featured

اندھوں میں کاناراجامت بنیے !

7:16 PM nehal sagheer 0 Comments


صادق رضا مصباحی

ہمارے سماج کے ’’بڑے‘‘ اور’’ہمدرد‘‘لوگ اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ’’اب بڑے لوگ پیدانہیں ہوتے‘‘ ،’’بڑے لوگوں کازمانہ لد چکا ہے ‘‘۔اس سلسلے میں وہ ماضی کے رجالِِ کارکاحوالہ دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو!یہ تھے بڑے لوگ جنہوںنے انقلاب برپا کردیااورجنہوںنے عظیم الشان کام انجام دیے۔میری سمجھ میں آج تک نہیں آیاکہ کیابڑے لوگ آسمان سے ٹپکتے ہیں یازمین انہیں اُگل دیتی ہے یاوہ یوں ہی آموجودہوتےہیں۔؟’’بڑے‘‘ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بڑے اورعظیم لوگ ایک دم سے توبڑے نہیںہوجاتے ،وہ پہلے چھوٹے ہی ہوتےہیں بعدمیں بڑے بنتے ہیں اس لیے بڑے بنتے ہیںکیوںکہ ان کے سینئراوران کے زمانے کے بڑے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان کی تربیت کرکےانہیںمستقبل کے لیے تیارکرتے تھے کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بعدمحاذسنبھالنے والے یہی چھوٹے ہیں جوہماری جگہ سنبھالیں گے اوراپنی آنے والی نسلوں کی قیادت کافریضہ انجام دیں گے۔دیکھاجائے توصحیح معنوں میں ہمدرداوربڑے حضرات وہی تھے جنہیں بس فکرتھی توبس یہی کہ ملت کے لیے کچھ ایسے افرادتیارہوجائیں جو ان کے بعدان کی نیابت کرسکیں ۔افسوس!آج معاملہ بالکل برعکس ہے ۔دعویٰ توہم سب کاہے کہ ہم اپنی ملت کے لیے ہمدرد اورمخلص ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قحط الرجال نے ہمیںبڑابنادیاہے،ہم واقعی میں بڑے نہیںہیں۔اس کودوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ ہم اندھوں میں کاناراجاہیں ۔
مفکرین کہتے آئے ہیں کہ بڑاوہ ہے کہ جس کے پاس اگرچھوٹابیٹھے تواس کی باتوں سے اسے اپنی ذات کاعرفان حاصل ہو۔عرفان حاصل ہونےکامطلب یہ ہے کہ اسے اپناتشخص نکھارنے کاموقع ملے،اپنی صلاحیت کااندازہ ہو اور اسے احساس ہو کہ معاشرے میں اس کی اہمیت کیاہے۔یہ تمام چیزیں چھوٹے کےذہن میں اس وقت ابھرتی ہیں جب بڑے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے اس کی ذمے داریوں کااحساس دلاتے ہیں ۔ ہمارے یہا ں چوںکہ چھوٹوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے اور ان کی ترقی میں رکاوٹ پیداکرنے والے لوگ بہت ہیں اس لیے صلاحیت مندافرادپیدانہیں ہوپارہےہیں ۔ہماری بیمارسوچ یہ ہے کہ ہم اپنے سے آگے کسی کو بڑھنے ہی نہیں دیتے تاکہ ہماری عزت میں کمی نہ آنے پائے ۔اس تناظرمیں یہ کہنابجاہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ رجالِ کار پیدا نہیں ہورہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ رجال کارکی شناخت نہیں ہورہی ہےکیوں کہ لمبی لمبی ہانکنے والے ’’بڑے‘‘ توبہت ہیںلیکن جوہری خال خال ہی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہیرے کی قیمت جوہری ہی جانتاہے اورجوجوہری ہے ہی نہیں اسے ہیرےکی قدروقیمت کااندازہ کیوں کر ہو سکتاہے ۔اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہیرے توبہت ہیں مگرکوئی شناخت کرنے والاجوہری کوئی نہیں ،یانہ کے برابر۔
ہم اکثراپنے احباب سے سنتے آئے ہیں کہ اردواخبارات کے لیے کام کے افرادکی قلت ہوگئی ہے لیکن اس کے اسباب پربہت کم لوگوں کوغورکرنے کی توفیق ہوتی ہے ۔مسئلہ وہی ہے کہ ہم چھوٹوں کی تربیت نہیں کررہے ہیں اوراپنے ’’بڑے پن‘‘میں مست ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم بڑے ہیں بھی یانہیں کیوںکہ وقت بہت بڑامنصف ہے وہ ایک نہ ایک دن ثابت کرہی دیتاہے کہ جوخودکوبڑاسمجھ رہے تھے حقیقت میں وہ کتنے چھوٹے تھے۔ہمارامزاج یہ ہے کہ ہمیں اگر کرسی مل جاتی ہے توہم سمجھ لیتے ہیں کہ مجھ سے بڑاکوئی نہیں ،کسی کافائدہ ہو یا نہ ہو ہماری بلاسے ،مگرہماراکوئی نقصان نہیں ہوناچاہیے ۔یہ ہے وہ ذہنیت جوہمارے سروں پرمسلط ہے اورجس نے ہمیں بے حس بنا دیا ہےاورتقریباًہرشعبے میں ہمیں ایسے ننگ ملت اورننگ وطن لوگوں سے ایڈجسٹ مینٹ کرناپڑتاہے۔
اگرہم یہ عہدکرلیں کہ اگراللہ تعالیٰ ہمیں کسی بڑے منصب پرپہنچادے توہم اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ماتحت،اپنے جونیئر اوراپنے بچوں میں سے کسی ایک کوضروراس عہدے کے لائق بنائیں گے تویقین کیجیے قلتِ افراد کامسئلہ کبھی پیداہی نہیں ہوگااورہرشعبے کے لیے آسانی سے ہمیں افراددستیاب ہوجایاکریں گے ۔قلت افرادکابس ایک یہی علاج ہے ۔ ذرا تصورکیجیے کہ اس کافائدہ کتناعظیم ہے،ہمیں دنیامیں بھی اس کابھرپورفائدہ ہوتاہے اورآخرت میں بھی ۔آخرت میں اس کے عوض ہمارے لیے جواجرمقدرہے اس کاتوہم کوئی تصورہی نہیں کرسکتے ۔دنیاوی طورپردیکھیں توہم محسوس کریں گے کہ اگر ہم کسی کی تربیت کرکے اسے کسی لائق بنادیتے ہیں تووہ زندگی بھرکے لیے ہمارا اسیر ہو جاتا ہے ۔ہاں! چندایک بے ظرف بھی نکل آتے ہیں جوشایدہماری قدراوراحسان مندی کوفراموش کردیں لیکن اگروہ ہماراکیس اپنے ضمیرمیں عدالت میں پیش کریں گے تویقیناًان کاضمیرہمارے ہی حق میں فیصلہ سنائے گا،اوراگرمان لیجیے کہ وہ ہماری قدرنہیںکرتاتوہمیں دل براشتہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اسے اپناکام کرنے دیں گے لیکن ہم اپنے بھی کام سے منہ نہیں موڑیں گے ورنہ ہم میں اوراس میں فرق ہی کیارہ جائے گا ؟کم ازکم ہم مطمئن تو ہیں کہ اللہ کی جانب سے سماج کے تئیں ہمیں جوذمے داری سونپی گئی ہے وہ ہم نے پوری کردی ہے ۔ انسان اپنے ویژن اوراپنے نظریات سے بڑابنتاہے ،منصب اورپیسے سے نہیں۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہمیں واقعی بڑابنناہے یااندھوں میں کاناراجابن کرخوش ہوجاناہے۔

0 comments: