featured
محسن عثمانی ندوی
۱۱ مارچ ۲۰۱۷ کی شام کو سراج اورنگ آبادی کا یہ مصرعہ بہت یاد آیا ’’ چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا ‘چمن میں بادصرصر چلی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ قومیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں، اور انھیں سے ان کی قوت اورزندگی کا اظہار ہوتا ہے، انھیں سے ان کے اندر مدافعانہ قوت کی نشو ونما ہوتی ہے، جو لوگ سخت سردی یا سخت گر می کے موسم میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کی جسمانی قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔افراد کی طرف قومیں بھی مخالفت کی آندھیوں کے درمیان رہ کر خود کو زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر اور حوصلوں سے معمور بنالیتی ہے، ان کے لئے سخت اور جانگسل حالات قدرت کی طرف سے انعام ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اور صحابہ کرام نے مکی دور میں بہت سی پریشانیاں برداشت کیں، لیکن مشکلات کے خاردار صحرا میں وہ ثابت قدم رہے، یہی نصیحت اقبال نے کی ہے
کانپتا ہے ۔دل دل ترا اندریشہ طوفاں سے کیا
نا خدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
ہمیں خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے، ہم نے ہمالیہ پہاڑ کے برابر غلطیاں کی ہیں، یوپی کے الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ بری طرح تقسیم ہوگئے ، سیاسی پارٹیوں کے درمیان اور پھر ایک مسلم پارٹی کے درمیان جس نے مسلمانوں کے پاکٹ میں اپنے امید وار کھڑے کئے تھے ،جب مسلم قائدین صحیح رہنمائی سے قاصر ہوں اور جب مسلمانوں میں اتنا بھی اتحاد نہیں ہو کہ وہ سب مل کر اور اصابت رائے سے ووٹ دینے کا صحیح فیصلہ کر سکیں تو اس کا نتیجہ تو یہی ہونا تھا جو سامنے آیا،جہاں مسلمان تیس اور چالیس فی صد تھے اس تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے وہاں بھی ان کا امیدوار جیت نہیں سکا کیونکہ ان کے ووٹ تقسیم ہوگئے تھے۔
تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ مسلم قائدین اور علماء میں بھی بصیرت اور اخلاص کی کمی بھی پائی جاتی ہے،ان کا کردار بھی بلند نہیں ہے ، بڑے بڑے اداروں مدرسوں اور تنظیموں میں اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کے واقعات جو پیش آتے ہیں وہ اسی سبب سے پیش آتے ہیں کہ اوپر کی قیادت کی صف میں کچھ لوگوں میں اخلاص ختم ہوجاتا ہے اور ان کا کردار داغدار ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حفاظت کا شامیانہ اٹھالیا جاتا ہے ابلیسی قوتیں اپنا کام کرنے لگتی ہیں بظاہر دیکھنے میں یہ لگتا ہے کہ فلاں شخص کے فلاں کام کی وجہ سے یہ برا وقت آیا ہے اور ادارہ کونقصان پہونچا ہے اور پھرایک دوسرے پر الزام اور اتہام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ہم قیادت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جن کے یہاں عہدوں کی ہوس اور جاہ ومال کی طلب موجود ہے وہ سیاسی لیڈروں کی طرح پیترا بازی کرتے ہیں اورشاطرانہ چال چلتے ہیں ،وہ قامت کی درازی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے اپنے ناموں کے ساتھ القاب لگواتے ہیں جب کہ یہ القاب ان کی قامت پر راست نہیں آتے ، ان کے مزاج میں رعونت پائی جاتی ہے ،یہ امراض ہیں جو خواص کو لاحق ہوچکے ہیں ، ان عیوب کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ یہ عیوب اللہ کے یہاں ناپسندیدہ ہیں ۔اور ان عیوب کی وجہ سے پوری امت آسمانی حفاظت کی چھتری سے محروم ہوجاتی ہے ۔یہ وہ افراد ہیں جن کی اصلاح نہیں ہوئی تو ملت کی کشتی خطرہ سے دوچار ہوسکتی ہے ۔
یوپی کے الیکشن کے نتائج نے ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں اندیشے پیدا کردیئے ہیں۔ پرسنل لا کو ختم کرنے کا عہد تو بی جے پی کے منشور میں شامل ہے ہندو تہذیب کے غلبہ کا وہ عہد کرچکی ہے وہ وقت قریب ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کی اکثریت ہوجائے اور اس کے بعد قانون اور دستور کو بدلنا اس کے لئے بہت آسان ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جاچکی ہے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے ، الیکشن کے نتائج اسی فضا کے آئینہ دار ہیں ۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کو شرپسنداور دہشت گرد اور سازشی سمجھاجانے لگاہے ۔یہ ایک نظریہ ہے جو پروان چڑھ رہا ہے ، ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی سوچ ایک ہے اور یہ سوچ ہر جگہ قبول عام اختیار کرہی ہے ۔یوپی کا الیکشن چشم کشا ہے، بہر حال اب تو جو ہوناتھا وہ ہو چکا، اب سب سے پہلے ہمیں اپنے پروردگا ر کی طرف رجوع کرنا چائیے اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی مالک الملک ہے ، تمام حکومتوں کا مالک وہی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کر تا ہے اور اسے زمین کا وارث بناتا ہے ، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار حکومت چھین لیتا ہے ، جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے ، ا سی کے ہاتھ میں خیر ہے ، اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے، مسلمانوں کو اللہ سے خیر وعافیت طلب کرنا چاہئے، اور باطل کے سامنے سر نگوں ہونے سے ہر حال میں پر ہیز کرنا چاہئے ، یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کشمکش اور کشاکش کی دنیا میں بقاء انفع کا قانون جاری ہے، قدرت بہتر کا انتخاب کرتی ہے تاکہ خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا کا انتظام درست ہو، اور جب حکمراں قوم اپنی اہلیت کھو دیتی تو پھر وہ معزول کردی جاتی ہے، یہ جو سیاسی انقلابات آتے ہیں، اس میں اللہ تعالی کی پوشیدہ مصلحتیں ہوتی ہیں، اگر مسلمانوں کے اندر جو ہر قابل پیدا ہوجائے، تو ممکن نہیں کہ انھیں عزت اور اقتدار سے سر فراز نہ کیا جائے باضابطہ طریقہ سے ملک میں ہر سطح پر کوشش ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان صالح بھی ہو اور صلاحیت والا یعنی تعلیم یافتہ بھی ہو، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کردارواخلاق کی خوشبو سے اسلام کا معطر اشتہار بن جائے۔
مسلمانوں کو بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، صرف مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف ہونے کی ضرورت ہے، اگر مسلمان اپنی قومی زندگی کے اس خطر ناک اور نازک موڑ پر یہ عہد کرلیں وہ اپنے دین کے کسی جزء سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، اور یہ عہد کرلیں کہ وہ حسن عمل اور کردار اور اخلاق میں ممتاز بنیں گے، اور اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں گے، اور اپنے وقت کو ضائع نہیں کریں گے، وہ برادران وطن سے اور خاص طور پرپسماندہ اور مظلوم طبقات سے مضبوط تعلقات قائم کریں گے ۔ اپنے اندر نافعیت کی صفت پیدا کریں گے ،دوسروں کیلئے خیرخواہ اور ہمدرد ثابت ہوں گے ، اگر وہ اس ملک میں برادران وطن سے زیادہ فائق ، ممتاز اور بااخلاق بن کر رہیں گے تو وہ اس ملک میں بوجھ نہیں ہوں گے، اور ان کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوگا، تعلیم کے میدان میں پیش رفت سے اقتصادی حالات بہتر ہوں گے اور اقتصادی حالات کی بہتری سے تعلیم کے میدا ن میں پیش رفت ہوگی۔یہ سمجھ لینا چاہئے جو قیادت مسلمانوں کو سنگھرش کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے وہ کم عقل اور غلط اندیش قیادت ہے اس ملک میں مسلمانوں کو قرآن مجید نے راستہ بتا یا ہے ادفع بالتی ہی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم یعنی اے نبی برائی کو اس نیکی سے دفع کرو جو سب سے احسن ہو تب تم دیکھو گے کہ وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ۔
برادران وطن کے ساتھ اور بالخصوص پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کو گہرے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو اپنے حسن عمل اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعتبار سے دوسروں سے ممتاز بننا پڑے گا، اسلام پر اور مسلمانوں کی تہذیب اور ـعائلی قوانین پر جو اعتراضات ہیں اس کا بہت مدلل جواب تیار کرنا ہوگا، انگریزی اور مقامی زبانوں میں اس کے ترجمے کرنے ہوں گے ان کتابوں کو جج اور وکلاء اور اہل فکر وعلم کے درمیان تقسیم کرنا ہوگا،اسلام کے تعارف کے کام کے ساتھ اور حسن اخلاق اور اعلی کردار کے ساتھ اچھی تعلیم برادران وطن کے دلوں کو مسلمانوں کا شیدائی بنا سکتی ہے، اس وقت مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں وہ جو کبھی شاہ زمن تھے اور خسروئے اقلیم وطن تھے وہ جارو ب کشوں کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں، سچر کمیٹی کی سفارشات اوررنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی رپوٹ سب کے علم میں ہے ہمیں کمزوریوں کا مداوا خود کرنا ہوگا، اور مسلمانوں کو اس کے لئے تیا ر کرنا ہوگا کہ وہ خود اسلام پر عمل کریں گے اور اپنے بچوں میں اسلامی غیرت اور حمیت پیدا کریں گے خود روکھی سوکھی روٹی کھائیںگے لیکن اپنے اولاد کی تعلیم سے غافل نہیں ہوں گے اور تعلیم میں ممتاز ہونے کے لئے وہ دوسروں سے زیادہ دوگنی محنت کریںگے۔اور اپنا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔اور تعلیم کے میدان میں اپنا امتیاز قائم کریں گے ۔خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں گے ،کیونکہ اسلام میں اس کی تاکید بہت ہے اور یہ دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ ہے ، مسلمانوں کے ہر ادارے میں خدمت خلق کا شعبہ قائم ہونا چاہئے ۔
ہمیں مستقبل میں ایسی نسل کی ضرورت ہے جو برادران وطن سے ان کی زبان میں ڈائیلاگ کرسکے ،مذہبی اور سماجی مسائل پر مکالمات کرسکے اورجو پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہمکلام ہوسکتی ہو ہمیں ایسے سیکڑوں علماء کی ضرورت ہے جو برادران وطن کے مذہب سے ان کی تہذیب سے ان کی تاریخ سے اور ان کی نفسیات سے واقف ہوں اس عظیم کام کے لئے برادران وطن کے مذہب اور ان کی تہذیب کا اور ان کی کتابوں کا عمیق مطالعہ ضروری ہے ان کی زبانوں سے واقفیت ضروری ہے اس کام کا شعور عیسائیوں کو ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں ہے عیسائی مسلمانوں میں کام کرنے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اس کیلئے ان کے ہاں شعبے قائم ہیں مسلمانوں کے دینی تعلیمی اداروں کو اس کام کی کوئی فکر نہیں ہے ، اس اہم کام کا انتظام شروع سے دینی مدارس میں ہونا چاہئے حیدرآباد سے دہلی تک اور دہلی سے سہارنپور تک اور یوپی سے گجرات تک مدارس کے ذمہ داروں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال رکھی ہیں اور اسلاف نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق جونصاب بنایا تھا اب بدلے ہوئے حالات میں بھی انہیں اسی پر اصرار ہے اور وہ تبدیلی کے روادار نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انتخابات کے ہوش ربا نتائج کے بعد بھی مدارس کے ذمہ داروں کو ہوش آئے گا یا نہیں ۔کیا انہیں اس بات کی خبر ہے کہ اس ملک کو اسپین بنانے کے ارادے بھی پائے جاتے ہیں ؟ اگر ہم اب بھی نہیں جاگیں گے تو پھرجاگنے کے لئے ہم کو صور اسرافیل کا انتظار کرنا ہوگا ۔
جب ۲۰۱۴ کے انتخابی نتائج سامنے آئے تھے اور حالات نے نیارخ اختیار کرلیا تھا اس وقت بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کہی گئی تھیں اور اس الیکشن کے بعد تو خطرہ تمام حدود کو پار کرگیا ہے ،اب قانون اور دستور کو بدل کر صرف پرسنل لا اور بابری مسجد نہیں بلکہ عقیدہ کی فصیل پر بھی حملہ ہونے والا ہے اب تو مسلمانوں میں حشر برپا ہوجانا چاہئے مردوں کو بھی کھڑاا ہوجانا چاہئے لیکن وہ قوم جس نے انکار وجحود کی تمام سنتیں ہمیشہ تازہ کی ہیں کیا اب وہ خطرہ عظیم کے بعد عقل کی بات سننے کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور کیا مسلم قیادت اپنی اصلاح کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور اپنی کمزوریوں کوسمجھ سکتی ہے اور رجوع الی اللہ پرآمادہ ہوسکتی ہے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہے ؟
چمن سرور کا جل گیا
محسن عثمانی ندوی
۱۱ مارچ ۲۰۱۷ کی شام کو سراج اورنگ آبادی کا یہ مصرعہ بہت یاد آیا ’’ چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا ‘چمن میں بادصرصر چلی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ قومیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں، اور انھیں سے ان کی قوت اورزندگی کا اظہار ہوتا ہے، انھیں سے ان کے اندر مدافعانہ قوت کی نشو ونما ہوتی ہے، جو لوگ سخت سردی یا سخت گر می کے موسم میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کی جسمانی قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔افراد کی طرف قومیں بھی مخالفت کی آندھیوں کے درمیان رہ کر خود کو زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر اور حوصلوں سے معمور بنالیتی ہے، ان کے لئے سخت اور جانگسل حالات قدرت کی طرف سے انعام ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اور صحابہ کرام نے مکی دور میں بہت سی پریشانیاں برداشت کیں، لیکن مشکلات کے خاردار صحرا میں وہ ثابت قدم رہے، یہی نصیحت اقبال نے کی ہے
کانپتا ہے ۔دل دل ترا اندریشہ طوفاں سے کیا
نا خدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
ہمیں خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے، ہم نے ہمالیہ پہاڑ کے برابر غلطیاں کی ہیں، یوپی کے الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ بری طرح تقسیم ہوگئے ، سیاسی پارٹیوں کے درمیان اور پھر ایک مسلم پارٹی کے درمیان جس نے مسلمانوں کے پاکٹ میں اپنے امید وار کھڑے کئے تھے ،جب مسلم قائدین صحیح رہنمائی سے قاصر ہوں اور جب مسلمانوں میں اتنا بھی اتحاد نہیں ہو کہ وہ سب مل کر اور اصابت رائے سے ووٹ دینے کا صحیح فیصلہ کر سکیں تو اس کا نتیجہ تو یہی ہونا تھا جو سامنے آیا،جہاں مسلمان تیس اور چالیس فی صد تھے اس تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے وہاں بھی ان کا امیدوار جیت نہیں سکا کیونکہ ان کے ووٹ تقسیم ہوگئے تھے۔
تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ مسلم قائدین اور علماء میں بھی بصیرت اور اخلاص کی کمی بھی پائی جاتی ہے،ان کا کردار بھی بلند نہیں ہے ، بڑے بڑے اداروں مدرسوں اور تنظیموں میں اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کے واقعات جو پیش آتے ہیں وہ اسی سبب سے پیش آتے ہیں کہ اوپر کی قیادت کی صف میں کچھ لوگوں میں اخلاص ختم ہوجاتا ہے اور ان کا کردار داغدار ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حفاظت کا شامیانہ اٹھالیا جاتا ہے ابلیسی قوتیں اپنا کام کرنے لگتی ہیں بظاہر دیکھنے میں یہ لگتا ہے کہ فلاں شخص کے فلاں کام کی وجہ سے یہ برا وقت آیا ہے اور ادارہ کونقصان پہونچا ہے اور پھرایک دوسرے پر الزام اور اتہام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ہم قیادت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جن کے یہاں عہدوں کی ہوس اور جاہ ومال کی طلب موجود ہے وہ سیاسی لیڈروں کی طرح پیترا بازی کرتے ہیں اورشاطرانہ چال چلتے ہیں ،وہ قامت کی درازی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے اپنے ناموں کے ساتھ القاب لگواتے ہیں جب کہ یہ القاب ان کی قامت پر راست نہیں آتے ، ان کے مزاج میں رعونت پائی جاتی ہے ،یہ امراض ہیں جو خواص کو لاحق ہوچکے ہیں ، ان عیوب کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ یہ عیوب اللہ کے یہاں ناپسندیدہ ہیں ۔اور ان عیوب کی وجہ سے پوری امت آسمانی حفاظت کی چھتری سے محروم ہوجاتی ہے ۔یہ وہ افراد ہیں جن کی اصلاح نہیں ہوئی تو ملت کی کشتی خطرہ سے دوچار ہوسکتی ہے ۔
یوپی کے الیکشن کے نتائج نے ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں اندیشے پیدا کردیئے ہیں۔ پرسنل لا کو ختم کرنے کا عہد تو بی جے پی کے منشور میں شامل ہے ہندو تہذیب کے غلبہ کا وہ عہد کرچکی ہے وہ وقت قریب ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کی اکثریت ہوجائے اور اس کے بعد قانون اور دستور کو بدلنا اس کے لئے بہت آسان ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جاچکی ہے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے ، الیکشن کے نتائج اسی فضا کے آئینہ دار ہیں ۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کو شرپسنداور دہشت گرد اور سازشی سمجھاجانے لگاہے ۔یہ ایک نظریہ ہے جو پروان چڑھ رہا ہے ، ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی سوچ ایک ہے اور یہ سوچ ہر جگہ قبول عام اختیار کرہی ہے ۔یوپی کا الیکشن چشم کشا ہے، بہر حال اب تو جو ہوناتھا وہ ہو چکا، اب سب سے پہلے ہمیں اپنے پروردگا ر کی طرف رجوع کرنا چائیے اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی مالک الملک ہے ، تمام حکومتوں کا مالک وہی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کر تا ہے اور اسے زمین کا وارث بناتا ہے ، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار حکومت چھین لیتا ہے ، جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے ، ا سی کے ہاتھ میں خیر ہے ، اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے، مسلمانوں کو اللہ سے خیر وعافیت طلب کرنا چاہئے، اور باطل کے سامنے سر نگوں ہونے سے ہر حال میں پر ہیز کرنا چاہئے ، یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کشمکش اور کشاکش کی دنیا میں بقاء انفع کا قانون جاری ہے، قدرت بہتر کا انتخاب کرتی ہے تاکہ خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا کا انتظام درست ہو، اور جب حکمراں قوم اپنی اہلیت کھو دیتی تو پھر وہ معزول کردی جاتی ہے، یہ جو سیاسی انقلابات آتے ہیں، اس میں اللہ تعالی کی پوشیدہ مصلحتیں ہوتی ہیں، اگر مسلمانوں کے اندر جو ہر قابل پیدا ہوجائے، تو ممکن نہیں کہ انھیں عزت اور اقتدار سے سر فراز نہ کیا جائے باضابطہ طریقہ سے ملک میں ہر سطح پر کوشش ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان صالح بھی ہو اور صلاحیت والا یعنی تعلیم یافتہ بھی ہو، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کردارواخلاق کی خوشبو سے اسلام کا معطر اشتہار بن جائے۔
مسلمانوں کو بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، صرف مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف ہونے کی ضرورت ہے، اگر مسلمان اپنی قومی زندگی کے اس خطر ناک اور نازک موڑ پر یہ عہد کرلیں وہ اپنے دین کے کسی جزء سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، اور یہ عہد کرلیں کہ وہ حسن عمل اور کردار اور اخلاق میں ممتاز بنیں گے، اور اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں گے، اور اپنے وقت کو ضائع نہیں کریں گے، وہ برادران وطن سے اور خاص طور پرپسماندہ اور مظلوم طبقات سے مضبوط تعلقات قائم کریں گے ۔ اپنے اندر نافعیت کی صفت پیدا کریں گے ،دوسروں کیلئے خیرخواہ اور ہمدرد ثابت ہوں گے ، اگر وہ اس ملک میں برادران وطن سے زیادہ فائق ، ممتاز اور بااخلاق بن کر رہیں گے تو وہ اس ملک میں بوجھ نہیں ہوں گے، اور ان کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوگا، تعلیم کے میدان میں پیش رفت سے اقتصادی حالات بہتر ہوں گے اور اقتصادی حالات کی بہتری سے تعلیم کے میدا ن میں پیش رفت ہوگی۔یہ سمجھ لینا چاہئے جو قیادت مسلمانوں کو سنگھرش کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے وہ کم عقل اور غلط اندیش قیادت ہے اس ملک میں مسلمانوں کو قرآن مجید نے راستہ بتا یا ہے ادفع بالتی ہی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم یعنی اے نبی برائی کو اس نیکی سے دفع کرو جو سب سے احسن ہو تب تم دیکھو گے کہ وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ۔
برادران وطن کے ساتھ اور بالخصوص پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کو گہرے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو اپنے حسن عمل اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعتبار سے دوسروں سے ممتاز بننا پڑے گا، اسلام پر اور مسلمانوں کی تہذیب اور ـعائلی قوانین پر جو اعتراضات ہیں اس کا بہت مدلل جواب تیار کرنا ہوگا، انگریزی اور مقامی زبانوں میں اس کے ترجمے کرنے ہوں گے ان کتابوں کو جج اور وکلاء اور اہل فکر وعلم کے درمیان تقسیم کرنا ہوگا،اسلام کے تعارف کے کام کے ساتھ اور حسن اخلاق اور اعلی کردار کے ساتھ اچھی تعلیم برادران وطن کے دلوں کو مسلمانوں کا شیدائی بنا سکتی ہے، اس وقت مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں وہ جو کبھی شاہ زمن تھے اور خسروئے اقلیم وطن تھے وہ جارو ب کشوں کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں، سچر کمیٹی کی سفارشات اوررنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی رپوٹ سب کے علم میں ہے ہمیں کمزوریوں کا مداوا خود کرنا ہوگا، اور مسلمانوں کو اس کے لئے تیا ر کرنا ہوگا کہ وہ خود اسلام پر عمل کریں گے اور اپنے بچوں میں اسلامی غیرت اور حمیت پیدا کریں گے خود روکھی سوکھی روٹی کھائیںگے لیکن اپنے اولاد کی تعلیم سے غافل نہیں ہوں گے اور تعلیم میں ممتاز ہونے کے لئے وہ دوسروں سے زیادہ دوگنی محنت کریںگے۔اور اپنا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔اور تعلیم کے میدان میں اپنا امتیاز قائم کریں گے ۔خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں گے ،کیونکہ اسلام میں اس کی تاکید بہت ہے اور یہ دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ ہے ، مسلمانوں کے ہر ادارے میں خدمت خلق کا شعبہ قائم ہونا چاہئے ۔
ہمیں مستقبل میں ایسی نسل کی ضرورت ہے جو برادران وطن سے ان کی زبان میں ڈائیلاگ کرسکے ،مذہبی اور سماجی مسائل پر مکالمات کرسکے اورجو پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہمکلام ہوسکتی ہو ہمیں ایسے سیکڑوں علماء کی ضرورت ہے جو برادران وطن کے مذہب سے ان کی تہذیب سے ان کی تاریخ سے اور ان کی نفسیات سے واقف ہوں اس عظیم کام کے لئے برادران وطن کے مذہب اور ان کی تہذیب کا اور ان کی کتابوں کا عمیق مطالعہ ضروری ہے ان کی زبانوں سے واقفیت ضروری ہے اس کام کا شعور عیسائیوں کو ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں ہے عیسائی مسلمانوں میں کام کرنے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اس کیلئے ان کے ہاں شعبے قائم ہیں مسلمانوں کے دینی تعلیمی اداروں کو اس کام کی کوئی فکر نہیں ہے ، اس اہم کام کا انتظام شروع سے دینی مدارس میں ہونا چاہئے حیدرآباد سے دہلی تک اور دہلی سے سہارنپور تک اور یوپی سے گجرات تک مدارس کے ذمہ داروں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال رکھی ہیں اور اسلاف نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق جونصاب بنایا تھا اب بدلے ہوئے حالات میں بھی انہیں اسی پر اصرار ہے اور وہ تبدیلی کے روادار نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انتخابات کے ہوش ربا نتائج کے بعد بھی مدارس کے ذمہ داروں کو ہوش آئے گا یا نہیں ۔کیا انہیں اس بات کی خبر ہے کہ اس ملک کو اسپین بنانے کے ارادے بھی پائے جاتے ہیں ؟ اگر ہم اب بھی نہیں جاگیں گے تو پھرجاگنے کے لئے ہم کو صور اسرافیل کا انتظار کرنا ہوگا ۔
جب ۲۰۱۴ کے انتخابی نتائج سامنے آئے تھے اور حالات نے نیارخ اختیار کرلیا تھا اس وقت بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کہی گئی تھیں اور اس الیکشن کے بعد تو خطرہ تمام حدود کو پار کرگیا ہے ،اب قانون اور دستور کو بدل کر صرف پرسنل لا اور بابری مسجد نہیں بلکہ عقیدہ کی فصیل پر بھی حملہ ہونے والا ہے اب تو مسلمانوں میں حشر برپا ہوجانا چاہئے مردوں کو بھی کھڑاا ہوجانا چاہئے لیکن وہ قوم جس نے انکار وجحود کی تمام سنتیں ہمیشہ تازہ کی ہیں کیا اب وہ خطرہ عظیم کے بعد عقل کی بات سننے کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور کیا مسلم قیادت اپنی اصلاح کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور اپنی کمزوریوں کوسمجھ سکتی ہے اور رجوع الی اللہ پرآمادہ ہوسکتی ہے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہے ؟
0 comments: