ریزرویشن تحریک سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش
نہال صغیر
یوں تو کچھ لوگ اور تنظیمیں کئی برسوں سے مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی تحریک چلا رہے ہیں ۔اسی میں سے ایک تنظیم نے سپریم کورٹ میں اس صدارتی فرمان کو چیلنج کررکھا ہے جس میں مسلمانوں سمیت کئی اور اقلیتی طبقوں کو ریزرویشن دینے سے منع کیا گیا ۔ان کی دلیل یہ تھی کہ مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں مل سکتا ۔یہ ٹھیک بھی ہے ۔لیکن اس صدارتی فرمان پر کئی سوال اٹھتے ہیں جس کا آج تک کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ایک سوال تو یہی ہے جس پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے کہ مذہب بدلنے سے ذات نہیں بدلتی۔اس صدارتی فرمان سے جن اقلیتی گروہ کو ریزرویشن سے روکا گیا تھا ان میں سکھ اور نو بدھسٹ بھی تھے لیکن ایک اور آرڈیننس کے ذریعہ اس کو ختم کیا گیا ۔ مسلمانواور عیسائیوں کو یہ سہولیات اب تک نہیں مل پائی ہیں ۔ہندوستان میں غالبا 1935 سے ریزرویشن جاری ہے اور آزادی کے وقت تک اور آزادی کے بعد بھی جاری تھا ۔لیکن 1950 کے صدارتی آرڈیننس سے کچھ مذہبی اقلیتی گروہ کو اس سے الگ کیا گیا جس میں عیسائی اور مسلمان خاص نشانہ تھے۔اب بھی یہ دو گروہ ہی اس معاملے میں راست نشانہ پر ہیں ۔یہ اس وقت ہوا تھا جب وطن عزیز کا سب سے روادار اور تحریک آزادی کا سرخیل سمجھا جانے والا شخص وزیر اعظم تھا ۔جس کی رواداری اور انصاف پسندی نیز سیکولرزم کی لوگ قسمیں کھایا کرتے ہیں ۔میری مراد پنڈت جواہر لال نہرو سے ہے ۔بعد میں ووٹ بینک کی سیاست جو شروع سے ہی تھی یہ الگ بات ہے کہ اس وقت لوگوں کی اس پر نگاہ نہیں تھی۔تو ریزرویشن بھی ووٹ بینک کا ایک اہم ہتھیار بن کر سامنے آیا۔اس لئے سیاست داں اس کے لئے اپنا کھیل کھیلتے رہے ۔
ریزرویشن میں اہم موڑ اس وقت آیا جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن لاگو کردیا جس سے پسماندہ طبقات کی ایک بڑی تعداد مستفید ہونے کی پوزیشن میں آگئی ۔اس وقت سورن ہندوؤں کو لگا کہ اب ہمارے ہاتھوں سے حکومت کی باگ ڈور ڈھیلی ہو سکتی ہے اور اس سے آگے ہم اقتدار کی قوت سے دستبردار بھی کئے جاسکتے ہیں ۔اس لئے انہوں نے بابری مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا ۔جس میں منڈل سے اٹھنے والی برہمن مخالف تحریک کمزور ہوئی ۔ہمیں فی الحال ریزرویشن کی موجودہ تحریک اور اس کی کامیابی کے امکانات پر گفتگو کو مرکوز کرنا ہے ۔یہ چند باتیں تو اس لئے کہہ دی گئی ہیں کہ ریزرویشن پس منظر پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے ۔
موجودہ ریزرویشن کی حصولیابی کی تحریک گرچہ ہمارا دستوری حق ہے جس کے لئے تحریک چلانا کوئی ناپسندیدہ عمل نہیں ۔بلکہ جس طرح اس کو عوامی حمایت مل رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام میں اس کے تعلق سے کتنا جوش خروش ہے خاص طور سے نوجوانوں میں کتنی بیداری ہے ۔اس لئے ایک مستحسن عمل ہے جس کی حمایت کی جانی چاہئے اور معاشرے کے مختلف طبقات اس کو اپنی حمایت دے بھی رہے ہیں ۔ جس سے یقینی طور پر تحریک کو مضبوطی ملے گی ۔نیز اس سے حصول ریزرویشن میں آسانی ہو گی ۔لیکن کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے اخلاص اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس میں ہم کہاں تک کامیاب ہیں یعنی ہمارے اس دستوری حقوق کی حصولیابی کی تحریک میں جو افراد شامل ہیں وہ اس سلسلے میں کتنے مخلص ہیں یا ان کے اپنے سیاسی مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ملی تحریک کا المیہ یہی رہا ہے کہ اس میں اخلاص کو بہت کم ہی دخل رہا ہے ۔الا ماشاء اللہ۔ایک اور نکتہ جو سب سے اہم ہے وہ ہماری سنجیدگی کا ،کہ ہم اس سلسلے میں کتنے سنجیدہ ہیں ۔
حالیہ دنوں ریزرویشن کے لئے تحریک میں شدت اس وقت آئی جب راجستھان میں گوجروں کے بعد ہریانہ کے جاٹ اور گجرات کے پاٹیدار کے بعدمہاراشٹر کے مراٹھوں نے اپنے حق یعنی ریزرویشن کے لئے کامیاب تحریک چلائی جن میں صرف مراٹھوں نے ہی پرامن اور خاموش احتجاجی جلوس نکال کر حکومت کے ایوانوں کو لرزہ براندام کردیا ۔حالات یہ ہوگئے کہ فڑنویس کی مضبوط پایوں پر ٹکی حکومت بھی ہلنے لگی ۔اس سے قبل کی راجستھان ،ہریانہ اور گجرات کی تحریک پر تشدد ہو گئی تھی جن میں جان و مال کا کافی نقصان ہوا تھا ۔لیکن مراٹھوں کی خاموش اور پرامن تحریک نے دور تک اپنے اثرات چھوڑے ۔اسی تحریک نے مسلمانوں کے قائدین اور سیاسی لیڈروں نے بیداری کا ثبوت دینے کا فیصلہ کیا ۔کہتے ہیں کہ جب جاگے تب ہی سویرا یا صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ پورے ہوش گوش میں گھر کو واپس آئے یا جب جاگے تو پوری بیداری کے ساتھ جاگے تب ہی کچھ کام ہو سکتا ہے ۔اگر یہ جاگنا محض یہ دکھانے کے لئے ہے کہ دنیا ہمیں بیداروں میں شمار کرلے یا قوم کے افراد ایک بار پھر دھوکہ کھا کر ہمیں بیدار سمجھ لیں تو یہ کسی کام کی بیداری نہیں ہے ۔موجودہ تحریک میں جہاں ہمارے کچھ سیاست دانوں کے اپنے سیاسی مفاد وابستہ ہیں تو وہیں ان کی آپسی حریفائی بھی شامل ہے ۔کہ کوئی دوسرا لیڈر یہ کریڈت اپنے سر نہ لے لے ۔اسی بہانے کچھ لوگوں کی کوشش یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹی میں جس مسلم لیڈر کا قد بلند ہے اسے اس بلندی سے اتار کر وہاں قبضہ کیا جائے ۔چلئے ایسی کیفیت میں بھی قوم کے لئے مثبت پیغام ہی ہے اور اس کے فائدے بھی ہو سکتے ہیں ۔کم از کم اسی بہانے اس قوم کو جو آزاد ہندوستان میں دلتوں سے بدتر حالات میں پہنچادی گئی ہے کچھ نہ کچھ ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
موجودہ تحریک میں سب سے اہم رول عوام یا ان زمینی قائدین کا ہے جو زمینی سطح پر اپنا کام کئے چلے گئے اور آج بھی کام کررہے ہیں ۔ان کے سامنے کوئی سیاسی مفاد نہیں ہوتا ۔نہ ہی انہیں کسی سیاسی پارٹی کو خوش کرنے کے لئے کوئی کارنامہ انجام دینے کی فکر ہوتی ہے ۔وہ صرف اور صرف قوم کے حالات سے متفکر ہیں اور اسی فکر میں ان کی ساری بھاگ دوڑ ہے ۔ہم یہاں ان کا نام نہیں لیں گے اور نہ ہی ہم ان لوگوں کا نام لینا پسند کریں گے جن کی ساری بھاگ دوڑ محض اپنی سیاسی جماعت کو قوت بخشنے اور اس سے اپنے لئے انعام حاصل کرنے تک ہوتی ہے ۔قوم کا مفاد ان کے سامنے نہ کل تھا نہ آج ہے ۔قارئین انہیں اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔لیکن عوام کی بیداری ان کی جرات مندی کو سلام جنہوں نے قیادت کے ناکام ہوجانے کے باوجود یا کمزور اور خوفزدہ قیادت کے علی الرغم انہوں نے گجرات میں دلتوں کی حمایت میں اپنی جرات مندی کا ثبوت پیش کیا اور اب ممبرا ،مالیگاؤں اور پربھنی سمیت مہاراشٹر سمیت ریاست کے کئی شہروں اور اضلاع میں اپنی بیداری اور سیاسی شعور کا ثبوت دیا ۔اب ان کی یہ بیداری اور ان کا سیاسی شعور آئندہ سیاست میں کوئی مثبت کردار ادا کرپایا تو امید کی جانی چاہئے کہ مسلمانوں کی پسماندگی اور ان کی لاچاری تاریخ کا حصہ بن جائے گی ۔لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ وہ اپنی اس بیداری کو قائم رکھیں کسی سیاسی دلال کے بہکاوے میں نہ آئیں ۔وہ دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے ؟آنکھ بند کرکے کسی بھی بھیڑ کا حصہ نہ بنیں ۔اس تحریک میں نوجوانوں کا رول کھل کر سامنے آیا ہے ۔وہ کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ۔تاریخ وہی بناتے ہیں ۔قوم کے عروج و زوال میں ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں بھی ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اپنی قوت اپنے شاندار ماضی اور اپنی قومی حیثیت کی تابناکی کو مزید تابناک بنانے کے لئے پیش قدمی کریں گے ۔اب قوم کو انہی سے امیدیں وابستہ ہیں ۔امید ہے کہ وہ قوم کے روشن ستارہ بن کر اس کو قعر مذلت سے نکالنے میں اہم رول ادا کریں گے۔
0 comments: