مسلم خواتین کے ہمدرد وں کے درپردہ مقاصد کیا ہیں؟
نہال صغیر
بالآخر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کے خلاف اپنی رائے پیش کردی ۔حکومت کا بھی موقف تین طلاق کے خلاف ہے ۔اسے بھی بھوت سوار ہے کہ طلاق ثلاثہ پرپابندی عائد ہو۔جبکہ یہ مسلمانوں کا داخلی اور مسلم پرسنل لاء کا میٹر ہے جس میں نہ تو عدالت اور نہ ہی حکومت کو دستوری طور پر یہ حق ہے کہ مداخلت کرے ۔حلف نامہ جسے ایک پرجوش مسلم صحافی نے مکاری کا پلندہ کہا ہے میں اس نے اپنی رائے کو ایسے پیش کیا ہے جیسے کہ مرکزی حکومت اسلام پر اتھارٹی ہو ۔بقول شکیل رشید کے ’’حکومت نے 28 صفحات پر مشتمل جو ’حلف نامہ ‘دائر کیا ہے اسے پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ’مودی سرکار‘خود کو ’اسلامی شریعت ،فقہ اور شرعی مسائل کا ان علماء اور دانشوروں سے بھی بڑا ماہر سمجھ رہی ہے ‘جو برسہا برس کے مطالعے کے بعد شرعی قوانین اور فقہ میں درک حاصل کرتے ہیں ۔۔۔یعنی مودی سرکار بخود ،مفتی ،فقیہہ اور عالم بن بیٹھی ہے !‘‘اسلامی قوانین حالات زمان و مکان سے اتنی مطابقت رکھتے ہیں کہ اس میں آج بھی اور آئندہ بھی کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ صرف ہمارا ایمان و عقیدہ ہی نہیں بلکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔یہاں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ خواہ آپ کی آپس میں نہیں بن رہی ہو لیکن آپ زہر کی طرح صرف قانونی پیچیدگیوں اور دشواریوں کی وجہ سے زندگی گزارے جائیں ۔ طلاق کے مسائل جو کہ قومی عدالتوں کے ذریعے فیصل ہوتے ہیں اس کے عجیب و غریب معاملات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔شادی کے دوسرے یا تیسرے دن میاں بیوی علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں عدالت کی پناہ میں جاتے ہیں اور فیصلہ اس وقت آتا ہے جب دونوں عمر کے اس پڑاؤ میں پہنچ جاتے ہیں جب سفر آخرت کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔ایسے ایک نہیں درجنوں واقعات ہیں اور آج بھی کسی کو کوئی شک ہو تو فیملی کورٹ میں مقدمات کی حالت دیکھ لے یا وہاں کے وکلاء سے حالات جان لے ۔لیکن ہمارے پاس ایسا نظام ہے کہ بہت آسان دو چار دن سے دو چار مہینوں میں ایسے قضیہ کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور زندگی کو جہنم زار بنائے بغیر مرد و زن اپنی زندگی کو خوش گوار بنا نے کیجانب دوبارہ سفر شروع کردیتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے جو پرپگنڈہ مشینری کام کررہی ہے وہ حسد کا معاملہ ہے ۔جس طرح حاسد کسی شخص کی ترقی اور خوش حالی سے جلن محسوس کرتے ہوئے اسکی تنزلی کی خواہش کرتا ہے ٹھیک یہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ مسلمانوں کے یہاں اتنی غربت اور مفلوک الحالی کے باوجود خاندانی نظام اتنا خوش گوار کیوں ہے ؟ سو بجائے اس کے یہ کہ مسلمانوں کی اس خوش گواری کی تلاش کرکے اس پر ملک کے نظام کو چلایا جاتا تاکہ دوسری قومیں بھی اپنے گھروں میں خوشیاں لا سکتیں ۔اس کے الٹ مسلمانوں کو بھی اسی بگڑے ماحول کا حصہ بنانے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے کہ ان کا خاندانی نظام بھی تہہ و بالا ہو جائے ۔ان کے یہاں بھی کوئی طلاق کا معاملہ ہو تو طلاق حاصل کرنے میں ان کی زندگی کے قیمتی ایام عدالتوں کے چکر کاٹتے اور وکلاء کی جی حضوری کرتے برباد ہو جائیں۔
ملک میں ہر دن کچھ نہ کچھ ہنگامہ بپا رہتا ہی ہے ۔یہ ہنگامے یوں ہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں کسی خاصا مقصد کے لئے بپا کیا جاتا ہے ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ملک میں کچھ سیاسی طوفان جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں ،میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو اپنی سوچ کے مطابق سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔یہاں خاص طور سے مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی روایت کافی پرانی ہے ۔آجکل مسلمان اور دلت اس کے خاص نشانہ تھے لیکن اچانک سرجیکل اسٹرائیک کی خبروں نے ساری خبروں کو پس منظر میں ڈال دیا ۔ہمارے یہاں زبانی حب الوطنی یا وطن پرستی کا اتنا زور ہے کہ اس کی طوفانی موجوں میں بڑی بڑی خبریں بھی دب جاتی ہیں ۔اس سے قبل ملک عزیز میں دو خبریں میڈیا کی زینت ہوا کرتی تھیں ایک تو ذاکر نائک کو کسی بھی طرح دہشت گردوں کا ہمنوا یا اس کا سرغنہ قرار دینے کی کوشش اور دوسرے مسلم پرسنل لاء کو کسی بھی طرح دیش نکالا دینے کا معاملہ ۔کچھ اسلام سے ناواقف ، جاہل اور بے دین شوہروں کی ستائی ہوئی خواتین کے ایک گروہ نے جن کو دین بیزار اور اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے نے پچاس ہزار خواتین کی دستخط کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کے خلاف ایک عرضداشت بھی تیار کرکے متعلقہ حکام کے حوالے کئے تھے ۔ان بے چاریوں کو جن سے دستخط لئے گئے یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ انہوں نے جن دستاویزات پر دستخط کئے وہ کس ضمن میں ہے ۔لیکن ان سے دستخط لے لئے گئے جسے میڈیا میں بہت زیادہ مشتہر کیا گیا کہ مسلم خواتین خود پرسنل لاء کے خلاف ہیں ۔جس کے بارے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کا بیان بھی آیا کہ میڈیا بھرم پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔
وطن عزیز میں مسلمانون کے بعض ہمدردوں کی عجیب کہانی ہے کہ وہ فسادات وغیرہ میں یا حالیہ گؤ رکشکوں کے تانڈو پر تو زبان نہیں کھولتے جن میں خواتین کو خاص نشانہ بنایا گیا لیکن وہ نکاح ،طلاق اور وراثت کے قانون کا حوالہ دے کر مسلم خواتین کے غم میں سینہ کوبی کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ان کا نشانہ سیدھے سیدھے اسلام ہوتا ہے ۔اس گئی گزری حالت میں بھی مسلمان دین سے کلی طور پر دستبردار ہو نے کو تیار نہیں ہے اور یہ ایک سبب ہے جس سے دشمنان اسلام کو ازحد تکلیف ہے ۔جبکہ آج بھی مسلم معاشرہ میں برائیوں کا تناسب دوسری قوموں سے کم ہے اور اسلامی تعلیمات کی دین ہے ۔اسلام سے تعلق رکھنے کا ایک فائدہ جو ہمیں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تصور آخرت کی یاد ہر وقت تازی کی جاتی رہتی ہے ۔ذرا ذرا سی بات پر ہماری سماعت سے یہ بات ضرور ٹکراتی ہے کہ میاں اللہ سے ڈرو اور کیا تمہیں مرنا نہیں یا یہ کہ آخرت میں اللہ کو کیا جواب دوگے ۔یہ باتیں مسلمانوں کو غیر محسوس طریقے سے برائیوں سے روکتی ہیں ۔یہاں اس پر زیادہ گفتگو نہ کرکے ہم نکاح طلاق اور وراثت پر آتے ہیں ۔اسلام نے طلاق ایک آپشن کے طور پر دیا ہے کہ اگر زوجین میں بات نہ بنے تو وہ زندگی کو جہنم بنانے اور ازدواجی زندگی میں تلخی آنے کے سبب تناؤ کا شکار ہونے کے بجائے اپنی اپنی راہیں جدا کرلیں اور وہ کسی اور سے نکاح کرلیں ۔اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ زوجین ایک دوسرے سے علیحدگی کے لئے قتل جیسے سنگین جرائم کے ارتکاب سے بچ جاتے ہیں جیسا کے ہمارے ہم وطنوں میں یہ وبا عام ہے ۔دوسرے یہ کہ مروجہ عدالتی نظام کی لیٹ لطیفی میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام کی بربادی سے بچ جاتے ہیں ۔کئی ایسے مقدمے نظروں سے گذرے جب زوجین نے علیحدگی کے لئے عدالت سے رجوع کیا اور اس مقدمہ کا فیصلہ بیس اور پچیس سال کے بعد یا ان میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعد فیصلہ آیا ۔ایسی پوزیشن میں کیا اسلام کا نظام طلاق ان کے لئے رحمت کا سبب نہیں ہے ؟
ایک اور معاملہ وراثت کا ہے جو دین مخالف گروہ کا نشانہ بنتا ہے اور وہ ہے وراثت کا کہ اسلام نے عورت کو وراثت میں لڑکوں کی نسبت نصف کیوں حصہ کیوں متعین کیا ۔لیکن ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اسلام نے تو عورتوں کو وراثت میں یہ حق جو ان کے بقول نصف ہے آج سے چودہ سوسال پہلے ہی دیدیا ۔تم نے یا تمہارے آقاتو اسے آزادانہ معیشت اور اس پر اس کے مالکانہ حق کو آج بھی تسلیم نہیں کررہے ۔صرف تمہیں اسلام کو ہی نشانہ بناناہے اور وہ تم کررہے ہو لیکن ہم کواسلام نے جو دیا ہم اس پر مطمئن ہیں اور اس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر بھی آتے ہیں جو دوسری قوموں میں ناپید ہے ۔تمہاری جانب سے طلاق پر بہت واویلا مچایا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے عورتوں پر ظلم ہوتا ہے لیکن کیا تمہارے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے کہ طلاق کا رجحان مسلمانوں میں زیادہ ہے ۔ہم جب اپنے اطراف کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کا رجحان صرف میڈیا میں ہی نظر آتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کا رجحان بہت کم ہے اور اس کی جو تھوڑی بہت تعداد بڑھی بھی ہے اس کی وجوہات موجودہ دور کے حالات ہیں ۔
اچھی بات یہ ہوئی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خواتین نے بھی دین بیزار خواتین کی طرح جواب دینے کی کوشش شروع کردی ہے ۔جس کے لئے انہوں نے دستخطی مہم شروع کردی ہے ۔یہ ایک اچھی شروعات ہے ۔اس سے ان لوگوں کو بہتر جواب ملے گا جو پچاس ہزار کی دستخط سے مسلم پرسنل لاء کے خاتمہ کا خواب دیکھ رہے تھے ۔انہیں پتہ نہیں کہ مسلمانوں کی آبادی پچاس ہزار نہیں بلکہ بیس کروڑ سے زائد ہے اور نصف آبادی جس کی پچاس ہزار کی تعداد پر وہ خوشیاں منارہے تھے انکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ نصف خواتین کی تعداد بھی دس کروڑ سے زائد ہے ۔اس لئے ایسے دین بیزار لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ ملک اور عوام کے اصل حالات پر اپنی توجہ مرکوز کریں تاکہ ملک کے عوام کو راحت و سکون میسر آسکے ۔یہ فرضی اور جعلی مسائل سے ملک کی عدلیہ اور انتظامیہ کو الجھاکر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے ۔جس ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے آبادی کا تہائی ہوں ۔جہاں روزانہ پانچ ہزار بچے بہتر غذا اور ضروری ادویہ کی کمی کے سبب مرتے ہوں وہاں ایسے فرضی اور جعلی مسائل کو عوام کے سامنے لانا اور انہیں اس میں الجھانا ملک سے غداری کے باب میں ہی لکھا جائے گا خواہ حکومت یا انتظامیہ اس کے لئے ایسے لوگوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلائے یا نہیں ۔
مسلم خواتین کی حمایت اور ان کی ہمدردی میں ان لوگوں کی اکثریت ہے جن کی زبانیں اس وقت گنگ ہو تی ہیں جب مسلم خواتین پر بجنور میں ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔جب احمد آباد کی سڑکوں پر ان کا برہنہ پیریڈ کرایا جاتا ہے ۔جب حاملہ خاتون کا پیٹ چاک کرکے بچہ کو ترشول پر اچھالا جاتا ہے ۔بھلا ایسے لوگ مسلم خواتین کیا کسی بھی مذہب ذات کی خواتین کے لئے ہمدرد نہیں ہو سکتے ۔حقیقت بھی یہی ہے ۔آپ دیکھ لیں کہ مسلم خواتین کی ہمدردی میں مگر مچھ کے آنسو بہانے والے لوگ مسلم اور دلت خواتین کے ساتھ ہورہے ناروا سلوک کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کبھی نہیں کرتے ۔انہیں صرف مسلم خواتین کا ہی غم کیوں کھائے جارہا ہے ۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ لوگ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ اس بہانے سے اپنے جیسا ہمارا معاشرہ بھی بنانا چاہتے ہیں ۔دو باتیں یہاں خاص طور سے قابل توجہ ہیں ۔اول یہ کہ مسلمانوں میں تین طلاق کا جو اتنا شور مچایا جارہا ہے کیا واقعی مسلمانوں میں اس کی تعداد یا تناسب اس قدر ہے کہ اس پر شور مچایا جائے ۔میری اپنی یادداشت اور پینتیس چالیس سال کے عرصہ میں پورے خاندان اور اطراف میں صرف دو تین ہی طلاق کے واقعات ہوئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہی پوزیشن ہر جگہ کی ہو گی ۔یہ کوئی ایسی تعداد نہیں کہ اس پر اتنا واویلا مچایا جائے ۔دوم یہ کہ اسلامی شرعی قوانین ملکی عدالت کا بوجھ کم کرتے ہیں ۔اگر مسلم پرسنل لاء نہیں ہوتا تو کم از کم تیس فیصد مزید مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہوتے ۔بجائے اس کے کہ مسلم پرسنل لاء کو اس ملک کے لئے نیک فال سمجھ کر اس کو تقویت دی جاتی تاکہ ملک میں عدالتی نظام کو آسانی سے چلایا جاسکتا ۔لیکن وہ حسد ہی کیا جو کسی خیر کی گنجائش چھوڑے۔
اللہ خیر کرے,سوپریم کوڑٹ میں بھی سنگھ خیال کے ہیں
ReplyDelete