خطرناک مجرموں کے جیل سے باہر آنے کا سلسلہ اورشہاب الدین کی ضمانت کی منسوخی
نہال صغیر
پرشانت بھوشن جو کہ ایک ماہر قانونداں ہیں اور جن کی شناخت ایک سیکولر اور روادار شخصیت کے طورپر ہے ،کو شہاب الدین کی ضمانت کی منسوخی میں کامیابی مل گئی ۔یاد رہے کہ یہ وہی پرشانت بھوشن ہیں جنہیں یعقوب میمن کی سزائے موت کو سزائے عمر قید میں تبدیل کرانے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔حالانکہ خبروں کے مطابق انہوں نے بڑی مشقت کی تھی ۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر شہاب الدین کو ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے سے ایسی کیا آفت آگئی تھی یا امن و قانون کا ایسا کیاپیچیدہ معاملہ درپیش آگیا تھا کہ سپریم کورٹ میں ان کی ضمانت کی منسوخی کے لئے عرضی دی گئی ۔اگر غور سے دیکھیں تو صرف ایک وجہ کھلے طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا نام شہاب الدین ہے ۔وہ اسیمانند ،مایا کوڈنانی یا بابو بجرنگی نہیں ہیں ۔بس یہی ایک وجہ ہے کہ شہاب الدین کی ضمانت رد کردی گئی ۔کوئی لاکھ کچھ کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی عدلیہ دباؤ اور عوامی ضمیر یا عقیدے کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگی ہے اور اس کی تفصیل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کئی بار اس کے بارے میں لکھا اور کہا جاچکا ہے ۔شہاب الدین کا معاملہ تو بہت چھوٹا ہے اس سے زیادہ خطرناک مجرمین کو ضمات مل جاتی ہے وہ جیل جا کر ایسے باہر آتے ہیں جیسا کسی رشتہ دار سے ملنے گئے ہوں ۔
شہاب الدین کی ضمات کے رد ہونے پر ہمارے کچھ احباب کہتے ہیں کہ انہیں کیا ضرورت تھی ایسے ویسے بیانات دینے کی یا اتنے شاندار قافلہ کے ساتھ جیل سے گھر تک کا سفر طے کرنے کی جس میں بارہ یا تیرہ سو گاڑیاں شامل تھیں ۔ایسے احباب اور بہی خواہوں کو میرا جواب یہ ہے کہ ان کی یہ سوچ اور ایسی باتیں ان کے خوف کی غماز ہے جسے آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں میں بٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آج حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ایسے کسی بھی معاملہ میں ہمارے ہی درمیان کے چند لوگ بغیر کچھ سمجھے اور جانے بوجھے اپنے ہی لوگوں کو مطعون کرنے لگتے ہیں ۔جیسے شہاب الدین کے کسی بیان کے بارے میں ہے کہ انہوں نے غلط بیان دیا ۔اس کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میڈیا کی ہرزہ سرائی کی کہانی جاننے اور اسے روز برا بھلا سنانے کے باوجود افسوس ہے کہ آپ ایسے کسی بھی بیان کو من وعن سچ جان لیتے ہیں ۔ دوسری یہ کہ بارہ یا تیرہ سو گاڑیوں کے قافلہ والی بات ہے تو یہ گاڑیوں کا قافلہ شہاب الدین نے نہیں انتظام کیا تھا بلکہ یہ انکے چاہنے والوں نے ان سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر کیا تھا اور یہی باتیں دشمنوں کو بری لگی کہ مسلمانوں کا کوئی فرد اتنی مقبولیت اور ہردلعزیزی کیوں کر حاصل کر گیا۔بس دشمنوں کی حسد کی جلن سے ہمارے بعض احباب بھی متاثر ہو گئے ۔ لیکن اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ وہی ہیں جنہیں حالات کی زیادہ جانکاری نہیں یا وہ جو خوفزدگی کا شکار ہو گئے ہیں اور اب وہ بس گیدڑوں کی طرح سو سال کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔جبکہ ہماری نوجوان نسل ٹیپو سلطان کی اس بات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہو تی ہے ۔مشہور ہے کہ بزدل روز مرتا ہے لیکن بہادر اور جوانمرد افراد صرف ایک بار مرتے ہیں ۔اس سبق کو ہماری نئی نسل بہت اچھی طرح یاد کرچکی ہے ۔
شہاب الدین کی ضمانت کی منسوخی پر زیادہ بات نہیں کرتے ہوئے ہم سوشل میڈیا پر نوجوانوں کے تاثرات میں سے ایک نوجوان کا تاثر پیش کرتے ہیں کہ وہ کیا محسوس کرتا ہے ۔یہ صرف ایک نوجوان کی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل میں سے اسی فیصد سے زائد کی فکر یہی ہے ۔وہ حالات سے مرعوب نہیں ہے ۔وہ مصلحت پسند بھی نہیں ہے بلکہ مومنانہ حکمت عملی کی بات کرتا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔شہاب الدین معاملہ پر پرشانت بھوشن جیسے سیکولر فرد کی جانب سے ایسا قدم اٹھانے کی وجہ سے ہم میں سے اکثر متحیر ہیں کہ یہ انہوں نے کیا کیا ؟آپ بھی حیرت زدہ نہ ہوں کہ یہ کیسی بات کررہا ہوں ۔پرشانت نے جو کیا وہ ایک ذمہ دار شہری اور ایک ماہر قانون دان کے فرائض میں شامل ہے ۔چلئے ٹھیک ہے لیکن شہاب الدین سے پہلے بھی کئی افراد ضمانت پر رہا ہو کر آئے ہیں ۔کئی ایک تو سزا بھی کاٹ رہے ہیں اور پیرول پر باہر آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔ہمارے یہاں تو ایک سیاسی پارٹی کا صدر تک باہر ایسے گھوم رہا ہے جیسے وہ ایک شریف النفس انسان ہو لیکن یاد کیجئے اسے اپنی ریاست سے با ہر کردیا گیا تھا ۔کئی مقدمات میں اب بھی اس کا نام شامل ہے ۔پرشانت بھوشن یا ان جیسے کسی ذمہ دار شہری اور ماہر قانون داں نے ان معاملات میں اپنے فرائض کو کیوں ادا نہیں کیا ؟ فرض کی ادائیگی کی یاد صرف کسی مسلمان کے معاملہ میں ہی کیوں آئی؟بہر حال سوشل میڈیا پر ایک نوجوان اصلاح الدین انصاری کے دل کی آواز کو پڑھئے اور خود فیصلہ کیجئے۔
’’پیارے پرشانت بھوشن جی ۔ہدیہ خلوص
سب سے پہلے تو آپ کو بہت بہت مبارکباد کہ آپ شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کروانے میں کامیاب ہوئے ۔ ملک آپ کی وکالت کی قابلیت سے بخوبی واقف ہے ۔آپ ایک قابل اور ذمہ دار وکیل ہیں ،اس میں کوئی دو رائے نہیں۔شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کروانے کے ساتھ ہی لوگوں کی امیدیں آپ سے بڑھ گئی ہیں ۔انصاف کی آس لگائے بہت سے متاثرین آپ کی جانب پر امید نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔تاہم یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ہر کیس کی پیروی اور خطرناک مجرم کی ضمانت کی مخالفت کریں پھر بھی شہاب الدین جیسے ہی کچھ خطرناک اور معروف کیس کی پیروی کرنے کی توقع ہم آپ سے کرتے ہیں۔مجھے سارے نام تو یاد نہیں پھر بھی کچھ کا ذکر میں کردیتا ہوں ۔(۱)بنسل خاندان خودکشی کیس جس میں ایک مکمل خاندان ختم ہو گیا جس کی خودکشی نوٹ میں سی بی آئی پر تشدد کے سنگین الزامات ہیں اور ایک بڑی پارٹی کے لیڈر کا بھی نام ہے۔(۲) سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس میں ضمانت پر رہا اسیمانند کی بھی ضمانت منسوخ کرنے کی جنگ آپ سپریم کورٹ میں لڑیں گے ہمیں امید ہے۔(۳) مدھیہ پردیش کا سرخیوں میں چھائے رہے ویاپم گھوٹالہ جس کے شکار ہزاروں طالب علم اور ان کے والدین ہوئے اس کے ملزم سابق وزیر لکشمی کانت شرما کی بھی ضمانت کے خلاف آپ سپریم کورٹ میں پٹیشن لگائیں گے ایسی ہم امید کرتے ہیں ۔(۴)2002 کے گجرات فسادات میں عمر قید کی سزا پارہے دو خونخوار ملزم مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کو بھی دوبارہ جیل بھیجنے کیلئے آپ سپریم کورٹ جائیں گے ایسی ہمیں امید ہے۔(۵) ممبئی فسادات پر مسٹر کرشنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ 25 سال بعد بھی مہاراشٹر اسمبلی میں پیش نہیں ہو سکی ،اچھا ہوتا کہ آپ اسے بھی سپریم کورٹ میں چیلنج دیتے۔چلیں پہلے نہیں دیا تو اب دے دیجئے ۔آخر ان فسادات میں سینکڑوں لوگوں کی جان گئی تھی۔
مجموعی طور پر ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ جو تیاری اور جد و جہد آپ نے شہاب الدین کی ضمانت کی درخواست مسترد کروانے میں دکھائی ہے وہی تیاری آپ مستقبل میں ہر قومی سطح کے دبنگ ،خطرناک جرم اور مجرم کی مخالفت اسی طرح کریں گے ایسی ہمیں امید ہے ۔پھر چاہے وہ شہاب الدین ہو راجہ بھیا ہو یا اسیمانند ۔شکریہ ،جئے ہند جئے بھارت ۔ملک کا ایک ذمہ دار شہری اصلاح الدین انصاری ‘‘۔
0 comments: