مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کاجواز کیا ہے؟
عمر فراہی
ملک عزیز میں آئی ایس آئی ایس سے رابطے کے الزام میں اب تک تقریباً بیس مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے-ان نوجوانوں پر الزام ہے کہ یہ لوگ آن لائن ملک کے خلاف جنگ اور فساد برپا کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے -یہ بات کہاں تک صحیح ہے یا غلط اگر تفتیشی ایجنسیاں اسے درست قرار دے رہی ہیں تو ہو سکتا ہے ان کا الزام درست بھی ہو-مگر ماضی میں جتنے بھی نوجوان اس طرح کے الزامات میں گرفتار کیئے گئے تھے انہیں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہا بھی کیا جا چکا ہے -اس کا مطلب ہماری ایجنسیاں کہیں نہ کہیں سیاسی دباؤ میں بھی ایسا کرنے کیلئے مجبور ہیں جیسا کہ مالیگاؤں اور مکہ مسجد بلاسٹ کے معاملے میں یہ بات کھل کر سامنے بھی آئی کہ دھماکہ ہندو تنظیموں نے کیا اور گرفتار مسلم نوجوانوں کو کیا گیا-کچھ لوگ اکثر یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں ک اگر پولس کچھ مخصوص نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے تو ضرور کہیں نہ کہیں سے یہ لوگ کسی دہشت گرد تنظیم کے رابطے میں رہے ہونگے-اس کا جواب یہ ہے کہ آج کے دور میں حکومتیں یا سرکاری ایجنسیاں جنھیں دہشت گرد سمجھتی ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ یہ دہشت گرد ہی ہوں مثال کے طورپر سیمی پر جب سے پابندی لگی ہے اکثر مسلمان اس تنظیم کے نام سے دور بھاگتے ہیں یا اس تنظیم سے کسی بھی طرح کے رابطے سے بھی انکار کرتے ہیں جبکہ یہ تنظیم ہندوستان سے ہی وجود میں آئی ہے اور پابندی لگنے سے پہلے تک یہ لوگ کھلے عام اجتماعات بھی کرتے رہے ہیں -مگر 9/11 کے بعد اس تنظیم کی سرگرمیوں کو القاعدہ سے جوڑ کر پابندی لگا دی گئی اور اچانک وہی نوجوان جنھیں ہم دیندار کہتے تھے دہشت گرد ہو گئے -شاید ان کا بھی قصور یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی قومی اور اسلامی بیداری کے تحت بہت ہی فعال اور متحرک تھے اور ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کا کسی ملیٹنٹ تنظیم سے رابطہ بھی رہا ہو مگر عمومی سطح پر ہندوستان کی کسی مسلم تنظیم یا وہ نوجوان جو اپنے شدت پسند نظریات کی وجہ سے اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ کی طرف ماںُل ہوئے اور شاید اسی شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے حکومت ہند نے سیمی پر پابندی بھی لگائی مگر کوئی یہ ثابت نہی کر سکتا کہ سیمی کا باضابطہ کسی ملیٹنٹ تنظیم سے کوئی رابطہ یا تعلق رہا ہو یا ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے کبھی کشمیری ملیٹنٹ سے بھی رابطہ بنانے کی کوشس کی ہو اور خود کشمیری ملیٹنٹ نے بھی اپنی کاروائی کے دائرے کو کشمیر سے باہر پھیلانے کی ضرورت محسوس کی ہو -مگر ہماری پولس اور انٹلیجنس نے سیمی پر پابندی لگانے کیلئے یہ جواز ڈھونڈھ لیا کہ اس کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط ہیں اسی طرح پارلیمنٹ حملے میں افضل گرو کو مجرم بنا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشس کی گئی کہ کشمیریوں کی تحریک پورے ہندوستان کیلئے خطرہ ہے - سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان باوجود اس کے کہ وہ آذادی کے بعد سے ہی یہ محسوس کر رہا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کا برتاؤ کیا جارہا ہے اس نے اپنے بہت ہی قریب کشمیری ملیٹنٹ سے تعاون یا رابطے کی کوشس نہیں کی تو وہ آج اچانک سات سمندر پار عراق اور شام کے انقلابیوں سے رابطہ کیسے بنا سکتا ہے اور کشمیر جو کہ ہندوستان کا ہی ایک حصہ ہے جب انہوں نے کشمیر کے علاوہ ہندوستان میں کوئی دہشت گردانہ کاروائی نہیں کی اور ملک کی دیگر ریاستوں کیلئے کوئی خطرہ نہیں بنے تو آئی ایس آئی ایس کے لوگ جن کے نام سے ہی واضح ہے کہ وہ عراق اور شام کو اپنے حکمرانوں سے آذاد کرانا چاہتے ہیں ہندوستان کیلئے کیسے خطرہ ہو سکتے ہیں -
یہ ایک سوال ہے جو ہندوستان کا مسلمان خود اٹھاتا رہا ہے اور اپنے ہی لوگوں میں جواب پیش کر کے خوش بھی ہو جاتا ہے مگر ملک کی کسی ایجنسی یا سیاسی تنظیم نے مسلمانوں کی طرف سے کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں زوردار بحث کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی یعنی اگر کسی مسلم تنظیم پر پابندی لگی تو وہ بھی جائز تھی اور جو مسلم نوجوان کسی دہشت گردانہ کاروائی میں ملزم ٹھہرائے گئے تو انہیں بھی سب نے یک طرفہ اور متفقہ طور پر دہشت گرد مان لیا-وہ لوگ جو تاریخ سے ناواقف ہیں یا صرف پچھلے دس بیس سالوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور مسلم نوجوان خاص طور سے سیمی کے لڑکے سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہوئے اور اشتعال انگیز نعرے اور پمفلٹ کے ذریعے ملک کی فضا کو خراب کرنے کی کوشس کی انہیں قصوروار قرار دیتے ہیں انہیں شاید یہ نہیں پتہ کہ ہمارے ملک میں بابری مسجد کو صرف ایک بار شہید کیا گیا تھا مگر مسلمان تو آذادی کے بعد سے مسلسل شہید ہوتا رہا ہے اور اس وقت جب میرٹھ اور ملیانہ میں ہاشم پورہ کے علاقے سے پی اے سی نے مسلمانوں کو جس میں بوڑھے اور جوان سبھی تھے ٹرک میں بھر کر لے جا کر قتل کر دیا تو اس وقت سیمی کا کوئی وجود بھی نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو یہ لوگ صرف دعوت و تبلیغ یا فسادات متاثرین کیلئے راحت کا سامان مہیا کروانے میں مصروف رہے ہیں جو بعد میں لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے خود بھی بھٹک گئے تو انہیں اس رخ پر آنے کیلئے کس نے مجبور کیا -ٹائمس آف انڈیا کی خاتون صحافی جیوتی پنوانی نے جنہوں نے ممبئ فساد کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور اس فساد کے بعد ملک میں ہونے والے بم دھماکوں اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو بھی دیکھا ایک بار اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جس طرح ممبئ فساد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور ان کی عورتوں کو بھی بے آبرو کیا گیا شکر ہے کہ مسلم نوجوانوں کا ردعمل اتنا شدید نہیں رہا ورنہ اس ظلم اور پولس کی خاموشی کے بعد تو مسلمانوں کا بچہ بچہ حنیف الدین بن جانا چاہیے تھا(حنیف الدین آسٹریلیا میں ڈاکٹر تھا جسے دہشت گردانہ کاروائی میں گرفتار کر کے بعد میں رہا کردیا گیا تھا )
غرض کہ مسلمانوں کی گرفتاری یا انہیں دہشت گرد اور غدار ثابت کرنے کی یہ سازش نئ نہیں ہے - مولانا ابولکلام آذاد نے اپنی کتاب انڈیا ونس فریڈم میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ملک کے بٹوارے کے بعد جب ہندوستان ہر طرف سے جل رہا تھا اور یہ آگ دلی تک پہنچ گئی تو مسلمانوں نے گاندھی جی سے شکایت کی اور خود جواہر لال نہرو نے کہا کہ جس طرح مسلمانوں کو کتوں اور بلیوں کی طرح مارا جارہا ہے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے اور ہمیں شرم آرہی ہے کہ ہم انہیں بچا نہیں پا رہے ہیں-سردار پٹیل نے گاندھی جی سے کہا کہ جواہر لال کی شکایت ان کے لیںے یکسر ناقابل فہم ہے -ہو سکتا ہے چند اکا دکا واقعات ہوئے ہوں لیکن حکومت مسلمانوں کی جان مال کو بچانے کیلئے کوشس کر رہی ہے- مگر جب بار بار مسلمانوں کے قتل عام کی شکایت زور پکڑنے لگی اور سردار پٹیل کیلئے جواب دینا مشکل ہو گیا تو انہوں نےمسلمانوں کے قتل عام کا جواز بھی ڈھونڈھ لیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ مسلمانوں کے علاقوں سے مہلک اسلحے برآمد کیے گئے تھے یعنی اگر ہندوؤں اور سکھوں نے جارحیت میں پہل نہ کی ہوتی تو مسلمانوں نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ہوتا- مولانا لکھتے ہیں کہ اس طرح ایک روز جب ہم لوگ معمول کے مطابق گورنمنٹ ہاؤس میں میٹنگ کیلئے اکٹھا ہوئےتو سردار پٹیل نے کہا کہ پہلے ہم سب کیبنٹ ہاؤس کے اینٹی چیمبر میں چلیں اور وہ ہتھیار دیکھ لیں جو مسلمانوں کے قبضے سے برآمد کیے گئے ہیں- ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میز پر کچھ باورچی خانوں میں استعمال ہونے والی چھری یا جیب میں قلم اور پنسل تراشنے والے چاکو پڑے ہیں جن میں کچھ زنگ آلود لوہے کی سلاخیں جو پرانے مکانات کے جنگلوں سے نکالی گںُی تھیں اور کچھ ڈھلے ہوئے پانی کے پائپ تھے -لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان میں سے ایک دو سامان اٹھا کر طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا کہ اگر ان اسلحوں کی مدد سے دلی پر قبضہ کیا جاسکتا ہے تو یہ بہت ہی حیرت کی بات ہے -مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو شاید یہ نہیں پتہ تھا کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی گرفتاری کیلئے کوئی وجہ بھی نہیں ہوگی اور انہیں صرف ان کی اسلامی بیداری اور سوچ کی وجہ سے بھی گرفتار اور قتل کیا جائے گا اور ثبوت کے طورپر کچھ مذہبی کتابیں پیش کر دی جاںُیں گی- اس کے بعد ایک دور ایسا بھی آئے گا جب دنیا کا سارا کاروبار آن لاںُن ہوگا مگر مسلمانوں کے لئے آن لائن ہونا بھی فساد کا سبب ہو گا اور مسلمانوں کی آن لائن گرفتاریاں بھی شروع ہو جائیں گی! جو ہو رہا ہے-کیا یہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدقسمتی نہیں ہے کہ اب مسلمان والدین اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کی سائٹ گوگل اور یو ٹیوب پر بھی جانے سے اس لئے منع کرتے ہیں کہ کہیں غلطی سے ان کا لاڈلا آئی ایس آئی ایس کی ساںُٹ نہ کلک کر دے - اور بے شک ملک عزیز میں مسلمانوں پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے آذادی کے بعد سے ہی سب سے پہلے اس کے تعلق کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے جوڑا گیا اور پھر القاعدہ اور طالبان سے -جب امریکہ نے افغانستان سے ان کے خاتمے کا اعلان کیا تو ملک میں ہر طرف دھماکے ہونا شروع ہوگئے اور پھر 2010 تک سیمی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو مختلف دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے -2014 میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور شام کی شہرت کے بعد اب مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا ایک اور جواز سامنے آچکا ہے دیکھنا ہے کہ جب تک دہشت گردی کے نام کی کوئی اور فلم ہٹ نہیں ہوجاتی isis نام کی یہ فلم کب تک چلائی جاتی ہے اور مسلم نوجوانوں کو کب تک اس کا ویلن بنا کر پیش کیا جاتا ہے -افسوس آذادی کے بعد ہندوؤں میں بھی گاندھی اور پنڈت جواہر لال جیسے غیرت مند لیڈر اور مسلمانوں میں بھی کوئی ابولکلام آذاد جیسی دبنگ قیادت موجود تھی جن کے سامنے کم سے کم سردار پٹیل نے نام نہاد اسلحوں کو دکھا کر ثبوت پیش کرنے کی زحمت کی- مگر اب ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی ایسی کوئی غیرت مند قیادت نہیں رہی جو موجودہ سرکار اور ان کی انٹلیجنس سے سوال کرے کہ وہ جن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں ان کی گرفتاری کا حقیقی جواز کیا ہے -کیا اس طرح سے بے تکی گرفتاریاں اور بلا جواز دہشت گردی کی مذمت پر مذمت کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے؟
عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com
0 comments: