے ۔کہا جائے گا کہ جمہوریت !لیکن جمہوری حکومت میں ہی ہم پچھلے ستر برسوں سے ہیں ۔ہر طرف ظلم جبر اور بے چینی کا دور دورہ ہے ۔عدلیہ کا یہ حال ہے کہ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ۔معمولی معمولی مقدمات میں دس بیس سال تک صرف تاریخ ہی ملتی رہتی ۔کیا سعودی عرب میں بھی ایسا ہے کیا جہاں برسوں اسی طرح انصاف کے انتظار میںعوام دھکہ کھارہے ہوں ؟کیا وہاں اور یہاں کی جیلوں کا بھی کوئی تقابل ہے ۔نام ہے جمہوریت کا اور بدترین آمریت سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہے ۔عوام کراہ رہے ہیں لیکن ہمیں جمہوریت کی نیلم پری کا افیم کھلا کر بے ہوش رکھا جاتا ہے کہ دیکھو یہاں کتنی آزادی ہے ۔کچھ بھی بول سکتے ہو ۔صرف بول سکتے ہو لیکن ابھی کے نوٹ بندی میں یہ بات سامنے آئی کہ ہم اپنے پیسے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں نکال سکتے ۔ہم نے فیروز میٹھی بور والا کو فیس بک کے ذریعہ اسلامی حکومت میں ذمیوں کے حقوق پر مبنی کئی کتابیں بھیجی تھیں لیکن انہیں پڑھنے کی ہی فرصت کیوں ملے گی یہ لوگ کارل مارکس اور فرائیڈ کو پڑھیں گے لیکن نہ تو قرآن کو پورا پڑھنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی اسلامی قوانین کو کہ اس میں کیا بھلائیاں ہیں ۔یہ آر ایس ایس کے گرگے ہیں جس طرح انہیں بیس آیات پر اعتراض ہے اسی طرح اسے بھی اعتراض ہے ۔ان کا کارل مارکس اور اس کے نظریہ کا پجاری روس کتنا ظالم ہے اس کا ثبوت حلب اور الیپو میں نظر آگیا اور اگر آج سے سو سال پیچھے جائیں گے تو مرکزی ایشیا کی مسلم جمہوریائوں کے ساتھ روس نے جو کیا اور وہاں جو قتل و غارتگری مچائی وہ بھی نظر آجائے گا ۔مسلم امہ کیلئے روس ایک ناسور ہے ۔یہ کچھ پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو بات کچھ سمجھ میں آتی لیکن کسی نے خوب کہا ہے اور ایسے ہی افراد کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ لوگ عورتوں کی آزادی کے نام پر عورتوں تک پہنچنے کا راستہ تلاشتے ہیں ‘‘۔ان بدکاروں کے سامنے اور کیا ہے ۔لیکن میری سمجھ میں ایک بات اور آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ بدکار اور ایک ایسے ماحول کے پروردہ ہیں جہاں امن چین سکون سب عنقا ہیں ۔ان کی خواتین باغی اور گمراہ ہیں اور اس سبب ان کا معاشرہ دسیوں طرح کی خرابیوں اور افرا تفری کا شکار ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ مسلم معاشرہ سکون سے کیوں رہے ۔یہی ان کی خلش کی اصل وجہ ہے کہ ہم تو ننگے ہیں تم بھی ننگے رہو تم کیوں با لباس ہو کر مہذب نظر آتے ہو ؟
اسلام کے چند بزرگوں کا نام تو یہ لوگ صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے لیتے ہیں ۔حالیہ پریس کانفرنس میں ان لوگوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور نظام الدین اولیاءؒ کا نام لے کر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔انہیں پتہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات سے یہ اولیاء اللہ ہمارے لئے محترم ہیں نہ کہ ان بزرگوں نے ہمیں کوئی نیا اسلام عطا کیا ۔انہوں نے بھی اسی اسلام کی تبلیغ کی جو عرب سے آیا تھا ۔یہ نام تو یہ لوگ صرف بھرم پھیلانے کے لئے لیتے ہیں کہ ان کی خباثت پردے میں رہے ۔ان دہریوں کو جنہیں اسلام کے الف کا بھی پتہ نہیں وہ ہمیں قرآنی احکام سمجھانے آئے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے ان کے باطل نظریہ کا تیا پانچا کردیا ہے ۔اب یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو بھی کمیونزم کی طرح بنادیں ۔مسلمان اپنے عائلی قوانین ،اسلام میں دیئے گئے عورتوں کے حقوق اور دیگر قوانین سے پوری طرح مطمئن ہیں ۔محض چند ایک گمراہ یا کسی طور کہیں ستائی گئی خواتین کی وجہ سے اسلام کے اصولوں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔جو کام ہمارے یہاں چند تاریخوں میں ہو جاتا ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلم زوجین بھی برسوں عدلیہ کے چکر کاٹیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنائیں ۔آخر ہم کتنی بار بتائیں کہ مروجہ عدالتی نظام میں طلاق کا مقدمہ بھی تیس تیس سال تک چلتا ہے ۔زیادہ جانکاری کسی کو چاہئے تو فیملی کورٹ میں جا کر حالات دیکھ لے۔ہم تو اسی اسلامی قانون میں خوش ہیں تم کو پسند ہو کہ نا ہو۔جس کو اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی چاہئے تو اس کو اسلام میں یا مسلمانوں کے درمیان مسلم شناخت کی حیثیت سے رہنے کو مجبور کس نے کیا ہے ۔اسے جس قوم کی صحبت پسند ہے وہ وہاں چلا جائے ۔اسی قوم کا حصہ بن کر رہے ۔ہم نے اس سے تھوڑی نا کہا ہے کہ وہ یہیں ہمارے ساتھ رہے ۔ہمیں تو ویسے بھی حکم ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔
آخر میں مسلم قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریکوں میں دوسروں کی شمولیت میں احتیاط برتیں ۔خاص طور سے مسلم نام والے دہریے یا کمیونسٹوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔یہ لوگ دو دھاری تلوار ہیں۔یہ آپ کے ساتھ مل کر اپنی شناخت بناتے ہیں اور پھر آپ کے ہی دین اور عقیدہ پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔فیروز میٹھی بور والا کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس شخص نے مسلم تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ مل کر اپنی پہچان بنائی ۔شروع شروع میں مقامی مسائل پر مسلم قائدین کے ساتھ آیا اور اس کے بعد شہرت کی بلندی پر جانے کا سب سے آسان فارمولہ مسئلہ فلسطین کو ہائی جیک کیا ۔اس نے یہاں دو روزہ کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس کے کانفرنس میں محمود عباس کے خیمہ کے لوگ تو نظر آئے لیکن اس میں حماس کے لوگ کہیں نہیں دیکھے گئے جو کہ فلسطین کی تحریک کی بنیاد ہیں جس کے سبب انتخاب میں عوام نے انہیں اکثریت دی تھی ۔لیکن جس طرح الجزائر میں اسلامی تحریک کو انتخاب میں جیت درج کروانے پر اسے نا منظور کردیا ۔اسی طرح حماس کو بھی بڑی قوتوں نے نا منظور کردیا ۔انہی قوتوں کے ساتھ فیروز میٹھی بور والا بھی نظر آیا ۔یعنی یہاں آر ایس ایس کے ساتھ اور بین الاقوامی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ۔بظاہر تو یہ لوگ اندرون ملک آر ایس ایس اور بیرون ملک امریکی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن عملاًحمایت ہی ان کا وطیرہ ہے۔ مسلمان اپنی تحریکوں میں غیر مسلم پسماندہ طبقات کے قائدین کو ساتھ لیں یہ لوگ مفید بھی ہوں گے اور ساتھ بھی نبھا ئیں گے ان کے ساتھ سے آپ کی تحریک اثر پذیر بھی ہوگی ۔دوسرے یہ کبھی اسلامی عقائد پر حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں ۔اس کا شاہد میں خود بھی ہوں ۔

0 comments:

International

حلب کا تقابل یمن سے ،متعصبانہ ذہنیت کی عکاس


نہال صغیر

موجودہ دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو شام میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا قتل عام یقیناًسب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔شام کا موجودہ قتل عام انسانوں کی آزادی چھین کر انہیں غلامی کے دور میں واپس لے جانے کی ایک لا حاصل کوشش ہے ۔کوئی حریت پسند جب اپنی آزادی کا پرچم بلند کرتا ہے تو اس کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے آزادی اور بس آزادی ۔دنیا کی تاریخ میں ایسا شاید ہی کوئی واقعہ ہو جب کسی نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ہو اور اس کی بقا اور سلامتی کیلئے ہر قربانی سے گذرنے کا عہد نہ کیا ہو ۔لیکن آزادی کے دشمن اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر وہ ان کی آزادی کو چھین لیں اور ان کے جذبہ حریت کو ختم کردیں ۔لیکن وہ آزادی چھین لینے کوشش کرنے کے لئے آزاد تو ہیں پر کسی کے دل میں نقش جذبہ آزادی کو نہیں مٹا سکتے ۔دنیا کی تاریخ شاہدہے کہ آزادی کے متوالوں نے اس کو حاصل کر ہی لیا ہے ۔شام کے حریت پسندوں کی آزادی کو بھی بشار الاسد نے سلب کرنے کی کوشش کی اس کے لئے اس نے ہر ناجائز کوشش کی یہاں تک کہ اس نے حریت پسندوں سے جنگ کے نام پر پورے ایک شہر کو کھنڈر بنا ڈالا ہے ۔اس کے لئے وہ انسانیت کی حد سے نیچے گر یہ سب کچھ کررہا ہے ۔اس میں اس کے ساتھ ایران اور روس شامل ہیں ۔انسانیت کے خلاف اس جرم کا یہ مثلث پتہ نہیں انسانی برادری سے سزا پاتا ہے کہ نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جو جور و جفا اور قہر انہوں نے عوام پر برپا کیا ہے اور معذور ضعیف خواتین اور بچوں کو جس طرح نشانہ بنایا ہے اس کی سزا انہیں قدرتی طور پر ضرور ملے گی۔ اب وہ سزا کسی بھی طرح ملے ۔دنیا میں اس ظلم اور درندگی سے عوام کے اس طبقہ میں غصہ بڑھتا ہے جو عام طور پر پرامن ہوتا ہے لیکن اپنے سینوں میں طوفان دبائے رہتا ہے ۔اسی طوفان نے انقرہ میں ایک روسی سفیر کو موت کی وادی میں پہنچادیا ۔گرچہ کسی مہذب سوسائٹی میں سفیر کے قتل کو منا سب نہیں کہا جاسکتا ۔اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام عوام میں سے ایک شخص نے کیا ہے ۔یہ وہی غصہ ہے جو عوام کو کھولاتا رہتا ہے ۔یہ جس وقت پھٹتا ہے تو اس کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا ۔حلب کے موجودہ قتل عام پر مسلمانوں کا ایک طبقہ بجائے اس کے کہ وہ بشار ،روس اور ایران کی اس گھناؤنی حرکت کی مذمت کرتا اور مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہوتا اس کے الٹ اس نے ظالموں کی اس درندگی کیلئے جواز پیش کرنا شروع کردیا ۔برا ہو اس مسلکی منافرت کا جس نے ظالم کی مخالفت کی بجائے اس کی حمایت انہیں کھڑا کردیا ۔وہ یمن میں سعودی حملہ کو پیش کررہے ہیں ۔جبکہ یمن اور شام کے معاملہ میں فرق ہے اور ابھی تک یمن میں سعودی مظالم کا کوئی واقعہ سامنے بھی نہیں آیا ہے ۔ہمیں ایسے لوگوں کی ذہنیت پر افسوس ہے ۔اللہ انہیں ہدایت دے تاکہ وہ ظلم کے خلاف مظلوم کے آنسو پوچھنے اور ان کی دلداری کے لئے فرقہ وارانہ تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر آگے آسکیں ۔

0 comments:

Politics

یوپی اسمبلی انتخابات اور مسلمان



جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

اُترپردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہیں، انتخابی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ سیاستداں عوام سے رابطے کے لیے نئے شعبدوں اور نئے حربوں کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کو تشویش اور پریشانی لاحق ہے کہ جس موسم اور جن حالات میں انتخابات ہو رہے ہیں وہ کسی بھی طرح غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کے سیاسی مطلع پر جس طرح کے سرخ و سیاہ بادل چھاتے رہے ہیں اور ان کی وقت بے وقت کی گرج تڑک سے عوام میں مایوسی اور نااُمیدی پیدا ہوتی رہی ہے اور انہیں اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ اس بار کا الیکشن ملک میں ایک نئے انقلاب کی دستک دے رہا ہے جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دے گا۔
لوک سبھا انتخابات یعنی 2014 میں جس طرح مرکزی اقتدار پر قبضے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے اس سے کہیں زیادہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں استعمال ہونے کے امکانات ہیں اور اس کی زد ریاست کی سب سے بڑی اقلیت پر پڑنے والی ہے۔ مسلمان تو آزادی کے بعد سے ہر الیکشن میں ایک مہرہ کی حیثیت میں ہی رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے اس بار ان سے یہ پہچان بھی چھین لی جائے گی۔
ایک خیال کے مطابق اترپردیش کے مغربی اور مشرقی دونوں کی سیاسی صورت حال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب میں برادری واد کے ساتھ ہی مظفرنگر کے فسادات میں مسلمانو ںکی نسل کشی کے علاوہ گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جو حیوانیت کا ننگا ناچ کیا گیا وہ علاقہ کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ایسے اُبلتے مسائل ہیں جو الیکشن کے وقت ناگ کے خوفناک پھن کی طرح امیداروں کے روبرو ہوں گے۔ ان حالات میں کسی بھی پارٹی کے کسی بھی امیدوار کو رائے دہندگان کو مطمئن کرپانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں غریبوں، پسماندہ طبقوں اور دلتوں کے درمیان لکچھمی جی ہی کوئی حتمی رول ادا کرسکیں گی۔ واضح رہے کہ اس الیکشن میں نوٹ بندی کا کوئی اثر اس لیے نہیں ہوگا کہ جو لوگ صبح و شام لکچھمی کی پوجا کرتے رہے ہیں، انہیں قبل از وقت اپنے مال کو ٹھکانے لگانے کا موقع دے دیا گیا تاکہ الیکشن میں کام آسکیں۔ بی جے پی جس کا اس وقت مرکز پر بھی قبضہ ہے الیکشن جیت لینے کے لیے اپنے کارکنان کو کرو یا مرو جیسے فارمولے پر عمل کروانے سے بھی باز نہیں آئے گی۔ یوں بھی اترپردیش اسمبلی ا لیکشن اس بار اس کے لیے موت و حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا تو اس وقت آسمان چھوتے غبارہ کی نہ صرف ہوا ہی نکل جائے گی بلکہ اس کے چیتھڑے اس طرح اڑجائیں گے کہ انہیں بٹورپانا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اترپردیش کے مشرقی علاقے میں برادری واد بہ نسبت مغرب کے کم ہے بلکہ نا کے برابر ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ گھر گھر کی سیاست کا ہے۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی تنظیم کا لیڈر ہے اور الیکشن کے وقت نئی نئی تنظیموں اور لیڈروں کی نمود میں مزید اضافہ رائے دہندگان کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ بقول شخصے کہ یہاں کی سرزمین ایسی ہے کہ آپ کسی بھی جگہ سے کوئی بھی اینٹ اٹھائیں وہاں سے کوئی نہ کوئی نیتا نکل آئے گا۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کا ووٹ بٹ جاتا ہے اور نتیجہ صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کا ووٹ دیگر سیاسی جماعتیں بی ایس پی، ایس پی وغیرہ کے کھاتو ںمیں بھی جاتا ہے جیسا کہ پچھلے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی اکثریت نے ایس پی کو ووٹ دیا اور بھاری تعداد میں مسلمان ایم ایل اے بھی کامیاب ہوئے مگر مسلمانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ اکھیلیش حکومت کے قیام کے چند مہینوں بعد ہی فسادات کا تحفہ پیش کیا گیا اور مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ انتظامیہ سراپا تماشائی بنی رہی اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد مغربی یوپی کے مظفرنگر میں حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے اور سیکولرزم کے علمبردار ملّا ملائم جی ایک خاص وقت تک اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے رہے اور جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو ایک دوسرے پر الزام لگاکر خود کو بری الذمہ قرار دے لیا۔
یہ صورت حال تو سیکولرزم کے نام پر ابھرنے والی تقریباً تمام ہی پارٹیوں کی ہے جو سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کو ورغلاتی ہیں، عدل و انصاف اور رواداری کا جھانسہ دیتی ہیں اور جب مسلمان ان کے بہکانے میں آجاتے ہیں انہیں ٹسوپیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے میں ڈال دیتی ہیں۔ غور کیجیے کیا تقسیم ملک کے بعد سے انتخابی سیاست میں مسلمانوں کے ساتھ ٹسو پیپر جیسا سلوک نہیں ہوتا رہا ہے۔ یاد رکھیے، سیاست شطرنج کی ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بساط ہے جس پر کھلاڑی ہمہ تن چوکنا رہتا ہے، تھوڑی سی عدم توجہی پوری بساط کو پلٹ دیتی ہے اور ذرا سی ہوشیاری ہی دھرم و مذہب کے سیاسی ترازو میں ہمیں تولنے کی عام روش سے بچا بھی سکتی ہے۔ اب تک سیاسی شعور و دور اندیشی سے کام نہ لیے جانے کی وجہ سے ہی ہم سیاسی پارٹیوں کے لقمۂ تر بنے ہوئے ہیں۔ ہاں گزشتہ چند برسوں سے جس طرح کی عام مسلمانوں میں احساس بے داری دیکھی جارہی ہے اس سے تھوڑی سی اُمید تو کی جارہی ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنے اجتماعی وزن کا مظاہرہ مسلمان کریں گے اور اپنے جائز حقوق کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی تیار کریں گے۔
جب تک ہم خود کو سمجھنے اور اپنی اہمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کریں گے ہم دوسروں کی خوراک ہی بنے رہیں گے۔ کسی بھی قوم کے بننے اور سنوارنے کے لیے ستربرس بہت ہوتے ہیں اس دوران نہ ہم اپنی کوئی سیاسی تنظیم تشکیل کرسکے اور نہ ہی کوئی اپنا لیڈر ہی منتخب کرسکے۔ ہم انہیں کو اپنا لیڈر اور اپنی تنظیم مانتے رہے جو ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرنے کی کوشش میں رہے جہاں ہمیں عزت کے ساتھ جینے کا کوئی حق ہی نہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر ان لوگوں کو بہرصورت نظر انداز کردینا چاہیے جو اپنی ذات کے لیے پوری ملت کو استعمال کرتے رہتے ہیں، جو بتدریج ملت کو تباہی کے غار میں ڈھکیلتے رہے ہیں اور جو بہروپیوں کی شکل میں انتخابات کے موقعوں پر مسلمانوں کے دروازوں پر کشکول لیے ووٹوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں او رمسلمان ان بہروپیوں کے روپ بہروپ قول و عمل کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور وہ لوگ جو مخلص ہیں منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
مسلم لیڈر شپ کے سیاسی شعور سے کام نہ لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ صرف انتخابات تک ہی سیاسی پارٹیوں کے نزدیک مسلم ووٹوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے، جیسے ہی انتخابات کا وقت ختم ہوتا ہے اور نئی حکومت کی تشکیل عمل میں آتی ہے مسلمان اور ان کے مسائل حاشیے پر ڈال دیے جاتے ہیں۔ نہ تو ووٹ اور آبادی کے لحاظ سے حکومت میں انہیں مناسب نمائندگی دی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت کی ترجیحات میں ہی ان کے مسائل ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ بعض بعض حالات میں انہیں سنگین حالات سے بھی دوچار کردیا گیا ہے۔ اترپردیش جس کا ذکر اوائل سطروں میں ہوچکا ہے، میں ان کی اوقات بتادی گئی، پھر بھی مسلمان او ران کے قائدین کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ چھوٹی چھوٹی ذاتیں، برادری کے نام پر، علاقائیت اور پس ماندگی کے نام پر اپنے مسائل حکومت سے حل کرالیتی ہیں لیکن افسوس کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اپنے مسائل حل کرانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے اور ہر جگہ اسے دھتکار، لعنت و ملامت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بہرحال پچھلے انتخابات بہ نسبت اس بار کے انتخابات میں کافی فرق ہے۔ موجودہ سیاسی حالات ملک کے سیکولر اور انصاف پسند عوام خصوصاً مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ بڑی ہوش مندی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ ذرا سی چوک آپ کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو بکھیر کر رکھ دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچ اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭

0 comments:

International

شام و عراق آگ اور خون کی بستی



نہال صغیر
بہار عرب جس نے عرب کے لوگوں کو برسوں سے مسلط آمریت سے چھٹکا را پانے کی قوت بخشی ۔آج وہی بہار عرب ان کے لئے آگ و خون کا دریا بن چکا ہے ۔چار سال قبل جب شام کے عوام نے تین دہائیوںسے مسلط اسدخاندان کی آمریت اور اس کے ظلم و ستم سے آزاد ہونے کا فیصلہ کیا تو بشار الاسد ایک ماہ میں ہی شام چھوڑ کر بھاگنے کا پورا منصوبہ بنا چکا تھا ۔سونے سے لدے ٹرک اس نے روس بھجوادیا تھا ۔ لیکن ایران نے یہ دیکھا کہ اگر شام سے بشار الاسد کے قدم اکھڑ گئے تو پھر ایران علاقے میں اپنے ناپاک عزائم کو پورا نہیں کرپائے گا ۔پھر اس نے اپنی ساری قوت شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بچانے میں جھونک دی ۔لیکن شام میں آزادی کی جنگ لڑ رہے مجاہدین نے بھی اپنی جان کی بازی لگا کر ایران کو بھی ناکام بنا دیا ۔قریب تھا کہ ایران کا غرور بھی شام میں دفن ہو جاتا کہ اس نے اپنے آقا روس کو دعوت دی شام میں ایران کو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے اس نے دسیوں اہم فوجی سربراہ اس جنگ کی بھٹی میں جھونکے ہیں ۔ایسے ہی پاسداران انقلاب اور متعدد ملیشیا کی سربراہی انجام دینے والے ایک جنرل حسین ہمدانی کی ایک راکٹ حملے میں ہلاکت کے بعد جواد غفاری کو وہاں کی کمانڈ سونپی گئی تھی۔بشار الاسد نے جو سونے سے بھرے ٹرک روس بھیجے تھے اس کی قیمت ادا کرنے روس بھی آگیا اور پھر شروع ہو گیا تاریخ کا المناک ترین خونریزی کا دور جس میں شام کے عوام ڈوب کر تقریبا فنا کے قریب پہنچ چکے ہیں۔حلب کے فنا کے گھاٹ پہنچنے اور چار لاکھ سے زیادہ عوام کے قتل عام کے بعد ایران اور ایران نوازوں کے حوصلے کافی بلند ہیں جب ہی وہ انسانیت سے گرے ہوئے بیانات دے رہے ہیں ۔العربیہ کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر جنرل جواد غفاری حلب میں محصور تمام لوگوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتاردینے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔یہ بات محض افواہ یا العربیہ کا تعصب نہیں ہے ۔ایسے دسیوں وڈیو ہیں جس میں ایران اور ان کے ہمنوا ئوں کو سنی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرتے دکھایا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل جواد غفاری ایران نواز سولہ ملیشیا کے سربراہ ہیں ۔جواد غفاری کا کہنا ہے کہ اگر عام لوگوں کو جانے کی اجازت دی گئی تو ان کے ساتھ حکومت مخالف افراد بھی نکل جائیں گے ۔پاکستان کے معروف کالم نگار اوریا مقبول جان نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ لبیک یا حسین کی صدا بلند کرنے والوں نے جو گھنائونے کارنامے انجام دیئے ہیں اس کے بعد انہیں انسان تو نہیں کہا جانا چاہئے ۔
شام و عراق میں باطل سے برسر پیکار افراد نے تو اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیا لیکن پیچھے نہیں ہٹے ۔وہ جبتک ڈٹے رہے آسمان سے سفید ریچھ اور ایران کے اسلامی انقلاب کے نام نہاد ٹھیکیدار ان پر آگ برساتے رہے لیکن وہ اس کی پرواہ کئے بغیر ظالم اسدی حکومت کے سپاہ سے لڑتے رہے ۔لیکن ان کے آس پاس کے امراء و روساء خاموش تماشائی بنے رہے ۔مجھے تاریخ میں کہے گئے وہ زرین الفاظ آج سب سے زیادہ یاد آرہے ہیں جب شام و ایران کی فتح کے وقت مسلمانوں کی طرف سے کوئی سفیر ان کے پاس جاتا تو وہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ تم ہم سے کچھ دولت لے لو اور چلے جائو ۔قیصر و کسریٰ انہیں دور جہالت میں ان کی حالت کا طعنہ دیتے ۔مسلمان سفیر بڑے تحمل سے جواب دیتے کہ وہ دور بیت گیا اب ہم تم کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں اسے قبول کرلو یا جزیہ دو یا پھر ہماری تلوار فیصلہ کرے گی ۔انہیں وہ اپنی طاقت سے ڈراتے تو وہ کہتے کہ ہم موت سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی تم زندگی سے کرتے ہو ۔شام کے مجاہدین نے تو ثابت کردیاکہ وہ موت سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن دنیا کے مسلمانوں کو زندگی ہی عزیز ہے جس کا وقت متعین ہے اس سے ایک ساعت بھی کوئی زیادہ نہیں جی سکتا ۔لیکن اس زندگی کی محبت نے انہیں اتنا نکما اور بزدل بنادیا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے ۔ساری دنیا میں بس دین پر والہانہ طور پر فدا نوجوان ہی ہیں جو کہیں بھی آتے جاتے مشکلوں سے گزرتے ہیں ۔دہشت گرد کا تمغہ اپنے ناموں کے ساتھ سجائے گھومتے ہیں لیکن وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہیں کرتے وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں ان کا درد ان کے لئے مشترک ہے خواہ وہ مسلمان مغرب کا ہو کہ مشرق یا شمال کا ہو کہ جنوب کا ۔ دیکھئے ایران اپنے ملیشیا پال بھی رہا ہے ۔اس کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے اور شام و عراق میں خون کی ندیاں اور آگ کی بارش کرنے میں ان کا استعمال بھی کررہا ہے ۔لیکن یہ عرب دنیا کسی بھی ملیشیا کی شروع میں تو مدد کرتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں خطرہ ہو تا ہے کہ ان کی خاندانی تانا شاہی اور آمریت والی بادشاہت بھی خطرے میں ہے تو فوراً وہ دنیا کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں ۔ان کے سامنے وہی نوجوان جو کل تک ان کے لئے مزاحمت پسند ہو ا کرتے تھے اچانک دہشت گرد ہو جاتے ہیں ۔ان کے اس سوچ کا فائدہ آج ایران اٹھا کر پورے علاقے کو اپنے زیر اثر کر چکا ہے ۔اب ان کی ملیشیا کے لوگ کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ بحرین اور یمن میں بھی مداخلت کریں گے ۔حالانکہ یہ ابھی اتنا آسان نہیں کیوں کہ وہ تنظیمیں جنہیں دنیا دہشت گرد کہہ کر بد نام کرتی ہے اتنے کمزور یا ختم نہیں ہوئے ہیں۔صرف ایک شہر پر قبضہ کرلینے سے وہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے انہوں نے تحریک کو ختم کردیاہے ۔لیکن ایرانی جنرلوں اور ان کی ملیشیا کے بڑ بولے پن سے عربوں کو تو ضرور سبق لینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی خاندانی حکومت کی زیادہ فکر کریں یا پھر عرب کی شناخت اس کے وجود و بقا اور سلامتی کے لئے ایسی  پالیسی بنائیں کہ خواہ ان کی خاندانی بادشاہت رہے یا جائے لیکن عرب پر کوئی بد عقیدہ حکومت نہ حاوی ہونے پائے ۔اسی سوچ کے تحت انہیں ہر حال میں ملیشیا کو فروغ دینا ہو گا ۔ورنہ ایران وہ جو اسلام کی آمد کو ہضم نہیں کرپایا ہے وہ پورے خطہ کو ہڑپ کرجائے گا۔اس نے یہیں نہیں اب سے قبل بھی ایسی ہی گھنائونی حرکت کی ہے ۔اس نے امل ملیشیا کے ذریعہ لبنان میں فلسطینیوں اورفلسطینی تنظیموں کو ختم کرنے میں اہم رول نبھایا پھر ایران نے امل ملیشیا کو ختم کرکے حزب اللہ کو جنم دیا ۔تاکہ دنیا امل ملیشیا کے ذریعہ ڈھائے گئے ظلم کو بھلادے ۔ ایران نے اپنی منافقت کو چھپانے کے لئے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کا ناٹک کرکے انہیں زبانی ہمدردی سے اپنا ہمنوا بنایا ۔لیکن اب تو عالم اسلام کو عموماًاور تحریکی احباب کو خصوصاً ایران کی منافقت اور مسلمانوں کے پیٹھ میں اس کا خنجر پیوست کرتا نظر آ رہا ہوگا ۔اگر اب بھی انہیں سمجھ نہ آپائے تو فرشتہ اجل انہیں سمجھا دے گا ۔
ایک جانب اس حلب کی بربادی کی داستان ہے جس نے کئی انقلاب دیکھے ہیں ۔اس نے تباہی مچادینے والا زلزلہ دیکھا ہے اس نے منگولوں کا حملہ بھی دیکھا ہے ۔دوسری جانب عالم اسلام میں سوائے چند رسمی مذمتی بیان اور کچھ میٹنگیں اور سمینار کے کچھ نظر نہیں آتا ۔حلب کی بربادی پر ایک پاکستانی کالم نگار نے کچھ یوں بیان کیا ہے ’’لیکن واللہ یہ وقتی تباہی ہے ،شہر دوبارہ بس جاتے ہیں ،نسلیں دوبارہ آباد ہو جاتی ہیں ، راہیں روشن ہو جاتی ہیں ،شہر زندہ ہو جاتا ہے ۔تو تباہی کیا ہے ؟ تباہی امید کھودینا ہے ،جستجو چھوڑ دینا ہے ،منزل پر سے یقین اٹھ جانا ہے ،یقین گر زندہ ہو ،تو امید جستجو کو زندہ رکھتی ہے ۔ہر تاریک شب کے بعد اجالا ہے ۔ ہر تباہی کے بعد تعمیر ہے ۔ہر نئی تعمیر پچھلی سے زیادہ مضبوط ہو تی ہے ‘‘۔ ہم بھی مایوس نہیں ۔عرب کی زمین قیامت کی صبح تک بانجھ نہیں ہو گی ۔وہ ایسے لعل و گوہر پیدا کرتی رہے گی جو تاریخ عالم میں حریت کی داستان رقم کرواتے رہیں گے ۔بشار الاسد کے باپ نے بھی حماۃ شہر کو تباہ کیا تھا اسی ہزار سے زائد افراد کا خون بہایا تھا ۔عالم عرب میں پچھلی ایک صدی سے اخوان المسلمین کے جیالے اسلام کی شادابی اور امت کی سربراہی کے لئے اپنی قربانیاں پیش کرتے رہے ہیں ۔حافظ الاسد مرگیا لیکن اسلام پسند اپنی پوری قوت کے ساتھ رہے اور انشاء اللہ ایک بار پھر وہ آئیں گے ۔لیکن بشا رالاسد نہیں ہو گا وہ بھی زمین کی خوراک بن چکا ہوگا ۔لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں تبدیل ہو تی صورت حال کیا کہانی بیان کررہی ہے ۔ہم آج بھی برسوں پرانے قائم کئے گئے کسی ایک نکتہ کے گرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس سے الگ ہٹ کر کچھ سوچنے کے قابل شاید ہم رہے ہی نہیں۔

0 comments:

ہندوستان میں داعش کا وجود :ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

ابو ارسلان ۔ ممبئی


دسمبر کی نو تاریخ کو نئے نئے ویب سائٹ جہاں کا انصاف کے خالق اور ایڈیٹر کا انٹر ویو ایک اردو روز نامہ میں شائع ہوا ہے ۔ویب سائٹ کے خالق مذکورہ صحافی کا دعویٰ ہے کہ یہ ویب سائٹ داعش کے پروپگنڈہ کا جواب دینے کے لئے قائم کی گئی ہے ۔حالانکہ مجھے آج تک کوئی ایسی نیوز ایجنسی نہیں ملی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہو کہ وہ داعش نے تخلیق کی ہے اور اس پر اس کا پروپگنڈہ جاری ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کا پروپگنڈہ مشن جاری ہے ۔لیکن مجھے وہاں بھی کہیں کوئی پروپگنڈہ نظر نہیں آیا ۔اتنے دنوں میں یعنی جب سے داعش کا عروج ہوا ہے صرف ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ جس کے ذریعہ اسد الدین اویسی کو دھمکی دی گئی تھی ۔وہ پہلا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے جس کو ہم نے دیکھا ۔اس کے بارے میں بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو دعویٰ کیا گیا وہ سچ ہے کہ وہ کسی داعش کے رکن یا تنظیم کا ہے ۔زیر زمین تنظیم جس کے خلاف پوری دنیا ہو اور دن رات جہاں بمباری ہو رہی ہو ان کے خلاف کوئی فرضی اکاؤنٹ بنا کر بھی تو اس طرح کی دھمکی دے سکتا ہے ۔بھلا کون ہے جو ان کی طرف سے تردید کرے گا اور اگر تردید کرے گا بھی تو میڈیا اس کو کیوں جگہ دے گا ۔ہماری نظروں کے سامنے ایسی خبریں بھی گذریں ہیں جس کے مطابق داعش کے نام سے یا داعش کی حمایت کرنے والی چار سو ویب سائٹس کو بلاک کیا جاچکا ہے اور غالبا وہ ٹوئٹر اکاؤنٹ جس کے ذریعہ اسد الدین اویسی کو دھمکی دی گئی تھی وہ بلاک کیا جاچکا تھا ۔ہمارے خفیہ محکمہ کو ہمیشہ یہ کھجلی رہتی ہے کہ وہ یہاں کسی ایس تنظیم کی موجودگی کو ثابت کردیں تاکہ اس بہانے سے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانا آسان ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ داعش یا القاعدہ نام کی یا اس کی کوئی ذیلی شاخ ہندوستان میں  محض ایک مفروضہ ہے ۔ ماضی قریب میں بھی القاعدہ کی شاخ قائم ہونے کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں ۔گویا یہ تنظیم نہیں جھینگا پاؤ کی دوکانیں ہیں کہ جگہ بجگہ اپنی شاخیں قائم کررہے ہیں ۔اس طرح کی افواہ پر میں نے ایس ایم مشرف سے سوال کیا تھا کہ انٹیلی جنس ان پٹ عوام میں پھیلانے کے لئے ہو تی ہیں یا پولس محکمہ کو چوکنا کرنے کے لئے تاکہ وہ امن و سلامتی کی صورتحال کو قابو میں رکھیں ۔انہوں نے بھی کہا تھا کہ اس طرح کی خبریں عوام میں پھیلانے کے لئے نہیں ہو تیں ۔
اوپر یہ مختصر صورتحال بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیانات کی حقیقت کا ادراک ہو سکے ۔حالانکہ جو کچھ بیان کیا گیا وہ بالکل منطقی اور بہت چھوٹی بات ہے جو سبھی کو سمجھ میں آنی چاہئے لیکن ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں لوگوں کی عقل اور ان کی سوچ پرمیڈیا کے ذریعہ خفیہ طاقتوں کے پھیلائے گئے گمراہ کن پروپگنڈہ کی گرفت میں ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں نے اس الگ ہٹ کر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔پھر بھی انہیں دعویٰ ہے کہ وہ دانشور ،صحافی اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔مذکورہ صحافی کے انٹر ویو سے قبل جو تعارف شائع ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’جہاں کا انصاف ڈاٹ کام ان دنوں داعش کے مکروفریب سے مسلم نوجوانوں کو دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کررہا ہے اس ویب سائٹ کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ داعش کے خلاف بیداری مہم شروع کی گئی بلکہ اس کے ناپاک اور مکروہ چہرے کو بھی بے نقاب کیا جارہا ہے ‘‘۔حالانکہ سچائی اس کے بر خلاف ہے ۔داعش کا کوئی فریب ہے کہ نہیں یہ مجھے معلوم نہیں لیکن داعش کے نام پر ہمیں فریب دیا جارہا ہے، گمراہ کیا جارہا ہے اور خوفزدہ کیا جارہا ہے ۔ہمیں جتنی خبریں اور پرپگنڈے ملتے ہیں جو اخبارات یا میڈیا کے دیگر ذرائع سے پھیلائے جارہے ہیں وہ داعش کے خلاف ہی ہیں ۔تعجب ہے اس کے باوجود ایسے زرد صحافیوں کے مطابق نوجوان ان کے جال میں پھنس رہے ہیں ۔پتہ نہیں کون پھنس رہے ہیں اور کون پھنسا رہا ہے ؟مجھے آج تک ٹوئٹر ،فیس بک یا میرے ای میل پر ایسا کوئی مسیج نہیں آیا جس سے اندازہ لگے کہ داعش کے لوگ سوشل میڈیا پر پروپگنڈہ کررہے ہیں ۔بلکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ فرضی اکاؤنٹ کھول کر خفیہ محکمہ والے ہمارے پرجوش نوجوانوں کو پھنسا رہے ہیں تاکہ دہشت کا ایک ماحول قائم رکھا جاسکے ۔مسلم قوم کو احساس جرم اور مجرم ضمیری میں مبتلا کرنے کا جو سلسلہ پچھلی دہائی سے شروع ہوا ہے اس کا سلسلہ چلتا رہے۔کوئی اس پر سوال کھڑے کرتا ہے تو کرے لیکن اس کو اس کا جواب دینا ہی ہوگا کہ سینکڑوں نوجوانوں کا مختلف حیلوں بہانوں سے اور اکثر کو اغوا کرکے ان پر کچھ الزامات طے کئے گئے لیکن وہ پانچ سے اکیس یا چوبیس سال کے بعد عدالت سے با عزت بری کئے گئے ۔انہیں اس طرح ملوث کرنے کے ذمہ دار وہی لوگ نہیں ہیں جو آج داعش کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ٹریپ کررہے ہیں ؟
دیکھئے مذکورہ صحافی اپنے ایک جواب میں کہہ رہا ہے کہ ’’کئی مسلم نوجوان ان کے دام میں بھی آچکے ہیں‘‘۔یعنی اسے یقین ہے کہ خفیہ محکمہ نے جن نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے وہ واقعی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔یعنی وہ ان لوگوں کے مقدمات لڑنے والی ملی تنظیم جمعیتہ العلماء کو درپردہ مجرموں کو پناہ دینے والا بتا رہا ہے ۔پوری سماجی کارکن کی ٹیم اور انصاف پسند صحافیوں کا گروہ اس بات پر متفق ہے کہ انڈین مجاہدین نام کی تنظیم خود خفیہ محکمہ اور اے ٹی ایس کی تخلیق ہے ۔میں نے اپنے کانوں سے بار بار پریس کانفرنس میں یہ سنا ہے کہ ’’انڈین مجاہدین کا ہیڈ کواٹر آئی بی کے دفتر میں ہے‘‘۔لیکن یہ زرد صحافی کہتا ہے کہ وہ داعش میں ضم ہو چکی ہے ۔اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یا دو ملکوں کے مابین جو کچھ ہو تا ہے اس میں یقینی طور پر عالمی طاقتوں کی باہم چپقلش کارفرما ہو تی ہے یا خفیہ محکمہ کے کھیل ہو تے ہیں ۔اس کو سمجھنا آسان نہیں ہو تا اور ایسے سطحی صحافی جو صحافت کے پاکیزہ پیشہ پر ایک دھبہ ہیں ان کے بس کا تو بالکل نہیں ۔ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ جس کے اشاروں پر یہ سب کررہا ہے وہ انہیں جو بتادیں اس کو وہ اپنی دانشوری کا تمغہ سمجھتا پھرے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔غرض پورا انٹر ویو جھوٹ ،فریب دجل سے بھرا پڑا اس انٹر ویو نے مسلم نوجوانوں کو مجرم کی حیثیت سے کھڑا کردیا ہے اور پولس اور اے ٹی ایس جس کی درندگی کی مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں کیلئے مسلمانوں کے ذہن میں یہ ڈالنا ہے کہ وہ ہمارے نجات دہندہ ہیں ۔ جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ وسئی کے کسی نوجوان کو اے ٹی ایس پڑھا رہی ہے ۔اسامہ کے تعلق سے امریکہ بار بارویڈیو جاری کرتا تھا کہ آج انہوں نے یہ کہا لیکن دنیا میں ان ویڈیوز کی سچائی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں اور امریکہ ہمیشہ ان سوالات کو نظر انداز کرتا رہا ہے ۔یہاں یہ شخص بھی ایک ویڈیو کا حوالہ دیتا ہے کہ کلیان کے کسی فہد شیخ نے اپنے ویڈیو میں بابری مسجد اور گجرات فساد کے انتقام کی دھمکی دی گئی ہے ۔جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے غالبا روزنامہ انقلاب نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ فہد کے والدین نے اس ویڈیو پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا ۔لیکن اس صحافی کو تو وہی کہانی آگے بڑھانی ہے جس کا اشارہ انہیں مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے محکمہ سے ملتا ہے ۔

0 comments: