زنا بالجبر کے مرتکب

11:03 PM nehal sagheer 0 Comments

 نہال صغیر 

جو لوگ زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں وہ ایک ذہنی اور اخلاقی مرض میں مبتلا ہیں مریض خود سے نہیں شفا یاب ہوا کرتے انہیں صحت مند رکھنے کے لئے کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے ڈاکٹر کی دوا اور اس کی صلاح پر عمل کرکے لوگ صحت مند ہوتے ہیں اور مریض خود سے نہ تو دوا کھاتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر کی صلاح پر عمل کرتے ہیں۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں اس مریض سے دلی لگاؤ ہوتا ہے ۔ مریض بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو موسمی تبدیلی کی وجہ سے سردی زکام یا بخار میں مبتلا ہو تے ہیں یہ معمولی قسم کی بیماری ہے جو ہلکے سے توجہ اور علاج سے جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دو اور قسم کے مریض ہوتے ہیں ایک وہ جو کسی خطرناک موذی مرض کا شکار ہوتے ہیں جن کی زندگی کی امید معدوم ہو چکی ہوتی ہے ۔ ان سے بھی شفقت مہربانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ موت کے انتظار میں کربناکی کو زیادہ محسوس نہ کرسکیں ۔ ایک تیسری قسم مریضوں کو وہ ہوتی ہے جو کسی وبا کا شکار ہوتے ہیں جیسے موجودہ دورمیں ٹی بی چیچک پلیگ وغیرہ ۔ ایسے مریضوں سے بھی ہمیں ہمدردی اور محبت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم انہیں خود سے دور رکھتے ہیں ۔ دور رکھ کر ان کے علاج کی جانب توجہ دیتے ہیں ۔ پلیگ کے پھیل جانے کی صورت میں ہم اپنے اطراف کی صفائی ستھرائی پر توجہ دیتے ہیں ۔ ملیریا اور ڈینگو وغیرہ کے پھیلنے کی صورت میں بھی ہم اپنے اطراف کی صفائی جانب خاص طور سے متوجہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں بھی اخلاقی بگاڑ کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس جانب ہماری توجہ بالکل نہیں ہے ۔ اس بچنے کے لئے حکومت سمیت ہم سب صرف سخت قانون یعنی مریض کے علاج کی وکالت کرتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کی جانب نہ حکومت کی جانب سے سنجیدگی ہے اور نہ ہمارا ذہن اس جانب ہے ۔ 
زنا بالجبر کے معاملہ میں عام طور پر ام الخبائث کا رول بھی بہت اہم رہا ہے ۔ بلکہ اگر غور کیاجائے اس کا رول سب سے زیادہ ہے ۔ لیکن حکومت بہار اگر اس پر پابندی لگاتی ہے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس پابندی کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں ۔ غور کیجئے کئی سال قبل دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنسی کی حمایت میں بھی فیصلہ دیا تھا ۔ ساٹھ سال یا اس سے اوپر کے افراد بھی زنا کے مرتکب ہو رہے ہیں اور وہ بھی سال دو سال یا چھ ماہ کی بچی کے ساتھ یہ کیا ہے بیماری اور نفسیاتی عارضہ نہیں تو اسے کیا کہیں گے ۔ اس کی اور بھی وجوہات ہوں گی جس کو یہاں مختصر سے مضمون میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ مغرب نے یقینا اس پر تحقیق کی ہوگی لیکن اس پر وہ عمل نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہے وہ آزادگی یا آوارگی کے سب سے بڑے مبلغ ہیں ۔ خواہ اس آزادی سے معاشرہ تباہ ہوجائے جیسا کہ مغرب میں ہو رہا ہے ۔ اس کی اہم وجہ معاشرے میں جنس زدگی کا وہ ماحول ہے جس میں ہم اور آپ جینے کو مجبور ہیں ۔ یہاں اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ضعیف اشخاص کی جانب سے جنسی درندگی کے واقعات کیوں ظہور پذیر ہو رہے ہیں ۔ رشتوں کا تقدس کیوں ختم ہو گیا ہے ؟ اس پر تحقیقی کتاب لکھنے اور اس کی روشنی میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ برصغیر ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایسے واقعات میں اضافہ کا سبب یہاں کی تہذیب سے ہم آہنگی اس سے دیوانگی کی حد تک لگائو اور اسلامی معاشرے سے دوری ہو سکتا ہے ۔ میں نے پہلے ہی لکھا ہے کہ چھوٹے سے مضمون میں اس پر کھل کر گفتگو نہیں ہو سکتی ۔
معاشرے میں پھیلی ہوئی زنا بالجبر کی بیماری وبائی صورت اختیار کرگئی ہے ۔ حال یہ ہے کہ اس سے معصوم اور انتہائی کم عمر کی بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ نہ گھر میں اور نہ با ہر لیکن ہم صرف نعرہ لگاتے رہتے ہیں کہ ہمیں بدلنا چاہئے ۔ہمیں سوچ کو صحت مند بنانا چاہئے ۔ یہ وہی بات ہوئی کہ معاشرے میں پلیگ ملیریا اور ڈینگو پھیل رہا ہو لیکن ہم صرف نعروں پر اکتفا کرتے رہیں اور یا صرف اس مریض کے علاج کی جانب توجہ دیئے رہیں ۔ اس سے تو صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ مریض بچ جائے لیکن معاشرے کا کوئی اور اس کا شکار ہو سکتا ہے تاوقتیکہ ہم اپنے آس پاس کی صفائی کی جانب توجہ نہ دیں ۔  ہم نعرہ لگاتے رہیں کہ ہمیں بدلنا چاہئے اس کچھ بہتری نہیں ہونے والی ڈاکٹر موجود ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مریض اور اس کے مرض کی وجہ بھی سامنے ہے اور مریض کی بہتری چاہنے والے ہملوگ بھی موجود ہیں ضرورت ہے کہ ہم خالق کائنات کے حکم کے مطابق معاشرے کی تشکیل کریں عریانیت اور فیشن نیز بلا ضرورت بلا جواز خواتین کی بھڑکیلے لباس میں باہر مردوں کے ساتھ گھومنے کی مذمت کریں اس کو برا جانیں ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے ارباب اقتدار کے ذہنوں میں یہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہیں کہ جب تک مرض کے اسباب کو ختم نہیں کیا گیا خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہو گا ۔ کیوں کہ ہم اس کفرستان میں اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے اپنی ماں بہن بیٹی اور بیوی پر تو الہٰی قوانین کا نفاذ کرہی سکتے ہیں۔ کیا موجودہ معاشرہ جنس زدگی کا شکار نہیں ہے اسی جنس زدگی نے تو یہ سب مصیبتیں کھڑی کی ہیں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر اللہ نے قرآن میں مومن مردوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور کیا اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے بھی زیادہ کوئی اپنے نفس پر قابو رکھ سکتا ہے اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی نامحرم خاتون کا ہاتھ نہیں پکڑا اور اگر کوئی خاتون ایسے لباس میں آجاتی جس سے اس کی جسمانی ساخت نمایاں ہورہے ہوں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نظریں پھیر لیا کرتے ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ سعودی عرب سمیت اور مسلم ممالک میں یہ جنسی بیماری انتہائی کم کیوں ہے اور امریکہ جیسے لبرل آزاد خیال اور قانون پر عمل کرنے میں اول نمبر رہنے والے کے یہاں عورتوں کے خلاف دنیا بھر سب سے زیادہ جرائم کیوں ہوتے ہیں ۔ اگر ہمارا لبرل آزاد خیال طبقہ یہ سوچتا ہے کہ عریانیت فحاشی اور ایسے لباس پہن کر خواتین کا با ہر نکلنا آزادی نسواں کی تعریف میں آتا ہے اور اس پر پابندی کے بجائے سماج کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تو احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے ۔ اس سوچ کے ساتھ یہ کبھی نہیں رکنے والا ۔ اس لئے اب بھی وقت ہے کہ دوسروں کی سوچ کو بدلنے اور اللہ کے قانون سے انحراف کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے صحیح علاج کی طرف قدم آگے بڑھائیں ۔ 


0 comments: