featured
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
قرآن کریم میں با ر بار تفکر اور تدبر کی دعوت دی گئی، اس لیئے تفکر و تدبر کابہت اونچا مقام ہے، فضیلتِ علم کے حا ملین علماء بہت مل جائیں گے، لیکن تفکر اور تدبر کے مقام بلند تک پہو نچنے والے علماء خال خال ہوتے ہیں ،محقق کا میدان عمل مفکر کے کام سے مختلف ہو تاہے۔ محقق کسی زیر بحث مسئلہ کی تحقیق کرتا ہے اصلیت معلوم کر نے کے لئے چھان بین کرتاہے، تاریخ کی کتابوں میں اسکے حوالے ڈھونڈتاہے، روایت کا فرق معلوم کرتا ہے، اختلاف روایت جاننے کی کوشش کرتا ہے، تحقیق عربی زبان کالفظ ہے ،جس کا مطلب ہے کسی چیز کی اصلیت اور حقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کر نااور پھر نتیجہ اخذ کرنا ،محقق کے مقابلہ میں مفکر وہ ہو تاہے جس کی ذہانت اور فطانت زیادہ ہو تی ہے، جوکسی سماجی یادینی مسئلہ پر نیا نظریہ اورتخیل پیش کرتا ،اور اس کے بارے میں اپنانیا نقطہ نظر سامنے لاتاہے، اس نظریہ میں تاریخ کا پس منظر بھی ہوتا ہے، اور عصر حاضر کی آگہی کا اثربھی ہوتاہے اس کی فکرمیں ہزاروں انسانوں کے لئے رہنمائی موجود ہوتی ہے ،اور اس سے ایک پوری نسل فائدہ اٹھاتی ہے ۔ مفکر علمی اور منطقی طور پر مقدمات ترتیب دیتا ہے اور صحیح نتیجہ برآمد کرتاہے۔
مفکرین کی جماعت میں مفکراسلام کاکردار اور بھی زیا دہ بلند ہو تا ہے، اس کی ثقافت اور آگہی کا سرچشمہ قرآن اور سنت نبوی ہوتاہے ،وہ عصر حاضر سے بھی واقف ہو تاہے ۔وہ عصر حا ضر کے مسائل کا حل دریافت کرنے کے لئے قرآن و سنت کے سرچشموں سے اکتساب کرتاہے اس کی فکر میں وسعت ہوتی ہے وہ تحز ب اور تعصب کا شکار نہیں ہوتا، اس کی زبان غیر محتاط نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور عہدہ پر قابض ہونیکی کوشش نہیں کرتا اس کے سرچشمہ علم و فکر سے اس کی تصنیفات کے ذریعہ ہزاروں اور لاکھوں لو گ اکتساب فیض کرتے ہیں، مثل خورشید سحر اپنی روشنی وہ دنیا میں پھیلاتا ہے، او راب یہ قرب قیامت کی نشانی ہے کہ جواپنی بہت سی قابل قدر خوبیوں کے باوجود کسی بھی درجہ میں مفکر اسلام نہیں ہیں اور مفکر اسلام کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیںوہ اپنے نا م کے ساتھ مفکر اسلام لکھنے لگے ہیں اور لکھوانے لگے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی ہائی ہیل سینڈل پہن کر کے ان کا قد زیادہ اونچا ہوجائے گا۔
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
تاریخ میں مسلمانوں کے راہوار فکر نے بار بار ٹھوکر یں کھا ئی ہیں، غلطیوں نے ان کی منزل کھوٹی کی ہے اور اس کے وجہ یہ رہی ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت اور سیرت کو چراغ راہ نہیں بنا یا ، ہند ستان کی تاریخ میں مسلمانوں نے کئی سو بر س حکومت کی، اگر انہو ں نے برادران وطن کو خد ا کا پیغام پہونچا نے میں کو تاہی نہیں کی ہو تی اور انہوں نور الہٰی سے تاریک دلو ں کو منور کیا ہوتا تو آسائش کے بعد آزمائش کے دن نہیں دیکھنے پڑتے، انگریز و ں کی غلا می کے دور کے بعد مسلمانوں نے پھرغلطی کی، ہندوئوں کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے رد عمل میں انہوں نےگلشن وطن کی تقسیم کامطالبہ کر کیا اور چند کلیوں پر قناعت کرلی، آخر یہ پریشانیوں کا کیسا حل تھا کہ اپنے چار کروڑ بھائیو ں کو درندوں کا لقمہ تر بننے کے لئے چھوڑ دیا گیا اور اس خطہ میں خود کو محصو ر کر لیا گیا جو پہلے ہی سے آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان تھا، پاکستان بننے کی ذمہ داری تنہا مسلمانوں پر نہیں ہے ، لیکن وہ اس سے بری الذمہ بھی نہیں ہیں ،اس دور کے ایک معروف عالم دین ، ا د یب اور مفسر قر آن نے قرآنی آیت’’ و ارسل معنا بنی اسرائیل‘‘ ( الشعراء ۱۷ ) یعنی’’ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ‘‘ سے پاکستان کا مطالبہ اور ہجرت کی درستی پر استدلال کیا ہے، کتنا غلط استدلال تھا بنی اسرائیل قبطیوں سے الگ آبادی میں رہتے تھے اور یہ مکمل انخلاء تھا مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں پو ری قوم کی دست گیری کی ہے پورے ملک کو مسلمان بنایا ہے اور الگ کسی گوشہ عافیت کا کبھی مطالبہ نہیں کیا علاحدگی کا یہ مطالبہ اسلام کے مزاج کے خلاف تھا، غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد جراحتو ںکے چمن لہلہا اٹھے ، زخموں کے پھول کھل اٹھے، جوآج تک مندمل ہو نے کا نام نہیں لیتے اس زمانے میں موقف وہی درست تھا جو مولانا آزاد کا تھا، اورشیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور دوسرے علماء کرام کا تھا، مولانا آزاد نے ’’انڈیاونس فری ڈم ‘‘ میں بہت ہی پر سو ز الفاظ میں لکھا ہے، کہ ہندستان میں مستقبل میں ایک دن سورج طلوع ہو گا تو مسلمان دیکھیں گے کہ ان کا کوئی پرسان حال موجود نہیں ہے، اکثر دیکھا گیا ہے، کہ مسلمانوں کا رد عمل ایک عاقل اور متحمل مزاج انسان کانہیں ہو تا ہے ،مسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض ذمہ داروں کی طرف سے دین بچاؤ دستور بچاؤ کی تحریک شروع ہوئی ،یہ بورڈ غیر سیاسی ادارہ ہے اس لئے دستور بچاؤ کاجز تو اس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر تھااور دین کا بھی صر ف وہ حصہ بورڈکے دائرے میں ہے جس کا تعلق پرسنل لا سے ہے اس لیئے ۸۰ فیصد یہ تحریک منطقی طور پر بورڈکے دائرے سے باہر تھی، کاش کہ مسلم پر سنل لا اور طلاق ثلاثہ کے موضوع پر ایسے اجتماعات منعقد کئے جاتے جس میں خالص عقلی اور منطقی انداز میں بورڈ کے موقف کا درست ہو نا ثابت کیا جاتا، دلائل پر مشتمل مقالات کو انگریزی ہندی او ر دیگر زبانو ں شا ئع کیاجاتا اور پھر ترجمہ شدہ مقالات کی طباعت کی جاتی اور پھرہندستان میں ججوں کو وکلاء کو اورمیڈیا کے لوگوں اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو اس طرح کی کتابیں پیش کی جاتیں یہ جدید علم کلام کی ایک صورت ہو تی اور قرآن کے حکم’’وجا دلھم بالتی ھی احسن‘‘ (المجادلہ ۱۲۵ ) یعنی ان سے مجادلہ کر و اس طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو، اس پرعمل ہو تا تو یہ کوشش فکر اسلامی کے مطابق ہوتی، لیکن اس طریقہ کو اختیار کرنے کے بجائے سنگھرش کی تیاری شروع کردی گئی یقینا مسلم پرسنل لامیں کسی کو تبدیلی کا کوئی حق نہیں۔ اس آواز کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اپنے موقف کی معنویت کو ثابت کر نے کی ضرورت شدید تر ہے۔
ہندستانی مسلمانوں کو جو نقصا نات پہونچے ہیں اس میں غیروں کی ایذ ا پسندی ، اور ایذا رسانی اور دشمنی کو جنتا دخل ہے اتنا ہی دخل مسلمانوں کے اپنے غلط رویہ کا بھی ہے، دوسروں کی نفرت اور ان کا انتقامی رویہ معلوم، لیکن ایک رد عمل جذباتی انسانی کا ہو تا ہے دوسرا رد عمل متحمل مزاج عاقل انسا ن کا ہو تا ہے ماضی میںمسلمان جذ باتی رد عمل کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں اور تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں، فکر اسلامی اور اور تہذیب اسلامی کا تقاضہ اس سے مختلف ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایک بہتر انسان کو یعنی ایک مسلمان کو سماج اور ماحول کی تبدیلی کا ذمہ دار بنایا ہے، غور و فکر کی بات ہے کہ اس ذمہ داری کا تقاضہ کیسے اداہو سکتاہے، کشمکش ،کشاکش ، اور سنگھرش کے ذریعہ یا افہا م و تفیم، تعلیم و تلقین، اور ابلاغ و ارسال کے ذریعہ۔ عقل اور نقل دونوں کا فیصلہ ہے ،کہ کشمکش ایک ادائے مجبوری ہوتی ہے ورنہ اصل یہ ہے کہ عقل اور دل دونوں کو متبو ع اور مفتوح بنا نے کی کو شش کی جائے۔
وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
طہٰ جابر علوانی عصر حاضر کے بلند پایہ مفکر اور فلسفی ہیں، انہوں نے عصر حاضر کی اسلامی کوششوں پر تنقیدیں بھی کی ہیں جارحانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ ، مخالفانہ نہیں بلکہ خیر خواہانہ، سطور بالا میں ہندستان میں اسلامی کوششو ں کے حوالے سے جو تنقیدیں کی گئی ہیں، وہ کچھ اس انداز کی ہیں جو پرسش جراحت دل سے تعلق رکھتی ہیں،یعنی پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق ، یہ ایک خود احتسابی ہے اور ڈاکٹر طہ جابر علوانی نے خود احتسابی کی دعوت دی ہے اور لکھا ہے کہ انسا ن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خو د احتسابی اور خو د شناسی سے بہرہ ور ہو اور خامیوں سے واقف کرانے والوں کا دل کی وسعتو ں سے استقبال کرے اور ان کو اپنا مخالف اور حریف نہ سمجھے ۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب یہ ہے کہ ہم خود احتسابی سے محروم ہو گئے ہیں اور ہم ہر تنقید کو مخالفت اور عناد سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ تنقید محبت او ر خیر خو اہی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے، خو د احتسابی اور تنقید کے بغیر کو ئی قوم اقبال مند نہیں ہو سکتی ہے
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
٭٭٭
خود احتسابی سے خود شناسی تک
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
قرآن کریم میں با ر بار تفکر اور تدبر کی دعوت دی گئی، اس لیئے تفکر و تدبر کابہت اونچا مقام ہے، فضیلتِ علم کے حا ملین علماء بہت مل جائیں گے، لیکن تفکر اور تدبر کے مقام بلند تک پہو نچنے والے علماء خال خال ہوتے ہیں ،محقق کا میدان عمل مفکر کے کام سے مختلف ہو تاہے۔ محقق کسی زیر بحث مسئلہ کی تحقیق کرتا ہے اصلیت معلوم کر نے کے لئے چھان بین کرتاہے، تاریخ کی کتابوں میں اسکے حوالے ڈھونڈتاہے، روایت کا فرق معلوم کرتا ہے، اختلاف روایت جاننے کی کوشش کرتا ہے، تحقیق عربی زبان کالفظ ہے ،جس کا مطلب ہے کسی چیز کی اصلیت اور حقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کر نااور پھر نتیجہ اخذ کرنا ،محقق کے مقابلہ میں مفکر وہ ہو تاہے جس کی ذہانت اور فطانت زیادہ ہو تی ہے، جوکسی سماجی یادینی مسئلہ پر نیا نظریہ اورتخیل پیش کرتا ،اور اس کے بارے میں اپنانیا نقطہ نظر سامنے لاتاہے، اس نظریہ میں تاریخ کا پس منظر بھی ہوتا ہے، اور عصر حاضر کی آگہی کا اثربھی ہوتاہے اس کی فکرمیں ہزاروں انسانوں کے لئے رہنمائی موجود ہوتی ہے ،اور اس سے ایک پوری نسل فائدہ اٹھاتی ہے ۔ مفکر علمی اور منطقی طور پر مقدمات ترتیب دیتا ہے اور صحیح نتیجہ برآمد کرتاہے۔
مفکرین کی جماعت میں مفکراسلام کاکردار اور بھی زیا دہ بلند ہو تا ہے، اس کی ثقافت اور آگہی کا سرچشمہ قرآن اور سنت نبوی ہوتاہے ،وہ عصر حاضر سے بھی واقف ہو تاہے ۔وہ عصر حا ضر کے مسائل کا حل دریافت کرنے کے لئے قرآن و سنت کے سرچشموں سے اکتساب کرتاہے اس کی فکر میں وسعت ہوتی ہے وہ تحز ب اور تعصب کا شکار نہیں ہوتا، اس کی زبان غیر محتاط نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور عہدہ پر قابض ہونیکی کوشش نہیں کرتا اس کے سرچشمہ علم و فکر سے اس کی تصنیفات کے ذریعہ ہزاروں اور لاکھوں لو گ اکتساب فیض کرتے ہیں، مثل خورشید سحر اپنی روشنی وہ دنیا میں پھیلاتا ہے، او راب یہ قرب قیامت کی نشانی ہے کہ جواپنی بہت سی قابل قدر خوبیوں کے باوجود کسی بھی درجہ میں مفکر اسلام نہیں ہیں اور مفکر اسلام کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیںوہ اپنے نا م کے ساتھ مفکر اسلام لکھنے لگے ہیں اور لکھوانے لگے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی ہائی ہیل سینڈل پہن کر کے ان کا قد زیادہ اونچا ہوجائے گا۔
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
تاریخ میں مسلمانوں کے راہوار فکر نے بار بار ٹھوکر یں کھا ئی ہیں، غلطیوں نے ان کی منزل کھوٹی کی ہے اور اس کے وجہ یہ رہی ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت اور سیرت کو چراغ راہ نہیں بنا یا ، ہند ستان کی تاریخ میں مسلمانوں نے کئی سو بر س حکومت کی، اگر انہو ں نے برادران وطن کو خد ا کا پیغام پہونچا نے میں کو تاہی نہیں کی ہو تی اور انہوں نور الہٰی سے تاریک دلو ں کو منور کیا ہوتا تو آسائش کے بعد آزمائش کے دن نہیں دیکھنے پڑتے، انگریز و ں کی غلا می کے دور کے بعد مسلمانوں نے پھرغلطی کی، ہندوئوں کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے رد عمل میں انہوں نےگلشن وطن کی تقسیم کامطالبہ کر کیا اور چند کلیوں پر قناعت کرلی، آخر یہ پریشانیوں کا کیسا حل تھا کہ اپنے چار کروڑ بھائیو ں کو درندوں کا لقمہ تر بننے کے لئے چھوڑ دیا گیا اور اس خطہ میں خود کو محصو ر کر لیا گیا جو پہلے ہی سے آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان تھا، پاکستان بننے کی ذمہ داری تنہا مسلمانوں پر نہیں ہے ، لیکن وہ اس سے بری الذمہ بھی نہیں ہیں ،اس دور کے ایک معروف عالم دین ، ا د یب اور مفسر قر آن نے قرآنی آیت’’ و ارسل معنا بنی اسرائیل‘‘ ( الشعراء ۱۷ ) یعنی’’ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ‘‘ سے پاکستان کا مطالبہ اور ہجرت کی درستی پر استدلال کیا ہے، کتنا غلط استدلال تھا بنی اسرائیل قبطیوں سے الگ آبادی میں رہتے تھے اور یہ مکمل انخلاء تھا مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں پو ری قوم کی دست گیری کی ہے پورے ملک کو مسلمان بنایا ہے اور الگ کسی گوشہ عافیت کا کبھی مطالبہ نہیں کیا علاحدگی کا یہ مطالبہ اسلام کے مزاج کے خلاف تھا، غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد جراحتو ںکے چمن لہلہا اٹھے ، زخموں کے پھول کھل اٹھے، جوآج تک مندمل ہو نے کا نام نہیں لیتے اس زمانے میں موقف وہی درست تھا جو مولانا آزاد کا تھا، اورشیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور دوسرے علماء کرام کا تھا، مولانا آزاد نے ’’انڈیاونس فری ڈم ‘‘ میں بہت ہی پر سو ز الفاظ میں لکھا ہے، کہ ہندستان میں مستقبل میں ایک دن سورج طلوع ہو گا تو مسلمان دیکھیں گے کہ ان کا کوئی پرسان حال موجود نہیں ہے، اکثر دیکھا گیا ہے، کہ مسلمانوں کا رد عمل ایک عاقل اور متحمل مزاج انسان کانہیں ہو تا ہے ،مسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض ذمہ داروں کی طرف سے دین بچاؤ دستور بچاؤ کی تحریک شروع ہوئی ،یہ بورڈ غیر سیاسی ادارہ ہے اس لئے دستور بچاؤ کاجز تو اس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر تھااور دین کا بھی صر ف وہ حصہ بورڈکے دائرے میں ہے جس کا تعلق پرسنل لا سے ہے اس لیئے ۸۰ فیصد یہ تحریک منطقی طور پر بورڈکے دائرے سے باہر تھی، کاش کہ مسلم پر سنل لا اور طلاق ثلاثہ کے موضوع پر ایسے اجتماعات منعقد کئے جاتے جس میں خالص عقلی اور منطقی انداز میں بورڈ کے موقف کا درست ہو نا ثابت کیا جاتا، دلائل پر مشتمل مقالات کو انگریزی ہندی او ر دیگر زبانو ں شا ئع کیاجاتا اور پھر ترجمہ شدہ مقالات کی طباعت کی جاتی اور پھرہندستان میں ججوں کو وکلاء کو اورمیڈیا کے لوگوں اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو اس طرح کی کتابیں پیش کی جاتیں یہ جدید علم کلام کی ایک صورت ہو تی اور قرآن کے حکم’’وجا دلھم بالتی ھی احسن‘‘ (المجادلہ ۱۲۵ ) یعنی ان سے مجادلہ کر و اس طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو، اس پرعمل ہو تا تو یہ کوشش فکر اسلامی کے مطابق ہوتی، لیکن اس طریقہ کو اختیار کرنے کے بجائے سنگھرش کی تیاری شروع کردی گئی یقینا مسلم پرسنل لامیں کسی کو تبدیلی کا کوئی حق نہیں۔ اس آواز کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اپنے موقف کی معنویت کو ثابت کر نے کی ضرورت شدید تر ہے۔
ہندستانی مسلمانوں کو جو نقصا نات پہونچے ہیں اس میں غیروں کی ایذ ا پسندی ، اور ایذا رسانی اور دشمنی کو جنتا دخل ہے اتنا ہی دخل مسلمانوں کے اپنے غلط رویہ کا بھی ہے، دوسروں کی نفرت اور ان کا انتقامی رویہ معلوم، لیکن ایک رد عمل جذباتی انسانی کا ہو تا ہے دوسرا رد عمل متحمل مزاج عاقل انسا ن کا ہو تا ہے ماضی میںمسلمان جذ باتی رد عمل کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں اور تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں، فکر اسلامی اور اور تہذیب اسلامی کا تقاضہ اس سے مختلف ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایک بہتر انسان کو یعنی ایک مسلمان کو سماج اور ماحول کی تبدیلی کا ذمہ دار بنایا ہے، غور و فکر کی بات ہے کہ اس ذمہ داری کا تقاضہ کیسے اداہو سکتاہے، کشمکش ،کشاکش ، اور سنگھرش کے ذریعہ یا افہا م و تفیم، تعلیم و تلقین، اور ابلاغ و ارسال کے ذریعہ۔ عقل اور نقل دونوں کا فیصلہ ہے ،کہ کشمکش ایک ادائے مجبوری ہوتی ہے ورنہ اصل یہ ہے کہ عقل اور دل دونوں کو متبو ع اور مفتوح بنا نے کی کو شش کی جائے۔
وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
طہٰ جابر علوانی عصر حاضر کے بلند پایہ مفکر اور فلسفی ہیں، انہوں نے عصر حاضر کی اسلامی کوششوں پر تنقیدیں بھی کی ہیں جارحانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ ، مخالفانہ نہیں بلکہ خیر خواہانہ، سطور بالا میں ہندستان میں اسلامی کوششو ں کے حوالے سے جو تنقیدیں کی گئی ہیں، وہ کچھ اس انداز کی ہیں جو پرسش جراحت دل سے تعلق رکھتی ہیں،یعنی پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق ، یہ ایک خود احتسابی ہے اور ڈاکٹر طہ جابر علوانی نے خود احتسابی کی دعوت دی ہے اور لکھا ہے کہ انسا ن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خو د احتسابی اور خو د شناسی سے بہرہ ور ہو اور خامیوں سے واقف کرانے والوں کا دل کی وسعتو ں سے استقبال کرے اور ان کو اپنا مخالف اور حریف نہ سمجھے ۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب یہ ہے کہ ہم خود احتسابی سے محروم ہو گئے ہیں اور ہم ہر تنقید کو مخالفت اور عناد سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ تنقید محبت او ر خیر خو اہی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے، خو د احتسابی اور تنقید کے بغیر کو ئی قوم اقبال مند نہیں ہو سکتی ہے
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
٭٭٭
0 comments: