مستحکم اور خوشحال ہندوستان عوام کا خواب !
نہال صغیر
ہند فرانس میں ایک دفاعی سودا عمل میں آیا ہے جس کے تحت فرانس اگلے ۳۶ مہینوں میں ۳۶ جہاز اور بقیہ پینتیس جہاز اگلے ساٹھ مہینوں میں ہندوستان کو بیچے گا ۔اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی دفاعی پوزیشن پہلے کے مقابلے کافی مستحکم ہونے کی امید ہے ۔ہندوستان کمزور تو اب بھی نہیں ہے لیکن سیاسی قوت فیصلہ کی کمی ناقص خارجہ پالیسی نے ہندوستان کو ایک کمزور ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کرایا ہے ۔اب مودی حکومت (ظاہری ڈائیلاگ کی بنا پر) ملک کو ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کی جانب پیش قدمی کررہی ہے۔اس سے قبل بھی اسی کی دہائی میں جب پاکستان ہندوستان کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور اس دوران جنرل ضیاالحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت جنگ کو ٹالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔اس وقت جہاں پاکستان نے امریکہ سے ایف ۱۶ جنگی طیارے حاصل کئے تھے وہیں وزیر اعظم ہند اندرا گاندھی نے میراج ۲۰۰۰ نامی لڑاکا طیارے فرانس سے حاصل کئے تھے ۔جنگ تو نہیں ہوئی لیکن دونوں ملکوں کی معیشت پر اضافی بوجھ پڑا جو یقینی طور پر دوسرے شعبہ میں کٹوتی کے بعد ہی دستیاب ہوئے ہوں گے ۔آج پھر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جیسی صورتحال ہے ۔لیکن کوئی کرکٹ ڈپلومیسی یا اس جیسی کوئی دوسری ڈپلومیسی اپنانے والا کوئی شخص نہیں ہے ۔نریندر مودی نے تو کچھ ماہ قبل پاکستان کا دورہ کیا تھا جس پر انہیں کئی حلقوں سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس دوری کو بریانی ڈپلومیسی کا نام دیا گیا ۔وہ آج بھی زبردست تنقید کے نشانے پر ہیں ۔اس کے کئی سارے وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ آنجناب کی پارٹی جس کو زعم حب الوطنی ہے نے منموہن حکومت کے دور میں لمبے چوڑے دعوے اور بڑے لاف گذاف طومار بازیوں سے کام لیا تھا ۔خود نریندر مودی بھی کہتے تھے پاکستان کو اسی کی زبان میںجواب دینا چاہئے اور یہ کہ اس کو منھ توڑ جواب دینا چاہئے نیز اس کو لو لیٹر لکھنا بند کردینا چاہئے ۔بہر حال اب ان صاحبان ذی وقار کی حکومت ہے اورمیڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے کئی بار جارحیت کا ارتکاب کیا جاچکا ہے ۔لیکن ہر ایسے واقعات کے بعد ہندوستان پاکستان پر الزام لگاتا ہے جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا رہا ہے ۔عالمی فورم پر کسی بھی طرح کی شکایت کے لئے ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہو تی ہے محض الزامات سے کچھ نہیں ہوتا۔بہر حال بات رافیل طیارے کے سودے کی بات چل رہی تھی ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ حکومت ہند کو دفاعی پوزیشن کے استحکام کا خیال آیا ۔لیکن ایک بات تو یہ ہے کہ مودی جی نے ایک منصوبہ میک ان انڈیا بھی بنایا ہےجس کے تحت اندرون ملک سارے سازوسامان کی تیاری کا پروگرام ہے ۔شاید تب تک کے لئے انہوں نے فرانس سے یہ جنگی جہاز خریدنے کا پروگرام ترتیب دیاہوگا۔وہ دن قریب ہے جب اندرون ملک ہی ساری مصنوعات خصوصا جنگی ہتھیار کی تیاری ممکن ہو سکے گی ۔اس سے قبل یہ خبر بھی آچکی ہے کہ ٹاٹا اندرون ملک توپ کی تیاری کے لئے انڈسٹریز قائم کرے گا۔یہ ایک اچھی خبر اور ہم ہندوستانیوں کو احساس برتری دلانے والی بھی ہے۔
ہماری کمی کہیں یا حکومت کی کہ وہ ہمیں وطن پرستی کے نشے میں اتنا غرق کر چکے ہیں کہ ہمیں ساون کے اندھے کی طرح ہرا طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔یہ ترقی کے جھوٹے شور ہمیں کون سی دنیا میں لے جائیں گے اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔بس ضرورت ہے کہ جو لوگ اس کے شکار ہیں وہ ذرا سر کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
کیا کسی کو اس بات سے عدم اتفاق ہو سکتا ہے کہ ملک کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا جانا چاہئے ۔ہر گز نہیں ملک کےسبھی شہری کی پہلی خواہش یہ ہے کہ ملک نہ صرف خود کفیل بنے بلکہ وہ ہتھیاروں کا خریدار بننے کے بجائے اس کا تاجر بنے تاکہ ملک کی معیشت میں قابل لحاظ بہتری آئے ۔اس لئے ہم ایسے کسی بھی معاہدے یا اقدامات کا استقبال کرتے ہیں جو ملک کو خود مختار اور خود کفیل بنائے ۔لیکن یہ خود کفالت اور خود مختاری محض کاغذوں پر نہ ہو بلکہ زمینی سطح پر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہوں۔پچھلی حکومتوں سے عوام کو جو شکایتیں تھیں وہ اپنی جگہ پر لیکن موجودہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کئے ہیں اس کو اس نے کس حد تک پورا کیا ؟ڈھائی سال ہو گئے لیکن عوام کو ابھی تک یہ یقین نہیں ہو پایا ہے کہ حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔جبکہ میڈیا اور مسٹر وزیر اعظم ہمیں دن رات یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ انہوں نے ڈھائی سال میں اتنا کام کردیا ہے جتنا کہ ساٹھ برسوں میں بھی نہیں ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ عوام کو نظر نہیں آرہا ہے ۔ ترقی نظر نہیں آنے کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو تو بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہو رہے ہیں جو اس کے لئے زندگی کا سوال ہے ۔ایسی حالت میں جبکہ کوئی بھوکا اور ننگا ہو اسے یہ کیسے احساس ہو کہ ملک ترقی کرچکا ہے ۔اس نے پاکستان کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے اور چین اس کی جانب سے خوفزدہ ہے اس کی ساری اکڑ فوں نکل چکی ہے ۔اب عوام تو عوام ہی ٹھہرے وہ اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ اس وقت کا انتظار کریں جب ملک کی ترقی اور اس کی خوشحالی انہیں بھی نظر آنے لگے اور اسے دیکھنے کے لئے کسی میڈیا یا وزیر اعظم کی تقریر کی ضرورت نہیں پڑے بلکہ وہ اسکو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔ہند فرانس دفاعی معاہدے کے تناظر میں بھی عوام یہی سب کچھ محسوس کررہے ہیں ۔
0 comments: