featured
کیا واقعی داعش سے تاج محل کو خطرہ ہے؟
نہال صغیر
داعش جس کے بارے میں ہمیں میڈیا نے بتایا ہے کہ اس کا وجود عراق سے ختم ہو چکا ہے اب اس نے ہندوستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کردی ہیں ۔اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر کئی مسلم نوجوانوں کو اس سلسلے میں گرفتار کی اجاچکا ہے کہ وہ داعش سے رابطے میں تھے یا اس سے متاثر تھے اور ایک نوجوان کو بٹلہ ہاؤس کی طرز پر قتل بھی کیاجاچکا ہے ۔عین یوپی الیکشن کے آخری مرحلے میں لکھنو میں ایک نوجوان کے انکاؤنٹر کی کہانی گھڑی گئی ۔اب دوسری کڑی کے طور پر ہندوستان کے سر کا تاج ’تاج محل ‘کو داعش کے نشانے پر بتاکر ملک میں داعش کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔داعش کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شدت پسند مسلم نوجوانوں کی ایک ایسی تنظیم ہے جو کسی کی کچھ نہیں سنتے اور جو ان کے من میں آتا ہے وہ کرتے ہیں ۔ان کے بارے میں یہ بھی میڈیا اور کچھ اسی میڈیا کی خبروں سے متاثر مولویوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا ۔لیکن کوئی یہ بتانے کی حالت میں نہیں ہے کہ یہ قتل عام کہاں اور کن لوگوں کا قتل عام کیا گیا ؟ابھی کل ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ دہلی کے نظام الدین اولیا کے خانوادے کے دو صوفی مولانا پاکستان کے سفر پر گئے تھے لیکن وہ غائب ہیں ۔یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایک دو روز میں جب ان صوفی مولانا کا پتہ نہ لگ پائے تو انہیں بھی داعش کے ذریعہ اغوا کرکے کسی نامعلوم مقام پر لے جانے کی بات میڈیا میں آجائے کیوں کہ ان کی خبروں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انہیں بھی داعش نے نشانہ بنایا ہے ۔اس سے قبل پاکستان میں بعض درگاہوں کو نشانہ بنائے جانے کے فوراً بعد کسی ای میل یا ویڈیو کے ذریعہ یہ خبر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ کام تحریک طالبان پاکستان یا اب داعش نے کیا ہے ۔امریکہ کے ذریعہ چند موہوم بہانوں کے ذریعہ جب افغانستان پر یلغار کیا گیا تو ہمیں ایک ویڈیو وجود میں آجاتا تھا جس میں بتایا جاتا تھا اسامہ بن لادن نے اس میں یہ دھمکی دی ہے یا یہ کہا ہے ۔ویڈیو کو غور سے دیکھنے سے پتہ لگتا تھا کہ اس ویڈیوں میں ہیر پھیر کرکے اپنی پسند کے الفاظ داخل کئے گئے ہیں ۔جیسا کہ دہلی کے جے ایم یو میں ایک ایسے ہی ویڈیو میں جعل سازی کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کنہیا ،عمر خالد اور انربان مکھرجی نے ہندوستان مخالف نعرے لگائے ۔بعد میں یہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئے لیکن اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے اسے ٹی وی چینلوں پر نشر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ہندوستان میں تقریباً ایک دہائی تک انڈین مجاہدین نام کی ایک تنظیم سے جوڑ کر کئی بم دھماکوں کو حل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ۔لیکن اس میں سے کوئی بھی معاملہ عدالت میں ٹک نہیں پایا اور ہماری خفیہ ایجنسی اور سلامتی دستوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ویسے ہماری خفیہ تنظیمیں اور سلامتی دستوں کی چمڑی اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ اس پر عدلیہ کی پھٹکار کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔انڈین مجاہدین کے بارے میں تو ایک عام رائے تھی کہ اسے خود آئی بھی نے ہی تخلیق کیا ہے ۔آئی بی کے بارے میں مہاراشٹر کے پولس آئی جی ایس ایم مشرف بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک شاطر تنظیم ہے جس سے ہندوستان کے وجود کو خطرہ ہے کیوں کہ آئی بی ایک برہمنوادی تنظیم ہے ۔اب داعش کا وجود تو ایک تیار میٹریل ہے جس کے بارے میں آئی بی کو کوئی کام کرنے کی ہی ضرورت نہیں ہے ۔کسی کو بھی پکڑا اور آئی بی سے جوڑ دیا اور جب کسی کی گرفتاری سے ملک میں دہشت پھیلانا مشکل ہو جائے تو کسی تاریخی عمارت کے بارے میں مشہور کردیا جائے کہ اس کو داعش سے خطرہ ہے ۔
میڈیا کے مطابق داعش کا وجود عراق سے مٹ چکا ہے ۔بلکہ ایک خبر تو یہ آئی تھی کہ داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے اپنے جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ جنگلوں کا رخ کرلیں یا خود کو دھماکوں سے اڑا لیں ۔ایسی صورتحال میں جبکہ عراق سے ان کا وجود ہی ختم ہو چکا ہو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ لوگ ہندوستان جیسے دور دراز علاقوں میں اپنی کارروائی کریں ۔ان کے سامنے پورا عرب پڑا ہے جہاں امریکیوں اور اب روسیوں کے لئے میدان خالی ہے وہ کم از کم ایک صدی سے پورے عالم عرب پر اپنی مکاری سے نشانہی بنائے ہوئے ہیں ۔عالم عرب میں جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں اٹھیں ہیں وہ اسی استحصالی اور کالونی نظام کے خلاف ہی اٹھی ہیں ۔خواہ وہ شدت پسند القاعدہ ہو یا اب داعش ہو ۔یا امن پسند اخوان اوردیگر فلسطینی تحریکیں ہوں ۔عرب میں سب سے پرانی تنظیم اخوان المسلمون ہے جو اسی مغربی استعمار کے خلاف اور مسلمانوں کی اصلاح کیلئے وجود میں آئی تھی ۔اس تنظیم نے حتی الامکان کوش کی کہ تحریک میں کبھی شدت پسندوں کا داخلہ نہ ہو اور نا ہی تنظیم اس جانب جانے پائے ۔لیکن انہیں بری طرح کچلنے کی بار بارکوشش کی گئی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں سے ایک گروہ نکل کر پہلے القاعدہ اور اب داعش کا وجود دنیا کے لئے دہشت کا سبب بنا ہوا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی یہ راستہ اختیار کیا ہے ۔لیکن جب کسی ایسے سمجھوتہ کی مدد سے انہیں کسی آزاد ملک میں رہنے میں مشکلات درپیش ہوں ۔بار بار ان پر دہشت گردی کا مجرم قرار دے کر بھیڑ بکریوں کی طرح کہیں بھی قتل کردیا جائے تو پھر وہ دن تو آنا ہی ہے جب انمیں سے کچھ لوگ قتل و غارتگری کیلئے نکل کھڑے ہوں ۔اس کے باوجود مسلمان چونکہ ہر وقت اللہ کے ڈر اور آخرت کی جوابدہی کے سائے میں زندگی گزارتا ہے اس لئے وہ کسی ناحق قتل کے جرم کی سنگینی سمجھتا ہے ۔وہ بدلہ اور انتقام کی راہوں پر بھی حد سے تجاوز نہیں کرتا ۔اس کے بعد سازشی ذہنوں کی کرم فرمائی سے اس کی ہم نام تنظیم کھڑی کی جاتی ہے جو اس کے نام سے قتل کیا کریں اور الزام ان کے سر ڈال دیا جائے ۔یہ سب کچھ دنیا کے کونے میں وہاں کی حکومتیں کرتی ہیں ۔اس میں نام نہاد قومی سلامتی کا بہانہ انکے چھپنے کی بہترین جگہ ہوا کرتی ہے ۔ایسے ہی بہانوں سے بے گناہوں کو بھی ہلاک کیا جاتا ہے اور کچھ نہیں ہوا تو اسے حق بجانب ٹھہرانے کیلئے اپنے لوگوں کو بھی قتل کردیا جاتا ہے ۔ایسا مصر ایران اور ہندوستان سب جگہ ہوتا ہے ۔کچھ دن قبل ہی مالیگاؤں دھماکوں کے دو مفرور ملزم کے بارے میں سابق اے ٹی ایس افسر نے بتایا تھا کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے ۔بہار میں چارہ گھوٹالے کے کئی گواہ اسی طرح مادیئے گئے ۔ایک یا دو سال قبل مدھیہ پردیش سے آنے والی تعلیمی بدعنوانی کی سب سے بڑی خبر تھی جس تقریبا پچاس سے زائد گواہان یا اس سے منسلک افراد مختلف جگہوں پر چوہوں کی طرح مرے پڑے ملے ۔آشا رام کے جرموں کے بھی کئی گواہ قتل کردیئے گئے۔یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ جو لوگ بڑی قوتوں کے آلہ کار ہیں خواہ ان کی شناخت مذہبی ہو یا سیاسی ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دی جائے ۔اسی طرح جب کسی تحریک سے دنیا کی استعماری قوتوں کو چیلنج دینے کی تحریک کے پنپنے کا خدشہ ہوتا ہے تو اسے اسی طرح بدنام کرکے ہلاک کیا جاتا ہے یا پھر ان کی عوامی ہمدردی ختم کی جاتی ہے ۔وطن عزیز میں چونکہ ایک گروہ جو مسلمانون اور پسماندہ طبقات پر اپنی برتری برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کی آبادی ساڑھے تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے اس لئے وہ فرضی خطرات سے لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنی برتری کیلئے راہیں ہموار کررہا ہے ۔ان ہموار راہوں کا نام ہے ملک کی سلامتی اوردہشت گردی ہے اور اس کیلئے ان کے سامنے داعش سے بہتر کیا نام ہو سکتا ہے ۔اب داعش کا خطرہ تاج محل پر منڈلانے کا خوف اور پاکستان میں غائب ہندوستانی شہریوں کے تار داعش سے جوڑنے کا کارنامہ اسی کڑی کا حصہ ہے ۔بھلا جنہوں نے تاج محل کو غلامی کی نشانی اور جن کے ایک مصنف نے تاج محل کو تیجو مہالیہ مندر قرار دیا ہو سمجھا جاسکتا ہے کہ تاج محل کو حقیقی خطرہ کس سے ہے ؟
0 comments: