featured
آہ میں نے یہ کیا کیا ....!
عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com
کبھی جب ہم منشی پریم چند اور ابن صفی کی کہانیوں کو پڑھا کرتے تھے تو ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ آخر انہیں اتنا مواد کہاں سے ملتا ہے ۔ لیکن اب میں خود یہ سوچتا ہوں کہ روز ایک کہانی لکھوں - پتہ ہے کیوں ... ؟ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ اب زندگی پل پل ایک نیا موڑ لیتی ہےاور ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف کہانیوں کا کردار اور عنوان چھپا کر چل رہا ہے - مثال کے طورپر پہلے خبروں کیلئے رات میں ریڈیو بی بی سی لندن کی خبر ہی کافی ہوتی تھی - بعد میں الیکٹرانک چینل آنے کے بعد دور درشن کی دن میں ایک بار کی نشریات سے بھی لوگ مطمئن ہوجایا کرتے تھے لیکن اب تو چوبیس گھنٹے مختلف چینلوں سے خبروں کے ساتھ ساتھ دیش بدیش میں وقوع پذیر حادثات کسی سنسنی خیز کہانی سے کم نہی ہوتے - لیکن اب میں لکھ نہیں سکتا - اب ہم صرف کسی کہانی کا کردار ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ اب ہمارے پاس کہانی اور کہانی کا عنوان تو ہے لیکن کسی کا درد محسوس کرنے اور اپنا درد بیان کرنے کا وقت بھی تو نہیں ہے....! اور پھر اب کون ہے جو کسی مصنف کے درد کو محسوس کر سکے - اب میں یہ سوچتا ہوں کہ کاش ہم نے اتنی ترقی نہ کی ہوتی اور منشی پریم چند زندہ ہوتے - منشی پریم چند زندہ ہوتے تو گئو دان کا ان کا کردار "ہریا " بھی زندہ ہوتا - کتنا درد اور رومانس تھا ہریا کے اس کردار میں ....! میں سوچتا ہوں کہ غریبی اور بدحالی میں بھی اس دور کے لوگ ہم سے زیادہ مطمئن اور خوش تھے - شادی بیاہ کے موسم میں عجیب سی رونق ہوتی ، لوگ شادیوں کیلئے ایک مہینے پہلے ہی سےتیاری شروع کردیتے تھے - دس دن پہلے سے ہی عورتیں گھروں میں جمع ہو کر گیت کی محفلیں سجا دیتیں - لڑکے تین دن پہلے سے بارات کی تیاری میں گھروں سے کھٹیا اور بستر اکٹھا کرتے اور کچھ نوجوان رنگ برنگی جھنڈی وغیرہ کاٹنے میں مصروف ہو جایا کرتے تھے - کسی کو پردیش کے سفر پر جانا ہوتا تو وہ محلے اور عزیز کی شادی کیلئے سفر کا فیصلہ ملتوی کردیتا اس طرح شادی ختم ہونے تک رشتے داروں اور محلے والوں کے درمیان ہنسی مذاق کا جو سلسلہ شروع ہوتا کسی بہار کے موسم سے کم نہ ہوتا - مگر اب کون ہے جو کسی کیلئے رکتا ہے ... ؟ اب کس کے پاس وقت ہے جو کسی کا انتظار کرے ....؟ کون ہے جو روٹھے ہوئے کو منانے کیلئے منت و سماجت کرے ... ؟ اب کہاں کون پردیش جاتے ہوئے پردیشی کو بستی کے باہر چھوڑنے آتا ہے ... ؟ اب کوئی کسی کیلئے آنسو نہی بہاتا .... اور .. اور کیا ... موبائل اور ٹیلی فون نے قریب کرکے بھی لوگوں کو بہت دور کردیا ہے ...اب گھروں کی دہلیز پر ڈاکیہ بھی کہاں آتے ہیں ..؟ اب کسی کو کسی کے خط کا انتظار ہے اور وہاٹس کے دور میں کوئی خط لکھے ہی کیوں ... ؟ شادیاں آج بھی ہوتی ہیں لوگ رشتہ دارآج بھی جمع ہوتے ہیں - کھانے کے پکوان میں پہلے سے زیادہ اضافہ اورخرچ ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود چند گھنٹوں کی سمٹی ہوئی اس تقریب اور میز کرسی سے آراستہ ہال اور پنڈال میں کیا وہ خوشی اور رومانس ہوتا ہے جو کھٹیا اور بستر کے زمانے میں تھا - شاید نہیں کیونکہ اب اس کہانی میں رومانس پیدا کرنے کیلئے نہ تو ابن صفی اور منشی پریم چند جیسے سادگی پسند ادیب ہی رہے اور نہ ہی اب ہریا کی طرح بھولا پن پیدا کرنے والے ادبی کردار ہی باقی ہیں - اوہ ، اف میں تو بھول ہی گیا تھا ہم نے ترقی جو کر لی ہے - نہیں اب میں کہانی کبھی نہی لکھ سکتا - میں نے کوشش بھی کی تومجھے اس کہانی کے سارے حسین کردار کہاں ملیں گے - اب وہ پنگھٹ ، وہ گھنگھرو کی آواز ، وہ چوپال ، وہ کھیت وہ کھلیان ، ریہٹ اور بیلوں کی جوڑی سے نکلتا ہوا پانی کا چشمہ ، باغوں میں پرندوں کی چہچہاٹ ، کوئل کی سریلی آواز اور شام کے وقت میں پرندوں کا قافلے کی شکل میں اپنے آشیانے کی طرف لوٹتا ہوا آسمان دنیا کا خوبصورت اور شاندار منظر ذہن کو جو سکون پہنچاتا کیا اب میں اپنی کہانی میں قدرت کے ان حسین کرداروں کو سمیٹ سکتاہوں - شاید مشکل ہے ..!کیوں کہ میری کہانی کے یہ حسین کردار جدید ترقی یافتہ شہر کی بھیڑ اور ہنگاموں میں کہیں کھو گئے ہیں - کسی نے صحیح کہا ہے کہ
اب نہ وہ گیت نہ چوپال نہ پنگھٹ نہ الاؤ
کھو گئے شہر کے ہنگاموں میں دیہات مرے
کسی دوسرے شاعر نے اسی بات کو دوسرے انداز میں یوں پیش کیا ہے کہ
وہ جو صدیوں سے مرے گاؤں کا رکھوالا تھا
اڑ گئے سارے پرندے تو شجر ٹوٹ گیا
اور اب یہ حقیقت بھی ہے کہ نئی نسل جو اپنی زبان اور تہذیب سے بھی محروم ہو کر دیہات سے شہر اور شہر سے بھی لندن امریکہ اور دبئی کی طرف روزی روزگار کیلئے منتقل ہو رہی ہے اسے میں اس کی زبان میں بھی تو نہیں سمجھا سکتا کیونکہ سب کچھ کے ساتھ میں نے ترقی کی دوڑ میں اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان سے بھی تو محروم کردیا ہے - آہ میں نے یہ کیا کیا میں خود اپنی تہذیب اور اپنی زبان کا قاتل ہوں - کاش منشی پریم چند زندہ ہوتے - کاش کوئی ہمیں ہمارا پرانا دور واپس لوٹا دیتا .....کاش
0 comments: