featured
نہال صغیر
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے جو قوتیں ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کی جانب مسلسل اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگے رہے اب وہ منزل پر پہنچنے والے ہیں۔یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ ان لوگوں کو ان کے مطلوبہ منزل کی جانب بڑھنے اور اس پر کامیابی کے ساتھ پہنچنے میں سب سے زیادہ جس نے مدد کی وہ کانگریس ہے ۔ہم ستر برسوں سے کانگریس اور نام نہاد سیکولر پارٹی کے بغل بچہ بنے رہے ۔ہمیشہ ہم نے فرقہ پرستوں کو پیچھے رکھنے ان کو سیاسی طور پر مفلوج رکھنے کی لڑائی میں مسلمان ہی صف اول میں نظر آئے ۔یعنی کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو یہاں کی اکثریتی فرقہ کے روبرو دشمن کے طور پر ہی پیش کیا ۔یہ کام جہاں آر ایس ایس کھلے عام کرتی رہی وہیں کانگریس نے مسلمانوں کو سیکولرزم کے نام پر ہپنا ٹائزڈکرکے یہی کام کروایا لیکن مسلمان بے خبر رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں اور آج ستر سال بعد مسلمان خود کو لٹا پیٹا اور بے یارو مددگار محسوس کررہے ہیں ۔اتنے دنوں میں صرف ایک بار انہوں نے اپنی سیاسی قوت مضبوط کرنے یا اس کی تخلیق کی جانب قدم بڑھایا اور بھی ناکام رہا ۔جنوبی ہند میں کیرالا اور تمل ناڈو میں مسلمان تعلیم اور سیاسی شعور کی بیداری کی وجہ سے آج بھی سیاسی طور پر خود کو سمیٹے ہوئے ہے ۔اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں ہر جانب اندھیرا ہے ۔اس اندھیرے کو دور کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ رات ہونے پر روشنی کرنا ۔
وقت بدل گیا ہے ۔آزادی ہند کو ستر سال بیت چکے ہیں ۔اس وقت کے لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔نئی نسل اکیسویں صدی میں اطلاعاتی انقلاب کے سایے میں زندگی گزاررہی ہے ۔اسے پرانی روایتوں کا بالجبر مقلد نہیں بنایا جاسکتا ۔وہ سوال کرتا ہے ۔اس کا سوال منطقہ بھی ہوتا ہے ۔وہ اپنے سوال کا جواب بھی چاہتا ہے ۔اسے محض خوف اور گمان کی باتوں سے نہیں بہلایا جاسکتا ۔وہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کیلئے بے شمار قربانیوں کے باوجود مسلمانوں کو نہ صرف حاشیہ پر پہنچادیا گیا بلکہ اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس نے اردو تو نہیں پڑھی ہے لیکن وہ انگریزی اور ہندی میں تاریخ کے اوراق پلٹتا ہے اور خود یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اس کی قوم کے پچھڑنے کا سبب کیا ہے۔اسے کیوں نظر انداز کیا جاتا رہا ۔اسے کیوں پہلے فسادوں میں تباہ کیا گیا اور اس کے بعد اس کے مجتمع حوصلوں کو توڑنے کیلئے فرضی انکاؤنٹر وں میں ہلاک کی اجانے لگا اور فرضٰ مقدموں میں برسوں قید و بند کی سزا دینے کے بعد کورٹ نے اسے بری کردیا جب اس کی زندگی کے قیمتی سال تباہ ہو گیا ۔یہ سارے سوال اس کے ذہنوں میں ہیں وہ اسے پوچھتا بھی ہے لیکن اسے جواب دینے کی یا تو صلاحیت نہیں ہے یا حقائق کی جانکاری کے بعد کسی میں حوصلہ نہیں ہے ۔
آج کئی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ملک کے بگڑتے حالات کے پیش نظر دلت و دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہو رہی ہے ۔غالباً آزادی کے بعد سے ہی جماعت اسلامی ہند نے اس جانب قدم بڑھایا تھا ۔لیکن اس جماعت کو اپنوں کے فتووں کے میزائل سے اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ زیادہ کچھ کام انجام نہیں دے سکی ۔پر ایسا نہیں ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی کوششیں بار آور نہیں ہو سکیں ۔ اس کی محنتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ اور مختلف مسلم تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اس جانب قدم بڑھارہی ہیں ۔اس سلسلے میں جتنی لگن اور جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت تھی وہ اس لئے نہیں کیا جاسکا کہ ہمارے بعض مولویوں نے بھی اسلام کے مساوات کے اصول کے بر عکس برہمنوں کے عدم مساوات سے متاثر ہو کر بعض احادیث کی غلط تشریح کرکے عدم مساوات کو رواج دینے کا کام مسلم معاشرے میں کیا ۔اس کا انجام یہ ہوا کہ یہاں کی پسماندہ اقوام سے ہم مسلمانوں نے بھی وہی رویہ روا رکھا جو برہمن ان کے ساتھ روا رکھتے تھے ۔ہندوستان میں بزرگان دین کی کوششوں نے بہت حد تک عدم مساوات کے خلاف کام کیا لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح اور علما و اکابرین کی جانب سے اسلام کے اس زرین اصول مساوات کی وہ ترویج و اشاعت نہیں ہوئی۔ہم نے اپنے بچپن میں یہ دیکھا ہے کہ کس طرح دلت تو دلت خود مسلمانوں کے پسماندہ افراد کے ساتھ ہمارا یہ رویہ ہوتا تھا کہ وہ بیچارہ نیچے زمین پر آکر بیٹھتا تھا اور ہم نواب صاحب بن کر اوپر بیٹھا کرتے تھے ۔جب اسلامی شعور جاگا تو ہم اس روایت کو ختم کیا لیکن صدیوں تک اس ذہنیت کے ساتھ رہنے والے لوگ آج بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
اب بھی جب ہم اتحاد و یکجہتی اور اسلام کے مساوات کے پیغام اور نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کے موقعہ پر دیئے گئے خطبہ کی بات ہوتی ہے تو اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ۔مسلمانوں میں بھی عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ ارے یہ پسماندہ ہندو بھی وقت پر ہمارے خلاف ہی ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر یہ حالات کیونکر پیدا ہوتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس بات کی کوشش کی کہ ان کو ایک انسان کی حیثیت سے ہم وہی عزت دیں جس کا وہ حقدار ہے ۔ہم کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی اس پر عمل کیا ۔ہم نے اگر ان کو اپنا بھائی سمجھا ہوتا اور ان سے نفرت نہیں کیا ہوتا ،انہیں نیچ اور گھٹیا نہیں سمجھا ہوتا تو آج وہ برہمنوں کے اشاروں پر ان کے ساتھ نہیں ہوتے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری جانب سے کوئی کام نہیں ہوا لیکن وہ کام اجتماعی طور پر نہیں ہوا ۔انفرادی طور پر کچھ لوگوں نے یا جماعت اسلامی ہند جیسی ایک آدھ جماعت نے یہ کام کیا لیکن وہ مسلمانوں کی ذہنیت سے عدم مساوات کی برہمنی سوچ کو صاف نہیں کرسکے ۔گجرات فسادات یا ملک کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والے فسادات میں پسماندہ ہندوؤں کا رونا رونے سے پہلے ہم نبی ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اونچ نیچ کے برہمنی نظام سے باہر نکل کر جو صدیوں سے غلامی کی زندگی جی رہے ہیں ان کی قوت بنیں ۔انہیں آزاد کرائیں ۔یہ ڈھائی یا ساڑھے تین فیصد برہمن جو انہیں استعمال کرتے ہیں ہم ان کے ہاتھ بننے والوں کو اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں ۔لیکن یہ صبر آزما کام ہے جسے شروع کرنے کیلئے حوصلہ ہمت اور مومنانہ بصیرت کی ضرورت ہے ۔یہ جس میں ہے وہ اس کام کو شروع کرسکتا ہے ۔اسے کامیابی بھی ملے گی ۔ماضی میں بھی ایسی کئی شخصیات ہوئی ہیں جنہوں نے ایسے کارنامے انجام دیئے لیکن بعد میں ان کی وراثت کو کوئی سنبھال نہیں پایا ۔ایسے ہی ایک فرد کا نام ڈاکٹرعبد الجلیل فریدی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے قوم کی خدمت کیلئے اسے قعر مذلت سے نکالنے اسے سیاسی قوت بنانے اور ملک میں باعزت مقام دلانے کیلئے اپنا باوقار پیشہ معالج کا ،اپنی دولت اور آخر میں اپنی دولت تک قربان کردی ۔اللہ اس کے قبر کو منور کرے اور اس کے اخلاص کو قبول کرتے ہوئے اس کا بہترین اجر دے ۔ڈاکٹر مرحوم نے جب مسلم مجلس بنا کر یوپی میں الیکشن لڑنے کی تیاری کی تو انہیں بھی فرقہ پرستوں کا ایجنٹ اور سیکولر ووٹوں کو منتشر کرنے والا بتایا گیا تھا ۔جیسا کہ حالیہ دنوں میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اور ان کے لیڈروں اویسی برادران کے بارے میں کانگریس اور مسلم سیکولرسٹوں کی جانب سے پرپیگنڈہ کا بازار گرم کیا جارہا ہے ۔
کچھ لوگ یا طبقہ ہماری ملت میں نفاق کے بیج بوتا ہے اور پھر اسی جانب سے اتحاد کی بات بھی کی جاتی ہے ۔عجیب مخمصہ کا دور ہے ۔ایسے ہی کچھ لوگوں اور طبقوں کی جانب سے ہمیں برادران وطن سے لڑانے کی ہمہ وقت کوشش کی جاتی ہے ۔ہم اس کو سمجھ بھی نہیں پاتے کہ کس منصوبہ پر عمل ہو رہا ہے ۔یہ منصوبہ ہے ہمیں برادران وطن کے ساتھ ہمیشہ حالات جنگ اور دشمنی و نفاق والے ماحول میں رکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ہمیں ان حالات کو سمجھنا ہوگا اور مسلمانوں کے ان فرقوں یا طبقوں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کی کوشش کے ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے افراد اور طبقوں کے ساتھ جنگی پیمانے پر منصوبہ بند کوشش کی جائے۔یاد رکھیں کہ ملک کے حالات جس رخ کو جارہے ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم آپسی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ہی دیگر اقوام کے ساتھ دشمنی والے ماحول کو بدلا جائے ۔اس پر دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور تو ایک طبقہ وہ ہو جو یہ باور کرائے کہ ہم تمہارے رعب میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی ہم اپنی تہذیب اور مذہبی شناخت سے علیحدہ ہو سکتے ہیں ۔دوئم ایک طبقہ وہ ہو جو ہمیشہ دیگر اقوام خاص طور سے ان سے جو ہماری دشمنی میں سب سے آگے اور جارح ہیں ڈائیلاگ کے لئے مختص رہے وہ اسی میں اپنی ساری توجہ لگائے ۔
رنگ گردو ں کا ذرا دیکھ ۔۔۔
نہال صغیر
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے جو قوتیں ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کی جانب مسلسل اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگے رہے اب وہ منزل پر پہنچنے والے ہیں۔یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ ان لوگوں کو ان کے مطلوبہ منزل کی جانب بڑھنے اور اس پر کامیابی کے ساتھ پہنچنے میں سب سے زیادہ جس نے مدد کی وہ کانگریس ہے ۔ہم ستر برسوں سے کانگریس اور نام نہاد سیکولر پارٹی کے بغل بچہ بنے رہے ۔ہمیشہ ہم نے فرقہ پرستوں کو پیچھے رکھنے ان کو سیاسی طور پر مفلوج رکھنے کی لڑائی میں مسلمان ہی صف اول میں نظر آئے ۔یعنی کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو یہاں کی اکثریتی فرقہ کے روبرو دشمن کے طور پر ہی پیش کیا ۔یہ کام جہاں آر ایس ایس کھلے عام کرتی رہی وہیں کانگریس نے مسلمانوں کو سیکولرزم کے نام پر ہپنا ٹائزڈکرکے یہی کام کروایا لیکن مسلمان بے خبر رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں اور آج ستر سال بعد مسلمان خود کو لٹا پیٹا اور بے یارو مددگار محسوس کررہے ہیں ۔اتنے دنوں میں صرف ایک بار انہوں نے اپنی سیاسی قوت مضبوط کرنے یا اس کی تخلیق کی جانب قدم بڑھایا اور بھی ناکام رہا ۔جنوبی ہند میں کیرالا اور تمل ناڈو میں مسلمان تعلیم اور سیاسی شعور کی بیداری کی وجہ سے آج بھی سیاسی طور پر خود کو سمیٹے ہوئے ہے ۔اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں ہر جانب اندھیرا ہے ۔اس اندھیرے کو دور کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ رات ہونے پر روشنی کرنا ۔
وقت بدل گیا ہے ۔آزادی ہند کو ستر سال بیت چکے ہیں ۔اس وقت کے لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔نئی نسل اکیسویں صدی میں اطلاعاتی انقلاب کے سایے میں زندگی گزاررہی ہے ۔اسے پرانی روایتوں کا بالجبر مقلد نہیں بنایا جاسکتا ۔وہ سوال کرتا ہے ۔اس کا سوال منطقہ بھی ہوتا ہے ۔وہ اپنے سوال کا جواب بھی چاہتا ہے ۔اسے محض خوف اور گمان کی باتوں سے نہیں بہلایا جاسکتا ۔وہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کیلئے بے شمار قربانیوں کے باوجود مسلمانوں کو نہ صرف حاشیہ پر پہنچادیا گیا بلکہ اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس نے اردو تو نہیں پڑھی ہے لیکن وہ انگریزی اور ہندی میں تاریخ کے اوراق پلٹتا ہے اور خود یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اس کی قوم کے پچھڑنے کا سبب کیا ہے۔اسے کیوں نظر انداز کیا جاتا رہا ۔اسے کیوں پہلے فسادوں میں تباہ کیا گیا اور اس کے بعد اس کے مجتمع حوصلوں کو توڑنے کیلئے فرضی انکاؤنٹر وں میں ہلاک کی اجانے لگا اور فرضٰ مقدموں میں برسوں قید و بند کی سزا دینے کے بعد کورٹ نے اسے بری کردیا جب اس کی زندگی کے قیمتی سال تباہ ہو گیا ۔یہ سارے سوال اس کے ذہنوں میں ہیں وہ اسے پوچھتا بھی ہے لیکن اسے جواب دینے کی یا تو صلاحیت نہیں ہے یا حقائق کی جانکاری کے بعد کسی میں حوصلہ نہیں ہے ۔
آج کئی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ملک کے بگڑتے حالات کے پیش نظر دلت و دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہو رہی ہے ۔غالباً آزادی کے بعد سے ہی جماعت اسلامی ہند نے اس جانب قدم بڑھایا تھا ۔لیکن اس جماعت کو اپنوں کے فتووں کے میزائل سے اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ زیادہ کچھ کام انجام نہیں دے سکی ۔پر ایسا نہیں ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی کوششیں بار آور نہیں ہو سکیں ۔ اس کی محنتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ اور مختلف مسلم تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اس جانب قدم بڑھارہی ہیں ۔اس سلسلے میں جتنی لگن اور جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت تھی وہ اس لئے نہیں کیا جاسکا کہ ہمارے بعض مولویوں نے بھی اسلام کے مساوات کے اصول کے بر عکس برہمنوں کے عدم مساوات سے متاثر ہو کر بعض احادیث کی غلط تشریح کرکے عدم مساوات کو رواج دینے کا کام مسلم معاشرے میں کیا ۔اس کا انجام یہ ہوا کہ یہاں کی پسماندہ اقوام سے ہم مسلمانوں نے بھی وہی رویہ روا رکھا جو برہمن ان کے ساتھ روا رکھتے تھے ۔ہندوستان میں بزرگان دین کی کوششوں نے بہت حد تک عدم مساوات کے خلاف کام کیا لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح اور علما و اکابرین کی جانب سے اسلام کے اس زرین اصول مساوات کی وہ ترویج و اشاعت نہیں ہوئی۔ہم نے اپنے بچپن میں یہ دیکھا ہے کہ کس طرح دلت تو دلت خود مسلمانوں کے پسماندہ افراد کے ساتھ ہمارا یہ رویہ ہوتا تھا کہ وہ بیچارہ نیچے زمین پر آکر بیٹھتا تھا اور ہم نواب صاحب بن کر اوپر بیٹھا کرتے تھے ۔جب اسلامی شعور جاگا تو ہم اس روایت کو ختم کیا لیکن صدیوں تک اس ذہنیت کے ساتھ رہنے والے لوگ آج بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
اب بھی جب ہم اتحاد و یکجہتی اور اسلام کے مساوات کے پیغام اور نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کے موقعہ پر دیئے گئے خطبہ کی بات ہوتی ہے تو اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ۔مسلمانوں میں بھی عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ ارے یہ پسماندہ ہندو بھی وقت پر ہمارے خلاف ہی ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر یہ حالات کیونکر پیدا ہوتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس بات کی کوشش کی کہ ان کو ایک انسان کی حیثیت سے ہم وہی عزت دیں جس کا وہ حقدار ہے ۔ہم کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی اس پر عمل کیا ۔ہم نے اگر ان کو اپنا بھائی سمجھا ہوتا اور ان سے نفرت نہیں کیا ہوتا ،انہیں نیچ اور گھٹیا نہیں سمجھا ہوتا تو آج وہ برہمنوں کے اشاروں پر ان کے ساتھ نہیں ہوتے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری جانب سے کوئی کام نہیں ہوا لیکن وہ کام اجتماعی طور پر نہیں ہوا ۔انفرادی طور پر کچھ لوگوں نے یا جماعت اسلامی ہند جیسی ایک آدھ جماعت نے یہ کام کیا لیکن وہ مسلمانوں کی ذہنیت سے عدم مساوات کی برہمنی سوچ کو صاف نہیں کرسکے ۔گجرات فسادات یا ملک کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والے فسادات میں پسماندہ ہندوؤں کا رونا رونے سے پہلے ہم نبی ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اونچ نیچ کے برہمنی نظام سے باہر نکل کر جو صدیوں سے غلامی کی زندگی جی رہے ہیں ان کی قوت بنیں ۔انہیں آزاد کرائیں ۔یہ ڈھائی یا ساڑھے تین فیصد برہمن جو انہیں استعمال کرتے ہیں ہم ان کے ہاتھ بننے والوں کو اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں ۔لیکن یہ صبر آزما کام ہے جسے شروع کرنے کیلئے حوصلہ ہمت اور مومنانہ بصیرت کی ضرورت ہے ۔یہ جس میں ہے وہ اس کام کو شروع کرسکتا ہے ۔اسے کامیابی بھی ملے گی ۔ماضی میں بھی ایسی کئی شخصیات ہوئی ہیں جنہوں نے ایسے کارنامے انجام دیئے لیکن بعد میں ان کی وراثت کو کوئی سنبھال نہیں پایا ۔ایسے ہی ایک فرد کا نام ڈاکٹرعبد الجلیل فریدی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے قوم کی خدمت کیلئے اسے قعر مذلت سے نکالنے اسے سیاسی قوت بنانے اور ملک میں باعزت مقام دلانے کیلئے اپنا باوقار پیشہ معالج کا ،اپنی دولت اور آخر میں اپنی دولت تک قربان کردی ۔اللہ اس کے قبر کو منور کرے اور اس کے اخلاص کو قبول کرتے ہوئے اس کا بہترین اجر دے ۔ڈاکٹر مرحوم نے جب مسلم مجلس بنا کر یوپی میں الیکشن لڑنے کی تیاری کی تو انہیں بھی فرقہ پرستوں کا ایجنٹ اور سیکولر ووٹوں کو منتشر کرنے والا بتایا گیا تھا ۔جیسا کہ حالیہ دنوں میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اور ان کے لیڈروں اویسی برادران کے بارے میں کانگریس اور مسلم سیکولرسٹوں کی جانب سے پرپیگنڈہ کا بازار گرم کیا جارہا ہے ۔
کچھ لوگ یا طبقہ ہماری ملت میں نفاق کے بیج بوتا ہے اور پھر اسی جانب سے اتحاد کی بات بھی کی جاتی ہے ۔عجیب مخمصہ کا دور ہے ۔ایسے ہی کچھ لوگوں اور طبقوں کی جانب سے ہمیں برادران وطن سے لڑانے کی ہمہ وقت کوشش کی جاتی ہے ۔ہم اس کو سمجھ بھی نہیں پاتے کہ کس منصوبہ پر عمل ہو رہا ہے ۔یہ منصوبہ ہے ہمیں برادران وطن کے ساتھ ہمیشہ حالات جنگ اور دشمنی و نفاق والے ماحول میں رکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ہمیں ان حالات کو سمجھنا ہوگا اور مسلمانوں کے ان فرقوں یا طبقوں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کی کوشش کے ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے افراد اور طبقوں کے ساتھ جنگی پیمانے پر منصوبہ بند کوشش کی جائے۔یاد رکھیں کہ ملک کے حالات جس رخ کو جارہے ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم آپسی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ہی دیگر اقوام کے ساتھ دشمنی والے ماحول کو بدلا جائے ۔اس پر دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور تو ایک طبقہ وہ ہو جو یہ باور کرائے کہ ہم تمہارے رعب میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی ہم اپنی تہذیب اور مذہبی شناخت سے علیحدہ ہو سکتے ہیں ۔دوئم ایک طبقہ وہ ہو جو ہمیشہ دیگر اقوام خاص طور سے ان سے جو ہماری دشمنی میں سب سے آگے اور جارح ہیں ڈائیلاگ کے لئے مختص رہے وہ اسی میں اپنی ساری توجہ لگائے ۔
0 comments: