featured
اوقاف بازیابی کی تحریک میں اخلاص اور سنجیدگی کی ضرورت
نہال صغیر
پچھلے کئی ماہ سے تحریک بازیابی اوقاف جاری ہے ۔جن میں ریاست اور ممبئی شہر کی چیدہ چیدہ ہستیاں شامل ہیں ۔آزادی کے بعد سے ہی اوقاف پر قبضہ کرنے اور اسے تباہ کرنے اور اس کی آمدنی کو انتہائی محدود کرنے کی حکومتی پیمانے پر منصوبہ بند کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب ملک کے اقتدار میں مسلمانان ہند کے سب سے بڑے قائد مولانا آزاد حیات سے تھے اور وزیر تعلیم تھے ۔وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جن کی رواداری کی آج بھی مصنفین اور ترقی پسند تحریک کے افراد مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ایسے افراد کی موجود گی میں بھی وقف کی جائدادیں محفوظ نہیں رہ سکیں ۔اب آج کے حالات اور ماحول میں اوقاف کے لئے کسی تحریک کا برپا کرنا کافی دل گردے کا کام ہے ۔اس لئے جو لوگ اس تحریک میں شامل ہیں اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے شہروں شہروں عوامی بیداری کے لئے سرگرم عمل ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔ہم جس قابل ہیں اور ان کی اس تحریک میں جس حد تک بھی مدد کرسکتے ہیں کرنا چاہئے ۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم سارے کام کریں لیکن یہ تو ہوہی سکتا ہے کہ ہم اگر کسی قابل نہیں ہیں تو ان کی میزبانی کے فرائض انجام دے سکتے ہیں تو یہ کرلیں ۔اس تحریک کی پائیداری اور استحکام کیلئے جو کچھ بھی اور جس حد تک بھی ہم کرسکتے ہیں کریں۔یہ تو ہوا عوامی طور پر ان کے استقبال اور حوصلہ افزائی کے کام ۔اب دوسری جانب اس بات پر بھی غور کیجئے کہ کسی تحریک کی کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں جو لوگ شامل ہیں ان میں خالص اللہ کی رضا عوام کی خدمت کا جذبہ ہو۔نام نمود جیسے سطحی اور سفلی جذبات کا ذرا سا بھی گذر نہ ہو ۔اگر ایسا ہوا اور ہمارے یہ قائدین واقعی اوقاف کی تحریک میں مخلص ہیں تو انشاء اللہ آزادی کے ستر برسوں بعد اور انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں بھی ہمیں ہماری اوقافی جائدادیں واپس مل جائیں گی یا اس کی آمدنی ہماری ترقی کیلئے خرچ ہونے کی صورت نکل سکتی ہے ۔اس سلسلے میں ہمیں متحد ،بیدار اور با خبر رہنے کی ضرورت ہے ۔
0 comments: