ہماری چچی

1:08 AM nehal sagheer 0 Comments

ہماری چچی 

ممتاز میر 
mumtazmir@gmail.com

تعزیتی مضامین لکھتے وقت عموماً اس قسم کے عنوانات قائم کئے جاتے ہیں ’’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے یا حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ‘‘ان عنوانات سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی غیر کے لئے لکھ رہے ہیں ۔مگر چچی تو بہت بہت میری اپنی تھیں بلکہ ہمارے پورے خاندان کی اپنی تھیں مع چچا اور بچوں کے ۔ رشتہ تو کچھ بھی نہیں تھا مگر سارے جہان کے رشتے تھے ۔لگتا تھا امی کی سگی بہن تھیں کبھی لگتا ابا کے سگے بھائی کی بیوی تھیں۔اسلئے میں کبھی انھیں خالہ بھی کہتا۔تعلقات بننے کی روداد بھی عجیب ہے ۔عموماً یہ ہوتا ہے کہ تعلقات بزرگوں یعنی والدین سے شروع ہوتے ہیں ۔یہاں تعلقات بچوں سے شروع ہوئے تھے ۔میرے برادر خورد مشتاق میر سنٹرل ریلوے کی ماٹونگا ورکشاپ میں ٹریڈ اپرنٹس شپ کر رہے تھے ۔ان کے ایک کلاس میٹ نندہ ہال روڈ پر رہائش پذیر تھے ۔چچی کے بڑے فرزند اقبال شیخ ان کے دوست تھے۔اس طرح سب سے پہلے اقبال سے تعلقات بنے یا دوستی شروع ہوئی ،اور پھر تعلقات آگے بڑھتے رہے یہاں تک کے دونوں خاندان رشتے داروں سے بڑھ کر رشتے دار ہو گئے۔
چچا شیخ محمد ابراہیم صاحب کرلا ہال روڈکے صنوبر اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھے اور سنٹرل ریلوے میں چھتر پتی شیواجی ٹرمنس (سابق وی ٹی) پر سینئر کلرک تھے۔چچی بی ایم سی میں ٹیچر تھیں ۔اولادمیں اقبال سب سے بڑے لڑکے تھے۔اور اسلم پرویز جو کہ مشہور افسانہ نگار ڈرامہ نگار اور فی الوقت حکومت مہاراشٹر کے اردو جریدے لوک راجیہ کے مدیر ہیں ان کے دوسرے بیٹے تھے۔لڑکیوں میں سب سے بڑی شبانہ ۔دوسری شاہین اور سب سے چھوٹی شگفتہ ہے۔جسے سب پیارسے گڈو کہتے تھے۔شگفتہ کل بھی ہم میاں بیوی کے لئے گڈو تھی اور آج بھی جب وہ خود دو پیارے پیارے پیارے گڈوں کی ماں ہے ،گڈو ہی ہے ۔اقبال چیتا کیمپ کے آئیڈیل ہائی اسکول میں کلرک ہیں اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے زمانے بھر کی ایکٹیویٹیز چلاتے ہیں ۔مئی ۱۹۸۰ میں جب ہماری شادی ہوئی تھی تو چچی اقبال اور شگفتہ وطن میں شادی میں شریک ہوئے تھے ۔شادی کے بعد جب ہم کانجورمارگ میں رہتے تھے اسوقت شگفتہ پرایمری کی غالباًچوتھی کلاس میں تھی یا پاس کرچکی تھی۔اسے جب بھی اسکول کی چھٹی لگتی میں کرلا جا کر لے آتااور چھٹی ختم ہونے سے ایک دن پہلے واپس ہال روڈ چھوڑ آتا ۔اس زمانے میں اسلم اقبال نیازی اور قاسم امام غالباً بی اے فائنل ائر میں تھے ۔اسلم اور اقبال نیازی کا مشترکہ لکھا ڈرامہ ’’جلیان والا باغ ‘‘ اس وقت تک کافی مشہور ہو چکا تھا۔ پھر دسمبر ۱۹۸۲ میں میں نے ممبئی چھوڑ دیا اور بھساول شفٹ ہو گیا ۔شادی کے بعد جب تک ہم دونوں میاں بیوی ممبئی میں رہے ہم دونوں ہی میاں بیوی کے لئے صنوبر اپارٹمنٹ میکے کی طرح رہا ۔ چچا و چچی دین بیزار تو نہیں تھے مگر معروف معنوں میں دین دار بھی نہیں تھے ۔فی زمانہ دین دار ی کی پہچان یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھتا ہو ۔چہرے پر نمازی ہونے کی نشانی ہو روزے رکھتا ہو بھلے ہی حقوق العباد کے معاملے میں ڈاکوؤں سے بڑھ کر ہو ۔چچا سال میں دو بار نماز پڑھتے تھے ۔چچی نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھین اور مجھ سے کہتی تھیں ’’ممتاز نقاب عورت کی آنکھوں میں ہونا چاہئے‘‘ ان کی حد تک بات یہی تھی مگر قانون فرد واحد کے لئے نہیں بنائے جاتے اور بن جانے کے بعدفرد واحد کو اسے توڑنے کا حق نہیں ہوتا ۔میرا دینی معاملات پر اکثر چچا سے مباحثہ ہوتا ۔
چچا مجھے برداشت کرتے۔اب معلوم نہیں یہ کس کا فیضان نظر ہے کہ بچیاں جب بالغ ہوئیں تو انھوں نے پردہ اختیار کرلیا۔میرے نزدیک یہ ہونا ہی تھا ۔کیونکہ چچا اور چچی حقوق العباد کے معاملے میں بڑے بڑے دینداروں سے بڑے دیندار تھے ۔دوسروں کی مددکے تعلق سے خودصاحب معاملہ سے زیادہ متفکر رہتے۔بالکل بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا معاملہ ہوتا۔کتنے ہی لوگوں کو جو ممبئی میں ریلوے میں نوکری کے لئے یا دوسری جگہ نوکری کے لئے آتے ،انھیں رہائش کا معاملہ درپیش ہوتا تو اسے اپنے گھر پناہ دے دیتے ۔میں نے زندگی میں کسی جوڑے کو اس طرح فقیری میں شہنشاہی کرتے نہیں دیکھا ۔چچا کی فیاضی دریا دلی اور غمگساری کی بنا پر کبھی چچی کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی ۔وہ مزاج میں چچا کا مکمل عکس تھیں۔حالانکہ نسلاً دونوں میں بعدالمشرقین تھا مگر مزاج دونوں کا آفاقی تھا۔
چچا مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلوں میں کہیں زیادہ مقبول تھے۔شام میں ڈیوٹی سے آنے کے بعد محلے اور اقربا کے بچوں کو لے کر بیٹھ جاتے اورانھیں مفت ٹیوشن دیتے۔۱۹۹۲ میں پھر میرا ٹرانسفر ممبئی ہو گیا اور ۱۹۹۴ میں مجھے اپنے سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اشفاق میر سمیتTADA میں داخل زنداں کر دیا گیا ہم نے جیل میں مکمل ۴ ماہ کا چلہ لگایا ۔۴ ماہ بعد جب گھر لوٹا تو معلوم ہوا کہ نوکری مجھ سے چھینی جا چکی ہے ۔اس نوکری کو واپس پانے میں سب سے بڑی بلکہ واحد مدد اسلم پرویز کی تھی۔ مگر موصوف کو جب نوکری کے ساتھ ساتھ لوک راجیہ کی ادارت کی اضافی ذمے داری سونپی گئی تو جناب انتہائی شدید دباؤ میں آگئے تھے اور حواس گم ہوگئے تھے۔مجھے اس وقت افسوس اس بات کا تھا کہ شیخ محمد ابراہیم اور نورالنسا بیگم کی اولاد نے حالات کے سامنے اتنی جلدی گھٹنے ٹیک دیئے۔کم کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو خود اپنی صلاحیت کا علم ہو۔مجھے یقین تھا کہ وہ ان حالات سے ابھر جائیں گے مگر جو ہو گیا اسے لوٹا کر واپس نہ لایا جا سکے گا۔جیل سے واپس آنے کے چند ہی دنوں بعد شگفتہ کا فون آیا کے بھائی مجھے لینے کے لئے آؤ۔شگفتہ اس وقت ٹیچر بن چکی تھی۔میں اسے نور باغ گھر لے آیا ۲دن وہ بھابیوں اور بچوں کے ساتھ رہی پھر اسے کرلا چھوڑ دیا۔یہ وہ وقت تھا جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
فروری ۱۹۸۵ میں والد محترم جو ریلوے میں میل ڈرائیور تھے کی ٹرین کا حادثہ ہو گیا ۔انھیں بھی ریلوے نے نوکری سے نکال دیا ۔ابا بلا کے لڑاکو تھے ۔اپنی پنشن اور دیگر مراعات پانے کے لئے انھوں نے ریلوے سے لڑائی شروع کی ۔اس لڑائی میں چچا نے بھر پور ساتھ دیا ۔کچھ ایسی معلومات بھی ابا کو اس دوران حاصل ہوئیں جو چچا کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔اس زمانے میں بمبئی میں ہمارا کوئی گھر نہیں تھا ۔صنوبر اپارٹمنٹ میں ابا ٹھہرتے ۔چچا اور ان کی خوب جمتی دونوں ہی بہت باتونی تھے۔ ۲۰۰۱ کی صبح جب نور باغ کے گھر میں بھساول سے ابا اور امی دونوں آئے ہوئے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ چچا چچی اور شگفتہ تینوں چلے آرہے ہیں ۔حیرت انگیز۔ معلوم ہوا تینوں حج کو جا رہے ہیں ۔یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ خوشی زیادہ ہوئی تھی کہ حیرت۔پورے گھر کا یہی حال تھاکیونکہ چچا تو گھر کے پاس والی مسجد میں بھی سال میں دو بار نماز پڑھتے تھے۔زندگی میں بڑے تجربات ہوئے بڑے ٹائپ ٹائپ کے لوگ دیکھے صاحب ثروت لوگوں کو بھی اکیلے اکیلے حج پر جاتے دیکھا ہے مگر چچا کا خود ہی حج پر جانا حیرت انگیز تھا کجا چچی و شفگتہ کو بھی لے کر جا رہے تھے ،وللہ اعلم۔ اب انھیں دین دار کہا جائے گا یا نہیں۔مگر دونوں میاں بیوی نے زندگی میں کبھی اس کی پرواہ بھی نہ کی ۔ بس اپنا کام کرتے رہے لوگوں کو فیض پہونچاتے رہے۔معمولی معاملات سے لے کر بڑے مسائل تک میں لوگوں کے کام آتے رہے۔اور اس بے غرض بے لوث خدمت کے نتائج بھی نکلے ۔ان کی تمام اولاد اب well settled ہے بلکہ اولاد کی اولادیں بھی اسی جانب گامزن ہیں۔
منگل۲۷ ستمبر کی صبح سب سے چھوٹے بھائی اشفاق میر کا ساڑھے ۹ بجے فون آیا کہ کہ چچی محترمہ نورالنسا بیگم جو پہلے مجازاً اللہ کو پیاری تھیں اب حقیقتاً اللہ کو پیاری ہو گئیں ہیں اور تب سے لے کر تادم تحریر درج بالا ساری باتیں بلکہ اس سے دوگنی باتیں ذہن کے پردے پر گھوم گئیں۔مگر مضمون کی چادر اتنی وسیع نہیں ہوتی کے جیسے چاہیں پاؤں پھیلا دیں۔ایسی شخصیت کو صبر آنا مشکل ہوتا ہے۔مگر ہم انسان ہیں اور ہم نے جینے کے کچھ اصول و ضوابط مقرر کر لئے ہیں ۔ایسے مواقع پر یہ کہنا بھی فرض ہے کہ اللہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اورمرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مراتب عطا فرمائے ۔مگر صبر کا معاملہ ذرا مشکل ہے اسلئے میں اقبال اسلم ،شبانہ شاہین اور خصوصاً شگفتہ سے کہوں گاکہ جس طرح چچا چچی نے اپنی زندگی کی مشکلات کو آسان بنایا تھا وہ بھی صبر کو آسان بنائیں ۔کیونکہ حدیث کہتی ہے گریہ و زاری سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔ 

0 comments: