الحمد للہ سیرت کو عدلیہ سے انصاف مل چکا ہے اب عوام کی عدالت میں سیرت اپنا مقدمہ رکھ رہا ہے۔

3:51 PM nehal sagheer 0 Comments


کیا جھوٹا ،مکار اور افواہ پھیلانے والا شخص عالم دین کہلانے کا مستحق ہے ؟

ہفتہ روزہ سیرت کی اشاعت کو آٹھ سال ہو گئے ۔اس دوران سیرت نے اردو صحافت میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے ۔اس نے اول روز سے ہی جو پالیسی اپنائی تھی اس پر قائم ہے اور الحمد اللہ اس پر قائم رہے گا ۔اردو اخبارات کی کچھ معاشی مجبوریوں نے شاید انہیں کچھ ایسے کام (یعنی حق کو چھپانے ،جاہل اور نااہل لیڈر شپ کو عوام پر تھوپنے )کرنے پر مجبور کئے جس کی وجہ سے امت میں ایک جعلی لیڈر شپ یا جعلی مذہبی قیادت کا عروج ہوا ۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔لیکن امت کے زوال نے یہ سب کروایا ۔اس کا انجام ہمارے سامنے ہے کہ جنہیں سورۃ فاتحہ بھی صحیح سے پڑھنا نہیں آتا وہ ہمارے مذہبی قائد بنے ہوئے ہیں اور جنہیں قوم کی تاریخ اور اپنے وجود کا بھی پتہ نہیں وہ ہمارے سیاسی قائدین کی صف میں نظر آتے ہیں۔سیرت اول روز سے ہی ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنے اور قوم کو ایسے جعلی نقلی مذہبی قیادت یا مذہبی مافیا سے نجات دلانے کے لئے پرعزم رہا ہے ۔اسی کا انجام رہا کہ ان آٹھ سالوں میں کچھ مہینوں کے لئے سیرت کی اشاعت موقوف رہی ۔جس کے بارے میں کہا جانے لگا کہ یہ اسی نابالغ پیر کی کرامت ہے جس کی سچائی سیرت عوام کے سامنے لاتا رہا ہے ۔لیکن ان کی کرامت کا اثر صرف چند ماہ تک ہی رہاکیوں کہ ان کی کرامت کے تار جہاں سے جڑے ہوئے تھے وہ پارٹیاں اب حکومت سے باہر ہیں اور ان کے ایک لیڈر پر کرپشن کا زبردست الزام ہے اور وہ بے چارے حوالات کی ہوا کھارہے ہیں۔لیکن جس کا ناصر اللہ ہو اس کے راستوں کو کون روک سکا ہے ۔ اسی اللہ کی نصرت کے سہارے سیرت پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ مذہبی مافیا کی سرکوبی کے لئے منظر عام پر آنے لگا ۔ذیل میں ہم کچھ حقائق بیان کررہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ حقیقت واقعہ سے واقف ہو سکیں ۔ 
ہفتہ روزہ سیرت میں 2013 میں اتر پردیش کے ہندی روزنامہ ہندوستان لکھنو سے شائع ہونے والے کی ایک خبر شائع کی تھی جو کہ 22,23,24 ؍اکتوبر 2013 کی تھی۔جس کو من و عن سیرت نے21 تا 27 ؍ نومبر 2013کو روزنامہ ہندوستان کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا تھا ۔دوسری خبر دوپہر کا سامنا جمعرات 12 ؍دسمبر 2013 کو سیرت نے شائع کیا تھا۔ہفتہ روزہ سیرت نے 26 ؍دسمبر2013 تا یکم جنوری 2014 والے شمارہ میں شائع کیا تھا۔اس کے لئے مذہبی مافیا نے اور ان کے کچھ مریدوں نے سیرت پر مختلف پولس اسٹیشنوں میں ایف آئی آر درج کرایا ۔الحمد اللہ عدلیہ نے سچ کا ساتھ دیا۔اور یوں مذہبی مافیا کو پہلا جھٹکا لگا حالانکہ انہوں نے بہت ہی مشہور و معروف وکیل کو لگا رکھا تھا لیکن سیرت کو اللہ پر بھروسہ تھا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے اور وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے سو انصاف ہوا اور سیرت کے مالک و مدیر کے دشمنوں کو منھ کی کھانی پڑی ۔سیرت کا کچھ تو نہیں بگڑا لیکن اتنا ضرور ہوا کہ سیرت نے جس تحریک یعنی مذہبی مافیا کو عوام کے سامنے لانے کا جو بیڑہ اٹھایا تھا وہ کچھ دن کے لئے موخر رہا۔سچ تو یہ ہے کہ ہفتہ روزہ سیرت نے اترپردیش ضلع امبیڈکر نگر تھانہ جلال پور کو آر ٹی آئی سے ایف آئی آر کی کاپی منگوائی تھی لیکن ایف آئی آر کی کاپی میں وقت لگنے کی وجہ سے معین الدین شیخ اجمیری خود سے تھانہ جلال پور میں منشی سے مل کر ایف آئی آرکی کاپی مانگی تو اس نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہ بہت ہائی پروفائل کیس ہے ۔ہم نہیں دے سکتے پھر اس کو آر ٹی آئی کی کاپی دکھائی تب اس نے تھانہ انچارج سے ملایا ۔تھانہ انچارج وی پی سنگھ تھے ۔انہوں نے پہلے اسی منشی یادووالی بات کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی لیکن انہیں آر ٹی آئی کی کاپی دکھائی تب انہوں نے منشی کو ایف آئی آر کی کاپی دینے کا حکم دیا۔اس طرح سے ایف آئی آر کاپی حاصل ہوئی۔ہم نے اس کے بعد ایک آر ٹی آئی ضلع فیض آباد کے جیل کو لکھا ۔وہاں سے معلومات کے مطابق ملزم کو بیرک نمبر،3 بی میں 22.10.2013 کو شام 19:16 پر داخل زنداں کیا گیااور 08.11.2013 صبح آٹھ بجکر چوالیس منٹ پر جیل سے رہا ہوئے۔جیل کی جانکاری کے مطابق قیدی نمبر 1257/2013 ہے ۔اتنے ثبوت کے ساتھ اورہندی روزنامہ ہندوستان اوردو پہر کا سامنا کے حوالہ کے ساتھ خبر شائع کرنے کے سیرت پر ہتک عزت کا مقدمہ کیا گیا ۔الحمد اللہ وہ مقدمہ بھی عدلیہ نے خارج کردیا۔کیوں کہ ہتک عزت کا مقدمہ اس وقت بنتا ہے جب آپ کسی کو بلا جرم ملوث کرنے اور اس کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کریں ۔ظاہر سی بات ہے کہ سیرت نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا اس نے تو ساری خبریں دوسرے اخبارات کی نقل کی تھی۔سیرت نے ہمیشہ عالم کی دین کی قدر کی ہے اور انشاء اللہ تا عمر کرتا رہے گا۔لیکن شرط وہی ہے کہ وہ عالم دین ہی ہو دنیا کا کتا نہیں ۔سیرت اس عالم دین کی قدر کرتا ہے جس کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ وارثین انبیاء ہیں۔پچھلے شمارے میں ہم نے فیس بک کا عکس شائع کیا تھا جس میں مولانا عبد الرحیم صاحبنے سیرت کے مدیر و مالک پر ایک لاکھ روپئے کا انعام ناگپاڑہ پولس اسٹیشن کے نام سے رکھاتھا۔مطلب یہ کہ ناگپاڑہ پولس نے معین الدین شیخ کی گرفتاری یا ان کا پتہ بتانے والوں کو ایک لاکھ کے انعام کا اعلان کیا تھا ۔اس تعلق سے بھی آر ٹی آئی کے ذریعہ پوچھا گیاتو پولس اسٹیشن نے انعام کے اعلان سے انکار کیا وہ بھی پچھلے شمارے میں شائع کیا جاچکا ہے۔مذکورہ دروغ گو اور افواہ باز مولانا کے خلاف پولس کے سائبر سیل میں شکایت درج ہے ۔اب عوام اور خصوصی طور سے سنی بریلوی مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے آپ کو عالم دین کہنے والا کتنا سچا اور کھرا ہے۔کتنا جھوٹا اور مکار ہے۔مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ایسا جھوٹا شخص عالم دین کیسے ہو سکتا ہے۔اس فریبی جھوٹے اور مکار مولوی کے خلاف بھی ہفتہ روزہ سیرت نے عدلیہ سے رجوع کیا ہے اور انشاء اللہ جلد فیصلہ آنے والا ہے مذکورہ مولوی پر ایسا ہی ایک اور معاملہ شاہد انصاری کے معاملہ میں درج ہے۔اب عوام کے سامنے فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ ہفتہ روزہ سیرت غلط ہے یا مذہبی مافیا آپ کو گمراہ کررہا ہے ۔ہم عوام کی رائے کی قدر کرتے ہیں اس کا ہمیں انتظار بھی رہے گا۔اس مقدمہ کے تعلق سے سارے کاغذات پیش ہے ۔

بشکریہ ہفتہ روزہ سیرت 6 ؍تا 12 ؍اکتوبر 2016 

0 comments: