پتہ کرو، کبوتر مسلمان ہے یا ہندو؟
انڈیا میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک کبوتر گرفتار کیا ہے جو پاکستان سے دشنام بھرے پیغام لے جا رہا تھا۔
ہندوستانی مصنف شوون چودھری واقعات کی اس بوالعجبی کو ایک طنز نگار کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
میں
کہوں گا کہ کبوتر کے معاملے میں ساری غلطی موبائل سروس فراہم کرنے والے کی
ہے۔ وہ زیادہ خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ دہلی میں ہمارے گھر تو صورت
حال یہ ہے کہ ہم صرف اسی وقت بات کر سکتے ہیں جب ہم کسی خاص کمرے کی کھڑکی
سے ہاتھ باہر نکال کر فون پکڑے کھڑے رہیں۔
اک ہم ہی نہیں تنہا، اتوار
کی صبح کئی پڑوسیوں کو گلیوں میں فون کرنے کی کوشش کرتے دیکھنا عام بات
ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ ایک
ایسے زمانے میں جو روز بروز بے رحم ہوتا جا رہا ہے، ہم ایک دوسرے کے قریب
لائے جا رہے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کیوں چند پاکستانی محبانِ
وطن نے انڈیا کے وزیر اعظم مودی کے نام پیغام کبوتر کے گلے میں ڈال کر
سرحد پار روانہ کر دیا۔ اس کی وجہ ضرور یہ رہی ہوگی کہ ان کا فون نہیں کام
کر رہا۔
پیغام میں لکھا ہے: 'مودی، ہم لوگ وہی 1971 والے لوگ نہیں ہیں۔ آج بچہ بچہ انڈیا سے لڑنے کو تیار ہے۔'
ایسا
لگتا ہے کہ وہ چیزوں پر غور نہیں کرتے۔ فی الوقت انڈیا اور پاکستان کے
درمیان شدید کشیدگی ہے اور اس طرح کے بہت سے پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہے۔
جذبہ انتقام بیدار کیا جا رہا ہے۔ منھ توڑ جواب دیا جا رہا ہے۔ سفارت کار
اپنے الفاظ کے نشتر کو آب دے رہے ہیں۔ اور وقتا فوقتا جوہری اسلحے کا بھی
ذکر آ جاتا ہے۔
یہ آخری چیز قدرے پریشان کن ہے کیونکہ دہلی اور لاہور
اتنے قریب ہیں کہ اگر ان میں سے کسی پر آپ جوہری اسلحہ استعمال کرتے ہیں
دوسری جگہ لاکھوں لوگ مر جائیں گے۔ یہ ایسا ہی کہ آپ ساتھ کھڑے شخص پر قے
کرنے کا ارادہ ظاہر کریں۔
لیکن پیغام رسانی کے اور بھی بہتر وسیلے تھے۔
سب سے اچھا طریقہ ہمارے کسی انگریزی چینل پر آنا تھا جہاں تقریبا دو ہفتے قبل جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔
ایک
میزبان تو جنگی پوشاک میں بھی دیکھا گيا ہے۔ دوسرے کو ہر ہفتے کئی دورے
پڑتے ہیں کیونکہ اس سے مکرو فریب برداشت نہیں ہوتا۔ اس کا غصہ تو یادگار
ہے۔ اس کا سوٹ پھول جاتا ہے۔ اس کے بال اپنے آپ لہرانے لگتے ہیں۔ آنکھوں
میں انگارے دہکنے لگتے ہیں۔
اور قوم سانس روک کر دیکھ رہی ہے کیونکہ
یہ دو ہی طرح سے ختم ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ لائیو ٹی وی پر پھٹنے والا تاریخ
کا پہلا شخص ہوگا یا پھر اگر اس سے مزید برداشت نہیں ہوتا تو وہ اپنی میز
پر کود کر رائفل اٹھائے گا اور اپنے کار ڈرائیور کو کہے کہ سیدھے اسلام
آباد لے چلو۔
پاکستان کے کبوتربازوں نے یہ محسوس کر لیا ہو گا کہ یہ
ان کے نفرت انگیز پیغامات بھیجنے کا منطقی وسیلہ ہے۔ پاکستان کو ان کی
خدمات کی ضرورت ہے اور اس محاذ پر ان کی شکست ہو رہی ہے۔
اس طرح کے
ہر ایک شو پر بس برائے نام کسی پاکستانی کو رکھ لیا جاتا ہے جن میں زیادہ
تر ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں جن کے جوڑ جوڑ ہل چکے ہوں۔ انھیں جنگ
جیتنے کی امید ہو سکتی ہے لیکن دریں اثنا وہ ٹی وی شوز پر شکست سے دوچار
ہیں۔
اگر کبوتربازوں کو پاکستان کی جانب سے پیغام بھیجنے کی ضرورت تھی تو یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی سخت ضرورت تھی۔
اس
کے برعکس انھوں نے 'دہشت گرد کبوتروں' کو تعینات کر دیا۔ یہ بات قابل غور
ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو کبوتر تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہم پر پے در
پے حملہ کر رہے ہیں اور وہ دور تک اندر چلے آئے۔
دونوں حملے پنجاب
کے دارالحکومت امرتسر سے بہت قریب تھے جہاں مرد مرد ہے اور گھی مکھن بہتے
ہیں۔ دہشت گردوں نے واضح طور پر طویل مدتی راہ اپنائی ہے۔
ان کا
طریقہ کار ترقی کر رہا ہے۔ پہلے مغلظات بھرے پیغام غباروں سے بھیجے گئے۔
پھر ایک کبوتر کو پکڑا گیا جس کے پروں پر اردو زبان میں پیغام لکھے تھے۔
جب
ان پیغامات کا ترجمہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس پر تو ہفتے کے دنوں کے نام
لکھے ہیں۔ اس طرح اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل تھا سوائے اس کے کہ
جہادیوں کے پاس کاغذ کی کمی ہو گئی ہے۔ دوسرے حملے کے وقت تک 'دہشت گردوں'
کو کاغذ ہاتھ لگ گئے تھے جس کا انھوں نے پیغام لکھنے کے لیے استعمال کیا۔
اس
درانداز کبوتر کو پنجاب پولیس نے روکا اور پولیس ڈائری میں اس کا اندراج
'مشتبہ جاسوس' کے طور پر کیا گيا۔ اور اسے فی الحال ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے
میں پولیس کی سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
پٹھان کوٹ کے پولیس افسر
راکیش کمار نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 'پولیس اس معاملے کی
سنجیدگی سے جانچ کر رہی ہے۔ ہم نے یہاں چند جاسوس پکڑ رکھے ہیں۔ یہ حساس
علاقہ ہے کیونکہ یہ جموں سے قریب ہے اور جہاں دراندازی بہت عام ہے۔'
قسمت کی خوبی دیکھیے کہ انڈیا میں پولیس کو جنگلی جانوروں کا بھی بہت تجربہ ہے۔
کیونکہ اترپردیش میں ایک معروف سیاست داں کی بھینس جب
اغوا ہو گئی تو 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور دو اعلیٰ افسران کو تفتیش
پر تعینات کیا گیا۔
حالانکہ ان کی شناخت کے بارے میں بعض سوالات اٹھے
تھے تاہم انھوں نے ایک ہفتے میں بھینس بازیاب کروا لی۔ اس امکان سے انکار
نہیں کیا جا سکتا کہ بھینس بدل گئی ہو گی لیکن کیس کو بند کر دیا گیا۔
اس
طرح ہم امید کر سکتے ہیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ 'جہادی کبوتروں' کے خطرے
سے نمٹ لیں گے۔ فی الحال انھوں نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وہ مختلف قسم کے سوالات پر غور کر رہے ہیں۔ جیسے:
- کبوتر مسلمان ہے یا پھر ہندو؟
- کیا اس میں کسی طور گائے کے گوشت کا تو معاملہ شامل نہیں؟
- اگر کبوتر کو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے تو کیا وہ گواہوں کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں کرے گا؟
- کیا اسے انڈیا کے کبوتر سے کسی قسم کی مدد ملی ہے؟
- کیا ہمیں فضائیہ کا استعمال کرنا چاہیے؟
- یہ جتنا کھانا کھا رہا ہے اس کا بل کون ادا کرے گا؟
ہم اپنی سکیورٹی فورسز کی عزت کرتے رہیں گے نہیں تو وہ ہمیں گولی
مار سکتے ہیں۔ لیکن کبوتر کے بارے میں بھی تو ذرا سوچیں۔ یہ معصوم کبوتر جو
کبھی 'امن کے علمبردار' ہوتے تھے اب جہادی ان کی بھی برین واشنگ کر رہے
ہیں۔
کل جب ہم پڑوس کے پارک میں ٹہلنے کے لیے نکلیں گے تو ہوا خوری
کے ساتھ فون کرنے کی بھی کوشش کررہے ہوں گے، ایسے میں ہمیں کیسے پتہ چلے گا
کہ کون سے کبوتر پر بھروسہ کرنا ہے؟
ہم اچھے اور پاکستان کی حمایت
کرنے والے کبوتروں میں تمیز کیسے کریں گے؟ سب تو ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔
اور لندن اور نیویارک میں رہنے والو ہم پر ہنسنے سے پہلے ذرا سوچ لو کہ
تمہارے پاس بھی کبوتر ہیں۔
0 comments: