featured
مسلمانوں کی تقدیر بدل جائے گی آپ اسد الدین جیسا 10ایم پی پارلیمنٹ میں بھیج دیجئے
زین شمسی
شہاب الدین صاحب چلے گئے ، وہ کچھ تھے یا نہیں تھے ، کچھ کیا یا نہیں کیا ، یا جو کیا وہ اچھا تھا یا برا تھا، کہاں کمی رہ
گئی تھی اور کہاں غلطی ہوئی، اس پر قائدین اوردا نشوران ملت نے جو کچھ بھی لکھا، وہ ان کی زندگی کا احاطہ نہیں کر پایا۔ انہیں کوئی سیاسی نظریہ سے دیکھتا رہا تو کوئی بابری مسجد کو بچانے اور اور نہ بچانے سے تولتا رہا۔ وہ کچھ بھی تھے ، مگر قوم دوست تھے ، اگر یہ بات کوئی نہیں مانتا تو وہ خود کو قوم دوست منوانے کی بیجا کوشش کر رہا ہے۔
سہارا کے لیے ایک انٹرویو لیا تھاان سے۔
جب میں مشاورت کے دفتر میں پہنچا تو وہ پرسکون حالت میں بیٹھے تھے۔مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ انچا سنتے ہیں ،لیکن میں اس لیے مطمئن تھا کہ انہیں مجھے نہیں سننا تھا،مجھے انہیں سننا تھا اور میں اونچا نہیں سنتا۔
سلام کیا، انہوں نے جواب دینے کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ دیا۔
نہ ہی میں نے ان سے حال چال پوچھا اور نہ ہی انہوں نے میری خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی،
کیوں کہ دونوں معاملے رسمی ہوتے ہیں ، شہاب الدین صاحب اس رسم کو نبھاتے نبھاتے بوڑھے ہو چلے تھے اور میں نے رسموں کوزخموں میں بدلتا دیکھا ہے ، اس لیے زیادہ رسمی گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں،
تو آج کے ہندوستان کا قائد کیسا ہو؟
میراپہلاسوال تھا، جس کے لیے وہ فوراً تیار نہیں ہو سکے ،کیونکہ ان سے عموماً پہلا سوال کیا جاتا ہے کہ بابری مسجد کاکیا ہوگا، جب منہدم ہو گئی تو پوچھا جاتا رہاکہ اب عدالت میں کیا ہوگا، جب عدالتی پیچ پھنس گیا تو پوچھا جاتا رہا کہ جب معاملہ عدالت میں ہی طے ہونا تھا تو تحریک کی کیا ضرورت تھی، وغیرہ وغیرہ۔
اسد الدین اویسی جیسا ہونا چاہیے،
یعنی اسد الدین اویسی ،میں نے دہرایا،
انہوں نے کہا’ جیسا‘۔
گویا اسد الدین اویسی اور اسد الدین اویسی’ جیسا‘میں فرق ہے۔
انہوں نے کہا شاید یا پھر یقیناً۔
وضاحت کریں گے ، میں اپنا دوکان ان کے منہ کے قریب لے گیا۔
بولنے والا، اپنی بات رکھنے والا، اپنے کاز کے لیے لڑنے والا، جب بولے تو سب سنے ، وہ بھی سنے جو نہیں سننا چاہتے، وہ بھی سنے جو انہیں جیسا بولنا چاہتا ہو۔آپ اسد الدین جیسا 10ایم پی پارلیمنٹ میں بھیج دیئے ، دیکھئے گا ، ہنگامہ ہو جائے گا، مسلمانوں کی تقدیر بدل جائے گی۔کوئی نہیں بولتا بیٹا، آج کے دور میں کوئی نہیں بولتا ۔ سب اپنی پارٹی کی بولتے ہیں ، اپنی پارٹی کے لیے بولتے ہیں۔ بولنا ہوگا۔
وہ بولتے ہوئے چپ ہو گئے۔
لیکن ایسا لیڈر کہاں سے لایئے گا جو قوم کے لیے بولے ، الٹی میٹلی ،اسے کسی نہ کسی پارٹی کا نمائندہ ہی ہونا ہوگا، اس جمہوریت میں معاملہ یہی ہے کہ ہم ایک ایسے لیڈر کو منتخب کرتے ہیں جو پارٹی کی طرف سے نامزدکیا جاتا ہے اور ہمیں انہیں میں سے کسی کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔ گویاتھوپے ہوئے نمائندے ہمارے ذریعے منتخب کرا دیا جاتا ہے۔ رہی بات آزاد امیدوار کی تو جب ہندوستان ہی قائدین کے تئیں بیدار نہیں ہے ، تومسلمان کہاں سے ہوں گے؟دوسرا سوال تھا۔
آسان ہے ، مگر ہو سکتا ہے۔ محنت کرنی ہوگی ، اگر قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔کیسے میں بتاتا ہوں۔کر کے دیکھئے گا اگر کبھی موقع ملے۔ وہ مسکرائے ، مسکراتے ہوئے ، نہیں لگا کہ وہ آئی ایف ایس ، ممبر پارلیمنٹ ، بابری تحریک کے روح رواں یا مشاورت کے صدر رہے ہیں ، یہی لگا کہ وہ ایک سائنسداں ہیں جنہوں نے ابھی ابھی ایک فارمولہ ایجاد کیاہے۔
وہ بولتے گئے ،گائوں سے ،محلوں سے ، قصبوں سے ، گلیوں سے ، آپ انہیں نکال سکتے ہیں۔کیسے نکالیں گے ، بتاتا ہوں۔ دیکھئے ہر محلے میں ، قصبے میں شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا ہوتا ہے ، جس کی عزت سب لوگ کرتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی ڈاکٹر ہو ، وکیل ہو ، پروفیسر ہو، سماجی خدمتگار ہو۔ کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے ، جو کچھ کہتا ہے تو لوگ اس کی مانتے ہیں۔ اسی طرح عالم دین میں سے کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی عزت ہوتی ہے۔ پھر کوئی دکاندار یا تاجر ہوتا ہے جو کسی کی مدد کرتا ہے اور فلاحی کاموں میں ڈونیٹ کرتا ہے۔ ان سب کی ایک ٹیم بن جائے تو نمائندہ منتخب کرتے ہوئے نااتفاقی نہیں ہوگی۔
میں انہیں سنتا رہا، لیکن خاموش نہیں رہ سکا۔یعنی آپ جو کہہ رہے ہیں وہ آزاد امیدوار کے سلسلے میں کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہاں ، پارٹی کے ذریعہ منتخب امیدوار کو تو آپ جتا سکتے ہیں ،لیکن وہ آپ کو نہیں جتائے گا، میں نے پہلے ہی کہا ہے۔
ڈھیر ساری باتیں ہوئیں ، ظاہر ہے کہ بابری کی بھی ہوئی اور اس دوران کچھ لوگوں کی غداری اور بے وفائی کی بھی ہوئی۔
آج جب میں انہیں لاکھوں من مٹی کے تلے داب کر آرہا ہوں تو صرف یہی سوچ رہا ہوں کہ ان جیسے لوگوں کے مرنے سے پہلے کوئی قائد پیدا ہوجانا چاہیے۔
تدفین کے وقت بدرالدین اجمل صاحب تھے، اور کچھ اخبارات کے نام نہاد صحافی جو ظاہر ہے ان کے لئے نہیں آئے تھے،بلکہ اپنی ٹولیوں کے ساتھ اپنی حاضری دینے آئے تھے۔ سابق مشاورت کے صدر کی قابلیت کے بارے میں سوچتا ہوا آگے بڑھا تو موجودہ صدر اپنی ٹولیوں کے ساتھ نظر آئے۔ سات بار سلام کیا تو گردن ہلا کر رہ گئے۔ ایک بڑے صحافی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے یوں نظر انداز کیا جیسے مین قبر کی مٹی ہوں۔
لوٹتے ہوئے یہی احساس ہوا کہ جب تک تعصب اور مفاد پرستی کو قوم اپنا شعائر بناتی رہے گی ، قائد تو خیر پیدا ہی نہیں ہوگا، جو کچھ بچے کچھے لوگ ہیں انہیں بھی ہم لوگ دفناتے رہیں گے،ایسے ہی
0 comments: